(الہدیٰ) قانونِ قدرت:رسول کی نافرمانی پر عذاب آتا ہے - ادارہ

10 /
الہدیٰ
 
قانونِ قدرت:رسول کی نافرمانی پر عذاب آتا ہے
 
آیت 58{وَکَمْ اَہْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ م   بَطِرَتْ مَعِیْشَتَہَاج} ’’اور کتنی ہی بستیوں کو ہم نے ہلاک کر دیا جو کہ اتراتی تھیں اپنی معیشت پر۔‘‘
انہیں اپنے معاشی نظام کے استحکام پر بہت گھمنڈ تھا‘لیکن ان کی خوشحالی اور ان کی مستحکم معیشت انہیں اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکی۔
{فَتِلْکَ مَسٰکِنُہُمْ لَمْ تُسْکَنْ مِّنْ م    بَعْدِہِمْ اِلَّا قَلِیْلًاط وَکُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ(58)} ’’تو(دیکھ لو!) یہ ہیں ان کے (کھنڈر بنے ہوئے) گھر‘نہیں ہوئے ان میں رہنے والے ان کے بعد مگر بہت تھوڑے۔ اور ہم ہی (ان کے ) وارث ہوکر رہے۔‘‘
آیت 59{وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّہَا رَسُوْلًا} ’’اور نہیں تھاآپ کا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا‘جب تک کہ وہ ان کی مرکزی بستی میں کوئی رسول نہ بھیج دیتا‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ کسی بستی تک دعوتِ حق پہنچائے بغیر اس پر عذاب نہیں بھیجتا۔ اس سلسلے میں اللہ ربّ العزّت کا اصول اور طریقہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ پہلے متعلقہ قوم کی طرف باقاعدہ ایک رسول مبعوث کیا جاتا جو حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا واضح کر کے اس قوم پر حُجّت قائم کر دیتا۔ پھر اس کے بعد بھی جو لوگ اپنے کفر پر اَڑے رہتے انہیں عذاب کے ذریعے نیست و نابود کر دیا جاتا۔ 
{یَّتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِنَاج} ’’جو اُن کو پڑھ کر سناتا تھا ہماری آیات۔‘‘
{وَمَا کُنَّا مُہْلِکِی الْقُرٰٓی اِلَّا وَاَہْلُہَا ظٰلِمُوْنَ(59)} ’’اور ہم ہرگز ان بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں تھے مگر اس بنا پر کہ ان کے باسی ظالم تھے۔‘‘
’’ظالم‘‘ کالفظ مشرک‘ کافر‘ گنہگار اور ظلم و ناانصافی کرنے والے‘ سب کو محیط ہے۔
 

 

درس حدیث

 

 تکبر سےبَری کون؟
 
عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ؓ عَنِ النَّبِیِّ ﷺقَالَ : ((اَلْبَادِیُٔ بِالسَّلاَم بَرِیْ ئٌ مِّنَ الْکِبْرِ)) (شعب الایمان للبیہقی)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا : ’’سلام میں پہل کرنے والا تکبّر سے بری ہے۔ ‘‘ 
تشریح: سلام میں پہل کرنا اس بات کی علامت اور دلیل ہے کہ اس بندے کے دل میں تکبّر نہیں ہے‘ اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ سلام میں پہل کرنا تکبر کا علاج ہے جو بد ترین رذیلہ ہے، جس پر احادیث میں عذابِ نار کی وعید آئی ہے۔