(منبرو محراب) اُسوہِ حسنہ اور ہمارا طرزِعمل - ابو ابراہیم

12 /

اُسوہِ حسنہ اور ہمارا طرزِعمل(قرآن و حدیث کی روشنی میں)

 

مسجد جامع القرآن، قرآن اکیڈمی ڈیفنس،کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے13ستمبر 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبۂ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد!
ماہ ربیع الاوّل میں حضور ﷺسے محبت و عقیدت کے بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ ساتھ بہت سی تقریبات اور محافل کا انعقاد کیا جاتاہے لیکن بحیثیت اُمتی جو اصل کام ہمیں کرنا چاہیے تھا اُس کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اصل میں تو ہمیں حضورﷺ کے اُسوہ کی پیروی کا حکم دیا گیا تھا ۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا : 
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا(21)}(الاحزاب)’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے (یہ اُسوہ ہے) ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ سے ملاقات اور آخرت کی امید رکھتا ہو‘اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتا ہو۔ ‘‘
ماہ ربیع الاوّل میں اس آیت کریمہ کی تلاوت کا بھرپور اہتمام ہوتا ہے اور اس کے تعلق سے کلام بھی ہوتا ہے مگر اُسوۂِ حسنہ کا اصل تقاضا کیا ہے ؟ اس حوالے سے قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج }(النساء : 80) ’’جس نے اطاعت کی رسو ل کی، اُس نے اطاعت کی اللہ کی ‘‘
اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے بھی اللہ کے رسولﷺ کی اطاعت کا تقاضا ہے اور اللہ کی محبت کے دعوے کے لیے بھی اللہ کے رسولﷺ کی اتباع یعنی پیروی کا ثبوت ہم سے مانگا گیا ہے۔ارشادہوتا ہے :
{قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ  وَیَغْفِرْ لَـکُمْ ذُنُـوْبَکُمْ ط}(آل عمران: 31 ) ’’(اے نبیﷺ!) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو‘ اللہ تم سے محبت کرے گااور تمہارے گناہ بخش دے گا۔‘‘ 
  ہماری زندگی کا سب سے بڑا مقصد اگر یہ ہو کہ  اللہ راضی ہو جائے تو زندگی کامیاب ہےلیکن اگر اللہ راضی نہ ہوا توپھر زندگی تباہ و برباد ہے ۔ اللہ کیسے راضی ہوگا ، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کا اسوہ ہمارے سامنے رکھا تاکہ ہم اس پر عمل پیرا ہوکر اللہ کی رضا حاصل کر سکیں۔جامع ترمذی کی روایت ہے، آپﷺ نے فرمایا:(( مَنْ اَحَبَّ سُنَّتِیْ فَـقَدْ اَحَبَّنِیْ وَ مَنْ اَحَبَّنِیْ کَانَ مَعِیَ فِی الْجَنَّۃِ ))’’جس نے میری سنّت سے محبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنّت میں میرے ساتھ ہو گا۔‘‘
اسی تناظر میں آج ہم حضور ﷺکی سیرت کے چند اہم پہلوؤں کا مطالعہ کریں گے تاکہ ہمارے سامنے یہ بات واضح ہو جائے کہ حضور ﷺکا اُسوہ کیا تھا اور بحیثیت اُمتی ہمارے لیے اس حوالے سے کیا تقاضے ہیں۔ 
(1)۔رسول اللہ ﷺ کااللہ تعالیٰ سے تعلق
یہ بہت وسیع موضوع ہے، البتہ یہاں چند باتیں  عرض کرنا مقصود ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ رات کا قیام فرماتے تھے جسے ہم قیام اللیل اور تہجد بھی کہتے ہیں۔ قرآن کریم کی گواہی ہے کہ ایک تہائی، آدھی یا دو تہائی رات آپ ﷺ کا قیام ہوتا تھا۔ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ آپ ﷺرمضان کے آخری عشرہ میں پوری رات قیام فرماتےتھے اور بعض اوقات قیام اتنا طویل ہوتا تھا کہ آپ ﷺ کے پاؤں میں ورم آجاتا تھا۔ صحابہ کرام؇  پوچھتے تھے کہ یا رسول اللہ ﷺ! آپ اتنی محنت کیوں کرتے ہیں، آپ تو معصوم ہیں، بخشے بخشائے ہیں؟ آپﷺ فرماتے : کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
