(چشم کشا) آ ئی پی پیز یعنی غیر سرکاری انتظام کے حامل بجلی پیدا کرنے والے کارخانے، ان کے مالکان اور اصل حقائق - نعیم اختر عدنان

10 /

آ ئی پی پیز یعنی غیر سرکاری انتظام کے حامل بجلی پیدا

کرنے والے کارخانے، ان کے مالکان اور اصل حقائق

 

نعیم اختر عدنان

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وطن عزیز ہر دور میں کسی نہ کسی بحران سے دوچار چلا آ رہا ہے مگر گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان بیک وقت ایک سے زائد بحرانوں میں گھرا نظر آ تا ہے ،ان بحرانوں میں سے ایک بحران حد سے زیادہ مہنگی بجلی کا معاملہ ہے ،اس مہنگی بجلی کی بہت سے وجوہات ہیں ،جبکہ سب سے بڑی وجہ قدرتی طور پر پانی کی وافر دستیابی کے باوجود ڈیمز کی تعمیر سے مجرمانہ غفلت کے قومی جرم کا ارتکاب ہے جو بجلی کے سستے ترین ذریعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس قومی جرم کو کسی مخصوص سیاسی جماعت یا ایک دو سیاسی خاندانوں کے کھاتے میں ڈال دینا حقائق کے منافی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہرکس وناکس کے علم میں ہے کہ پاکستانی معیشت کے لیے ایک اور قابل نفرین بلکہ تباہ کن شے بے تحاشا اندرونی اور بیرونی اداروں اور ممالک سے لیے گئے سودی قرضے ہیں ،ان سودی قرضوں سے ملک و قوم کی آزادی و خودمختاری بلکہ سالمیت تک خطرات سے دوچار ہے۔1977ءسے 2024ء تک کے عرصہ میں ملک کو دو مرتبہ غیر آ ئینی طرزحکومت یعنی فوجی آ مریت کے طویل ادوار کا سامنا کرنا پڑا۔ زیر بحث عرصہ 47سالوں پر محیط ہے جس میں جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کا مجموعی عرصہ حکمرانی 21سالہ مدت تک محیط ہے۔ باقی ماندہ 26 سالہ مدت کے دوران آ ٹھ سے زائد مرتبہ منتخب وزرائے اعظم کو بندوق کے زور پر اور عدلیہ کا کندھا استعمال کرکے بے دخل کیا گیا،بڑے بے آ برو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے، کی فہرست کے نمایاں ناموں میں ذوالفقار علی بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو ، میاں محمد نواز شریف اور عمران خان کے نام قابل ذکر ہیں ۔ گویا منتخب حکومتوں کے سربراہوں اور ان کےساتھ وابستہ عوامی نمائندوں کو نشان عبرت بنانے کی کوششیں کی گئی۔ اس تمہید کے بعد زیر بحث معاملے کی جانب رجوع کرتے ہیں یہ ،1994ء کاسال ہے، ملک کو توانائی کی پیداوار اور رسد میں شدید کمی کا سامنا تھا ،جسے دور کرنے کے لیے محترمہ بینظیر بھٹو نے قومی توانائی پالیسی ترتیب دے کر15 فروری 1994ءکو قوم سے خطاب کرتے ہوئے اس کا اعلان کیا، مجوزہ توانائی پالیسی کے لیے 700ارب روپے کی سرمایہ کاری کا تخمینہ لگایا گیا ، 300ارب روپے کا سرمایہ حکومتی سطح پر فراہم کئے جانے اور بقیہ 400ارب روپے کی فراہمی غیر سرکاری ذرائع سے حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کا اعلان ہوا ،اس توانائی منصوبہ کی تکمیل کے لیے پانچ سال کا عرصہ تجویز کیا گیا ، امریکہ کی توانائی کےوزیر بینرل اویری 80 امریکی سرمایہ کاروں کے ہمراہ پاکستان آ ئے ،جس کے نتیجے میں 4ارب ڈالر یعنی 124 ارب روپے کی توانائی سے متعلق منصوبوں پر سرمایہ کاری کے معاہدہ جات ہوئے، چنانچہ 3500 میگاواٹ کے حامل توانائی منصوبوں پر اتفاق ہوا۔ یاد رہے اس وقت پاکستانی کرنسی میں ڈالر کی شرح تبادلہ 31 روپے فی ڈالر تھی ، 1994ء سے 2024ء تک پاکستان کے تختِ حکومت پر جو شخصیات فائز یا قابض رہیں ان میں محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں محمد نواز شریف ، جنرل پرویز مشرف اور عمران خان کے نام قابل ذکر ہیں ۔ملک کی ترقی اور بدحالی میں ان سب افراد کا ’’حصہ بقدر جثہ‘‘کردار موجود ہے ۔ بجلی پیدا کرنے کے کارخانوں میں 52 فیصد کی حصہ داری ریاست پاکستان کی ملکیت ہے جبکہ 28فیصد پیداوار نجی شعبہ کی عمل داری میں ہے اور باقی ماندہ حصہ جوکہ 20 فیصد بنتا ہے سی پیک سے منسلک چینی کمپنیوں اور ان سے منسلک سرمایہ کاروں کی ملکیت ہے ۔ نجی شعبہ میں کام کرنے والے توانائی کے ان کارخانوں کا تعلق پاکستان کے مشہور کاروباری گھرانوں ،شخصیات اور سیاسی افراد کے ساتھ بھی ہے۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں سو کی تعداد میں پاور پلانٹس موجود ہیں جبکہ نیپرا کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق ان کی تعداد نوے (90) ہے۔اب آ تے ہیں بجلی کے پیداواری کارخانوں کے ذرائع پیداوار کی جانب ، یعنی پاکستان میں کن ذرائع سے فی الوقت بجلی پیدا کی جارہی ہے:(1) پن بجلی یعنی پانی سے (2)ایٹمی پلانٹس کے ذریعے (3) کوئلہ سے( 4) فرنس آئل سے( 5) سولر انرجی سورج سے (6) ونڈ انرجی یعنی ہوا سے (7) بیگاس سے یعنی شوگر انڈسٹری میں استعمال شدہ گنے کے پھوگ سے (8)قدرتی گیس اور آر ایل این جی سے۔ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے کارخانے اپنے ذرائع پیداوار کے حوالے سے جس تناسب میں کام کر رہے ہیں اُس کے مطابق پن بجلی یعنی ہائیڈرو سے بجلی پیدا کرنے والے (4) تھر کول سے چلنے والے ( 5) سولر انرجی کے حامل (10) فرنس آئل سے چلنے والے (15) گیس اور آ ر ایل این جی سے چلنے والے (19) ونڈ انرجی کے ادارے (36) شوگر انڈسٹری سے منسلک بیگاس یعنی گنے کے پھوگ سے چلنے والے ادارے (8) جبکہ سی پیک سے منسلک چینی کمپنیوں کے تحت قائم ادارے ،جو درآمدی کوئلہ سے چلتے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔100 کی تعداد میں قائم بجلی کے پیداواری کارخانوں میں سے صرف آٹھ کارخانے شوگر انڈسٹری سے منسلک سیزنل کارخانے ہیں جو کہ تین ،چار ماہ تک کے عرصہ کے لیے گنے کی کرشنگ کرتے ہیں ،اسی مدت کے لیے بجلی کی پیداوار بھی ہوتی ہے ،اور فاضل بجلی فروخت کردی جاتی ہے ،ان سیزنل کارخانوں کو پیداواری عرصہ ہی کی ادائیگی کی جاتی ہیں۔ ان آ ٹھ کارخانوں میں سے سات پنجاب میں جبکہ ایک سندھ میں قائم ہے۔نجی شعبہ میں کام کرنے والے ان توانائی کے کارخانوں کے نام اور ملکیت کن اداروں اور شخصیات کے پاس ہے ، ذرا اس کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔ شوگر انڈسٹری سے منسلک دو ادارے ،جی ڈی ڈبلیو گروپ کے نام سے یونٹ دوئم اور یونٹ سوئم معروف کاروباری اور سیاسی شخصیت جہانگیر خان ترین کی ملکیت ہیں جو ماضی میں عمران خان کے اہم ساتھی اور تحریک انصاف کے رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے ۔ پی ٹی آئی کی پتنگ جب چڑھ رہی تھی تو موصوف کا ہی ’جہاز‘ زبان زدِ عام تھا۔۔۔ چنیوٹ پاور پلانٹ سلیمان شہباز کی ملکیت ہے جو وزیر اعظم شہباز شریف کے بیٹے ہیں۔ یہ پاور پلانٹ بھی شوگر انڈسٹری سے منسلک ہونے کی وجہ سیزنل ہے۔رحیم یار خان شوگر مل خسرو بختیار کی ملکیت ہے۔ اسی نام سے پاور پلانٹ موجود ہے ، موصوف جنوبی پنجاب کے اہم سیاسی خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھتے ہیںاور عمران خان کے دورِ حکومت میں معیشت اور منصوبہ بندی کے وزیر رہے ہیں۔ اورینٹ پاور کمپنی ندیم بابر کی ملکیت ہے۔ موصوف عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے وقت مشیر پیٹرولیم کے عہدے پر فائز رہے ہیں جو 27فیصد حصص کی ملکیت رکھتے ہیں۔ نشاط پاور پلانٹ جوکہ فرنس آئل سے چلتا ہے، ایک معروف کاروباری شخصیت میاں منشا گروپ کی ملکیت ہے ۔اسی طرح سیف پاور پراجیکٹ ، سیف گروپ آ ف کمپنیز کی ملکیت ہے یہ گروپ خیبر پختونخوا کے معروف سیاسی خاندان سیف اللہ خان فیملی کا ہے ۔اینگرو انرجی لمیٹڈ کے نام سے فعال پلانٹ اس ادارے کی ملکیت ملک کی معروف کاروباری شخصیت عبد الرزاق داؤد کے پاس ہے ۔ماضی میں موصوف عمران خان کی معاشی ٹیم کا اہم حصہ رہے ہیں ۔فاطمہ انرجی لمیٹڈ کے نام سے قائم پاور پلانٹ معروف کاروباری گروپ فاطمہ گروپ کی ملکیت ہے ۔کوہ نور انرجی لمیٹڈ کے نام سے ایک ادارہ سہگل خاندان کی ملکیت ہے۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے بزنس ٹائیکون عارف حبیب ،سچل انرجی ڈویلپمنٹ کا مالک ہے ۔ فوجی کبیر والا پاور کمپنی ، ایف ایف سی انرجی لمیٹڈ فوجی فاؤنڈیشن کی ملکیت ہے۔ اسی طرح فاؤنڈیشن پاور کمپنی ڈیہرکی ،فاونڈیشن ونڈ انرجی 1اور 2 بھی فوجی فاؤنڈیشن کی ملکیت ہیں۔گل احمد ونڈ پاور لمیٹڈ اور میٹرو پاور کمپنی عبد الرزاق تیلی اور سراج تیلی کی ملکیت ہیں۔ اٹلس پاور لمیٹڈ معروف کاروباری شخصیت شیرازی خاندان کے پاس ہے ۔چنار شوگر ملز سے منسلک چنار انرجی لمیٹڈ کا مالک کیانی خاندان ہے ۔ معروف تعمیراتی کمپنی ڈیسکون کے زیر انتظام آ لٹرن انرجی اور رائوش پاور پاک لمیٹڈ کے نام سے انرجی پلانٹ چل رہا ہے۔ یاد رہے کہ ڈیسکون سے بھی عبدالرزاق داؤد کا گہرا تعلق ہے۔ ہڑپہ سولر پاور رانا شمیم اور خاقان بابر چیمہ کی ملکیت ہے ۔لاریب انرجی کمپنی کے مالک سلیم اللہ میمن ہیں ۔ماسٹر موٹرز اور ماسٹر ٹیکسٹائل والے ماسٹر ونڈ انرجی کے نام سے پاور پلانٹ چلا رہے ہیں۔سفائر ٹیکسٹائل گروپ بھی پاور جنریشن میں شامل ہے ۔اسی طرح اور بھی شخصیات اور ادارے نجی شعبہ میں بجلی کی پیداوار اور فروخت میں شامل ہیں۔ یہ ہے ساری داستان بجلی کی پیداوار کرنے والے آ ئی پی پیز کی ۔قصہ کوتاہ آئی پی پیز بلکہ ملک میں کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں کے مجرم صرف دو سیاسی خاندان نہیں بلکہ ہر ہر حکمران نے اس بہتی گنگامیں ہاتھ دھوئے ہیں۔ آدھا سچ کبھی حق نہیں ہو سکتا!
بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا گرانی کے عوامل کا مکمل اور بے لاگ جائزہ لے کر ہی اس کی قیمتوں میں کمی اور بجلی کی دستیابی ہی سے ملک و قوم کی بھلائی ممکن ہے، گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں۔