(منبرو محراب) ختم نبوت کی تکمیلی شان اور عملی تقاضے - ابو ابراہیم

10 /

ختم نبوت کی تکمیلی شان اور عملی تقاضے

(قرآن و حدیث کی روشنی میں)

 

مسجد جامع القرآن، قرآن اکیڈمی ،لاہور میںامیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے6ستمبر 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد!
گزشتہ جمعہ ہم نے سورۃ الاحزاب کی آیات 45 اور 46 کا مطالعہ کیا تھا جہاں اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ کی پانچ شانوں کو بیان فرمایا ہے اور آپﷺ کی ذمہ داریوں میں سے جودعوت و تبلیغ کی ذمہ داری تھی اس کا تذکرہ آیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں، قرآن حکیم اللہ کا آخری کلام ہے۔ ختم نبوت پر ایمان رکھنا ، ختم نبوت کے عقیدے کا تحفظ کرنا ہر مسلمان پرفرض ہے ۔ اسی فرض کی ادائیگی کے لیے قادیانیت کے فتنے کا تعاقب کیا گیا اوردینی طبقات کی طرف سے تحریک چلائی گئی۔ آج سے 50 برس پہلے7ستمبر 1974ء کو اس تحریک کے نتیجے میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تو یہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی ۔تاہم یہ ختم نبوت کا قانونی اور عقیدے کے لحاظ سے ایک پہلو ہے۔ حقیقت میں ختم نبوت کے کچھ عملی تقاضے بھی ہیں۔ اسی طرح ختم نبوت کی تکمیلی شان کا بیان بھی قرآن میں آیا ہے۔ آج انہی دو موضوعات پر کلام کرنا مقصود ہے ۔ ان شاء اللہ ۔
ختم نبوت کی تکمیلی شان
بنیادی بات قرآن میں یہ بیان فرما دی گئی کہ :
{مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ط}(الاحزاب:40) ’’(دیکھو!)محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں اور سب نبیوں پر مہر ہیں۔‘‘
خود حضورﷺ نے فرمایا:(( لا نبی بعدی )) ’’ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔ ‘‘اور آپﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر آج موسیٰ علیہ السلام بھی آ جائیں تو میری اتباع کے سوا اُن کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ حضرت عیسیٰ؈ بھی اس دنیا میں جب دوبارہ تشریف لائیں گے تو وہ بھی نئے نبی کی حیثیت سے نہیں آئیں گے بلکہ رسول اللہ ﷺ کی شریعت پر ہی عمل کریں گے۔قرآن حکیم میں ختم نبوت کی دلیل کےطور پر فقط یہ ایک ہی آیت نہیں ہے بلکہ قرآن مجید میں کم وبیش 100 مقامات ایسے ہیں جن میں ختم نبوت کے دلائل ہیں ۔ مفتی شفیع ؒنے ان مقامات کی نشاندہی اپنی ایک کتاب میں کی ہے ۔ مثال کے طور پر سورۃ البقرہ کے شروع میں ہم پڑھتے ہیں:
{وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَـیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَج} ’’اورجو ایمان رکھتے ہیں اُس پر بھی جو (اے نبیﷺ) آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے‘اور اُس پر بھی (ایمان رکھتے ہیں) جو آپؐ سے پہلے نازل کیا گیا۔‘‘
