مودی نے جس طرح گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا اسی
طرح وہ پورے بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام کے بہانے ڈھونڈ
رہا ہے : خورشید انجم
اگر فوج میں احتساب کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے تو اس کو
پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہیے ، یہ نہ ہو کہ مثال قائم ہو جائے کہ
طاقتور کو کوئی پوچھ نہیں سکتا : رضاء الحق
کہاجاتا ہے کہ ہندوستان سب سے بڑی جمہوریت ہے ۔ اس جمہوریت
کا اصل چہرہ بھی کھل کر دنیا کے سامنے آگیا ہے:
ڈاکٹر ضمیر اختر خان
جنرل فیض حمید کی گرفتاری، یورپ اور انڈیا میں اسلاموفوبیاکے موضوعات پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال:ISPR کی پریس ریلیز کے مطابق سابق ڈی جیISI جنرل فیض حمید کوکورٹ مارشل کے لیے گرفتار کیا گیا ہے ۔ ان پراختیارات کے ناجائز استعمال ، کرپشن اور آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزامات ہیں ۔ پاکستان کے سب سے بڑے اور سب سے طاقتور ادارے کےسابق سربراہ کو اس طرح زیر حراست رکھنا اور کورٹ مارشل کا آرڈر ہو جاناکیا معنی رکھتا ہے ۔ آپ کیا کہیں گے؟
رضاء الحق:ایک لحاظ سے دیکھیں تو یہ انتہائی اہم اور خوش آئندپیش رفت ہے کیونکہ اس سے قبل ہم نے دیکھا ہے کہ عام طور پر احتساب یا تو کمزور اور عام آدمی کا ہوتاہے یا پھر سیاسی مخالفین کو احتساب کا سامنا ہوتا ہے ۔ تفتیش کے نام پر قوم کا پیسہ برباد ہوتا ہے لیکن قوم کا پیسہ لوٹایا نہیں جاتا۔ISPRکی پریس ریلیز کے مطابق سابق ڈی جی ISIکرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال میں ملوث رہے ہیں ۔ اصل حقائق تو ملٹری کورٹ کی کارروائی کے بعد ہی سامنے آئیں گے لیکن ابھی تک جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق اسلام آباد کی ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کو ہراساں کرکے ناجائز فائدہ اٹھانا بھی فیض حمید کے خلاف فرد جرم میں شامل ہے ۔ ملک کے سب سے اہم ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے ملک میں ایک متوازی نظام قائم کرکے لوگوں کوہراساں کرنا اور اختیارات کا ناجائز استعمال بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ پھر یہ کہ آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ کے بعد دوسال کے اندر سیاست میں مداخلت کابھی الزام ہے ۔ بہرحال اہم بات یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں سے طاقتوروں کے احتساب کا آغاز ہوا جس کے بارے میں پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب ملزم حاضر سروس تھے اور ان سب جرائم میں ملوث تھے تو اس وقت ملکی اور ریاستوں اداروں نے کوئی نوٹس کیوں نہیں لیا؟اس وقت کی حکومت اور عدالت نے کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا؟ کیا وہ بھی اس میں شامل تھے؟ ان سوالات کے جوابات بھی سامنے آنے چاہئیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر احتساب کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے تو اس کو صاف و شفاف انداز میں تکمیل تک پہنچایا جانا چاہیے ۔ یہ نہ ہو کہ یہ کیس ایک مثال بن جائے کہ پاکستان میں طاقتور کو کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔
