اداریہتحفظِ ختم نبوت- 1974ء تا 2024ء…
7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ امسال اس عظیم الشان کامیابی کو 50 برس ہوگئے ہیں۔ اسی تناظر میں میثاق ماہِ اکتوبر / نومبر 1974ء میں بانیٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی شائع ہونے والی خصوصی تحریر کا ایک حصہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے تاکہ مملکتِ خداداد پاکستان میں ہمارے کرنے کے اصل کام کو مستحضر کیا جا سکے۔
’’ہمارے نزدیک قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کا یہ فیصلہ ان ’معجزات‘ کے سلسلے کی تازہ ترین اور اہم ترین کڑی ہے جن کی بنا پر ہمیں یہ یقین حاصل ہے کہ پاکستان کا قیام اسلام کے احیاء اور دین حق کے اس عالمی غلبے کی خدائی اسکیم کا ایک اہم جزو ہے جس کی خبر مخبر صادق ﷺ نے دی تھی۔
کون نہیں جانتا کہ 1947ء یا اس کے لگ بھگ کا زمانہ تو دور رہا، آج تک بھی ہم قومی بیداری اور تعمیر نو کے اعتبار سے ہندوؤں کے پاسنگ تک کی حیثیت نہیں رکھتے اور کسے معلوم نہیں کہ اتحاد و تنظیم کا معاملہ ہو یا تعلیم و ترقی کا، پھر ایثار و قربانی کا معاملہ ہو یا محنت و مشقت کا، کسی بھی اعتبار سے برصغیر کے مسلمان ہرگز اس قابل نہ تھے کہ ہندوؤں کا مقابلہ کر سکتے اور ان کی خواہشات کے علی الرغم ’بھارت ماتا‘ کے ٹکڑے کرا لینے میں کامیاب ہو جاتے۔ گویا پاکستان کا قیام اسبابِ عادیہ کے اعتبار سے یقیناً خرق عادت کی قبیل سے تعلق رکھتا ہے اور احوال ظاہری کے اعتبار سے اسے ایک ’معجزہ‘ قرار دیئے بغیر چارہ نہیں، غور فرمائیے کہ:
1۔ 1930ء سے پہلے تو کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہ آ سکتی تھی کہ کل سترہ سال بعد برصغیر کے شمال مشرقی اور شمال مغربی علاقوں پر مشتمل مکمل ایک آزاد اور خود مختار مسلمان مملکت قائم ہو سکتی ہے۔ پہلی بار 1930ء میں، اپنے مشہور خطبہ صدارت (الٰہ آباد) میں علامہ اقبال مرحوم نے اس کا دھندلا سا تصور پیش کیا لیکن وہ بھی زیادہ سے زیادہ، جو کچھ کہہ سکے وہ یہ تھا کہ ہندوستان کے ’کم از کم‘ شمال مغربی صوبوں پر مشتمل ایک آزاد مسلمان ریاست قائم ہونی چاہیے۔ گویا کہ موجود الوقت حالات کے پیش نظر مشرقی علاقوں کا تو نام تک زبان پر لانے کی جرأت ’لسان القوم‘ کو نہ ہو سکی، پھر کون نہیں جانتا کہ اس وقت اس ادھورے تصور کو بھی ایک مجذوب کی بڑ اور ایک قلندر کے نعرۂ مستانہ سے زیادہ حیثیت حاصل نہ تھی۔
2۔ پھر 1940ء میں مشہور ’قرار داد پاکستان‘ منظور ہوئی تو اس میں بھی ہندوستان کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں ’’مسلم ریاستوں‘‘ کا تصور پیش کیا گیا اس لیے کہ اس وقت تک یہ بات ناممکن التصور تھی کہ ان دونوں پر مشتمل ’ایک ریاست‘ بھی قائم ہو سکتی ہے۔ پھر کسے معلوم نہیں کہ اس ’قرار داد لاہور‘ کی حیثیت بھی اصلاً دو فریقوں کے مابین کسی تصفیہ طلب معاملے میں سودے بازی کے مروّجہ طریقے پر ایک فریق کی جانب سے ابتداء ً اونچے سے اونچے مطالبے کی تھی جس کے تسلیم کیے جانے کا کوئی امکان خود مطالبہ کرنے والے کے ذہن میں بھی نہیں ہوتا۔
