(مطالعۂ کلام اقبال) ابلیس کی مجلس شوریٰ - ڈاکٹر حافظ محمد مقصود

10 /

ابلیس کی مجلس شوریٰ

ڈاکٹر حافظ محمدمقصود

(گزشتہ سے پیوستہ) 
ابلیس کی مجلس شوریٰ میں ابلیس کا مشیر کہتا ہے کہ دنیا پر مسلط ابلیسی نظام کو جمہوریت سے کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ یہ فرنگی ملوکیت کا ہی ایک پردہ ہے ۔ اپنی بات کے تسلسل میں وہ کہتا ہے ؎
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
بظاہر جمہوریت میں حقوق اور آزادی رائے کی بات کی جاتی ہے ۔"Government of the people, by the people and for the people" کی بات کی جاتی ہے کہ لوگوں کا یہ بنیادی حق ہے کہ اپنے ووٹ سے اپنی مرضی کی حکومت منتخب کریں مگر حقیقت میں یہ بہت بڑا فریب ہے ۔ اپنی اصل میں جمہوریت چنگیزیت سے بھی بدتر ہے ۔ چنگیز خان اور ہلاکو خان اپنے ظلم اور درندگی کے لیے مشہور ہیں ۔ وہ جب قتل و غارت گری اور لوٹ مار کرتے تھے تو لوگوں کے سر کاٹ کر ان کے ڈھیر بناتے تھے اور ان ڈھیروں پر اپنا تخت بچھا کر اعلان کرتے تھے کہ کوئی ہے دنیا میں ہمارے مقابلے میں ؟جمہوریت میں  جو لوگ سرمایہ لگا کر منتخب ہوتے ہیں وہ بھی اسی طرح لوگوں کا استحصال کرتے ہیں ، لوگوں کے حقوق پر ڈاکے ڈالتے ہیں ۔ ان میں اور چنگیز یا ہلاکو خان میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اس پر ابلیس کا تیسرا مشیر یوں مخاطب ہوتا ہے ؎
روح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب
ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟
ٹھیک ہے آپ لوگ کہتے ہیں کہ جمہوریت بھی ابلیسی نظام کے استحکام کا باعث ہے مگر اس یہودی کے تازہ فتنے کا کیا جواب ہے جس کا نام کارل مارکس ہے ؟ وہ جرمنی سے اُٹھا ہے اور اس نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے :ـ"Das Kapital"۔ اس کتاب میں اس نے سرمایہ داروں کو للکارا ہے اور غریبوں کو ہوشیار اور بیدار کیا ہے کہ تمہارے حقوق پر ایک عرصہ سے سرمایہ دار ڈاکہ ڈال رہے ہیں ۔ وہ عام لوگوں کو اور مزدور ں کو بیدار کر رہا ہے کہ اُٹھو اور اس نظام کے خلاف کھڑے ہوجاؤ ۔ اب مزدور اور عام آدمی کارل مارکس کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہو ئے ہیں ۔ان کو یہ شعور آگیا ہے کہ واقعی سرمایہ دار ہمارا لہو نچوڑ رہے ہیں ۔ جبکہ ہمارے ابلیسی نظام کا تقاضا تو یہی تھا کہ طبقاتی کشمکش رہے ، ایک طبقہ دوسرے طبقے کا استحصال کرتا رہےتاکہ معاشرے میں امن و سکون نہ رہے ، کچھ لوگ دولت کے نشے میں مست ہوکرانسانیت بھول جائیں اور باقی انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرف کچلتے مسلتے پھریں اور باقی کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ جائیں اور انسانیت اپنے شرف سے گر جائے۔ مگر اب یہ یہودی نئی شرارت کررہا ہے اور مزدوروں کو سرمایہ داروں کے مقابلے میں کھڑا کر رہا ہے۔ اگرانسانوںمیں مساوات کا کوئی نظام قائم ہوگیا تو پھر ہمارے ابلیسی نظام کا کیا ہو گا؟ یہی اعتراض ابوجہل نے بھی خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر کیا تھا کہ محمد ( رسول اللہ ﷺ)  ایک ایسے نظام کی بات کرتے ہیں جس میں غلام آزاد ہو جائیں گے ۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ایک غلام آزاد کے برابر ہو جائے ؟ یہ محمد(ﷺ)نے آخر کیا کیا ہے۔