ضمیر اختر خان:فوجی قوانین کی خلاف ورزی جب بھی ہوتی ہے تو کورٹ مارشل ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل کوئی انوکھی بات نہیں ہے ۔اس سے پہلے بھی فوج میں جب کہیں کرپشن ہوئی تو لوگوں کو کیفرکردار تک پہنچایا گیا ۔ فیض حمید کے معاملے کو اگر بطور خاص اہمیت مل رہی ہے تو اس کی بڑی وجہ سیاسی ہے ۔ کسی نے کہا اگر فیلڈ مارشل ایوب خان کا کورٹ مارشل ہو جاتا تو اس کے بعد معاملات اتنے نہ بگڑتے ۔ سوال یہ ہے کہ معاملات کے بگڑنے کا ذمہ دار کون ہے ؟ آپ قدرت اللہ شہاب کا شہاب نامہ پڑھئے ۔ گھن آتی ہے کہ ہمارے پاور کوریڈور میں کیسے کیسے گندے لوگ رہے ہیں ۔ انہی لوگوں نےاسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں دھکیلا ہے ۔ اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ میں یقیناً بے قاعدگیاں ہوئی ہیں لیکن اس سے بڑھ کر گند ہمارے سیاستدانوں نے پھیلایا ہے ۔ پھر یہ کہ اگر اسٹیبلشمنٹ میں بے قاعدگیاں ہوئیں تو لوگوں کو سزائیں بھی ہوئیں ۔ فیض حمید کے خلاف بھی اگر جرم ثابت ہوگیا تو آپ دیکھئے گا کہ ان کو سزا ہوگی ۔ البتہ ڈی جی آئی ایس آئی آرمی چیف کے تابع ہوتا ہے ۔ پھر یہ کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی وزیراعظم کرتا ہے۔ اس انکوائری میں خاص طور پر اس معاملے کو بھی زیر بحث لانا چاہیے کہ اس میں اور کون کون ملوث ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ ملک اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے ، یہاں ہمارا اصل مقصد اللہ کے دین کو نافذ کرنا تھا تاکہ عدل و انصاف کا بول بالا ہوتا ۔ اس کے برعکس اس ملک کو خراب کرنے میں اور تباہی کے دہانے پر پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ لہٰذا فیض حمید کے ساتھ ساتھ دوسرے جرنیلوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے ، سیاستدانوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے تاکہ قوم کو پتا چلے کہ اس ملک کو برباد کرنے میں کون کون ملوث ہے ۔ قدرت اللہ شہاب نے اپنے شہاب نامہ میں لکھا ہےکہ 1958 ءمیں سکندر مرزا اگر ایوب خان کو دو سال کی ایکسٹینشن نہ دیتا تو پھر پاکستان کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی ۔ یہ ایکسٹینشنز کا چکر بھی ختم ہونا چاہیے ۔
سوال: کہا جارہا ہے کہ جنرل فیض حمید کا معاملہ فوج کا اندرونی معاملہ ہے ۔ آپ اس بات سے کس حد تک اتفاق کرتے ہیں ؟
