وہی دیرینہ بیماری…عامرہ احسان
7 اکتوبر کے بعد غزہ سے ہٹ کر قلم چلنے پر راضی نہ تھا۔ پاکستان میں سبھی کچھ حسب سابق رہا۔ وہی دیرینہ بیماری وہی نامحکمی دل کی! قوم کے دلوں کو ڈبکیاں دینے والی! چہرے بدلتے بھی رہیں تو سودی قرضوں کی غلامی کا طوق، پاکستان سے اس کی پاکستانیت، آزادی، وقار چھن چکا۔ سیاست ہمہ نوع جھوٹ فریب، دھینگامشتی سے لت پت۔ ثقافت، فنونِ لطیفہ کی شتر بے مہار آزادی، ’’برزخ‘‘ ڈراموں جیسی ہمہ نوع غلاظت نوجوان نسل کی فکر و نظر میں کثافت اور بدکرداری بھرنے کا برسرِعام، بلاخوف و خطر اہتمام! حکومت ایسے تماشوں، سرگرمیوں کی سہولت کار ہے۔ اسی دوران لگے ہاتھوں ختمِ نبوت (مبارک ثانی کیس) اتنی آسانی سے دائو پر لگا دیا کہ اگر علماء اور اہل دین سبھی کی طرف سے فوری اقدام نہ ہوتا تو ہم قیمتی ترین متاع ڈالروں کے شوق میں لٹا چکے ہوتے۔ مغرب بالخصوص آقائے سام (امریکا) کی دیرینہ خواہش نما زوردار مطالبہ پورا ہوچکا ہوتا۔ اللہ سلامت رکھے ان محافظوں کو جو ختم ِنبوت کی سپاہ بنے چوکس رہتے ہیں۔ ایسے ہر موڑ پر سب یک جان یک زبان ہوکر کھڑے نہ ہوتے تو ہم زندگی کی رہی سہی علامتوں سے محروم ہوجاتے۔
دوسری طرف لاقانونیت اور تواتر سے ٹریفک حادثات ہیں۔ کچے میں (رئیس سرپرستوں کی مدد سے پالے) ڈاکو ہیں۔ اور پکے میں مال و دولت پیسے کی حرص و ہوس، نشے میں ڈوبے قاتل ہیں۔ پی ٹی آئی کے بانی ممبر کا قتل (شاہد صدیقی) سرکش، بدنصیب پیسے کے پجاری، لکھ لُٹ بیٹے کے ہاتھوں۔ کراچی میں بہت بڑے تاجر کی نشے میں دھت بیوی (جو خود بھی کئی کمپنیوں کی ممبر/ ڈائریکٹر ہے) کی لینڈکروزر تین موٹر سائیکلوں، ایک گاڑی سے ٹکرا کر اُلٹ گئی۔ 62 سالہ باپ اور اس کی 23 سالہ بیٹی انتقال کر گئے۔ 3 زخمی ہوئے۔ قبل ازیں 14 سالہ لاڈلے نوجوان نے لاہور DHA میں گاڑی اُڑاتے ہوئے پہلے خواتین کو ہراساں کیا، پھر ٹکرا کر 6 جانیں ایک خاندان کی چشم زدن میں لے لیں! کتنوں کی جان گئی، آپ کی تفریح ٹھہری۔ والدین جو نوعمر ،ناتراشیدہ پتھریلے بدقماشوں کو گاڑیاں دے کر کھلا چھوڑ دیتے ہیں گھر خاندان اجاڑنے کو۔ گاڑی اپنے جیسوں سے بھر کر فاسٹ فوڈ اڑانے جارہا تھا، گردنیں اڑادیں۔ اسی پر بس نہیں! پریشان کن حالات میں جو کسر باقی تھی وہ بلوچ قوم پرستوں نے بے گناہ مسافروں کے بے دریغ بہیمانہ قتل ِعام کرکے پوری کر دی۔اس دوران ارشد ندیم اولمپکس سے گولڈ میڈل جیت لایا تھا۔ جسے منانے میں کوئی کمی نہ کی، دونوں ہاتھوں سے پیسہ نچھاور کیا۔
ادھر ہماری گردن پر چین کا 15 ارب ڈالر کا قرضہ لدا ہوا ہے۔ ادائیگی کی راہ نہیں بن رہی۔ وہ دوستی جو سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے اونچی تھی، اب ہماری کرپشن، معاشی بدنظمی اور شہ خرچیوں کے ہاتھوں گھٹ کر اِک جوئے آب اور بلندی میں ٹیلے برابر ہونے کو ہے۔ صرف ارشد ندیم پر لٹائے جانے والے کروڑوں ہنڈا سوک، کوچ پر بھی ’ویلیں‘ نچھاور، اس ایک کی دعوت سے لگے ہاتھوں بھاری دعوتوں، عشائیوں کے اخراجات، سندھ، پنجاب، حکومتوں کے ایوارڈ اور فیڈرل نے ٹیکس فری ڈیڑھ کروڑ مزید دینے کا اعلان کیا۔ کچے میں ڈاکوئوں کے سروں کی قیمتوں کی بھاری بولی لگنے پر تو پولیس والے بھی گھبرا کر بول اٹھے۔ یہ سب اگر حکومتی سربراہان اپنے ذاتی خزانوں (بے بہا!) سے دیتے تو سر آنکھوں پر تھا مگر یہ تو ہم ٹیکس دہندگان کی جیبیں پھاڑ کر لٹایا جارہا ہے کروڑوں میں، آئے روز۔ ایک کھلاڑی ’’وزیراعظم‘‘ اور تیار کرلیا۔ پچھلے سے ابھی نمٹ نہ پائے تھے! 22 کروڑ عوام کے دکھ سکھ، جان و مال کی جواب دہی کچل ڈالنے والا بوجھ ہے اللہ کے ہاں۔عمر بن خطابؓ کو پڑھ دیکھیے!
