محافل میلاد اپنی جگہ لیکن رسول اللہ ﷺسے محبت کا اصل تقاضا یہ
ہے کہ ہم ان کے مشن کے لیے کھڑے ہوں ، موجودہ دور میں جہاد کو
صرف قتال سے جوڑ دیا گیا ہے جبکہ قرآن جہاد کا ایک ہمہ گیر تصور
پیش کرتاہے ، مسلم حکمرانوں کا طرز زندگی اور ان کی ترجیحات دیکھ
کر واضح ہو جاتاہے کہ ان کی وفاداریاں کس کے ساتھ ہیں، باطل قوتوں
نے مسلمانوں کے خلاف درندگی کے تمام دروازے کھول رکھے ہیں
مگر 57 مسلم ممالک اور پونے دو ارب مسلمان کچھ نہیں کر پارہے ،
بنیادی وجہ قرآن سے دوری ہے ۔
ماہ ربیع الاول:کرنے کااصل کام کے موضوعات پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں صدر انجمن خدام القرآن ڈاکٹر عارف رشید کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
سوال:انبیاء اور رسل جب دنیا میں آتے ہیں تو ازروئے قرآن و حدیث ان کی بعثت کا مقصد کیا ہوتا ہے؟
ڈاکٹر عارف رشید: سب سے پہلےہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کیوں فرمائی ۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓـئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط}(البقرہ : 30) ’’اور یاد کرو جب کہ کہا تھا تمہارے ربّ نے فرشتوں سے کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک خلیفہ۔‘‘
حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ یعنی نائب بنایا جو کہ بہت اونچا مقام اور منصب ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جب اپنے اس ارادے کا اظہار فرشتوں کے سامنے فرمایا تو فرشتوں کی طرف سے یہ بات سامنے رکھی گئی کہ :
{قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآءَ ج وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ط} (البقرہ : 30) ’’انہوں نے کہا :کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقر ّر کرنے والے ہیں جو اس میں فساد مچائے گا اور خون ریزی کرے گا؟اور ہم آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘
اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔ چنانچہ پہلے انسان کی تخلیق حضرت آدم علیہ السلام کے طور پر ہوئی اور وہ پہلے نبی بھی تھے۔ اس کے بعد ان کی ذریت کا سلسلہ آگے چلا ہے ۔ انسان دنیا میں آتا ہے اور مقررہ وقت پر چلا جاتاہے ۔ اس کے بارے میں سورہ ملک شروع میں فرمایا گیا :
{اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}(الملک:2) ’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘
دنیا میں اسے اعمال کے ضمن میں اختیار دے دیا گیا ہے اور اس کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے آدم علیہ السلام سے ہی انبیاء کا سلسلہ شروع کر دیا اور آخری نبی ﷺ تک کم و بیش ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء اور 313 رسول اللہ تعالیٰ نےمبعوث فرمائے۔ اس دوران ہر دور میں اور ہر قوم میں انبیاء کو بھیجا گیا ۔ اس ضمن میں ایک سوال بعض لوگوں کے ذہنوں میں آتاہے کہ جن لوگوں تک انبیاء کی دعوت نہیں پہنچی تو وہ کیسے مکلف ہو سکتے ہیں ۔ اس حوالے سے بھی قرآن و احادیث میں وضاحت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر ہر انسان میں ا چھائی اور برائی کی تمیز رکھ دی ہے اور اس حوالے سے وہ مکلف بھی ہے ۔ اس کے باوجود بھی انبیاء و رُسل کو بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ انسانوں کو یاددہانی کروائیں کہ اللہ کیا چاہتا ہے ، جو خیر کا راستہ اختیار کریں تو ان کو خوشخبری سنائیں اور جو اللہ کی نافرمانی کے راستے پر ہیں ان کو ڈرائیں اور خبردار کریں ۔ قرآن میں فرمایا : ’’یہ رسول ؑ( بھیجے گئے) بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر‘تا کہ نہ رہ جائے لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت ّ( دلیل) رسولوں کے آنے کے بعد۔ اور اللہ زبردست ہے‘ حکمت والا ہے۔‘‘(النساء :165)