ضمیر اختر خان:مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے کہ جنرل فیض حمید کا معاملہ فوج کا اندرونی معاملہ ہے ۔ اس کا خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑا ہے لہٰذا قوم کے سامنے سارا معاملہ آنا چاہیے ۔ پھر یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی فوج کو بھی اسلامی اقدار کا حامل ہونا چاہیے ۔ ضیاء الحق نے 1977ء میں ہماری فوج کا بنیادی ماٹو ایمان ، تقویٰ ، جہاد فی سبیل اللہ مقرر کیا ہے ۔ایک مسلم فوج کا یہی ماٹو ہونا چاہیے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ قانون ہر ایک کے لیے ایک جیسا ہو۔ اگر کوئی طاقتور جرم کرتا ہے تو اس کو بھی سزا ہونی چاہیے۔ اس سے عوام میں فوج کا اعتماد بڑھے گا ۔
سوال: پاکستان کی پون صدی کی تاریخ دیکھیں تو وہ اختیارات کے ناجائز استعمال کے واقعات سے بھری ہوئی ہے ۔ ماضی میں ایسے واقعات پر کمیشن بھی بنتے رہے ہیں مگر آج تک ان کی رپورٹس پبلک نہیں ہوئیں ۔ صرف سیاسی مخالفین کو سزائیں دی جاتی ہیں جبکہ جرنیلوں ، ججوں اور بیوروکریٹس کو کلین چٹ مل جاتی ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں سب کے لیے عدل و انصاف کے یکساں مواقع اور یکساں معیار کیوں قائم نہیں ہورہا؟
خورشید انجم:آپ نے درست فرمایاکہ کمیشن بنتے ہیں مگر ان کی رپورٹس منظر عام پر نہیں آتیں ۔مثال کے طور پر 1971ء میں ملک ٹوٹ گیا ، ہمارے 93ہزار فوجی قید ہوگئے ،اندرا گاندھی نے کہا ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے ۔ کس قدر ذلت اور رسوائی کا معاملہ تھا۔ اس پر حمودالرحمٰن کمیشن بنا مگر آج تک رپورٹ سامنے نہ آسکی اور نہ ہی اتنے بڑے سانحہ کے ذمہ داروں کو سزا ہو سکی ۔ اس کے بعداصغر خان کیس کو دیکھ لیجیے، اس میں بھی لوگ نامزد ہو گئے لیکن کسی کو کوئی سزا نہیں ملی۔ پھر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ساتھ کیا ہوا ۔ مشرف کیس میں کیا کچھ ہوا ۔ یہ تو سرکاری لیول کے معاملات تھے ۔ سول سطح پر بھی آپ دیکھ لیجئے شاہ رخ جتوئی کیس کے معاملے میں کیا ہوا؟بلوچستان میں اسی طرح ایک رکن اسمبلی نے ایک پولیس والے کو کچل دیا تھا ،اس کو بھی باعزت بری کر دیا گیا۔اسی طرح گزشتہ دنوں ایک IPPکمپنی کے مالک کی بیوی نے راہ چلتے باپ بیٹی کو کچل دیا، دیگر کئی لوگوں کو کچل دیا ، گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں توڑیںلیکن اس کوفوری طور پر پاگل قرار دے کر بچانے کی کوشش کی گئی ۔ یہاں انصاف سب کے لیے نہیں ہے۔غریب اگرہیلمٹ بھی نہ پہنے تو اس کا چالان ہو جائے گا اور امیر دس بندے بھی کچل دے تو اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ اسلام تو کہتا ہے کہ غریب امیر سب کے لیے ایک جیسا قانون ہونا چاہیے۔ نبی کریم ﷺکی عدالت میںچوری کا ایک کیس آیا اور بعض لوگوں نے سفارش کی کہ بڑے خاندان کی عورت ہے چھوڑ دیجئے ۔ آپ ﷺ غضب ناک ہوگئے اور فرمایا : اگر(بالفرض محال) فاطمہ بنتِ محمد بھی چوری کر تی تو اس کا ہاتھ بھی کاٹا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ سے فرمایا :
{وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ ط} ’’اور (آپؐ کہہ دیجیے کہ) مجھے حکم ہوا کہ میں تمہارے درمیان عدل قائم کروں۔‘‘(الشوریٰ :15)
عدل ہوگا تو معاشرہ پنپ سکے گا اور ترقی کر سکے گا ورنہ وہ معاشرہ آج نہیں توکل ڈوبے گا۔
سوال: کیا ملک میں نظام عدل اجتماعی کے قیام کے بغیر ظلم کا خاتمہ اور عدل کی فراہمی ممکن ہو سکتی ہے؟