3۔ یہی وجہ ہے کہ 1946ء میں مسلم لیگ نے کیبنٹ مشن پلان کو فوراً منظور کر لیا جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ ایک آزاد مسلم ریاست کے مطالبے سے کم از کم وقتی طور پر تو دستبردار ہو ہی گئی تھی، اب اسے خالص خدائی تدبیر کے سوا اور کیا سمجھا جائے کہ عین اس وقت آنجہانی پنڈت نہرو کی ’مت ماری گئی‘ اور ان کی ایک ہمالیہ ایسی حماقت کے نتیجے میں پاکستان ایک آزاد اور خود مختار مسلم ریاست کی حیثیت سے منصّہ شہود پر آگیا۔ گویا اس عالم اسباب و علل میں پاکستان کے ایک کلیۃً آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے قیام کے لیے ہم اصلاً پنڈت جی کے ممنونِ احسان ہیں۔
4۔اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان کے قیام کا فیصلہ اس وقت ہوا جب انگلستان میں لیبر پارٹی برسر اقتدار تھی جو نہ صرف یہ کہ کبھی بھی مسلمانوں کی ہمدرد یا طرف دارا نہ رہی تھی بلکہ ہمیشہ سے کانگرس کی ہمنوا اور ہم خیال رہی تھی۔ خصوصاً اس وقت کے برطانوی وزیراعظم مسٹر اٹیلے کو جو بغض مسلم لیگ اور اس کے سربراہ و قائد محمد علی جناح (مرحوم) کے ساتھ تھا، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں غور کیجئے تو کیا پاکستان کا قیام کسی حساب کتاب میں آنے والا معاملہ نظر آتا ہے؟ اور کیا اس میں کوئی مبالغہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان ایک خالص خدائی تدبیر کے طور پر قائم ہوا اور اس کے قیام کا فیصلہ زمین پر نہیں آسمان پر ہوا۔ اور گویا اسے مسلمانانِ ہند نے قائم نہیں کیا بلکہ یہ ان پر ’اُوپر‘ سے ٹھونسا گیا۔
مزید غور فرمائیے کہ 1962ء میں سابق صدر ایوب خان (مرحوم) نے جبکہ وہ پاکستان میں ہر اعتبار سے ’کُوسِ لمِن الملک‘ بجا رہے تھے اور گویا پورے پاکستان کے سیاہ و سفید کے تنہا مالک و مختار تھے، امریکی دباؤ کے تحت بھارت کو ’مشترکہ دفاع‘ کی پیش کش کی! اب ظاہر ہے کہ مشترکہ دفاع کا لازمی مطلب مشترک خارجہ پالیسی بھی ہے، اور چونکہ آج کل بجٹ کا اکثر حصہ دفاعی اخراجات ہی پر صرف ہوتا ہے لہٰذا اس کا لازمی نتیجہ مشترک بجٹ بھی ہے تو کیا اس کے یہ معنی نہیں کہ اس وقت پاکستان کے ذمہ دار ترین شخص نے پاکستان کی آزادی اور خود اختیاری کو چاندی کی طشتری میں رکھ کر بھارت کی خدمت میں پیش کر دیا تھا؟ اور اگر صدر ایوب (مرحوم) کو ملت اسلامیہ پاکستان کا ترجمان قرار دیا جائے تو کیا اس سے یہ مطلب نکالنا غلط ہوگا کہ ملت اسلامیہ پاکستان نے گویا دوبارہ ایک کلیۃً علیحدہ اور خود مختار پاکستان سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے پھر کیبنٹ مشن پلان ہی کی جانب رجعت اختیار کر لی تھی۔ یہ دوسری بات ہے کہ پھر اسی ’خدائی تدبیر‘ کا ظہور ہوا اور دوبارہ ان ہی پنڈت نہرو کی ’عقل ماری گئی‘ اور انہوں نے اس پیش کش کو نہایت حقارت کے ساتھ ٹھکرا کر گویا پاکستان کی آزادی اور خود اختیاری کی ازسرنو توثیق کر دی۔