بنیادی طور پر تو انبیاء اور رسل کا اصل مقصد اتمام حجت ہےتاکہ روز محشر کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ اے اللہ ! مجھے معلوم نہیں تھا کہ تیری رضا کن چیزوں میں ہے ، وہ کیا اوامر ہیں جن پر ہم نے عمل کرنا ہے اور وہ نواہی کون سے ہیں جن سے تو نے منع کر دیا۔ اگرچہ انسان کے اندر اللہ نے اپنی معرفت کی ایک شمع بھی روشن کی ہے۔ کوئی شخص کتنا ہی اللہ کا انکار کرنے والا ہو ، بعث بعد الموت کا انکار کرنے والا ہو لیکن جب کوئی مشکل وقت آتا ہے تو وہ اپنے رب کو پکارنے پر مجبور ہو جاتاہے ۔ جیسا کہ قرآن میں بھی اس حوالے سے ذکر آیا ہے کہ مشرکین پر جب کوئی آفت آتی تھی تو وہ دیوی دیوتاؤں کو پکارنے کی بجائے اللہ کو پکارتے تھے ۔ حضرت عکرمہ کے ایمان لانے کا اصل سبب بھی یہی تھا کہ جب وہ ایک مشکل میں گرفتار ہوئے اور انہوں نےدیکھا کہ سب لوگ ایک رب کو توحید کے ساتھ پکار رہے ہیں تو انہوں نے سوچا کہ محمد ﷺ بھی تو یہی دعوت دے رہے ہیں ۔ چنانچہ پھروہ واپس آئے اور اسلام قبول کیا۔ گویا کہ وہ راستہ جو اللہ نے ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کیا ہوا ہے اسی کی طرف دعوت دینے کے لیے انبیاء و رُسل تشریف لائے ۔ہر شخص نماز کی ہر رکعت میں دعا مانگتا ہے :
{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ} اےاللہ! ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرما۔
وہ صراط مستقیم کون سا ہے ۔ اس کو واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کے سلسلے کو قائم فرمایا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ تاکہ لوگوں کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا ۔
سوال: وہ کون سا مبارک عمل تھا جو نبی کریمﷺ نے اپنی زندگی میں آغاز نبوت سے لے کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے دن تک جاری و ساری رکھا؟
ڈاکٹر عارف رشید: نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا اگرآپ مطالعہ کریں گے تو آغاز وحی سے لے کر اپنی زندگی کے آخری لمحے تک آپ ﷺ نے جو عمل متواتر کیا ہے وہ ہے لوگوں تک دین کی دعوت کو پہنچانا ، ان پر اتمام حجت قائم کرنا ، اس کی بنیاد پر ایک جماعت کی تشکیل اورمعرکۂ حق و باطل میں اللہ کے دین کے غلبے کے لیے لڑنا ۔جیسا کہ حدیث میں ہے :
(( مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ)) جو شخص لڑے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہو وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتا ہے۔
سند کے اعتبار سے احادیث کے بہت سے مراتب ہیں۔ کوئی صحیح ہے ، کوئی ضعیف ہے ، اسی طرح سنت میں کوئی سنت موکدہ ہے ، کوئی غیر موکدہ ہے لیکن حضور ﷺ کی ایک سنت ایسی ہے جس میں کسی مکتبہ فکر کو کوئی اختلاف نہیں ہے اور جس کا انکار ممکن نہیں ہے وہ سنت متواتر دعوت و تبلیغ ہے ۔ شروع میں ہی یہ حکم آیا :
{وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ(214)} (الشعراء) ’’اور خبردار کیجیے اپنے قریبی رشتہ داروں کو۔‘‘
اس حکم کے مطابق نبی اکرم ﷺ نے اپنے گھر والوں اوراپنی برادری کے تمام لوگوں کو جمع کیااور خطبہ ارشاد فرمایا۔اس خطبہ میں جھنجوڑنے کاانداز ہے:
(( إن الرائد لايكذب أهله و الله لو كذبت الناس جميعا ما كذبتكم))’’ایک رہبراپنے گھر والوں سے جھوٹ نہیں بولتا اور خدا کی قسم اگر میں تمام لوگوں سے جھوٹ بول سکتاتب بھی آپ لوگوں سے جھوٹ کبھی نہ بولتا۔‘‘ اس کے بعد پھر حضورﷺ نےاصل بات بیان فرمائی:((واللہ لتموتن کما تنامون ثم لتبعثن کما تستیقزون)) ’’خدا کی قسم تم لازماً مرو گے جیسا کہ روزانہ رات کو بستروں پر سو جاتے ہو اور خدا کی قسم تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گاجیسا کہ روزانہ صبح بیدار ہوتے ہو۔‘‘ حالانکہ نبی اکرم ﷺ توالصادق والمصدوق ہیں، آپ کو اللہ کی قسم کھانے کی ضرورت نہیں تھی لیکن اس بات کو مؤکد کرنے کے لیےآپ نے قسم اُٹھائی اور پھر فرمایا : اور پھر وہ دن بھی آئے گا کہ جب احسان کرنے والے اور نیکوکاروں کو بہترین بدلہ اور انعام دیا جائے گا اور فاسق و فاجر اور مشرکوں کو اور بدکردار لوگوں کو بدترین سزا دی جائے گی۔
