اداریہ
خورشید انجم
نصابِ تعلیم اور افرنگ کی تہذیب
پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے نصابی کتب میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اِس فیصلے کا اطلاق اگلے تعلیمی سال سے نویں جماعت کے طلبہ پر ہو گا۔ نصاب کی کتب میں تبدیلی ہمارے ہاں ایک غیرمعمولی خبرہے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں تو نصاب میں تبدیلی ایک معمول کی بات ہے اور خبر شمار ہی نہیں ہوتی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی نصاب کے جائزہ اور اُس میں حسبِ ضرورت تبدیلی کے لیے باقاعدہ فعال ادارے قائم ہیں جو ملک کے بہترین دماغوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور یہ کام انتہائی عرق ریزی سے کیا جاتا ہے۔ پھر یہ کہ وہ اپنی سیکولر لبرل ’نظریاتی اساس‘ کو ہر قیمت پر محفوظ رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ بہرحال پاکستان کے ماضی کی طرف نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ جو نصاب دادا نے پڑھا تھا وہی نصاب پوتے نے بھی پڑھا ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق کم وبیش چار ہزار پرائمری سکول، ایک ہزار سیکنڈری سکول، مردوں اور خواتین کے تیس کالجز اور ایک یونیورسٹی تھی۔ کسی گھرانے میں کوئی نوجوان اگر بی اے پاس کرلیتا تو شہر بھر میں اُس کی شہرت ہوجاتی تھی۔ انجینئرنگ اور میڈیکل کالجوں میں داخلہ حاصل کرنا مشکل اور ڈگری حاصل کرنا مشکل تر تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے نوے کی دہائی تک سرکاری تعلیمی اداروں میں ہر کسی نے بلا امتیاز ایک ہی نصاب پڑھا۔ نجی ، ٹرسٹ اور مشنری سکولوں کا نصاب اگرچہ آج کی طرح الگ تو تھا مگراِن اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ کی تعداد بہت کم ہوتی تھی۔ سرکاری تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونا طلبہ کے لیے فخر کی بات ہوا کرتی تھی۔
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد 1973ء میں متفقہ آئین منظور کیا گیا جس کے بعد تعلیمی نظام میں بہتری لانے کے نام پر تمام غیر سرکاری تعلیمی ادارے قومیا لیے گئے۔تعلیم کو عام کرنے کے لیے ذریعۂ تعلیم میٹرک تک انگریزی کی بجائے اُردو قرار دے دیا گیا۔اِس مقصد کے لیے نئی کتابیں بھی شائع کی گئیں، مگر نصاب کو چھیڑنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔انگریزی کا نصاب وہی رہا۔ کم وبیش نصف صدی تک تو کسی کو نصاب میں تبدیلی کا خیال ہی نہیں آیا سوائے اِ س کے کہ’’ دینیات‘‘ کو’’اسلامیات‘‘ کا نام دے دیاگیایا تاریخ ، جغرافیہ،اور معاشرتی علوم کو ملا کر مطالعہ پاکستان کا مضمون شامل کردیا گیا جسے چند ماہ پہلے حکومت نے ختم کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ پون صدی کے دوران سیکولر لبرل حلقوں کی جانب سے یہ بات ببانگِ دہل کہی جاتی رہی ہے کہ مطالعہ پاکستان میںطلبہ کو جو کچھ بھی پڑھایا جاتا ہے وہ درست نہیں ۔مطالعہ پاکستان کی تعلیم ختم کرنے کایہ فیصلہ اگر اُن لغو اعتراضات کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے کیا گیا ہے تو یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ نصابِ تعلیم کا جائزہ لینے کے لیے ہمارے ہاں بھی صوبوں کی سطح پر ادارے موجود ہیں مگر وہ کتابوں کی اشاعت سے کُچھ زیادہ کام کرنا شاید گناہ سمجھتے ہیں۔مختلف اوقات میں اُن کی کارکردگی پر اعتراضات بھی اُٹھائے جاتے رہے ہیں۔جس کے جواب میں ’’تعلیمی نصاب میں بہت جلدبہتری لائی جائے گی‘‘ کا لالی پاپ عوام کو دے دیا جاتا رہا۔
