عقیدۂ ختم نبوت کا حقیقی تقاضا
ڈاکٹر ضمیر اختر خان
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ نےقادیانی مبارک ثانی کیس میں اپنے(6فروری 2024ء/24 جولائی 2024ء) متنازعہ فیصلوں کی تصحیح کرکے اپنی نیک نامی کا سامان کیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اس قادیانی کیس میں جاری کردہ دونوں فیصلوں میں شرعی، آئینی اور قانونی سقم موجود تھے ،جن کی جانب دینی جماعتوں، علماء کرام، ملک بھر کی بارایسوسی ایشنز ، وکلاء حضرات ،پارلیمان میں موجود عوامی نمائندگان اور خود عوام نے نہ صرف بھرپور انداز میں توجہ دلائی بلکہ ایک پُر امن اور مؤثر تحریک کا سا سماں باندھا جو یقیناًقابلِ تحسین ہے۔ تمام افراد، تناظیم اور اداروں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ اس معاملے کوایک مرتبہ پھر دیکھا جائے اور اپنے سابقہ دونوں فیصلوں میں موجود تمام شرعی، آئینی اور قانونی سقم دور کیے جائیں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 22 اگست 2024ء کو اس معاملے کی تیسری مرتبہ سماعت کی۔ دورانِ سماعت بڑے علمائے کرام ، جن میں مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن ، مولانا فضل الرحمن شامل تھے اور دینی و مذہبی جماعتوں کو اپنا موقف پیش کرنے کا بھرپور موقع دے کر اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا گیا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وفاقی حکومت کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس نے گزشتہ دونوں فیصلوں میں اپنے سہو کا اعتراف کیا ۔ سماعت کے اختتام پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی جانب سے جاری کردہ مختصر فیصلہ میں 6فروری اور 24 جولائی 2024ء کے فیصلوں سے تمام متنازعہ پیراگرافس حذف کرنے اور قادیانیوں پرآئین و قانون میں عائد تمام پابندیاں بحال کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔یہ حکم بھی دیا ہے کہ حذف شدہ پیراگرافس کو نظیر کے طور پر مستقبل میں پیش یا استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔ مزید برآں مبارک ثانی قادیانی کیس میں ٹرائل کورٹ کواِن پیراگرافس سے متاثر ہوئے بغیر قانون کے مطابق مقدمہ جاری رکھنے کی بھی ہدایات جاری کی ہیں۔ ہم اس موقع پرملت اسلامیہ پاکستان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کیونکہ یہ مسلمانانِ پاکستان کی ردِ قادیانیت کے محاذ پر ایک شاندار تاریخی فتح ہے اور توقع کرتے ہیں کہ تفصیلی فیصلہ میں بھی کسی قسم کا ابہام باقی نہیں رہنے دیا جائے گا۔ان شاء اللہ!
اس فیصلے کے تناظر میں ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام Stakeholders سے دردمندانہ گزارشات کرنا چاہتے ہیں اورساتھ ہی دینی و سیاسی جماعتوں کے قائدین ، علماء کرام، ملک بھر کی بارایسوسی ایشنز ، وکلاء حضرات ،پارلیمان میں موجود عوامی نمائندگان اورعوام سے بھی عرض کریں گے کہ ابھی ختم نبوت کا اصل اور حقیقی تقاضا پورا نہیں ہوا۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ختم نبوت کے عقیدے کی حفاظت کے لیے ’’قانون ارتداد‘‘ کا نفاذ ضروری ہے۔ 1974ء میں جب پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا تھاکہ قادیانی غیر مسلم ہیں۔ یہ ایک صحیح فیصلہ تھا، لیکن یہ فیصلہ ادھورا تھا۔ اس لیے کہ اس فیصلے سے قادیانیت کے فتنے کو کوئی گزند نہیں پہنچاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1984ء میں ان پر مزید پابندیاں لگائی گئیں مگران کا بھی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ غیر مسلم قرار دیے جانے کے فیصلے کے باوجود یہ فتنہ جوں کا توں پنپ رہا ہے اور پھیل رہا ہے اور اپنے سرطان کی جڑیں ہمارے معاشرے میں پھیلا رہا ہے۔ ویسے تو عالمی سطح پر انہیں بڑی سرپرستی حاصل ہو گئی ہے، پوری مغربی دنیا ان کی سرپرستی کر رہی ہے۔ اندرونِ ملک اس فتنے کا قلع قمع اگر ہو سکتا تھا تو صرف اُس وقت جبکہ اس فیصلے کا جو قانونی اور منطقی تقاضا ہے، وہ بھی پورا کیا جاتا، اور وہ یہ کہ ’’مرتد کی سزا ‘‘ نافذ کی جاتی۔ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانے میں مدعیانِ نبوت سے قتال کیا گیا اور اسلامی تاریخ میں جتنے بھی لوگوں نے نبوت کے دعوے کیے انہیں ہمیشہ قتل کیا گیا۔ لہٰذا مرتدین کی سزا قتل جب تک نافذ نہیں ہو گی ، اس فتنے کا سد باب نہیں ہو سکےگا، بلکہ وہ تو اس فیصلے کے بعد اپنے آپ کو مظلوم سمجھتے ہیں اور دنیا کے سامنے مظلوم کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ۔ آپ جتنے چاہیں آرڈی نینس نافذ کر لیں لیکن وہ سارے اسلامی شعائر استعمال کرتے ہیں۔ ان کے ہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ مسجد کی شکل نہیں بنا سکتےمگربڑی بڑی کوٹھیوں کے اندر اُن کا جمعہ ہوتا ہے ،ان کے عید کے اجتماعات ہوتے ہیں، وہ سارے شعائر اسلامی کو استعمال کر رہے ہیں اور الٹا مظلومیت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے، جیسے دنیا میں یہودیوں نے Holocaust کی مظلومیت کا لبادہ اپنے اوپر اوڑھا ہوا ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جس روز یہ فیصلہ ہواتھا، ساتھ ہی واضح کر دیا جاتا کہ آج کی اس تاریخ سے پہلے پہلے جوقادیانی ہیں وہ تو اقلیت قرار پائیں گے، لیکن اس فیصلے کے نفاذ کے بعد جو شخص بھی قادیانیت اختیار کرے گا ،اس پر قتل مرتد کی حد جاری کی جائے گی۔ جب تک یہ نہیں ہو گا اس فتنے کا استیصال تو دور کی بات ہے، اس کو کوئی گزند بھی نہیں پہنچ سکتا۔
دوسری گزارش یہ ہے ختم نبوت کے ساتھ حضورﷺ پر تکمیل رسالت بھی ہو گئی ہے بلکہ حضور ﷺ کی فضیلت کا اصل پہلو یہ ہے کہ آپ پر نبوت ورسالت کا اتمام و اکمال ہو گیا ہے۔ یعنی محمد رسول اللہﷺ پر نبوت کامل ہوئی اور آپﷺ پر رسالت کامل ہوئی۔ قانونی اعتبار سے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت یقیناً زیادہ ہے تاکہ کسی کو ایمان بالرسالت پر نقب لگانے کا راستہ نہ ملے مگر حقیقی تقاضا ختم نبوت کا بھی اس وقت پورا ہوگا جب آپ کا لایا ہوامکمل ، اکمل اوراتم دین قائم و نافذ کیا جائے۔ محمد رسول اللہﷺ کونوعِ انسانی کے لیے دین حق کی صورت میں ایک مکمل نظامِ حیات عطا کیا گیا ہے جس میں سماجی ، معاشی اور سیاسی سطح پرمکمل ہدایات موجود ہیں۔
ختم نبوت و تکمیل رسالت کا مطلب یہ ہے کہ ایک مکمل Politico- Socio-Economic System کی حیثیت سے دین کو کامل کر کے حضرت محمدﷺ کو عطا کر دیا گیا۔ پاکستان کے قیام کا مقصد ہی یہ تھا کہ اس نظام کو پہلے یہاں قائم کیا جائے اور پھر ساری دنیا کو اس طرف متوجہ کیا جائے۔ختم رسالت کا یہ پہلو اور یہ مظہر تاحال تشنہ ٔتکمیل ہے۔ یہ حقیقت اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ اللہ نے بھیجا حضرت محمدﷺ کو غلبہ دین کے لیے لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ تاکہ دین حق کو غالب کر دیں تمام ادیان پر۔ اور بھیجا پوری نوعِ انسانی کے لیے۔ ان دونوں باتوں کو جوڑیے تو بعثت محمدیؐ کا مقصد یعنی تکمیل رسالت کا آخری مرحلہ وہ ہو گاکہ جب کل نوعِ انسانی پر اللہ کا دین غالب آ جائے۔ قیامت سے پہلے یہ ہونا ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ اس کا آغاز اس پاک سر زمین سے ہو۔