یہاں اس پر ایمان لانے کا ذکر ہے جو آپ ﷺپر اور آپ ﷺ سے پہلے نازل ہوا ۔ بعد کا ذکر نہیں ہے ۔ اگر آپ ﷺ کے بعد بھی کچھ نازل ہونا ہوتا تو یہاں اس کا ذکر اللہ تعالیٰ ضرور فرماتا ۔اس کا مطلب ہے کہ اب کوئی وحی نہیں آئے گی ، نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ کے بعد جب بھی کوئی نبوت کا دعویٰ لے کر کھڑا ہوا تو امت نے اس کے خلاف جہاد و قتال کیا ۔ جیسے مسیلمہ کذاب کے خلاف قتال میں 1200 صحابہ کرام ؇ نے شہادت پیش کی ۔ 50 سال پہلے پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ہماری اسمبلی نے13 دن کی کارروائی کے بعد قادیانیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا ۔ اس واقعہ کے پچاس سال بعد دوبارہ اللہ نے پاکستان کو یہ اعزاز بخشا کہ فتنہ قادیانیت کی ایک مرتبہ پھر سرکوبی ہوئی اور مبارک ثانی کیس میں عدالت کا فیصلہ امت کے حق میں آیا۔ الحمدللہ!اس مرتبہ بھی پوری قوم نے کردار ادا کیا ۔ چاہے پارلیمنٹ ہو، وکلا ءہوں ، علماء ہوں، عوام ہو ، ججز ہوں، سب نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے کردار ادا کیا۔ یہ ختم نبوت کا عقیدے کے لحاظ سے اور قانونی لحاظ سے ایک تقاضا ہے کہ جوختم نبوت پر یقین رکھے گا وہی مسلمان قرار پائے گا ورنہ اللہ کو ماننے کا دعوی اور آخرت کو ماننے کا دعویٰ تو یہودونصاریٰ بھی کرتے ہیں۔قرآن میں فرمایا:
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّـقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ(8)}(البقرۃ) ’’اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے تو یہ ہیں کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ پر بھی اور یومِ آخر پر بھی‘ مگر وہ حقیقت میں مؤمن نہیں ہیں۔‘‘
یہود موسیٰ ؈ کو مانتے ہیں، اللہ کو بھی مانتے ہیں اور آخرت کو بھی مانتے ہیں مگر محمد مصطفیٰ ﷺکو نہیں مانتے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا توحید کا دعوی، تمہارا آخرت کو ماننے کا دعوی باطل ہے، اگر تم محمد مصطفیٰ ﷺ پر ایمان نہ لاؤ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا تو اس کا ایمان کا دعویٰ باطل ہے ۔
ڈاکٹراسراراحمدؒ نے جامع انداز میں اس پہلو کو نمایاں کیا کہ آپ ﷺ پر نبوت صرف ختم ہی نہیں ہوئی بلکہ اپنی تکمیلی شان کے ساتھ اس کا ظہور بھی ہوا ہے ۔ یعنی حضور ﷺ پر نبوت ختم بھی ہوگئی اور اس کی تکمیل بھی ہوگئی ۔ اللہ تعالیٰ نے اعلان فرما دیا:
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَـکُمْ دِیْـنَـکُمْ}(المائدہ:3) ’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیاہے‘‘
یہ حضورﷺ کی نبوت کی تکمیلی شان ہے جس کا حجۃالوداع کے موقع پر رب کائنات کی طرف سے اعلان کیا گیا ۔ مفسرین نے اس کی ایک بہترین تشریح سورۃ القلم کی اس آیت کی روشنی میں بھی کی ہے :
{وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (4)} ’’اور آپؐ یقینا اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں۔‘‘
محاورتاً بھی کہا جاتا ہے کہ اخلاق آپ ﷺ پر آکر ختم ہو گیا ۔یعنی اس سے بڑھ کر اخلاق کا تصور اب ممکن ہی نہیں۔ یعنی آپ ﷺپر آکر اخلاق کی تکمیل ہوگئی۔ حضورﷺنے خود فرمایا:
((إنما بعثت لاتمم مكارم الاخلاق)) ’’ مجھے اس لیے بھیجا گیاکہ میں اعلیٰ ترین اخلاق کی تکمیل کر دوں ۔‘‘
لہٰذا آپﷺ پر نبوت صرف ختم ہی نہیں ہوگئی بلکہ اس کی تکمیل بھی ہوگئی ۔ پہلے انبیاء کسی خاص علاقے ، قوم یا وقت کے لیے آتے تھے لیکن آپﷺ کی رسالت عالمگیر بھی ہے اور قیامت تک کے لیے بھی ۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا :
{وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ(107)}(الانبیاء ) ’’اور (اے نبیﷺ!) ہم نے نہیں بھیجا ہے آپ کو مگر تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر۔‘‘
{قُلْ یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَـیْکُمْ جَمِیْعًا}(الاعراف:158)’’ (اے نبی ﷺ!)کہہ دیجیے اے لوگو! میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف‘‘
{وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا}(السبا:28)’’اور (اے نبیﷺ!) ہم نے نہیںبھیجا ہے آپ کو مگر تمام بنی نوعِ انسانی کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر‘‘
سابقہ انبیاء کو بھی کتابیں دی گئیں مگر ان میں تحریف ہو گئی، اللہ نے ان کی حفاظت کا ذمہ نہ لیا لیکن حضورﷺ کو قرآن عطا ہوا اور اللہ نے اس کی حفاظت کا ذمہ تاقیامت لیے لیا ۔
{اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ(9)} (الحجر)
’’یقینا ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور بلاشبہ ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘
پھر یہ کہ تمام سابقہ انبیاء بھی دین اسلام ہی لے کر آئے ۔ فرمایا:{اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف} (آل عمران:19) ’’یقینا ً دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔‘‘
ہر پیغمبر نے اسلام کی دعوت دی مگر کسی پر دین کی تکمیل کا اعلان نہ ہوا۔ حضورﷺ پر آ کردین کی تکمیل کا اعلان ہو گیا ۔ یہ تمام چیزیں حضور ﷺکی نبوت کی تکمیلی شان کا اظہار ہیں ۔ لہٰذا اب کسی نبی کی ضرورت نہیں رہی۔پہلے ایک علاقے میں نبی آتے تھے دوسرے علاقوں میں بھی نبی کی ضرورت ہوتی تھی کیونکہ کمیونیکیشن کے ذرائع اتنے نہیں تھے ۔ اسی طرح پہلے ایک نبی پر کتاب نازل ہوتی تھی ، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں لوگ تحریف کر دیتے تھے تو دوسرے نبی پر دوبارہ کتاب نازل ہوتی تھی ۔پھر یہ کہ پہلے زندگی سادہ تھی ، لوگ غاروں میں رہتے تھے ، پھر قبائلی زندگی کا دور آیا ، پھر شہر بسنے لگے ۔اسی طرح جوں جوں انسانی عقل ، تمدن اور معاشرہ ارتقاء کرتا گیا تونئے شرعی احکام کی ضرورت پڑتی رہی اور ہر نبی اس دور کے تقاضوں کے مطابق شریعت لے کر آتا رہا۔ رسول اللہ ﷺ کے دور تک انسانی عقل ، تمدن اور معاشرہ اتنا ترقی کر چکا تھا کہ اب ایک مستقل شریعت کی ضرورت تھی۔ ریاستیں وجود میں آچکی تھیں۔ دنیا بھر میں انسانوں کے آپس میں رابطے تھے ۔ لہٰذا حضور ﷺ کی رسالت اپنی تکمیلی شان پر آن پہنچی ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے کتابچے ’’نبی اکرمﷺ کا مقصد بعثت‘‘ میں تجزیہ موجود ہےکہ نبی اکرم ﷺپر آکر دین کی تکمیل کیوں ہوئی، پہلے کیوں نہیں ہوئی ، آپ پر قرآن کیوں نازل ہوا پہلے کیوں نہیں ہوا ۔ ایک سادہ مثال یہ ہے کہ دسویں جماعت کی کتاب پہلی جماعت کے بچے کو نہیں پڑھائی جاتی اور M.Aکی کتابیں دسویں جماعت کے بچوں کو نہیں پڑھائی جاتیں ۔ یعنی حضورﷺ کے زمانے تک فکری، تمدنی اور معاشرتی ارتقاء اتنا ہو چکا تھا کہ اب قرآن کی ضرورت تھی ۔ یہ نبی اکرمﷺ کی نبوت کی تکمیلی شان کا ذکر تھا۔ اب ہم اس طرف آتے ہیںکہ اس تکمیلی شان کے تقاضے کیا ہیں ؟
ختم نبوت کے عملی تقاضے
حضورﷺ نے اللہ کے دین کو نہ صرف زبانی سطح پر پہنچایا ہے بلکہ اپنے عمل اور کردار سے بھی دین کی شہادت پیش کی۔ مثال کے طور پر آپﷺ نے فرمایا :