1990ء کی دہائی میں فروغ تعلیم کے نام پر قومیائے گئے تعلیمی اداروں کی نجکاری کی مہم چلی تو بہت سے تعلیمی ادارے تو مالکان یا ٹرسٹس نے واپس لے لئے مگر اکثر سرکار کے پاس ہی رہنے دئیے گئے ۔اِس کے علاوہ بہت سے نئے ٹرسٹ اور کمپنیوں کو نجی سطح پر تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت دے دی گئی جو آج تک سرکاری نصاب اور ڈسپلن سے ہٹ کر اپنا کام کر رہے ہیں۔ دوسری طرف سرکاری سطح پر تعلیمی نصاب میں تبدیلی کے نعرے جا بجا بلند ہوتے رہے اور ایسی خبریں آنے لگتیں کہ تعلیمی سال نصف بیت جانے کے باوجود بھی تبدیل شدہ نصاب کی نئی کتب طلبہ کو نہیں مل سکیں جس کی وجہ سے طلبہ کا بڑا حرج ہو رہا ہے۔ یہ خبریں عموماً اگلا تعلیمی سال شروع ہونے تک آتی رہتیں۔ اِس دوران میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور غیر ملکی نصاب نے یہاں گھر کر لیا۔ ان پرائیویٹ سکولز نے مغربی تہذیب کے خوشنما اور دلفریب نعروں کو خواص و عوام میں مقبول کرنے اور قابلِ قبول بنانے کے لیے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا اور پہلے اشرافیہ اور پھر متوسط طبقہ دجال کے ان کارخانوں کی طرف کھنچتے چلے گئے۔ دوسری طرف سرکاری تعلیمی اداروں کا حال یہ تھا کہ تبدیل شدہ نصابی کتب کے منتظر طلبہ کو بہت بعد میں علم ہوتا کہ کتاب کے محض ’لے آؤٹ‘ (layout) میں ہی تبدیلی ہوئی ہے، متن میں کچھ نہیں بدلا۔ اِن سب باتوں سے قطع نظر یہ بھی ایک نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ مشرف دور میں نصابی کتب میں واضح طور پر مغرب کے حکم پر تبدیلیاں کی گئیں ۔نصاب میں جہاں کہیں جہاد و قتال کا ذکر تھا اُسے یکسر نکال دیا گیا یا پھر اُس کو اِس انداز میں پیش کیا گیا کہ اُس کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔ اِسلامی نظریاتی سوچ کو ہر ممکن طور پر دبایا گیا اور روشن خیالی کو فروغ دیا گیا۔ اُسی دور میں تعلیمی اداروں میں ہفتہ وار دو چھٹیاں ہونے لگیں، امتحانات معروضی ہونے لگے، نویں ، دسویں اور گیارہویں ، بارہویں جماعتوں کے امتحانات میں عام طلبہ اتنے نمبر حاصل کرنے لگے کہ جتنے چند سال پہلے ٹاپ کرنے والے بچے بھی نہیں لے پاتے تھے ۔ گریجویشن کی ڈگری کا معیار تو گرتا گیا لیکن اس کی معیاد بڑھا دی گئی لہٰذا اضافی اخراجات سے خاص طور پر متوسط درجے کے طالب علم بہت متاثر ہوئے ۔
اس میں شک نہیں ہے کہ تعلیمی نصاب میں معمولی سی تبدیلی کر دینے سے ہی اگلی نسل پر بہت گہرے اثرات مرتب ہو جاتے ہیں۔ لارڈ میکالے کو برطانیہ سے ہندوستان کے گورنر جنرل کی کونسل میں قانونی امور میں مشاورت کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اُس نے ہندوستان کے مختلف علاقوں کے دورے کر کے رپورٹ مرتب کی کہ یہاں کے لوگوں کی اخلاقی اقدار بلند ، شرحِ خواندگی تقریباً سو فیصد اور سمجھ بوجھ اتنی صائب ہے کہ اِس ملک کو اُس وقت تک تسخیر نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اِن کی دینی اور ثقافتی اقدار کو تبدیل نہ کر دیا جائے۔ لہٰذا سفارش کی جاتی ہے کہ سب سے پہلے اِن کا قدیم نظام ِتعلیم اور تہذیب بدل دی جائے۔اِ ن کےاذہان سےاِن کی اقدار نکال کر ہمیں اپنی مرضی کی اقدار ڈالنا ہوںگی پھر ہی ہم اِن پر حکومت کر سکیں گے۔ بصورت دیگر ہماری ہر کوشش ناکام ہوگی۔ اُس وقت ہندوستان میں سرکاری زبان فارسی تھی اور عام طور پر مدرسوں میںجہاں مسلمان بچے تعلیم حاصل کرتے تھے، شیخ سعدی کی گلستان اور بوستان پڑھائی جاتی تھیں۔ اِن دو کتابوں میں ہی علم کا اتنا وسیع خزانہ موجود تھا کہ لارڈ میکالے اُس سے خوفزدہ ہو گیا۔ لہٰذا گلستان اوربوستان کو تعلیمی نصاب سے بتدریج ہٹایا جانے لگا اور آخر کار وہ وقت بھی آگیا کہ یہ کتابیں پڑھانے والے شاذ ہی رہ گئے۔ پھر یہ اعلان کیا گیا کہ پرانے قاعدے دے کر نئے قاعدے لے جائیں اور پرانے قاعدے ایک ایک روپے کے عوض خریدے گئے۔ جنہوں نے پرانے قاعدے فروخت نہیں کیے اُنہیں باغی قرار دے کر نشان عبرت بنا دیا گیا۔ انیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں ہندوستان کا نظام تعلیم چوتھی دہائی سے یکسر مختلف ہوچکا تھا ۔اُس نظام تعلیم سے فارغ التحصیل کمپنی بہادر اور سلطنت برطانیہ کے وفادار تھے اور روز بروز ترقی کی منازل بھی طے کر رہے تھے جبکہ نقش کہن پر اَڑ جانے والوں کو ناکامیاں ملیں۔ اس دوران سر سید احمد خان مرحوم نے عوام الناس کو یہ مژدہ سنا دیا کہ نیا نصاب تعلیم اپنانا وقت کی ضرورت ہے۔ وقت کی ضرورت ہی کا لحاظ کرتے ہوئے ہندوستان کے مسلمان لارڈ میکالے کی خواہشات کی ایسی تمثیل بنے کہ ’’صحیح‘‘’’ غلط‘‘ ہو گیا اور’’ غلط‘‘ ’’ صحیح‘‘ ہو گیا۔
انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ آج سے پانچ سال پہلے تک نصاب میں جتنی بھی تبدیلیاں کی گئیں، اُن سب کا فائدہ غیر ملکی آقائوں کو ہی ہوا اور پاکستان کے عوام نظریاتی، اخلاقی بلکہ ہر سطح پر نیچےسے نیچے گرتے چلے گئے۔ گزشتہ صدی کی آخری دہائی تک سکولوں میں بچوں کی جسمانی صحت کی طرف بھی خاص توجہ دی جاتی تھی۔ ڈرل، پی ٹی کا ایک پیریڈ مخصوص ہوتا تھا جس میں طلبہ کو مختلف کھیل کھیلنے کا موقع دیا جاتا تھا۔ کالج میں این سی سی اور ویمن گارڈ کے ذریعے شہری دفاع اور محدود جنگی حکمت عملی کی تربیت دی جاتی تھی۔ اِس عملی تربیت کی وجہ سے عوام میں اجتماعیت کا شعور بیدار ہونے لگا تو شاید ارباب اختیار کو محسوس ہوا کہ آقاؤں کو تو یہ پسند ہی نہیں۔ لہٰذا نصابِ تعلیم میں اصلاحات کے نام پر یہ سب کچھ ختم کر دیا گیا اوراِس کی جگہ وومن ایمپاورمنٹ کے نام پر کچھ ایسے در وا کیے گئے جن سے ملک میں زر آنے لگا اور قومی حمیت کا رفتہ رفتہ جنازہ نکل گیا۔ تعلیمی اداروں میں جہاں کبھی علمی مباحثے منعقد ہوتے تھے اب نئے قائم شدہ نجی تعلیمی اداروں میں کیٹ واک ،فیشن شوز اور ناچ گانے کے مقابلے ہونے لگے۔گویا تعلیمی اداروں کا معیار مغربی تہذیب کی قبولیت ٹھہرا۔ اور روایتی دینی مزاج اور اقدار کے حامل تعلیمی ادارے مقبولیت کی اس دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ مشرف دور میں یونیورسٹی میںپڑھنے والے عمر نامی ایک نوجوان سے کسی صحافی نے سوال کیا کہ آپ کا نام عمر ہے ،کیا آپ اِس نام کے کسی صحابیؓ کو جانتے ہیں تو اُس کا جواب نفی میں تھا۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّــآ اِلَـیْہِ رٰجِعُوْنَ! مقام عبرت ہے کہ یہی نسل اِس وقت تقریباًہر شعبۂ زندگی میں پاکستان کی ’’خدمت‘‘ پر مامور ہے اور ہم سب اس کے ثمرات کو سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
21ویں صدی کی تیسری دہائی کے آغاز میں نصابِ تعلیم کے حوالے سے پاکستان میں ایک انتہائی مثبت تبدیلی بھی دیکھنے میں آئی، جو کسی معجزے سے کم نہیں۔وفاق اور دو صوبوں کی سطح پر قرآن پاک کے متفقہ ترجمہ کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس کامیابی میں کراچی کے ادارے علم فاؤنڈیشن اور اُن کے ذمہ داران کا کلیدی کردار ہے۔ اللہ اُنہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ اس کے علاوہ قرآن پاک کے ناظرہ اور سیرت النبی ﷺ کو بھی لازمی مضامین کے طور پر نصاب میں شامل کیا گیا ۔
بہرحال کچھ عرصہ قبل مطالعہ پاکستان کی تعلیم متروک ہونے کی خبر کے بعد جب نصابِ تعلیم میں تبدیلی کے حکومتی ارادوںکی خبر موصول ہوئی تو کلیجہ منہ کو آگیا۔ تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی آڑمیں کہیں قرآنِ پاک کے ناظرہ اور ترجمہ کی تعلیم تو ختم نہیں کی جارہی؟ ہماری دُعا ہے کہ ہمارا یہ خدشہ درست نہ ہو، کہیں حقیقت کا روپ نہ دھار لے، ورنہ اب کے گرِے تو سنبھلنے میں پھر کئی صدیاں بیت جائیں گی۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024