ابلیس کی مجلس شوریٰ
ڈاکٹر حافظ محمدمقصود
(گزشتہ سے پیوستہ)
ابلیس کی مجلس شوریٰ میں تیسرا مشیر کارل مارکس کی کتاب Das Kapitalکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کے ذریعے ایسا فکر پروان چڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے مزدوروں میں ان کے حقوق کا شعور بیدار ہورہا ہے اور عام آدمی میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرت اور بغاوت بڑھ رہی ہے ۔ خدشہ ہے کہ اس کی وجہ سے ہمارا عالمی نظام خطرے میں نہ پڑ جائے ۔ اس کے جواب میں چوتھا مشیر کہتا ہے ؎
توڑ اس کا رومتہ الکبریٰ کے ایوانوں میں دیکھ
آل سیزر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب
یعنی تم زیادہ مایوس نہ ہو ، کارل مارکس کے فکر کا علاج ہم نے ڈھونڈ لیا ہے ۔ اس کے مقابلے میں ہم نے مسولینی کو اٹلی سے اُٹھا کھڑا کیا ہے جس کے فکر اور فلسفے سے سیزر کے نظام کا دوبارہ مغرب میں احیاء ہو رہا ہے ۔ ہم نے انہیں یہ خواب دکھلا دیا ہے کہ تم اپنی تاریخی رومن ایمپائر کو دوبارہ زندہ کرو ۔ اس کے نتیجے میں ایسے فاشسٹ لوگ پیدا ہوں گے جو حقوق اور انصاف کے سارے سبق بھول جائیں گے اور ان کے نزدیک رومن ایمپائر کا احیاء ہی سب سے بڑھ کر ہو گا چاہے جیسے بھی ہو ۔ پھر جس طرح رومن ایمپائر کے ظالم حکمران عوام پر ظلم ڈھایا کرتے تھے اسی طرح اس نظام میں عوام کو ظلم کی چکی میں پیسا جائے گا ۔یہی مسولینی کی فسطائیت کا نتیجہ ہوگا ۔ آگے کہتا ہے ؎
کون بحر روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا
گاہ بالد چوں صنوبر، گاہ نالد چوں رباب
مسولینی نے بحیرہ روم میںاپنا بحری بیڑا اُتار دیا تھا اور جابجا مختلف علاقوں پر حملے کررہاتھا اور قبضے کر رہا تھا ۔ اسی بات کی طرف اشارہ ہےکہ وہ اس قدر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے جیسے صنوبر کا درخت تیزی سے بڑھتا ہے ۔ اس کی تقریر میں ایسا جادو ہے کہ لوگ اس کی بات سننے کے لیے جمع ہو جاتے ہیں جیسے اس کی باتوں میں کوئی خاص کشش ہو ۔ اس کے جواب میں تیسرا مشیر دوبارہ مخاطب ہوکر کہتا ہے ؎
میں تو اس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں
جس نے افرنگی سیاست کو کیا یوں بے حجاب
یعنی اب تک ہم نے فرنگی سیاست کو جمہوریت کے لباس میں چھپایا ہوا تھا اور بظاہر لوگوں کو یہی لگ رہا تھا کہ جمہوریت میں عوام کو آزادی اور حقوق حاصل ہو ں گے مگر حقیقت میں اس نظام کا صرف چہرہ روشن تھا ، جبکہ اندروںیہ چنگیز سے بھی تاریک تر تھا ۔ یعنی فرنگی سیاست میں سامنے عوامی نمائندے تھے لیکن پس پردہ سرمایہ دار تھے جو ان نمائندوں سے کٹھ پتلیوں کی طرح کام لیتے تھے اور ہمارے مفادات کا تحفظ عوام کا لہو نچوڑ کر کرتے تھے ۔ اپنی اصل میں فرنگی سیاست اور چنگیزیت میں کوئی فرق نہیں تھا لیکن اس کے اوپر ہم نے حقوق اور آزادی کا خوشنما پردہ ڈالا ہوا تھا ۔ مگر مسولینی نے یہ حماقت کر دی ہے کہ اس نے وہ پردہ ہٹا دیا ہےاور کھل کر جو ظلم و بربریت کا راستہ اختیار کیا ہے اس کی وجہ سے ہمارا ابلیسی نظام بے نقاب ہو چکا ہے ۔ لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ مسولینی نے کوئی دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پھر یہ کہ کارل مارکس نے اپنی کتاب میں کہا کہ سرمایہ دار بہت ظلم کر رہے ہیں مگر وہ بھی نشاندہی نہیں کر سکا کہ کونسے سرمایہ دار ظلم کر رہے ہیں کیونکہ ہمارا ابلیسی نظام تو ایسا ہے کہ ہم کسی کے کندھے پررکھ کر بندوق چلاتے ہیں ۔ اگر ظلم اور دہشت کا بازار گرم کرنا ہوتا ہے تو ہم اصل مہرے سامنے نہیں لاتے بلکہ ایسا طریقہ کا راختیار کرتے ہیں کہ الزام کسی اور پر آئے۔ اس کی مثال ہم عراق ، شام اور لیبیا میں دیکھ سکتے ہیں جن کو عالمی قوتوں نے تباہ و برباد کر دیا مگر الزام نام نہاد دہشت گردوں پر ڈال دیاحالانکہ دہشت گرد تنظیمیں بنانے والی بھی عالمی قوتیں تھیں۔ اسی طرح انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کو پھیلایا ، بم دھماکے کیے ، الزام کبھی سنیوں پر لگا دیتے تھےاور کبھی شیعہ پر اور لوگ سچ مان لیتے تھے ۔ حالانکہ نہ سنیوں کو پتا ہوتا تھا اور نہ شیعوں کو کہ بم کس نے رکھا ۔ یہ سارا کام عالمی ایجنسیاں اس قدر مہارت کے ساتھ کرتی ہیں کہ ظاہراً بدنام کوئی اور ہو جاتاہے جبکہ پس پردہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے ۔ اس لحاظ سے ابلیس کا تیسرا مشیر کہہ رہا ہے کہ ابھی تک ہمارا جو ابلیسی نظام ہے اس کے تحت ہم دنیا میں شر ، فساد ، ظلم اور دہشت پھیلاتے تھے ، قوموں، ملکوں کو روند ڈالتے تھے ، انسانیت پر مظالم ڈھاتے تھے مگر الزام ہمارے ابلیسی نظام پر نہیں آتا تھا بلکہ اس کا الزام کسی اور پر ڈال دیتے تھے ۔ کسی کو پتا نہیں چلتا تھا کہ اس کے پیچھے ہمارا نظام ہے۔ یہاں تک کہ کارل مارکس بھی نشاندہی نہیں کر سکا تھا کہ مزدور پر ظلم کرنے والے سرمایہ دار کون ہیں ؟ مگر اب مسولینی جو اُٹھا ہےتو اس نے ہمارے نظام کو بالکل عریاں اور ننگاکردیا ہے ۔ اس سے ہم بدنام ہو گئے ہیں ۔
علامہ محمد اقبال نے ضرب کلیم میں بھی مسولینی کے اس طرز عمل کی نشاندہی کی ہے ؎
کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم
بے محل بگڑا ہے معصومان یورپ کا مزاج
مسولینی نے کہا کہ میں نے آخر کیا برا کیا ہے کہ مغرب کے دانشور مجھ سے نالاں ہیں ۔ مجھ سے زیادہ بُرے تو وہ ہیں جو چپکے سے یہی سب کچھ کر رہے تھے۔ میں نے ظاہر میں آ کر وہ سب کچھ کیا تو اس میں نرالاکیا ہے ؟
میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں
ہیں سبھی تہذیب کے اوزار، میں چھلنی تو چھاج
چھلنی اور چھاج ایک ہی طرح سے کام کرتے ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ چھلنی شور شرابہ کیے بغیر وہی کام کر دیتی ہےجو چھاج خوب شور مچا کرکرتاہے ۔ مسولینی یہ کہہ کر مغرب کے دانشوروں کو آئینہ دکھاتا ہے کہ ؎
میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم
تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاج
تم نے اپنے مکر وفریب سے کمزور قوموں پر غلبہ حاصل کیا اور ان کے حقوق اور آزادی کو پامال کیا ۔ کیا کیا ستم تم نے نہیں ڈھائے اور کس کس طرح تم نے کمزور قوموں کو تاراج نہیں کیا اور آج تم مجھے سبق پڑھاتے ہو کہ یہ غلط ہے ۔ تم کس منہ سےیہ کہہ سکتے ہو ؟ (جاری ہے )