جاتے ہوئے کہتے ہو ’’لندن میں‘‘ ملیں گے
ایوب بیگ مرزا
گزشتہ سے پیوستہ!
کالم نگاروں کے ہاں یہ روایت ہے کہ اگر اپنے کسی سابقہ کالم میں درستگی یا وضاحت کرنا مقصود ہوتا تو وہ اپنے اگلے کالم کے آخر میں ’’گزشتہ سے پیوستہ‘‘ کا عنوان دے کر وضاحت یا تصحیح کر دیتے ہیں۔ راقم چونکہ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا ایک ادنیٰ ساتھی اور شاگرد ہے اور روایت شکنی ڈاکٹر صاحبؒ کا ایک سوچا سمجھا طرزِ عمل بھی تھا اور مزاج کا حصہ بھی تھا لہٰذا روایت شکنی کی اُن ہی کی سنت پر عمل درآمد کرتے ہوئے راقم گزشتہ سے پیوستہ کے عنوان سے اپنے گزشتہ کالم کی وضاحت آخر کی بجائے آغاز ہی میں دے رہا ہے۔ IPPS کے حوالے سے راقم نے عرض کیا تھا کہ یہ زرداری، شریف خاندان اور فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں ہوئی تھیں۔ یہ ایک ایسی دستاویزی حقیقت ہے کہ کوئی بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ جس چیز کی وضاحت مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ دنیا میں جو بھی اچھے بُرے کام ہوتے ہیں اُنہیں کسی عہد سے جوڑا جاتا ہے نہ کہ افراد سے جوڑا جاتا ہے۔ افراد خاص طور پر پاکستان جیسے نام نہاد جمہوری ملک میں ادھر سے اُدھر ہوتے رہتے ہیں۔ لہٰذا کسی سیاسی فرد کا کسی اچھے یا بُرے کام میں شامل ہونے کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ اُسے کسی عہد سے نہیں جوڑا جاتا۔ لہٰذا اٹل تاریخی حقیقت یہی ہے کہ IPPS سے معاہدے صرف اِن دو سیاسی خاندانوں اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوئے تھے البتہ عمران خان کے دورِ حکومت میں یہ ضرور ہوا تھا کہ IPPS سے لڑ جھگڑ کر ڈالر کا ریٹ فکس کروا لیا گیا تھا جس کی وجہ سے پاکستان آج بہت بڑے نقصان سے بچا ہوا ہے۔ اب آئیے کالم کی طرف۔
پاکستان میں حکومتوں کی تاریخ کا یہ ایک حصہ ہے کہ وہ احتساب کا عمل اپنے سیاسی حریفوں کو سامنے رکھ کر کرتی تھیں۔ اِسی پس منظر میں قانون سازیاں ہوتی تھیں اور ہوتی ہیں بلکہ اُس میں یہ اضافہ بھی ہو چکا ہے کہ قانون سازی کا ٹارگٹ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے گناہ نہ پکڑیں جا سکیں۔ ایوب خان نے اپنے دور میں ایبڈو جیسے قوانین بنا کر اپنے سیاسی حریفوں پر زندگی تنگ کی۔ نواز شریف نے احتساب کا سلسلہ شروع کر کے سیف الرحمٰن جیسے آدمی کو اُس کا سربراہ بنا کر پیپلز پارٹی والوں کو نکیل ڈالی۔ پھر فوجی طالع آزما پرویز مشرف نے نیب کا ایک باقاعدہ ادارہ بنایا اور ایک لکیر کھینچ دی تھی۔ جو لکیر کے اس طرف آ جائیں گے اُن کی سات نسلوں کے جرائم بھی معاف اور جو مخالف سمت میں رہیں گے اُن کی ایسی تیسی کر دی جائے گی۔ عمران خان کو بھی اِس معاملے میں استثناء حاصل نہیں تھا۔ وہ اپنے سیاسی حریفوں کو نیب کے شکنجے میں لاتا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ قمر جاوید باجوہ اُنہیں بچا لیتا تھا اِس لیے کہ اُس کے اپنے عزائم تھے۔ وہ بادشاہ گر کے طور پر مسلط رہنا چاہتا تھا اور بعد از عمران خان ایجنڈے پر کام کر رہا تھا۔ اور موجودہ دور میں تو تمام حدود ہی کراس ہو چکی ہیں کہ مقدمات جھوٹے تو ہمیشہ ہوتے تھے انہوں نے ایسے مضحکہ خیز مقدمات قائم کیے کہ سننے والوں کے لیے ہنسی روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بہرحال پرویز مشرف کے قائم کردہ نیب کے ادارے کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی ہیں۔ نیب قوانین کی وجہ سے لوگ گردن تک دبوچے جا چکے تھے۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف جب عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی اور حکومت PDM کی جھولی میں آگری تو ایسا نہیں کہ PDM والوں کو معلوم نہیں تھا کہ حکومت لینا نقصان دہ ہوگا۔ ہاں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُنہیں یہ معلوم نہیں ہوگا کہ اِس قدر زیادہ نقصان ہوگا کہ عوام کی ایک بڑی اکثریت اُن کا نام سننا بھی پسند نہیں کرے گی۔ بہرحال اُنہوں نے تمام خطرات کا ادراک رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ حکومت حاصل کرو تاکہ ماضی میں کیے ہوئے تمام جرائم پر قانونی پردہ ڈالا جا سکے اور اُن کے منطقی انجام سے بچا جا سکے۔ ایک طرف شہباز شریف پر عدالت میں فردِ جرم عائد ہونے کی تیاری ہو رہی تھی اور دوسری طرف اُن ہی دنوں میں اُسے وزیراعظم بنانے کے لیے محلاتی سازشیں عروج پر تھیں۔ بہرحال عدل ہار گیا اور طاقت اُنہیں وزیراعظم بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ طاقت کی اِس کامیابی نے عدل کا ایسا حلیہ بگاڑا کہ پارلیمنٹ نے منہ پھاڑ کر یہ تو نہیں کہہ دیا کہ دو خاندان اور اُن کے اہلکاروں کے لیے سب جائز ہے، ان کی کرپشن کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا لیکن خاموشی سے نیب قوانین کو ایسی عملی شکل دے دی کہ منہ پھاڑ کر کہنا نہ پڑا اور ضرورت پوری ہوگئی اور مطلوبہ مقاصد بھی حاصل ہوگئے۔ عمران خان نے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔ چند دن پہلے سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے حوالے سے اپنا فیصلہ صادر فرمایا ہے۔ عدالتی فیصلہ چونکہ پبلک پراپرٹی ہوتا ہے اور اُس پر ردعمل کا ہر شہری کو حق حاصل ہوتا ہے لہٰذا ہمارا تبصرہ یہ ہے کہ PDM کی جماعتیں خاص طور پر مسلم لیگ (ن) جس غیبی مدد کی منتظر تھی وہ اُنہیں مل گئی۔ حضرت عیسیٰ ؑ کا دنیاوی ورود تو نہ ہوا لیکن وہ جس کے انتظار میں تھے وہ آئے۔ فیصلے کا مطالعہ کیجئے صاف دکھائی دیتا ہے کہ حکومت اور اتحادی جماعتوں کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ پاکستان میں طاقتور اشرافیہ آج تک کبھی نہیں ہارا۔ چند سال پہلے ایک ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا تھا اُس کا نتیجہ بھی یہی نکلا تھا کہ تمہیں حق ہے جو چاہو کرو۔ پوچھنے والے کی خیر نہیں ہوگی۔ ابھی یہ تحریر یہاں تک رقم ہوئی تھی کہ محترم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی وہ تقریر میڈیا پر آگئی جو اُنہوں نے نئے عدالتی سال کے موقع پر کی۔ اس تقریب میں جو کچھ اُنہوں نے کہا ہمارے لیے بہت سود مند ثابت ہوا کہ ایک عدالتی شخصیت کے بارے میں کھل کر کچھ کہنے سے راقم جھجک محسوس کر رہا تھا لیکن محترم چیف جسٹس نے کمال مہربانی سے معاملہ آسان کر دیا۔ اُنہوں نے اپنی تحسین کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ مجھ سے پہلے بنچ بنتے ہی معلوم ہو جاتا تھا کہ فیصلہ کیا آئے گا اور اب تو مجھے اپنے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے ججوں کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا فیصلہ کریں گے۔ راقم کا خیال ہے کہ وہ کچھ بھول گئے ہیں وگرنہ اُن کے دور میںتو بنچ بنتے ہی لوگ باآواز بلند فیصلہ بتا دیتے ہیں۔ جب تحریک انصاف کے نشان کے حوالے سے محترم چیف جسٹس نے بنچ بنایا تو بالکل صاف یہ آواز سنائی دینے لگی تھی کہ تحریک انصاف بلّے کے نشان سے محروم ہو جائے گی۔ فیصل واڈا تو مختلف چینلز سے یہ فیصلہ 13 جنوری سے کہیں پہلے سنا چکا تھا۔ نیب ترامیم کیس کا فیصلہ بھی سب دنیا کو معلوم تھا کہ حکومت کے حق میں آئے گا۔ پھر جب تین ہارے ہوئے مسلم لیگی امیدوار دوبارہ گنتی کے لیے سپریم کورٹ پہنچے تو بنچ بننے پر ہی مشہور ہوگیا کہ جیتنے کے باوجود یہ نشستیں یہ بنچ مسلم لیگ کو تحفہ کے طور پر دے دے گا۔ علاوہ ازیں کون نہیں جانتا کہ فوجی عدالتوں والا کیس stay پر کیوں رکا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے درجنوں کارکن جیلوں میں سڑ رہے ہیں، اُن کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ کون نہیں جانتا کہ عمران خان کی 8 فروری کے انتخابات کے حوالے سے پٹیشن آج تک کیوں سنی نہیں گئی۔ کیا یہ عرضداشت پیش کی جا سکتی ہے کہ چھ ججوں کے خط والے کیس کی سماعت کیوں نہیں ہو رہی۔ محترم! آپ کریڈٹ لیتے ہیں کہ فروری میں انتخابات آپ نے کروائے۔ محترم! اگر آپ اِس کا کریڈٹ لیتے ہیں تو پھر اِس کا جواب آنا چاہیے کہ یہ نومبر میں آئینی مدت کے دوران کیوں نہ ہوئے؟ آپ اُس سے پہلے چیف جسٹس بن چکے تھے۔ پھر آپ کے کرائے گئے انتخابات کے بارے میں اسسٹنٹ کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے جو سرِ بازار بھانڈا پھوڑا تھا، اُس پر بھی آپ کا تبصرہ سامنے نہیں آیا۔ آپ نے شوکت عزیز صدیقی پر الزامات ختم کرنے کا کریڈٹ لیا ہے۔ بالکل درست ہے لیکن اُس حوالے سے آپ کو اپنے فیصلے سے وہ تحقیقات بھی سامنے لانی چاہیے تھیں جو الزامات شوکت عزیز صدیقی نے لگائے تھے اُن کا ذکر گول ہوگیا۔ محترم یہ تو راقم نے چاولوں کی دیگ میں سے چند دانے سامنے رکھے ہیں کیونکہ تنگی داماں کا معاملہ ہے وگرنہ بہت کچھ عرض کیا جا سکتا تھا۔ ایک وقت میں آپ نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ میرے دور میں لوگ اٹھائے اور غائب نہیں کیے گئے۔ لیکن اُن کی فہرست بناتے ہوئے قلم کانپ جاتا ہے۔ قاضی صاحب حقیقت یہ ہے کہ آپ کا معاملہ الگ نہیں یہ معاشرہ جس ڈگر پر ہے اُس کی وجہ یہ ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ پارلیمنٹ اپنی بالادستی کا دعویٰ کرتی ہے۔ پارلیمنٹ یقیناً ایک انتہائی باعزت اور باوقار ادارہ ہے لیکن اگر صورتِ حال یہ ہو کہ جیتے ہوئے لوگ پارلیمنٹ سے باہر بیٹھے ہوں اور ہارے ہوئے لوگ اسمبلی ہال میں بیٹھ کر خود کو پارلیمنٹ کہہ رہے ہوں تو سچ پوچھیے کون اس کو مانے گا۔ آئینی ترمیم نہ ہونے کی وجہ سے جو صورتِ حال اب بنتی دکھائی دے رہی ہے اِس کا نتیجہ تو یہ نکلتا نظر آتا ہے کہ Refrence Surviver اور نیب ترامیم سے مستفید ہونے والے اب لندن میں مل بیٹھیں گے
’’آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک‘‘
حقیقت میں اس وقت اندھیر مچا ہوا ہے۔ راقم ہرگز یہ تو نہیں کہے گا کہ یہ پاکستان کا مقدر ہے۔ جھوٹ اورظلم کا اندھیر مچانے والوں کے لیے کہا گیا ہے: ’’اَت خدا دا ویر‘‘ انسان جلد باز ہے، جلد نتائج چاہتا ہے جب کہ اللہ رب العزت کے فیصلے اور مقرر کردہ وقت صد فی صد درست ہوتا ہے۔ اللہ کی سنت یہ رہی ہے کہ وہ ڈھیل دے کر انسانوں کے اندر کی گندگی اور غلاظت کو پوری طرح باہر آنے کا موقع دیتا ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025