(اداریہ) اکھنڈبھارت کا نظریہ vs نظریۂ پاکستان - خورشید انجم

10 /

اداریہ
خورشید انجماکھنڈبھارت کا نظریہ vs نظریۂ پاکستان

تین صدی قبل مسیح میں چندر گپت موریہ ہندوستان کے حکمران تھے اور ان کی حکومت کی سرحدیں جہاں تک پھیلی ہوئی تھیںوہیں تک دوبارہ انڈیا کی حکمرانی کو پھیلانا ہی اکھنڈ بھارت یا غیر منقسم ہندوستان کا نظریہ ہے۔ہندو توا کے اس نظریے میں جنوبی ، مشرقی اور وسطی ایشیا کے وہ ممالک بھی شامل ہیں جن میں ہندو ازم یا بدھ مت موجود ہے۔ اکھنڈ بھارت کے نقشے ، جسے مودی نے بھارتی پارلیمنٹ میں بھی آویزاں کر رکھا ہے، اس میں انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، کشمیر، تبت، نیپال ، بھوٹان، افغانستان، سری لنکا، برما کے علاوہ انڈو نیشیااور ملائیشیا کے کچھ حصے شامل ہیں۔اکھنڈ بھارت کا نظریہ محض انتہا پسند ہندو توا کی ذہنی اختراع اور ایک افسانہ ہے جس کااس شکل میں دنیا میں کبھی بھی کوئی وجود نہیں رہا ۔ چندر گپت موریا کی سلطنت کا نقشہ دیکھیں تو وہ بھی پورے ہندوستان پر محیط نہیں تھا ۔ خاص طور پر جنوبی ہند اور سری لنکا کے علاقے اس سے باہر تھے ۔ کہاں یہ کہ انتہا پسند ہندو آج وسط ایشیاء ، ملائشیا اور انڈونیشیاء تک کو اکھنڈ بھارت میں شمار کر رہے ہیں ۔ حقیقت میں وہ تمام علاقے جن کو آج ہندو انتہا پسند اکھنڈ بھارت کا حصہ قرار دیتے ہیں وہ کبھی بھی ایک فیڈریشن کے تحت اکٹھے نہیں ہوئے ۔بلکہ موریہ سلطنت میں تو پورا ہندوستان بھی شامل نہیں تھا ۔اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی ہندوستان ہمیشہ مختلف ٹکڑوں میں بٹا رہا ہے ۔ یہاں راجے اور مہاراجے چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ کر ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہے ہیں ۔یہاں تک کہ جب شہاب الدین غوری نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اس وقت بھی راجے آپس میں برسرپیکار تھے ۔ جب مغلوں نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اس وقت بھی یہ آپس میں لڑرہے تھے ۔ لہٰذا یہ نظر یہ بالکل بے بنیاد اور جھوٹا ہے ۔ اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو انگریزوں کے آنے سے قبل برصغیر پر مسلمانوں کی حکومت رہی ہے ۔ اس سے قبل شمالی اور وسطی ہندوستان پرگرجاروں کی حکومت رہی ہے ، پھر ہنوں کی حکومت بھی رہی ہے ، اس کے بعد یونانیوں کی حکومت بھی رہی ہے۔ ان سب کی حکومتیں کئی براعظموں پر پھیلی ہوئی تھیں۔اگر اکھنڈ بھارت کے ہندو توا کے نظریہ کو مان لیا جائے تو پھر یہ سب اقوام بھی دعویٰ کر سکتی ہیںکہ ہندوستان پر ہماری حکومت بھی رہی ہے لہٰذا یہ ہمارا حصہ ہے ۔جس ریاست پر آج انتہا پسند ہندو اکھنڈ بھارت کے نظریہ کی بنیاد رکھتے ہیں، اس کا عروج اشوک کے زمانے میں ہوا تھا اور اُس کا تعلق ہندو مذہب سے نہیں، بدھ مت سے تھا ۔ اُس زمانے میں ہندوستان پر بدھ مت کا غلبہ تھا۔ اس کی بنیاد پر ایک ہندووں کا اکھنڈبھارت کا نظریہ قائم کرنا عقل اور منطق کے بھی خلاف ہے کہ آپ کسی اور مذہب کی ریاست پر اپنے مذہب کی ریاست کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔حقیقت میں اکھنڈ بھارت کا نہ تو دنیا میں کبھی وجود رہا ہے اور نہ یہ نظریہ کبھی ہندوستان میں انگریزوں سے پہلے پروان چڑھا ۔اس نظریہ کی بنیاد انگریزوں نے اپنے عہد میں رکھی ۔ جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہندوستان سے مسلمانوں کے غلبے ، اسلام کے اثرات اور تہذیب کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے ۔ اس کے لیے یہاں ہندو قوم پرستی کو پروان چڑھایا گیا اور مسلمانوں کے مقابلے میں ہندووں کو اُٹھایا گیا۔ اس کے لیے ایک ایسے ہی نظریہ کی ضرورت تھی جیسے دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے غلبے کو ختم کرنے کے لیے مختلف نظریا ت دیے گئے ۔ جیسے سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے کرنے کے لیے مصریوں کے لیے مصر کی قدیم تہذیب کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ۔ عربوں کو عثمانیوں کے خلاف اُبھارنے کے لیے عرب قومیت کو اُبھارا گیا ، ایران کو عرب سے الگ کرنے کے لیے عظیم ایرانی شہنشاہیت کا خواب دکھایا گیا۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی اسلام اور مسلمانوں کے کردار واثرات کو محدود تر کرنے کے لیے اکھنڈ بھارت کا نظریہ پروان چڑھایا گیا ۔اس کے لیے انگریزی دور میں شدھی اور سنگھٹن جیسے تحریکیں چلائی گئیں ۔ ہندی اور اردو زبان کا تنازعہ کھڑا کیا گیا اور مختلف طریقوں سے ہندومسلم تنازعات کو ہوا دے کر مستقبل کے مغربی مفادات کو تحفظ دیا گیا ۔ہندو انتہا پسند طبقہ نے 1935ء میں کہہ دیا تھا کہ بھارت میں صرف منو سمرتی کا قانون چلے گا۔ ہندووں نے آزادی سے ایک ماہ قبل یعنی 7جولائی 1947ء میں ہی بھارت کا قانون بنانے کے لیے اجلاس بلالیا تھا جس میں ہندو انتہا پسند طبقے کو بھی دعوت دی گئی لیکن انہوں نے کہا کہ ہم کسی آئین کو نہیں مانتے ہمارا آئین صرف منو سمرتی کا قانون ہو گا ۔ ہندوؤں کا وہی عسکری گروپ 1980ء تک بی جے پی کی شکل میں سامنے آگیا اور پھر اگلے سات سالوں میں بھارت کے سارے انتہا پسند پنڈت اسمبلیوں میں تھے۔ انتہا پسند ہندو جماعتوں مثلاً آر ایس ایس، وی ایچ پی، ہندو سینا، ہندو مہاسبھا، شیو سینا اور بی جے پی سب نے اکھنڈ بھارت، ہندو راشٹریہ اور برہمن سماج کا نام استعمال کیا۔ یہ نام تقسیم ہند سے پہلے ہی معرضِ وجود میں آ چکے تھے اوربائیں بازو کی جماعت کانگرس کے برعکس ایک انتہا پسند ہندو قوم اور ملک (اکھنڈ بھارت) کے داعی تھے۔ کانگرس سیکولر سمجھی جاتی تھی اور گاندھی کو بھی اکھنڈ بھارت کا غدار سمجھا جاتا تھا۔ گاندھی کا قاتل نتھو رام گوڈسے بھی آر ایس ایس کاکارکن تھا۔
مودی کے 2015ء کے دورہ پاکستان کے بعد BJP کے سیکرٹری جنرل رام مدھو نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’ایک دن بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش مل جائیں گے اور یہیں سے اکھنڈ بھارت کا آغاز ہوگا‘‘۔مارچ 2019ء کوآر ایس ایس کے رہنما اندریش کمار نے کہا کہ 025 2ء تک پاکستان بھارت کا حصہ ہوگا۔ ہندولاہور اور تبت کے علاقے منسروار جھیل میں آباد ہوں گے۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ ڈھاکہ میں بھارت کے ساتھ الحاق کرنے والی حکومت ہوگی۔ یورپین یونین کے طرز کا اکھنڈ بھارت قائم ہو گا جس میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی۔ بھارتی سپریم کورٹ کا ایک سابق جج مرکنڈےIRA Indian) (Reunification Association کا چیئرمین ہے جو کہ اکھنڈ بھارت کے لیے کام کر رہی ہے۔اس طرح کے اکھنڈ بھارت کا دعویٰ اپریل 2004ء میں سابق بھارتی نائب وزیراعظم لال کرشنا ایڈوانی نے بھی کیا۔ اگست 2019ء میں 370اور 35-A کے خاتمے کے بعد جموں اور کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے اور یونین Territories جن میں جموں، وادی اور لداخ کے علاقے شامل ہیں اس اکھنڈ بھارت کی طرف پیش قدمی کا ایک جزو ہے۔ مودی حکومت کے اہم رہنما امیت شاہ اور اجیت ڈاول نے یہ بھی کہا کہ آزاد کشمیر بھی حاصل کر کے اکھنڈ بھارت میں شامل کیا جائے گا۔بھارتی افواج اور اسٹیبلشمنٹ یعنی تمام Deep State اکھنڈ بھارت کی داعی ہے اور اس طرف پیش قدمی کرنے کے لیے بیانات اور اقدام کر رہی ہے۔مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے بعد اسلام آباد میں پوسٹر آویزاں کیے گئے جس میں اکھنڈ بھارت منصوبے کا نقشہ موجود تھا۔بھارت کی سپریم کورٹ نے 1995ء میں ایک فیصلہ دیا تھا کہ ہندتوا ایک مذہب نہیں بلکہ رہنے سہنے کا طریقہ (ہماری اصطلاح میں ’’دین‘‘) ہے۔ اِس فیصلے کے خلاف کئی مرتبہ درخواستیں دی گئیں مگر سپریم کورٹ نے ہر مرتبہ اُنھیں رد کر دیا۔ اکھنڈبھارت اور ہندتوا نظریہ کی ترجمانی کرتے ہوئےسوارکر نے کہا تھا کہ ہندتوا ایک (All-Inclusive )نظریہ ہے۔