((صلوا کمارائتمونی اصلی)) ’’نماز ایسے ادا کرو جیسے مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔ ‘‘
یعنی آپﷺ نے اپنے عمل سے نماز کا طریقہ بتایا۔ اسی طرح حج کے بارے میں فرمایا :
((خذوا عنی مناسککم)) ’’(اے لوگو! )مجھ سے احکام حج اچھی طرح سیکھ لو ۔‘‘
یعنی آپﷺ نے ذاتی کردار اور عمل سے بھی بتایا کہ دین کے تقاضوں پر عمل کس طرح کرنا ہے ۔پھر اس سب سے آگے بڑھ کر ختم نبوت کی تکمیلی شان یہ بھی ہے کہ حضور ﷺنے دین کو قائم کر کے بھی دکھایا۔ آپ ﷺ سے پہلے تو کئی انبیاء شہید ہوگئے اور کئی کی قوموں نے ان کا ساتھ نہیں دیا ۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کورا جواب دے دیا:
’’بس تم اور تمہارا رب دونوں جائو اور جا کر قتال کرو‘ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘(المائدۃ:24)
اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس تک استقامت کا مظاہرہ کیا ، لیکن ساڑھے نو سوسال کی محنت کے باوجود ان کی بیوی اور بیٹا بھی نافرمان رہے ۔ بائبل کے مطابق ستر اور اسی کے درمیان لوگ ایمان لائے۔ واللہ اعلم۔ اگر اوسط نکالیں تو تقریباً 14 سال میں ایک بندہ ایمان لایا ۔ مگر نوح علیہ السلام اللہ کے ہاں کامیاب ہیں۔ حضور ﷺکی نبوت کی تکمیلی شان کا امتیاز یہ ہے کہ حضورﷺ کے ہاتھوں یہ دین غالب ہوا۔
ڈاکٹراسراراحمدؒ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی نبوت کی ایک اور تکمیلی شان یہ ہے کہ آپ ﷺ کی رسالت کو اللہ تعالی نے عالمگیرقرار دیااور آپ کو جو مشن سونپا گیا وہ پوری دنیا کے لیے تاقیام قیامت ہے ۔ فرمایا : 
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر‘‘(الصف:9)
آپ ﷺنے 23 سال کی جدوجہد سے جزیرۃ العرب میں اس مشن کو پوراکرکے دکھایا ۔اس کے بعد حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺنے اس امت کے ذمہ یہ ذمہ داری لگائی کہ وہ اسی طرح دین کو پوری دنیا میں  پہنچائیں۔ آپﷺ نے فرمایا :((فلیبلغ الشاھد الغائب)) ۔صحابہ کرام؇ اس پیغام کو لے کر کھڑے ہوئے ۔ ایک معروف رائے کے مطابق حجۃ الوداع کے موقع پر سوا لاکھ صحابہ کرام؇ تھے جبکہ جنت البقیع میں کم و بیش 10 ہزار مدفون ہیں ۔ باقی سب کی قبریں کہیں چائنہ میں مل رہی ہیں ، کہیں ترکیہ میں مل رہی ہیں اور کہیں افریقہ میں مل رہی ہیں ۔ اس لیے کہ صحابہ کرام ؇نے ختم نبوت کے عملی تقاضا کو پورا کیا اورجو مشن آپ ﷺسونپ کر گئے تھے اُس کی تکمیل کے لیے انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کردیں ۔ وہ رُکے نہیں۔ یہاں تک کہ سمندر میں جا کے گھوڑے کھڑے کر دیےکہ اے اللہ ! تیری زمین ختم ہو گئی مگر ہمارا جذبہ ختم نہیں ہوا۔حضور ﷺ نے حکم دیا تھا :
((علیکم بسنتی و سنۃ خلفائے راشدین المہدیین)) ’’تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا۔ ‘‘