دنیا عدل وانصاف کی تلاش میں ہے اور عدل وانصاف بتمام وکمال صرف اللہ سبحانہ کے دین کے ذریعے ہی مل سکتا ہے۔ یہی بات علامہ اقبال کی سمجھ میں آگئی تھی تو وہ برصغیر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ لے کر سامنے آئے تھے۔ اسی حقیقت کو قائد اعظم محمد علی جناح نے سمجھا تو وہ ہندو مسلم اتحاد کی کوشش کو خیرباد کہہ کر دوقومی نظریے کے وکیل بن کر کھڑے ہوگئے تھے۔ اسی کا عملی مظاہرہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد کیا گیا۔ چنانچہ قرارداد مقاصد کا پاس ہونا، 31 علماء کرام کا 22 دستوری نکا ت پر متفق ہونا،1973ء میں اسلامی دستور بنانے کی سعی، 1974ء میں قادیانیوں کوکافر قرار دینا،یہ سب دراصل تکمیل رسالت کے عملی اظہار کے لیے تھا۔ لیکن بد قسمتی سے جمہوری نظام سیاست کی طرف رخ کرنے سے یہ سارے اقدامات بے نتیجہ رہے۔
عدالت عظمی پاکستان کے 6فروری 2024ء/ 24 جولائی 2024ء کے فیصلے کے خلاف جس حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وفاقی حکومت، صوبہ پنجاب کی حکومت نے کردارادا کیا اور دینی جماعتوں، علماء کرام، ملک بھر کی بارایسوسی ایشنز ، وکلاء حضرات، پارلیمان میں موجود عوامی نمائندگان اور خود عوام نے جس جوش جذبے کا ثبوت دیا اور اس مسئلے کے حل کے لیے ایک پُر امن اور مؤثر تحریک کا سا سماں باندھا،وہ یقیناًقابلِ ستائش ہے۔ مگر پاکستان میں ختم نبوت اور ختم رسالت بمعنی تکمیل نبوت وتکمیل رسالت کا بتمام و کمال ظہور اس وقت ہو گا جب یہاں نظام مصطفیٰ اور شریعت محمدیہ کا مکمل نفاذ ہو۔ اس حوالے سے بھی ہمیں حساسیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ 77 سالوں میں بڑی مشکل سے ہم نے ختم نبوت کے عقیدے کے پہلو سے کچھ کامیابی حاصل کی ہے۔ ہمارے پاس مہلت کم ہے۔ اس ملک کی بقاء کا جواز صرف اور صرف نفاذ اسلام ہے اور یہ حقیقت اس ملک سے وفاداری کا دم بھرنے والے تمام اداروں کو سمجھنی چاہیے۔ ہم مزید تاخیر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ بلوچستان کے حالیہ واقعات دراصل اسی وجہ سے پیش آئے ہیں کہ جو چیز ہمیں ایک ملت واحدہ بناتی ،اس سے ہم نےگریز کیا تو پھر قومیتوں اور دیگر تعصبات کے بت پروان چڑھے اورنتیجتاً ایک اللہ ،ایک رسول کا کلمہ پڑھنے والے ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ ہم وفاقی حکومت ، ممبران قومی اسمبلی و ممبران سینٹ، تمام صوبوں کی حکومتوں اور ممبران صوبائی اسمبلیوں ، انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ اور افواج پاکستان کے سربراہان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے دین و ایمان کا تقاضا پورا کریں اور محمدﷺ سے وفاداری اور محبت کا ثبوت پیش کریں اور وہ اس طرح ہوگا کہ پاکستان میں شریعت محمدیﷺ کے نفاذ میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اسی طرح ہم جمعیت العلمائے اسلام، جماعت اسلامی، ملی یکجہتی کونسل، تحریک لبیک پاکستان، جمعیت اہل حدیث ، مفتی محمدتقی عثمانی صاحب، مفتی منیب الرحمن صاحب اور دیگر قابل احترام علماء ومشائخ سے بھی التماس کرتے ہیں کہ وہ ختم نبوت کا اصل تقاضا پورا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ تنظیم اسلامی نےقیام نظام اسلام کے لیے اگرچہ نبوی منہج اختیار کیا ہوا ہےمگر نفاذاسلام کی اگرفوری کوشش ہوتی ہے تو تنظیم اسلامی اس میں بھی اپنا حصہ ڈالے گی۔ ان شاء اللہ
اگر ہم ایسا کر گزرے تو اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا وآخرت میں کامیاب فرمائے گا۔ہم میں سے ہر ایک کو سوچنا چاہیے کہ جب ہم موت سے دوچار ہوں گے، اور وہ کسی وقت بھی آسکتی ہے، تواللہ کے حضور پیش کرنے کے لیے یہی عمل ہماری نجات کا ذریعہ بنے گا ۔ ہمیں دنیا پر واضح کرنا چاہیے کہ اللہ ورسول پر ایمان اور ان کے احکام پر عمل درآمد ہماری سرخ لکیریں(Redlines) ہیں۔ اگر اسلامی نظام کو اختیار کرنے کے حوالے سے دنیا کاکوئی ملک آڑے آتا ہے تو اسے صاف صاٖف اللہ جل جلالہ کا یہ حکم سنانا چاہیے:’’ان سے کہہ دیجیے کہ اے جاہلو ! کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کے لیے مجھ سے کہتے ہو۔‘‘(الزمر:64)
tanzeemdigitallibrary.com © 2025