’’ہندتوا محض ایک لفظ ہی نہیں بلکہ ایک تاریخ کا نام ہے۔ نہ صرف ہندوؤں کی مذہبی اور روحانی تاریخ کا نام بلکہ ہر اُس شے کا نام جس کا تعلق کسی طرح بھی بھارت اور اکھنڈ بھارت سے جڑا ہوا ہو۔ لوگوں کی غلط فہمی دور کرنا ضروری ہے کہ یہ صرف مذہبی ہندومت سے متعلق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندتوا نظریہ اور اکھنڈ بھارت ہندو تاریخ، جغرافیہ، مذہب، قومیت اورنسل سب پر مشتمل ہے بلکہ ان سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ ایک بہت بڑا نظریہ ہے اور ہندو مت محض اِس کا ایک حصہ ہے۔ اصل مقصد تو ہندو نسلی برتری ہے…‘‘۔ (1923ء میں خطاب سے اقتباس)
یاد رہے کہ یہی وہ اکھنڈ بھارت ہے جو کہ آج تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم بننے والا مودی اور بھارت کی پوری انتظامی مشینری رائج کرنا چاہتی ہے۔ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ بی جے پی کی مودی حکومت نے ہندوستان کی سابقہ حکومتوں کی منافقت کا پردہ چاک کیا اور اعلانیہ طور پر کہا کہ ہندوستان ہندوؤں کا ہے اور وہ جلد غیر ہندوؤں کا ہندوستان سے خاتمہ کر دیں گے۔ بی جے پی اور اس کے ہم نواؤںنے ’’مسلمان کا استھان، پاکستان یا قبرستان‘‘کے نعرے کو عملی شکل دینے کے لیےبھارت میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا لیا ہے اور وہاں ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کر رہے ہیں۔ مودی کی موجودہ حکومت عیسائیوں اور دوسرے غیر ہندوؤں کو بھی برداشت نہیں کر رہی۔سب کے لیے ایک ہی پیغام ہے کہ بھارت میں جو رہے گا ہندو ہی بن کر رہے گا۔مصیبت یہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں کچھ لوگ یہ درس دے رہے ہیں کہ بہر صورت پاکستان کو بھارت سے دوستی کا دم بھرنا چاہیے۔ ہم بھارت سے تلخی اور کشیدگی ختم کرنے کے حق میں ہیں لیکن ہمیں ہندو ذہنیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے در حقیقت پاکستان کا وجود مسئلہ ہے۔ وہ ہندوستان کو تقسیم کی آج بھی سیاسی ہی نہیں اپنے مذہب کے نقطہ نظر سے بھی غلط سمجھتا ہے۔لہٰذا اسلامی جمہوریہ پاکستان کو زندہ اور پائندہ دیکھنے کے لیے اسے ہر سطح پر مضبوط و مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ہندو ذہنیت کے حوالے سے پھر اس بات کا اعادہ کریں گے کہ وہ پاؤں پڑنے والے کو ٹھوکریں مارتا ہے اور گردن دبوچنے والے کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان اگر زندہ اور قائم رہ سکتا ہے تو صرف مضبوط اور مستحکم ہو کر رہ سکتا ہے۔ ضعف، کمزوری اور زیردستی خودکشی ہے۔کرنے کا کام یہ ہے کہ دوّا اور دُعا دونوں کی جائیں یعنی ایک طرف اپنے گھر کو درست کیا جائے، ملک میں اتحاد، اتفاق، اخوت، بھائی چارے اور برداشت کی فضا قائم کی جائے اور دوسری طرف اپنا قبلہ درست کیا جائے۔ یہ اب مذہبی اور دینی مطالبہ ہی نہیں رہا کہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اب ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن ہی سرے سے نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح فیصلہ اور پھر استقامت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!