تو کیا کسی شک و شبہ کی گنجائش ہے اس میں کہ پاکستان کا ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے برقرار رہنا بھی ہماری کوشش سے نہیں بلکہ خالص خدائی فیصلے کے تحت ہے جو ’اوپر‘ سے مسلط ہوتا ہے۔ {یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ} (السجدۃ، : 5)
1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران پھر اس امر کے ناقابل تردید شواہد ملے کہ پاکستان کا بقا آسمان والے ہی کو مطلوب ہے ورنہ جس طرح بھارتی افواج حملہ آور ہوئی تھیں اور واہگہ کی سرحد عبور کر کے بلا روک ٹوک لاہور کی جانب بڑھ رہی تھیں، واقعہ یہ ہے کہ اس عالم اسباب کے اعتبار سے تو سقوط لاہور، طے شدہ ہی تھا، یہی وجہ ہے کہ بی بی سی، سے اس کی ’خبر‘ بھی نشر ہوگئی۔ اب یہ ’معجزہ‘ نہیں تو اور کیا ہے کہ بھارتی افواج ہی کے دلوں میں وسوسہ پیدا ہوا اور انہیں یہ خوف لاحق ہوگیا کہ کہیں ہمیں کسی خوفناک گھیرے میں تو نہیں لیا جا رہا؟ چنانچہ وہ ٹھٹک کر رک گئیں اور اسی شش و پنج میں وقت گزر گیا اور شام کو لاہور جم خانہ میں دادِ عیش دینے کے سارے منصوبے دھرے رہ گئے۔ غور کا مقام ہے کہ کیا یہ {سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ} ( آل عمران:151)کی بیّن مثال نہیں اور کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ پاکستان کا قیام اور بقا اللہ تعالیٰ کی کسی طویل المیعاد سکیم کی اہم کڑی ہے؟
یہ ٹھیک ہے کہ 1971ء میں ہمیں اپنے کرتوتوں کی سزا بھی ملی۔ اور{لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(7)}( ابراہیم) کے اٹل قانون کے تحت اللہ تعالیٰ کے احسانات کی ناقدری پر عذاب شدید کا ایک کوڑا بھی ہماری پیٹھ پر پڑا۔ لیکن غور کا مقام ہے کہ ایک طرف تو اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے ہم سے صرف وہ چیز چھینی جو خالصتاً ’فضل خداوندی‘ کے حکم میں تھی جس کا تصور تک بھی ہم 1946ء سے قبل نہ کر سکتے تھے چنانچہ 1930ء میں تو اس کا ذکر تک بھی زبان پر نہ لا سکے اور 1940ء میں ذکر کیا بھی تو ایک علیحدہ ریاست کی حیثیت سے اور دوسری طرف واقعہ یہ ہے کہ اس موقع پر بھی مغربی پاکستان کا تحفظ اللہ تعالیٰ نے خالص معجزانہ طریق پر کیا۔ کوئی حقائق و واقعات سے بالکل ہی صرف نظر کر لے تو دوسری بات ہے ورنہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اگر سابق صدر نکسن نے روسی وزیراعظم مسٹر کولیگن کو واضح الٹی میٹم نہ دے دیا ہوتا اور ’آسمان ماسکو‘ سے نازل شدہ ’وحی‘ کی ’پیروی‘ میں مسز اندرا گاندھی نے جنگ بندی کا ’یک طرفہ‘ اعلان نہ کر دیا ہوتا تو جس طرح ہمارے حوصلے پست ہو چکے تھے اور سوائے ایک سیکٹر کے پورے برّی محاذ پر بھی ہمارا دفاع بالکل مجروح اور شکستہ (Shatter) ہو چکا تھا، رہی ایئر فورس اور نیوی تو وہ دونوں تو گویا بالکل ہی مفلوج بلکہ معدوم کے حکم پر آچکی تھیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قوم کو سرے سے کوئی قیادت حاصل نہ تھی اور اُدھر بھارت کا حوصلہ (Morale) آسمان سے باتیں کر رہا تھا اور سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد اب وہ بالکل یکسو ہو کر اپنی ساری جنگی قوت کا رُخ مغربی پاکستان کی جانب پھیر سکتا تھا اور اسبابِ ظاہری کے اعتبار سے حقیقت یہ ہے کہ مغربی پاکستان بھارت کے لیے چند دن کی مار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا تھا۔