جب تک اُمت ختم نبوت کے عملی تقاضوں کو پورا کرتی رہی، اللہ نے اسے دنیا میں بالادست کیے رکھا ۔ مگر آج اُمت اس مشن کو بھول چکی ہے ۔ آج عقیدے کے لحاظ سے یا قانونی اعتبار سے تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں اور قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے اور اس عقیدے کا ہم تحفظ بھی کرتے ہیں لیکن ختم نبوت کا جو عملی پہلو ہے کہ اللہ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا ، اللہ کے دین کی دعوت دینا اور پھر ختم نبوت کے عملی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے آپ ﷺ کے مشن کو جاری رکھنا ،یعنی اللہ کے دین کو قائم و نافذ کرنے کی جدوجہد کرنا۔ آج اُمت یہ سبق بھول چکی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہےکہ ہم نے کلمہ پڑھ لیا تو جنت پکی ہو گئی۔ بعض توصرف عید کی دو رکعت پڑھ کر بھی مطمئن ہیں۔ بعض کہتے ہیںجمعہ کی دو رکعت بھی ادا کرلینی چاہئیں کیونکہ حدیث سے پتا چلتا ہے کہ تین جمعے Miss ہو گئے تو دل پر سیاہ دھبہ پڑجاتاہے۔ ہو سکتا ہے ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوں جو تیسرا جمعہ پڑھ لیتے ہوں۔ بعض نے نماز، روزہ،زکوٰۃاورحج تک اپنے آپ کو محدود کر رکھا ہے۔ جبکہ ہمارے لیے اُسوہ حضور ﷺکی سیرت کو بنایا گیا ۔ فرمایا:
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ } (الاحزاب:21) ’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے ‘‘
اُسوہ حسنہ میں طائف میں بہتا ہوا خون بھی ہے ، ہجرت کی راتوں کے دوران بیت اللہ کو الودا ع کہنا بھی ہے،اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں پیٹ پر پتھر باندھنا اوردو دو ماہ کے فاقے بھی ہیں ،میدان اُحد میں اپنے پیارے چچا سمیت 70 عظیم صحابہ ؇کی شہادت بھی ہے۔ اس پوری جہدوجہد میںکم و بیش 259 صحابہ؇ کی جانوں کا نذرانہ بھی ہے۔ تب قرآن کہتا ہے:
{وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ ط}(بنی اسرائیل:81) ’’اور آپؐ کہہ دیجیے کہ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا۔‘‘
{اِذَا جَآئَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ(1) وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا(2)}(النصر) ’’جب آ جائے مدد اللہ کی اور فتح نصیب ہو۔اور آپؐ دیکھ لیں لوگوں کو داخل ہوتے ہوئے اللہ کے دین میں فوج در فوج۔‘‘
استاد محترم بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا اس موضوع پر ایک بہت جامع خطاب ہے جو ’’ختم نبوت کے دو مفہوم اور تکمیل رسالت کے عملی تقاضے‘‘ کے عنوان سے کتابچے کی شکل میں بھی موجود ہے۔اس میں ختم نبوت کے عملی تقاضوں کے بہت سے پہلوؤں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ اُجاگر کیا گیا ہے۔ڈاکٹر صاحب ؒ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ چونکہ حضور ﷺکی رسالت عالمگیر ہے، سارے عالم کے لیے آپ ﷺکو مشن دے کر بھیجا گیا ہے لہٰذا جب تک پوری زمین پر اللہ کا دین غالب نہیں ہو جاتا حضور ﷺ کا مشن تکمیل کو نہیں پہنچا ۔ مسلم شریف کی روایت ہےکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: میرے رب نے ساری زمین مجھے لپیٹ کر دکھا دی، میں نے اس کے مشرق بھی دیکھے، مغرب بھی دیکھے ، میری اُمت کا اقتدار وہاں تک پہنچے گا جہاں تک زمین مجھے لپیٹ کر دکھا دی گئی ۔ایک اور حدیث میں ہے کہ کوئی گھر یا خیمہ نہیں بچے گا جس میں اللہ کا دین داخل نہ ہو ، یا تو اسلام قبول کرکے مسلمانوں کے مساوی مرتبہ پائیں گے یا پھر ذمی بن کر اسلامی ریاست کی بالادستی قبول کرے گا ۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ یہ ہوکر رہے گا کیونکہ حضور ﷺ کا ارشادہے۔ کب ہوگا، یہ صرف اللہ جانتاہے مگر بحیثیت مسلمان ہمار ا امتحان ہے کہ ہم حضور ﷺکے اس مشن کے لیے کیا کر رہے ہیں ؟کس وقت کس کی موت آجائے ، ہم اللہ کو کیا جواب دیں گے ؟ 