خورشید انجم:جی بالکل نہیں ہو سکتی۔ انبیاء اور رسولوں کو بھیجے جانے کا مقصد ہی عدل کے نظام کا قیام تھا۔ سورۃ الحدید میں فرمایاگیا: ’’ہم نے بھیجا اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ‘اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان اُتاری‘تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔‘‘(الحدید:25)
جتنی بھی کتب نازل کی گئیں اور جتنے بھی پیغمبر بھیجے گئے ان کا مقصد یہی تھا کہ زمین پر عدل و انصاف کا نظام قائم ہو ۔ ایران سے جنگ کے دوران اسلامی لشکر کے کمانڈر سے ایرانیوں نے کہا آپ لوگ پہلے بھی آتے تھے اور لوٹ مار کرکے چلے جاتے تھے ۔ اب آپ جانے کا نام نہیں لے رہے ، اس کی کیا وجہ ہے ؟ مسلمان کمانڈر نے کہا:ہم خود نہیں آئےبلکہ اس بار ہمیں بھیجا گیا ہےتاکہ لوگوں کو جہالت کے اندھیروں سے اسلام کے نور کی طرف اور بادشاہوں کے ظلم سے اسلام کے عدل کی طرف لائیں ۔ اسلام تو نام ہی عدل کا ہے ۔ یعنی اسلام اور عدل آپس میں ایک دوسرے کے مترادف ہیں ۔ جب محمد بن قاسم کے ساتھ اسلام ہند میں داخل ہوا تھا تو لوگ عدل وانصاف دیکھ کر ہی اسلام میں داخل ہوئے تھے ۔ عدل کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ جنگ عظیم کے دوران برطانوی وزیراعظم چرچل کی کابینہ میں سوالات اُٹھائے گئے کہ لوگوں کو راشن نہیں مل رہا ، ادویات نہیں مل رہیں وغیرہ وغیرہ ۔ چرچل نے پوچھاکیا لوگوں کوعدالت سے انصاف مل رہا ہے ۔ جواب دیا گیا کہ ہاں مل رہا ہے ۔ چرچل نے کہا پھر ہم جنگ جیت جائیں گے ۔ گویا انصاف ایسی چیزہے جو قوموں کو طاقتور بناتا ہے ۔یورپ میں کسی درجے میں عدل ہے مگر وہ بلا تخصیص نہیں ہے ۔ جبکہ اسلام کا عدل بلا تخصیص ہے ۔
سوال: پچھلے ایک ماہ سے برطانیہ میں دائیں بازو کی جماعتوں کے کچھ جتھے مسلمانوں پر حملے کر رہے ہیں ، ان کی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں، حتیٰ کہ مساجد پر حملے کیے جارہے ہیں ۔ اسلاموفوبیا کے ان اند و ہناک واقعات کے محرکات کیا ہیں؟
رضاء الحق:پوری کہانی کچھ یوں ہے کہ برطانیہ کے ساؤتھ پورٹ نامی شہر میں ڈانس سکول میں 17 سالہ نوجوان نے چاقو کے وار کرکے کچھ بچوں کو زخمی کردیا جبکہ تین کم سن بچیاں دم توڑ گئیں ۔ برطانوی حکومت نے فوری طور پر مجرم کی شناخت ظاہر نہیں کی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فاررائیٹس ( جنہیں ہم دہشت گرد کہیں گے) نے اپنے جعلی اکاؤنٹس اور جعلی ویب سائٹس سے یہ فیک نیوز پھیلانا شروع کردی کہ اس واقعہ کا ملزم علی الشکاتی نام کا ایک مسلمان ہے ۔ اس حوالے سے باقاعدہ ایک کہانی گھڑی گئی کہ وہ 2023ء میں غیر قانونی طور پر سمندر کے راستے برطانیہ میں داخل ہوا تھا ۔ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی جبکہ وہاں لوگ پہلے ہی اسلامو فوبیا کا شکار ہو کر مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں ۔ اس نفرت کو ابھارنے میں وہاں کی دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کا خصوصی کردار ہے جن میں انگلش ڈیفنس لیگ سر فہرست ہے۔ اس کے علاوہ انگلینڈ فرسٹ اور نیشنلسٹ فرنٹ سمیت تین چار بڑی جماعتیں بھی مسلمانوں اور غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف نفرت پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔ ان کو حکومتی سرپرستی بھی حاصل ہے کیونکہ انگلش ڈیفنس لیگ کے دو ممبرز باقاعدہ طور پریورپین پارلیمنٹ میں بھی پہنچ چکے ہیں ۔ ان کے سپورٹرز امریکہ اور کینیڈا میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کو باقاعدہ فنڈنگ کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک جوڈن پیٹرسن ہے جس کے یوٹیوب چینل کے لاکھوں فالورز ہیں ۔ ان سب نے مل کر ایک بیانیہ گھڑا کہ برطانیہ میں جتنے بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں ان کے پیچھے مسلمان ہوتے ہیں ۔ فاررائٹس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اورٹومی روبنسن جو انگلش ڈیفنس لیگ کا سربراہ ہے اس نے جتھے اکٹھے کیے اور مسلمانوں کے گھروں ، ان کی مساجد اور املاک پر حملے شروع کردیے ۔یہاں تک امیگریشن سینٹرمیں ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگ موجود تھے ان پر بھی حملہ کیا۔ اس ٹومی روبنسن کے بارے میں 2018 ء میں گارڈین نیوز پیپر نے باقاعدہ رپورٹ شائع کی تھی کہ اس کو امریکہ کے کچھ انتہائی دائیں بازو کے ریپبلکلنز اور انتہا پسند لوگوں کی طرف سے فنڈنگ آتی ہے جن کے ڈانڈے جاکر صہیونیوں سے ملتے ہیں۔ یہ لوگ جان بوجھ کر مسلمانوں کے خلاف محاذ بناتے ہیں ۔ تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو صلیبی جنگوں کے پیچھے بھی یہودی ہاتھ تھا جو مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کو بھڑکا رہے تھے۔ پھر یورپ میں جب رینائسنس اور ریفارمیشن کی تحریکیں شروع ہوئیں تو ان کے پیچھے بھی یہود کا ہاتھ تھا۔ بنیادی طور پر وہ چاہتے تھے کہ کوئی ایسا نظام آئے جس میں ووٹنگ کی بنیاد پر حکومت بنے اور مذہب کا ریاست اور سیاست سے کوئی تعلق نہ رہے ۔ کیونکہ وہ جانتے تھےکہ یہودی اقلیت میں ہیں ۔ اگر پاپائیت اور بادشاہت کا نظام باقی رہے گا تو انہیں پنپنے کی جگہ نہیں ملے گی اور نہ ہی ان کی بلیک میلنگ کامیاب ہو سکے گی۔ بہرحال انہوں نے اپنی ڈیپ سٹیٹ قائم کرکے مغربی جمہوریت کے ذریعے اپنے مہرے ایوانوں میں داخل کیے اور تمام دنیا کی حکومتوں کو کنٹرول کرلیا ۔ موجودہ برطانوی وزیر اعظم کو ہی دیکھ لیجئے جو کہ ایک ملحد ہے اور حلف اٹھاتے ہوئے اس نےکہا میں بائبل پر حلف نہیں اٹھاؤں گالیکن اس نے بھی برطانیہ میں حالیہ سانحہ کے ذمہ داروں کو دہشت گرد یا اسلامو فوبیا کا شکار قرار نہیں دیا ۔ یہ صدیوں کی یہودی سازشوں کا ہی شاخسانہ ہے جن کا واحد مقصد مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کو ابھارنا ہے ۔
سوال: تیسری بار بھارتی وزیراعظم بننے والا مودی مسلسل مسلمانوں کے خلاف زہر اُگل رہا ہے ۔ اپنے انتخابی منشور کے مطابق مسلمانوں کے عائلی قوانین کے حوالے سے مذہبی آزادی کو کچلنے کے درپے ہے ۔ مسلمانوں کے عائلی قوانین سے مودیحکومت کو آخر کیا خطرہ ہے ؟