اب ذرا غور کیجئے کہ اگر ’خدانخواستہ‘ اس وقت سابق صدر نکس یہ چند دن گومگو اور تذبذب کے عالم اور (Indecision) کی کیفیت میں گزار دیتا اور امریکی رائے عامہ اور کانگریس کے غالب رحجان کے پیش نظر یہ صورت ہرگز بعید از امکان نہیں بلکہ عین قرین قیاس تھی، تو کیا ہوتا؟ اب جن کو رباطنوں کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ انسانوں کے دل (( بَیْنَ اِصْبِحی ءِ الرّحمٰن)) (حدیث) ہیں اور وہ ان کو جدھر چاہتا ہے پھیر دیتا ہے اور ان کا معاملہ تو دوسرا ہے لیکن جن کی باطن کی آنکھ بھی کسی قدر کھلی ہوئی ہو انہیں تو پورے معاملے میں تدبیر الٰہی ہی کار فرما نظر آتی ہے اور{وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(21)} (سورۃ یوسف) ہی کا مشاہدہ ہوتا ہے۔
متذکرہ بالا تمام شواہد کا مفاد تو اسی قدر ہے کہ پاکستان کا قیام بھی ایک ’معجزہ‘ تھا اس کا لگ بھگ ایک ربع صدی تک اپنی کامل حالت میں برقرار رہ جانا بھی ایک ’معجزہ‘ تھا اور اب اس مغربی پاکستان کا بچ جانا بھی، جسے عام طور پر ناقدری میں ’بچا کھچا پاکستان‘ کہہ دیا جاتا ہے، ایک ’معجزہ‘ ہی ہے لیکن قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے تاریخی فیصلے کی صورت میں جو تازہ ترین ’معجزہ‘ ظاہر ہوا ہے اس نے تو یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس ملک کا نہایت گہرا تعلق دین و مذہب کے ساتھ ہے اور دست قدرت نے اسلام اور پاکستان کے مابین ایک ایسے مضبوط رشتے کی گرہ باندھ دی ہے جسے کھولنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ اس کے ساتھ ہی اگر پاکستان کے وجود میں آنے کا پورا عمل (Genesis) اور اس کی ستائیس سالہ تاریخ کے دوران میں ظاہر ہونے والے وہ شواہد بھی پیش نظر رہیں جن کا اجمالی تذکرہ اُوپر ہوا تو اس نتیجے تک پہنچنے میں کوئی دشواری باقی نہیں رہتی کہ درحقیقت پاکستان کا قیام اور بقا احیائے اسلام اور غلبۂ دین حق کے طویل المیعاد خدائی منصوبے کا اہم جزو ہے۔
اس لیے کہ بیسویں صدی عیسوی کے اس ربع آخر کے قریب، جبکہ پورے کرّہ ارضی پر الحاد کا کامل تسلط ہے اور پورے عالم انسانی میں لادینیت کا دور دورہ ہے نتیجتاً ’ریاست‘ اور ’مذہب‘ دو بالکل جدا اور ایک دوسرے سے کلیۃً آزاد اداروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک گروہ کی حیثیت کا تعین خاص مذہبی بنیادوں پر ہونا اس کے بغیر ہرگز ممکن نہیں کہ کوئی خاص خدائی تدبیر ہی کار فرما ہو اور قدرت کا کوئی عظیم منصوبہ ہی اس سے وابستہ ہو۔
ہمارے نزدیک اس کی واحد توجیہہ یہ ہے کہ دراصل پاکستان کو اس وسیع اور ہمہ جہتی ’احیائی عمل‘ میں ایک اہم مقام حاصل ہے جو اس صدی کے ربع اوّل کے بعد سے اس وقت شروع ہوا جب امت مسلمہ کا زوال و انحطاط انتہا کو پہنچ گیا اور قانون قدرت کے عین مطابق ’جذر‘ کی انتہا کے بعد حالات کا رخ ’مدّ‘ کی جانب مڑگیا۔‘‘
tanzeemdigitallibrary.com © 2025