سوال:بحیثیت مسلمان نبی کریم ﷺسے ہمارے تعلق کی بنیادیں کیا ہیں اور ایک مسلمان کیا افعال سرانجام دے کہ اس کے بارے میں کہا جائے کہ اس بندے نے سنت کے مطابق زندگی گزاری اور یہ صحیح معنوں میں متقی اور پرہیزگار ہے؟
ڈاکٹر عارف رشید:سب سے پہلی بات توہمیں یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہم میں سے کوئی بھی اپنی آزاد مرضی سے کسی مسلمان گھرانے میں پیدا نہیں ہوا۔ پورا امکان تھا کہ میری پیدائش کسی عیسائی، یہودی، ہندو یا سکھ گھرانے میں ہو جاتی ۔ یہ بہت بڑی خوش نصیبی ہے کہ اللہ نے ہمیں اس امت میں پیدا کیا ۔ یہ جہاں بہت بلند مرتبہ اور منصب کی بات ہے وہیں اس حوالے سے ہم پر بہت اہم ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں ۔ ماہ ربیع الاول کا آغاز ہو چکا ہے ۔ اس میں میلاد کی محافل بھی سجیں گی ، بڑی بڑی سیرت کانفرنسز بھی ہوں گی ، بڑے میگزین شائع کیے جائیں گے، یہ سب چیزیں اپنی جگہ ہیں جن کے ذریعے لوگ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں لیکن اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو حضورﷺ کا اُمتی ہوناجس قدر بلند مرتبہ کی بات ہے اُسی قدر اس کے بلند تقاضے بھی ہیں ۔ اس حوالے سے سورۃ الاعراف کی آیت 157 میں کچھ تقاضے بیان ہوئے ہیں جن کی روشنی میں ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے ایک خطاب کیا تھا جسے اللہ نے بہت مقبولیت بخشی اور اس کو اب کتابچہ کی شکل میںشائع بھی کیا جاتاہے ۔ اس آیت میں فرمایا گیا:
{فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ }(الاعرف:157) ’’تو جو لوگ آپ (ﷺ )پر ایمان لائیں گے‘‘
ہمیں تو مسلم گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے گویا وراثت میں ایمان مل گیا لیکن اصل ایمان وہ ہے جس میں یقین بھی ہو اور عمل اس کا ثبوت پیش کر رہا ہو ۔ عبادت ، اطاعت اور محبت سمیت ہر عمل اللہ کے لیے خالص ہو جائے اور رسول اللہ ﷺکی اطاعت اور محبت کے حوالے سے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ رہے تو یہ حقیقی ایمان ہوگا ۔ اس کے بعد آگے فرمایا گیا :
{وَعَزَّرُوْہُ} ’’اور آپ (ﷺ) کی تعظیم کریں گے‘‘۔
جیسا کہ حضورﷺ نے اپنی ایک حدیث میں بھی فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میری ذات اسے اس کے والدین، اس کی اولاد، اس کے تمام تعلق داروں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے۔ لہٰذا حضورﷺ سے محبت اور آپ ﷺ کی تعظیم بھی ایمان کا تقاضا ہے ۔ اس کے بعدفرمایا:
{ وَنَصَرُوْہُ }(الاعرف:157) ’’اور آپ کی مدد کریں گے‘‘
حضورﷺ کوتاقیامت تمام انسانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا ۔لہٰذا آپ ﷺکو جو مشن دے کر بھیجا گیا تھا اس کو جاری رکھنا ختم نبوت کے بعد اس اُمت کی ذمہ داری ہے ۔ اس کے لیےاپنی جان ، مال ، وقت اور صلاحیتوں کو لگانا نَصَرُ میں آجائے گا ۔ آگے فرمایا :
{وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٓٗ لا} ’’ اور پیروی کریں گے اُس نور کی جو آپﷺ کے ساتھ نازل کیا جائے گا۔‘‘
چوتھا تقاضا یہ ہے کہ اس نور کی اتباع کی جائے جو محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہو ا۔ لہٰذا ہر وہ مسلمان جو اپنا تعلق محمد رسول اللہ ﷺسے جوڑتا ہے اسے اس معیار پر اپنے آپ کو پرکھنا چاہیے کہ واقعی اس کو حضورﷺ سے محبت ہے۔ اگر واقعی محبت ہے تو پھر اسے ان چار تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے ۔ خاص طور پر حضور ﷺ کا جو مشن تھا اور جس کی ذمہ دار آپ ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر اس امت کو سونپی تھی :((فلیبلغ الشاھد الغائب))جو یہاں حاضر ہیں وہ ان تک پہنچائیں جو موجود نہیں ہیں ۔ زیر مطالعہ آیت کے آخر میں فرمایا؛
{اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(157)} (الاعرف:157)’’وہی لوگ ہوں گے فلاح پانے والے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے ہاں کامیابی اور سرفرازی سے ہمکنار ہونے والے صرف وہی لوگ ہوں گے جوان تقاضوں کو پورا کریں گے ۔
سوال:آج کے دور میں باطل قوتوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے ۔ چاہے فلسطین ہو ، کشمیر ہو ، برما ہو ، ہر جگہ مسلمان زیر اعتاب ہیں۔ ایسےحالات میں مسلمانوں کےلیے اُسوہ رسولﷺ میں کیا رہنمائی ہےکہ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی مدد کس طرح کی جائے ؟
ڈاکٹر عارف رشید:نبی اکرم ﷺ نے صلح حدیبیہ کے بعد مختلف ممالک کی جانب جو وفود بھیجے تھے تو اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ آپ ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں اور قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے ۔لہٰذا اس کتاب کے پیغام کو چہار دانگ عالم میں پہنچانا مسلمانوں کی ذمہ داری تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام ؇اپنے گھر بار اور جائیدادیں چھوڑ کر چہار دانگ عالم میں پھیل گئے ۔ حالانکہ نبی اکرم ﷺ کی سرزمین سے محبت انہیں بھی تھی ، بلکہ ہم سے زیادہ تھی ۔ مگر اکثریت میں صحابہ ؇نے اللہ کے دین کو دنیا میں پہنچانے کے لیے اپنے وطن سے دور اپنی جانوں کے بھی نذرانے پیش کیے ۔ آج مسلمان اگرچہ تعداد کے لحاظ سے پونے دو ارب ہیں لیکن ذلت و رسوائی گویا ان کا مقدر بنی ہوئی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ حقیقی ایمان ہمارے اندر موجود نہیں ہے ۔ کتاب اللہ کے تقاضوں پر عمل نہیں ہورہا ۔ جیسا کہ شیخ الہندمولانا محمود الحسن ؒنے جیل کی تنہائیوں میں غوروفکر کیا تھا تو اسی نتیجہ پر پہنچے تھے کہ آج اگر اُمت مسلمہ ذلیل و رسوا ہےتو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے اللہ کی کتاب سے اپنے تعلق کو منقطع کر لیا ہے ۔ آج جتنے مسلم ممالک ہیں ، ان کے حکمرانوں کا اگر طرزِ زندگی اور ان کی ترجیحات دیکھیں تو واضح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ ان لوگوں کی وفاداریاں کس کے ساتھ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ باطل قوتوں نے مسلمانوں کے خلاف درندگی کے تمام دروازے کھول رکھے ہیں ۔
سوال:بحیثیت مسلمان ہر شخص دین اور مذہب کے فرق کو جانتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں اس دین کی ہمیں کوئی واضح جھلک نظر نہیں آتی؟
ڈاکٹر عارف رشید: اصل میں سیکولرازم کا تصور اب اس درجہ راسخ ہو چکا کہ اچھے خاصے مذہبی اور دین دار لوگ بھی صرف مراسمِ عبودیت پر اکتفا کیے ہوئے ہیں اور اس سے آگے بڑھ کر ہمارے ہاں اگر کوئی دعوت و تبلیغ کا عمل نظر بھی آتاہے تو اس میں بھی صرف امربالمعروف کو ترجیح دی جاتی ہے حالانکہ نہی عن المنکر بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا امربالمعروف اہم ہے۔یعنی دین کا جامع تصور اب اکثر لوگوں کے سامنے نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگیوں میںبھی اس کی جھلک نظر نہیں آر ہی۔
سوال:ہمیں وہ فارمولا بتائیں کہ جس کے ذریعے ہم دین کے اس محدود تصور سے نکل کر دین کے جامع تصور کو سمجھ سکیں اور اس پر عمل پیرا ہو سکیں ؟
ڈاکٹر عارف رشید: پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک مکمل ضابطہ حیات قرآن کی شکل میں موجود ہے اور قران حکیم کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں نمازکا حکم بھی ہے ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج کا حکم بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کو وہاں جہاد کا حکم بھی نظر آئے گا ۔یعنی جسے آپ ایمان ِ حقیقی کہتے ہیں اس کی اصل شکل قرآن میں نظر آئے گی ۔ جیسا کہ سورہ حجرات کے آخر میں فرمایا :
{قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَاوَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ط} ’’یہ بدو کہہ رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔(اے نبیﷺ !ان سے ) کہہ دیجیے : تم ہر گز ایمان نہیں لائے ہو ‘بلکہ تم یوں کہو کہ ہم مسلمان (اطاعت گزار) ہو گئے ہیںاور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔‘‘
یہ مقام تو اس قدر واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کے ایمان کی نفی کی ہےجو کہتا تھاہے کہ میں ایمان لے آیاہوں ۔ اس سے کہا گیا کہ تم نے صرف اسلام قبول کیا ہے ، ایمان کسے کہتے ہیں اس کو اگلی آیت میں بیان کیا گیا :
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَO} (الحجرات :15) ’’مؤمن تو بس وہی ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اُس کے رسولؐ پر ‘پھر شک میں ہر گز نہیں پڑے‘اور انہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں۔یہی لوگ ہیں جو (اپنے دعوئ ایمان میں) سچے ہیں۔‘‘
موجودہ دور میں جہاد کو صرف قتال سے جوڑ دیا گیا ہےجبکہ قرآن جہاد کا ایک ہمہ گیر تصور پیش کرتا ہے ۔ قتال کے لیے قرآن میں الگ اصطلاح قتال فی سبیل اللہ کے نام سے آئی ہے ۔ جہاد کے اصل معنی ہیں اللہ کے دین کے لیے جدوجہد کرنا ۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ افضل جہاد اس شخص کا ہے جو اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کرتا ہے اور اسے اللہ کا مطیع وفرمان بنانے کے لیے کوشش کرتا ہے۔ جہاد کا آغاز اپنے نفس سے ہوگا اور یہی سب سے اہم مرحلہ ہوتاہے کیونکہ جس طرز زندگی کے ہم عادی ہوچکے اس میں کوئی تبدیلی نہیںلانا چاہتے جبکہ دوسری طرف اللہ کی شریعت کا حکم ہے ۔ جیسا کہ حضور ﷺنے فرمایا اس شخص کا تو قرآن پر ایمان ہی معتبر نہیں جس نے قرآن حکیم کی حرام کردہ شے کو اپنے لیے جائز اور حلال قرار دے دیا۔ لہٰذا سب سے پہلے جہاد اپنے نفس کے خلاف ہوگا اور اس کے لیے قرآن سے رہنمائی لینی ہوگی ، اس کو پڑھنا اور سمجھنا ہوگا اور پھر اس پر عمل کرنا ہوگا ۔ پھر ظاہر ہے کہ اس راستے پر چل کر آپ کو نہی عن المنکر کا فریضہ بھی ادا کرنا ہوگا اور پھر لوگوں کی مخالفت اور تلخ باتیں بھی برداشت کرنا ہوں گی ، کہیں تشدد اور نقصان بھی سہنا ہوگا ۔ ہو سکتا ہے کہیں دین کی گواہی دینے کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنے کی نوبت بھی آجائے۔ صحابہ ؇نے اسی طرز پر دین کی شہادت پیش کی تھی ۔ یہی اصل دین ہے ۔
سوال: احادیث مبارکہ میں ہمیں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی پیشین گوئیاں ملتی ہیں۔ بحیثیت پاکستانی ہمیں اسلام کے عالمی غلبے کے لیے کیا لائحہ عمل اپنانا چاہیے؟
ڈاکٹر عارف رشید: بہت واضح احادیث ہیں کہ قبل از قیامت پورے کرہ ارضی پر اللہ کا دین بالفعل قائم اور نافذ ہوگا انشاءاللہ! ایسا ہرگز نہیں ہے کہ باقی سب قومیں ختم ہو جائیں گی ۔ بلکہ حقیقت میں اسلام کا نظام سب پر غالب آجائے گا ۔ لیکن موجود ہ حالات میں اگر آپ دیکھیں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ ظاہری طور پر تمام طاقت اور ٹیکنالوجی باطل قوتوں کے پاس ہے ۔ ایک مثال فلسطین میں دیکھی جا سکتی ہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اور 57 مسلم ممالک اور پونے دو ارب مسلمان کچھ نہیں کر پارہے۔ احادیث میں یہ ذکر بھی موجود ہے کہ ایک بہت بڑی جنگ ہوگی جس میں کثرت کے ساتھ مسلمانوں کی شہادت ہوگی لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائے گا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا ، ان کے ہاتھوں دجال کا خاتمہ ہوگا اور اللہ کا دین غالب و قائم ہو کررہے گا۔ان شاء اللہ !