غزہ کا غم دل میں گھائو ڈالنے والا غم ہے، جس پرایک نومسلمہ کا ردعمل دیکھئے: اللہ مجھے ایک دھاگے، ایک اونس ان جیسا دل عطا کردے، ہر فلسطینی ہر قربانی پر ہر حال میں الحمدللہ کہتے ہیں۔ سبحان اللہ! میں اللہ سے تڑپ کر یہ مانگتی ہوں، نماز میں، سجدے میں، گریہ زار ہے! مگر ہم دیکھتے سنتے تھک چکے ہیں! وہاں 17 ہزار بچے، تنہا، والدین خاندان سے بچھڑے ہسپتالوں، کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ اسرائیل ٹارگٹ کلنگ کرکے خصوصاً عورتوں بچوں کو مار رہا ہے، تاکہ موجودہ اور آئندہ نسل ختم ہو۔ امریکا، یورپی لیڈر شراکت کار ہیں۔ ایک ڈچ جس کا سوشل میڈیا پر فلسطین کی حمایت میں پوسٹ پر جاب کنٹریکٹ ختم کردیا تھا، جرمن کورٹ نے اسے واپس دلوا دیا، اس کا وعدہ ہے کہ وہ ملنے والی رقم سے 5 لاکھ یورو غزہ کے بچوں کو دے گا۔ غزہ کے بچوں پر پوری دنیا میں چیخ و پکار ہے، یورپ ہو یا امریکا۔ ایسے میں جرمنی میں جوان بڈھے کی تفریق کیے بغیر اندھادھند چاقو چلانے والے شامی جوان نے سفیدفام انتہاپسندوں کے سوا کس کی خدمت کی ہے؟ اسرائیل سرتاسر دجالی صہیونیت، شیطانیت ہے۔ ورنہ بنی اسرائیل کی کہانی شروع ہی دریا میں بہا دیے گیے اس مقدس بچے سے ہوتی ہے، جس نے فرعون جیسے جابر و قاہر کا دل بھی پگھلا دیا تھا۔ باوجودیکہ گمان غالب تھا کہ یہ (فرعونیوں کے نزدیک) واجب القتل تھا، اس ننھے بچے کو پالا پوسا۔ محل کا شہزادہ بنا کر تربیت دی۔ سپہ گری سکھائی! جس طرح دجال شیطانیت کا کامل مظہر ہوگا۔ نیتن یاہو بھاری دجالچہ ہے اور اس کے چیلے چانٹے امریکی بھی۔ہر مسلم ملک کو دیکھنا ہے کہ وہ کس کا ساتھ دے رہاہے۔ انفرادی سوال بھی ہے اجتماعی بھی۔ تنبیہ شدید ہے: ’’ان ظالم لوگوں کی طرف نہ جھکنا ورنہ تم بھی جہنم کی آگ کی لپیٹ میں آجائو گے، اور اللہ کے سوا (بچانے والا) کوئی سرپرست تمہیں نہ ملے گا۔ اور نہ ہی ملے گی (اللہ کی طرف سے) مدد بھی۔‘‘ (ھود:114)
بنگلادیش میں آنے والی تبدیلی پورے خطے کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔ ساتھ ہی حکمرانوں اور عوام کے لیے اسباق لیے ہوئے ہے۔ عبوری حکومت احتیاط سے آگے بڑھ رہی ہے۔ قومی یک جہتی دیدنی ہے۔ تاہم مون سون بارشوں نے امتحان کھڑا کردیا۔ نازک حالات میں اچانک بھارت کے ملحقہ تریپورہ سے فلڈگیٹ کھول دینے سے (بلاپیشگی نوٹس) 8 ضلعوں میں سیلابی ریلوں نے دھاوا بول دیا۔ گھر، زمین، فصلیں، کاروبار ہزاروں ایکڑ ڈوب گئے۔ احتیاطی تدابیر کی مہلت تک نہ ملی 3 لاکھ متاثرین کو۔ بنگلا دیش حکومت اور عوام کی طرف سے شدید ردعمل ہوا۔ تمام بڑی یونیورسٹیوں کے طلبہ نے بھارت کے خلاف بنگلادیش کو ڈبونے کا الزام دیا، مظاہرے کیے، کہا کہ ’’بھارت خواہ کتنا طاقتور ہو ہم اس کے خلاف کھڑے ہوں گے، ہمیں بین الاقوامی دریائوں سے بھی اپنے حصے کا پانی لینا ہے۔ بھارت نے کبھی ہمارا بھلا نہ چاہا۔ ایسی ہی جارحانہ کارروائیوں سے بھارت کے تمام ہمسایہ ممالک نیپال، بھوٹان، مالدیپ اس سے بگڑے ہیں۔ یہ قدرتی آفت نہیں۔ بھارت کی آبی جارحیت کا مصنوعی سیلاب ہے۔‘‘
اس آفت کا عوام نے بھرپور یک جہتی سے سامنا کیا۔ ڈھاکا یونیورسٹی امدادی مرکز بن گئی۔ پورا شہر اُمڈ آیا۔ طلبہ رضا کاروں نے منظم طریقے سے امداد وصول کی، روپیہ پیسہ، ادویہ، خشک خوراک، کپڑے، صاف پانی، لائف جیکٹیں، ہر آن پک اپ، ٹرک لادے چلے آرہے تھے، ایک صاحب نے پورے جوش اور ولولے سے کہا: ’’ہمارا ملک آزاد ہوا ہے۔ (حسینہ، بھارتی گٹھ جوڑ سے!) اس کی تعمیر کے لیے ہمیں اتحاد، قوت، تنظیم دکھانی ہے، بھارت ہمیں توڑنا چاہتا ہے۔ ہم اس کی جارحیت کے مقابل کھڑے ہیں۔ ہم مقابلہ کریں گے۔ آج وہ ڈھاکا ہے جیسا ہم چاہتے تھے۔ (آزاد!) ڈھاکا یونیورسٹی لوگوں کی اُمیدوں کا مرکز، روشنی کی کرن بن گئی ہے۔‘‘ خوش آئند ہے کہ حسینہ حکومت کی طرف سے قید کیے گئے اہل دین بھی رہا کیے جارہے ہیں۔ بنگلادیش، نوزائیدہ حکومت بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جارحانہ لب و لہجہ لیے ہے۔ ہم ہر سال بھارت کی آبی جارحیت کے چرکے بلا چوں چراں وصول کرکے عوام کے کھاتے ڈال دیتے ہیں، ہماری 5 دریائوں کی سرزمین بنیادی عوامی ضرورت کی سبزیاں، پیاز، ٹماٹر، ادرک، لہسن تک سے محروم ہوگئی بھارت کے ہاتھوں۔ افغانستان سے لڑنے بھڑنے کا کوئی موقع ضا ئع نہیں کرتے۔ کھیرے تک افغانستان سے نہ آئیں تو وہ بھی نہ ملیں۔ سیلاب میں پاکستان کو موقع تھا کہ ہم فوری امداد روانہ کرکے بنگلادیش سے بہتر تعلقات اور خیرسگالی کا مظاہرہ کرتے۔ خارجہ پالیسی اس حوالے سے کمزور رہی کہ ڈھنگ کا بیان بھی برمحل جاری نہ کرسکے۔ متنازعہ مسائل چھیڑ بیٹھے۔ یہ موقع تھا پرانے زخم بھرنے، بھلانے اور قرب لوٹانے کا! مگر ترجیحات امریکی ڈالروں اور امیر مسلم ممالک سے مانگنے تانگنے ہی کی رہی ہیں۔ اللہ ہمیں عزتِ نفس اور غیرت و حمیت عطا فرمائے۔ آمین!