ضمیر اختر خان: کہاجاتا ہے کہ ہندوستان سب سے بڑی جمہوریت ہے ۔ اس جمہوریت کا اصل چہرہ بھی کھل کر دنیا کے سامنے آگیا ہے۔ یہ مغرب کا فاسد نظام انسانیت کو گمراہ کرنے کا ذریعہ ہے ۔ پھر یہ کہ ہندوستانی مسلمانوں کی بھی ایک غلطی ہے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ بھارت میں سیکولرازم ہوگا اور ہمیں مذہبی آزادی ہوگی ۔ حالانکہ وہ دین کی دعوت کا کام کرتے تو آج وہ ایک طاقت ہوتے۔ وہ آج بھی دینی بنیادوں پر کھڑے ہوجائیں تو اپنا آپ منوا سکتے ہیں ۔ 1980ء کی دہائی میں جب بھارتی سپریم کورٹ نے ان کے عائلی قوانین میں دخل اندازی کی کوشش کی تو پورے بھارت کے مسلمان اُٹھ کھڑے ہوئے اور سپریم کورٹ کو فیصلہ واپس لینا پڑا ۔ اصل میں تو یہ راستہ ہے جس کو اپنانا چاہیے ۔ وہ دین کی جدوجہد کو اپنا نصب العین بنا لیں تو اللہ کی مدد آئے گی اور ان شاء اللہ ایک بار پھر ہندوستان میں مسلمانوں کا غلبہ ہوگا ۔
سوال:مودی کے بھارت میں انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے ۔ جب سے مودی اقتدار میں آیا ہے وہاں مسلمانوں کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ حال ہی میں اودھےپور میں طلبہ کے معمولی جھگڑے کو مسلم کش فسادات کی شکل دے دی گئی ہے ۔ ا س پر آپ کیا تبصرہ کریں گے ؟
خورشید انجم: بالکل آپ کی بات درست ہے ۔ مودی کو سب سے پہلے گجرات میں اقتدار ملا تو وہاں بھی اس نے مسلم کش فسادات کروائے اور گجرات کا قصاب کے نام سے مشہور ہوا ۔ پھر 2014ء کے بعد یہ بھارت کا وزیراعظم بن گیا تو پورے بھارت کے مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہو گیا ۔ دراصل مودی نے ہندو انتہا پسندی کو استعمال کیا ہے جس کے بیج آر ایس ایس جیسی ہندو انتہا پسند تنظیموں نے بوئے ہیں ۔ قائداعظم نے بہت پہلے ہندوؤں کے تیور پہچان لیے تھے ۔اس لیے انہوں نے کہا تھاکہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں جو کبھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں ۔ اس وقت مولانا ابو الکلام آزاد ، مولانا حسین احمد مدنی ؒ جیسے لوگوں نے پاکستان کی مخالفت کی تھی لیکن آج اگر زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ بھارت میں کیا ہورہا ہے۔ اس وقت کانگریس نے بظاہر سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ لیاتھا ۔ نہرو خود بھی سوشلسٹ خیالات کے آدمی تھے ۔ پھر اندرا گاندھی آئی تو اس نے ہندو دیوی کا روپ دھار لیا ۔ پھر اس نے باقاعدہ سٹڈی مشن سپین بھیجا تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ سپین (جہاں مسلمانوں کی 8 سو سال حکومت رہی ہے) سے مسلمانوں کا خاتمہ کیسے کیا گیا ۔ ظاہر ہے اسی طرح وہ بھارت سے بھی مسلمانوں کا خاتمہ چاہتی تھی ۔ ہندوستان میں شد ھی اور سنگٹھن کی جو تحریکیں چلی تھیں ان کے پیچھے بھی یہی فلسفہ کارفرما تھا کہ ہندوستان ہندوؤں کا ہے لہٰذا جو لوگ مسلمان ہوگئے ہیں وہ واپس ہندو بن جائیں یا پھر ملک بدر ہو جائیں ۔ مرہٹے بھی یہی نظریہ لے کر اُٹھے تھے جن کے خلاف 25 سال تک اورنگ زیب عالمگیر نے جہاد کیا ۔ پھر شاہ ولی اللہ دہلوی نے احمد شاہ ابدالی کو بلایا جس نے آکر مرہٹوں کی کمرتوڑی ۔ پھر انگریزی حکومت کے زیر سایہ آر ایس ایس جیسی ہندو دہشت گرد تنظیمیں وجود میں آئیں جن کا آج بھارت پر غلبہ ہے اور وہ تو کھلے عام کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دو استھان : پاکستان یا قبرستان ۔ بی جے پی آر ایس ایس کا ہی سیاسی ونگ ہے جس کے تحت مودی بھارت سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے پر تلا ہوا ہے ۔ جیسے اس نے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا اسی طرح وہ پورے بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے کےلیے بہانے تلاش کررہا ہے ۔
سوال: ملکی اور بین الاقوامی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ فرمائیں کہ کیا مسلمان ممالک اسلامو فوبیا کے خلاف ایک پیج پر ہیں اور اس حوالے سے کوئی کوشش کررہے ہیں ؟ اگر نہیں کر رہے تو انہیں کیا کرنا چاہیے ؟
رضاء الحق:بنیادی طور پر اس وقت پوری دنیا پر مغربی تہذیب کا غلبہ ہے اور اس غلبے کے پیچھے یہود کی ایک ہزار سال کی محنت ہے ۔اس وقت دنیا میں 57 مسلم نیشن سٹیٹس ہیں ۔ وہ زبانی طور پر تو اسلامو فوبیا کے خلاف دکھائی دیں گی لیکن عملی طور پر ان کے پاس کوئی ایسا حل نہیں ہے کہ وہ مل بیٹھ کر اس کا سدباب کر سکیں ۔ضرورت تو اس بات کی ہے کہ وہ متحد ہوں اور ایک مشترکہ ایجنڈا لے کر اُٹھیں ۔ کم سے کم ایجنڈا یہ ہے کہ جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے ، اس کے خلاف آواز اُٹھائیں اور عملی طورپر بھی کوئی مشترکہ قدم اٹھائیں ۔ بہرحال یہ بھی ایک وقتی حل ہے۔ اصل حل یہ ہے کہ خلافت کا نظام دوبارہ قائم کیا جائے ۔
خورشید انجم:کاش کہ مسلمان ممالک کسی موضوع پر اکٹھے ہو جائیںلیکن بدقسمتی سے اس وقت مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ہم نے اتفاق نہیں کرنا اور ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑی سکیم اور گہری سازش کا نتیجہ ہے ۔شیخ الہند جب اسیر مالٹا تھے تو انہوں نے وہاں کے ایک انگریز آفیسر سے کہا کہ آپ لوگ ہماری لولی لنگڑی خلافت کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں ؟اس نے کہا کہ مولانا اتنے سادہ نہ بنیے۔اگر آج بھی آپ کا خلیفہ جہاد کا اعلان کر دے تو پوری دنیا سے مسلمان جہاد کے لیے اکٹھے ہو جائیں گے ۔ یعنی انہیں معلوم تھا کہ خلافت کی وجہ سے مسلمانوں میں ایک اجتماعیت قائم ہے اور اس اجتماعیت کی طاقت ہے ۔ وہ طاقت نہ ہونے کی وجہ سے آج فلسطین ، کشمیر اور دنیا بھر میں مسلمانوں پر مظالم ہو رہے ہیں ، اگر چہ عام مسلمان مظاہرے کر رہے ہیں لیکن حکمران طبقہ بالکل بے حس ، بے بس اور خاموش ہے ۔ وہ صرف امریکہ کی طرف دیکھتا ہے کہ وہ ناراض نہ ہوجائے ۔ عارضی حل تو یہی ہے کہ مسلم حکمران ایک پیج پر آجائیں لیکن مستقل حل یہ ہے کہ ہم خلافت کے ازسر نو قیام کی طرف جائیں ۔
خخخ
tanzeemdigitallibrary.com © 2024