(الہدیٰ) دنیا اور اُس کا سامان فانی ہے - ادارہ

10 /
الہدیٰ
دنیا اور اُس کا سامان فانی ہے
 
 
آیت 60{وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْ ئٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَزِیْنَتُہَاج} ’’اور جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ بس دُنیوی زندگی کا سامان اور اس کی زیب و زینت ہے۔‘‘
اس سے یہ نکتہ انسان کو خود بخود سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح دنیا کی یہ زندگی عارضی ہے اسی طرح اس سے متعلقہ ہر قسم کا سازوسامان بھی عارضی ہے۔
{وَمَا عِنْدَ اللہِ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(60)} ’’اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے۔تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘
آیت 61{اَفَمَنْ وَّعَدْنٰہُ وَعْدًا حَسَنًا فَہُوَ لَاقِیْہِ کَمَنْ مَّتَّعْنٰہُ مَتَاعَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا} ’’ بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہے اور وہ اس (وعدے کو) پالینے والا بھی ہے اُس شخص جیسا ہو جائے گا جسے ہم نے دُنیوی زندگی کا سازو سامان دے دیا ہو؟‘‘
یعنی ایک وہ بندہ جو اپنی دُنیوی زندگی میں آخرت کے بارے میں اللہ کے اچھے وعدوں کا مصداق بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے وعدوں کے مطابق جنّت اور اس کی نعمتیں عطا فرمانے والا ہے‘ کیا کبھی اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جسے صرف حیاتِ دنیا کا سروسامان دے دیا گیا ہو؟
{ثُمَّ ہُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ(61)} ’’پھر وہ قیامت کے دن گرفتار کر کے حاضر کیے جانے والوں میں سے ہو گا!‘‘
ظاہر ہے دونوں طرح کے لوگ برابر تو نہیں ہو سکتے۔ قیامت کے دن نیک لوگ اللہ کے وعدوں کے مطابق اُس کی رحمت کے سائے میں ہوں گے ‘جبکہ دنیا میں عیش و عشرت کے مزے لینے والے اور اپنے من پسند انداز میں گل چھرے اُڑانے والے باغی اس دن بیڑیاں پہنے ہوئے مجرموں کی حیثیت سے اللہ کے حضور پیش ہوں گے۔
 
درس حدیث
کامل ایمان کی نشانی
 
عَنْ اَنَسٍ بِنْ مَالِکٍ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : (( لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ ، وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ)) (رواہ المسلم)
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں(محمدﷺ) اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائوں۔‘‘