ایں دو حرف لا الٰہ خود کافری استابوجہل کعبہ کے سامنے پھٹ پڑا کہ یہ مسلم ہمیں کافر کہتے ہیں جبکہ میرے نزدیک تو خود لا الٰہ الا اللہ کہنا کافری ہے کیونکہ اس میں باقی سب کا انکار کیا جارہا ہے ۔ پورے عرب میں غلام کو آقاکے مقابلے میں کچھ نہیں سمجھا جاتا تھا ، ہمارا ایک مقام اور رعب و دبدبہ تھا، ہمارا صدیوں سے ایک نظام تھا مگر آج محمد (ﷺ) نے تو یہ ساری چیزیں ختم کر دی ہیں۔یعنی اب غلام بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے ۔ لہٰذا اصل کفر تو یہ ہے کہ ہماری اقدار اور روایات کا انکار کیا جائے۔ابلیس کی مجلس شوریٰ میں تیسرا مشیر بھی ابوجہل کی طرح سٹپٹا گیا اور کہتا ہے کہ یہ یہودی کارل مارکس ایسا نظام چاہتا ہے جس میں سرمایہ دار اور مزدور کے درمیان فرق ہی ختم ہو جائے ۔ یہ بہت بڑانظر نہ آنے والا خطرہ ہے۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وہ کہتا مزید ہے ؎
وہ کلیم بے تجلی وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب
کارل مارکس پیغمبر تو نہیں ہے اور نہ ہی اس کو حضرت موسیٰd کی طرح تجلی حاصل ہوئی ہے اور نہ مسیح d کی طرح مصلوب ہوا ہے مگر یہ بھی ظلم اور ناانصافی کے خلاف لوگوں کو جمع کررہا ہے ۔ اس کے پاس بھی ایک کتاب ہے جو مظلوم طبقہ میں جوش انتقام پیدا کر سکتی ہے اور سرمایہ داروں کے خلاف لوگوں کی نفرت کا لاوا پھٹ سکتا ہے ۔ جو شخص بھی اس کو پڑھتا ہے وہ رو پڑتا ہے کہ میں اب تک کتنا ظلم سہتا رہا اور کس کس طرح میرے حقوق پر ڈاکے پڑتے رہے مگر میں ایسا سویا رہا کہ اپنا حق بھی نہ پہچان پایا ۔مزید کہتا ہے ؎
کیا بتاؤں کیا ہے کافر کی نگاہ پردہ سوز
مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روز حساب
روز حساب کیا ہوگا ؟ظاہر ہے سوئے ہوئے لوگ اُٹھ کھڑے ہو ںگے۔اسی طرح کارل مارکس نے جو کتاب لکھی ہے اس کو پڑھ کر عام آدمی غفلت سے بیدار ہو جائے گا اور ہمارے ابلیسی نظام کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوگا ۔ اب تک ہمارے ابلیسی نظام نے ظلم و جبر پر جمہوریت کے نام سے پردے ڈالے ہوئے تھے ،لوگ اسے آزادی کی نیلم پری سمجھ رہے تھے مگر اب اس شخص نے تمام رازوں سے پردے اُٹھا دیے ہیں اور ہمارا ابلیسی نظام طشت از بام ہو چکا ہے ۔ مشیر پریشانی میں کہتا ہے ؎
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب
یعنی اب تک آقا(سرمایہ دار) مزدور اور عام آدمی کا لہو نچوڑ کر مزے کی نیند سو رہا تھا اور اسے کوئی فکر نہیں تھی جبکہ دوسری طرف مزدور اور عام آدمی ہر تنگی تکلیف کو تقدیر کا مسئلہ سمجھ کر برداشت کر رہا تھا اورآقا سے شکوہ بھی نہیں کرتا تھا ۔ مگر کارل مارکس نے مزدور کو جو سبق پڑھا دیا ہے اس کے بعد مزدور سرمایہ دار سے اپنے حقوق کا حساب مانگ رہا ہے ۔ یعنی اب مزدور اور عام آدمی میں بغاوت کے جذبات پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔ (جاری ہے )