یہ مملکت خداداد اللہ اوراللہ کے رسول ﷺکے نام پر لے کرہم بیٹھے ہوئے ہیں۔اسی ختم نبوت کےعملی تقاضے کی تکمیل کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا ۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا : میں نے دنیا کے مسائل پر جہاں تک غور کیا، ان کا حل اسلامی شریعت کے سوا کہیںنظر نہیں آیا ۔ اسلامی شریعت کیسے نافذ ہوگی جب تک کہ ہمارے پاس اپنا آزاد خطہ نہ ہو۔ اسی طرح قائداعظم نے فرمایا : میرا ایمان ہے کہ پاکستان رسول اللہ ﷺ کا روحانی فیضان ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ خلافت راشدہ کے اصولوں کو سامنے رکھ کر عہد حاضر کی اسلامی فلاحی ریاست دنیا کے سامنے پیش کریں۔آج ہمارے جملہ مسائل اور مصائب کی بنیادی وجہ اس عہد سے روگردانی ہے ۔ ہم اُلٹے لٹک جائیں تب بھی ہمارے مسئلے حل نہیں ہوں گے جب تک کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ وفاداری کی طرف لوٹ کر نہ آئیں۔اسی بے وفائی کے نتیجہ میں آدھا ملک ہم کھو چکے ہیں ، آج بلوچستان میں بھی آوازیں اُٹھ رہی ہیں ، کے پی کے اور سندھ میں بھی مسائل چل رہے ہیں ۔ یہ مسائل تب ہی ختم ہو ں گے جب ہم اللہ سے کیے ہوئے وعدے کو پورا کریں گے ۔
ماہ ربیع الاول کا آغاز ہو چکا ہے ۔ پروگرامز بھی ہوں گے ، خطاب بھی ہوں گے ، سیرت کانفرنسز بھی ہوںگی ، چھٹی بھی ہوگی ،کھانا پینا بھی ہوگا، سب کچھ چلے گا مگر تھوڑی دیر کے لیے تنہائی میں بیٹھ کر سو چئے ! عشق رسول کے ہمارے اتنے دعوے ہیں ، کیا ہم حضور ﷺ کے مشن پر بھی چل رہےہیں ؟ کیا آج ہماری توانائیاں اس مشن کے لیے لگ رہی ہیں ؟آج دنیا میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے ، اللہ کے احکام اور شریعت کو چیلنج کیا جارہا ہے۔ نبی ﷺ کا دین آج کس حال میں ہے؟  کیا ہمارے چہرے کا رنگ بھی تبدیل ہوتا ہے؟ کل اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے کیا منہ لے کر جائیں گے ، کس منہ سے شفاعت کے طلبگار ہوں گے ؟ دل میں شفاعت کی آرزو ہو اور اعمال میں نبی ﷺ کی سنت اور دین سے بغاوت ہو ، اغیار کی ، باطل قوتوں کی طرفداری ہو ، ہمارے اوقات باطل کا ساتھ دینے میںصرف ہورہے ہوں تو دل سے پوچھئے کہ شفاعت کی توقع رکھیں یا شکایت کی توقع رکھیں ؟ حضورﷺ نے فرمایا: جس نے میری سنت سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔
حضورﷺکی سب سے بڑی سنت اقامت دین کی جدوجہد ہے جس کے لیے آپ ﷺ نے مسلسل 23 برس جدوجہد کی ۔ آج ہم تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے یہی دعوت دیتے ہیں کہ ہم محمد مصطفی ﷺ کےاُمتی ہیں لہٰذا امتی والا کام کریں کہ جو ختم نبوت کے عملی تقاضے ہیں ان کو بھی پورا کریں۔ دین کی دعوت لوگوں تک پہنچائیں  اور نفاذ دین کی جدوجہد کریں ۔ تب اِدھر اللہ کی رحمتیں بھی برسیں گی اور اُدھر حضور ﷺ کی شفاعت بھی ملے گی ۔
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اللہ تعالی ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!