الہدیٰ
گمراہ کرنے اور ہونے والوں کا انجام
آیت 62{وَیَوْمَ یُنَادِیْہِمْ فَیَقُوْلُ اَیْنَ شُرَکَآئِ یَ الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ(62)} ’’جس دن اللہ انہیں پکارے گا اور کہے گا کہ کہاں ہیں، میرے وہ شریک جن کا تم زعم رکھتے تھے؟‘‘
جن کے بارے میں تمہیں یہ زعم اور گمان ہو گیا تھا کہ وہ اللہ کے شریک ہیں‘وہ اب کہاں ہیں؟
آیت 63{قَالَ الَّذِیْنَ حَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا ہٰٓؤُلَآئِ الَّذِیْنَ اَغْوَیْنَاج} ’’تو کہیں گے وہ لوگ جو (عذاب کے) فیصلے کے مستحق ہو چکے ہوں گے: اے ہمارے پروردگار!یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے گمراہ کیا تھا۔‘‘
وہ گمراہ لوگ جن کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا فیصلہ صادر ہو جائے گا‘بالآخر اقبالِ جرم کرلیں گے اور اپنے ارادت مندوں کی طرف اشارہ کریں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے گمراہ کیا۔ان اقراری مجرموں میں شیاطین جن و اِنس‘ طاغوت اور گمراہ مذہبی و سیاسی رہنما شامل ہوں گے۔ انہیں اقرار کیے بغیر چارہ نہ ہوگا کہ جیسے کچھ ہم خود تھے، ویسا ہی ہم نے ان کو بنایا۔
{اَغْوَیْنٰـہُمْ کَمَا غَوَیْنَاج} ’’ہم نے انہیں گمراہ کیا جیسے ہم خود گمراہ ہوئے تھے۔‘‘
یعنی ہم خود ہدایت پر ہوتے تو انہیں ہدایت کا راستہ دکھاتے۔ ہم چونکہ خود گمراہ تھے اس لیے ہمارے زیر اثر یہ تمام لوگ گمراہ ہوتے چلے گئے۔
{تَبَرَّاْنَآ اِلَیْکَ ز مَا کَانُوْٓا اِیَّانَا یَعْبُدُوْنَ(63)} ’’ہم تیرے سامنے (ان سے) اظہارِ براء ت کرتے ہیں‘ یہ ہماری پرستش تو نہیں کرتے تھے۔‘‘
یعنی یہ ہمارے نہیں بلکہ اپنے ہی نفس کے بندے بنے ہوئے تھے۔ ہم پر ان کی کوئی ذِمّہ داری نہیں۔ یہ اپنی آزاد مرضی سے ہماری باتیں مانتے رہے ہیں۔
درس حدیث
تکبر ، خیانت اور (بلا ضرورت)قرض سے دور رہنا
عَنْ ثَوْبَانَ ؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہﷺ : ((مَن فَارَقَ الرُّوْحُ الْجَسَدَ وَھُوَ بَرِیٌٔ مِنْ ثَلَاثِ مِنَ الْکِبْرِ وَالْغُلُوْلِ وَالدَّیْنِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ)) (رواہ الترمذی)
سیدنا ثوبان ؓ سے مروی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو روح جسم سے جدا ہوئی اور وہ تین چیزوں تکبر، خیانت اور قرض سے بری تھی، تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔‘‘
تشریح:اس حدیث میں تین ایسی چیزوں کا ذکر ہے جن کے حوالے سے آخرت میں محاسبہ ہو گا۔ تکبر ایک بری خصلت ہے۔ اسی طرح امانت میں خیانت کے بارے میں بھی آخرت میں جواب طلبی ہو گی اور شدید ضرورت کے بغیر قرض لینا بھی ناپسندیدہ عمل ہے۔اسی لیے فرمایا کہ تکبر، خیانت اور (بلا ضرورت )قرض سے اجتناب کرنا جنتی لوگوں کا وصف ہے۔