اس تناظر میں ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہمارا اللہ کے ساتھ تعلق کیسا ہونا چاہیے ۔ حضورﷺ معصوم ہو کر اللہ کا شکرگزارہ بندہ بننے کے لیے اتنی عبادت کررہے ہیں تو ہم گنہگاروں کو کتنا فکر مندہونا چاہیے ۔ جمہور علماء کے نزدیک  تہجد بھی حضور ﷺ پر فرض تھی ، ہمارے لیے نفل ہے لیکن پانچ وقت کی نماز تو فرض ہے ۔ آج ہماری فرض نمازوں کی کیا کیفیت ہے ؟ماہ ربیع الاوّل میں بڑی عالی شان تقریبات اور محافل کا اہتمام ہوتاہے ، حضورﷺ سے محبت کے بڑےبڑے دعوے بھی ہوتے ہیں لیکن دوسری طرف نمازیں ضائع ہورہی ہوتی ہیں ، اُسوہ رسول ﷺ کے منافی کام بھی ہورہے ہوتے ہیں۔ اب تو تمام مکاتب فکر کے علماء اس پر آواز اُٹھا رہے ہیں کہ 12 ربیع الاوّل کے   نام پر تقریبات میں جو کچھ ہورہا ہے، یہ درست نہیں ہے۔ چوری کی بجلی استعمال ہورہی ہے ، بے پردگی ، بے حیائی اور ناچ گانا تک ہورہا ہے،یہاں تک کہ مخلوط ماحول میں  شریعت کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں۔مختلف کمپنیزاس موقع پر اپنی مخصوص پروڈکٹس لانچ کرتی ہیں ، انہوں نے اس کو کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے ۔ ادھر سیرت کا جلسہ ہورہا ہے اور اس میں ڈانس ہورہا ہے اور نمازیں ضائع ہورہی ہیں۔   انا للہ وانا الیہ راجعون! حالانکہ حضور ﷺکا اُسوہ تو یہ تھا کہ آپﷺ فرماتے : بلال اذان کہو اور ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک دو ۔ آپﷺ فرماتے: ((قرۃ عینی فی الصلوٰۃ))’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔‘‘ حضور ﷺ نے کبھی کسی کو بددعا نہیں دی لیکن غزوۂ احزاب کے موقع پر آپ ﷺ کی نمازِ عصر قضا ہوگئی تو آپ ﷺنے بددعا دی کہ ’’جن لوگوں کی وجہ سے یہ نماز قضا ہوئی ہے، اللہ اُن کے گھروں کو آگ سے بھردے ، ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے۔‘‘ اللہ کے نبی ﷺ کو نماز اتنی محبوب تھی ۔ آج اُمت کا حال یہ ہے کہ آپ ﷺ سے محبت کا دعویٰ ہے مگر آپﷺ کی نسبت سے منعقد ہونے والی تقریبات میں بھی نمازیں ضائع ہورہی ہیں ۔ 
حضورﷺ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ایسا تھا کہ ہر لمحہ آپ ﷺ کا مکمل توکل اللہ پر ہوتا تھا ۔ غارثور کا مشہور واقعہ ہےکہ صدیق اکبر ؄نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر دشمن جھانک لیں تو ہمیں پالیں گے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابوبکر! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جن کے ساتھ تیسرا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے۔ اللہ نے قرآن میں اس بات کو نقل کیا ہے : 
{اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَاج} (التوبہ : 40)’’جبکہ وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو‘ اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘
آج ہم مشکل اور بدلتے حالات میں کبھی سوچتے ہیں کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے ؟اسی طرح اللہ کے ساتھ مستقل تعلق کے حوالے سے اللہ کے رسو ل ﷺنے ہمیں دعائیں بھی تعلیم کی ہیں ۔ صبح بیدار ہونے سے لے کر رات کو سونے تک کی دعائیں اس تعلیم میں شامل ہیں ۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں اذکار کی تعلیم دی ہے ۔ یہ سب چیزیں سنت رسول ﷺ میں بھی شامل تھیں ۔ آج کیا ہم ان دعاؤں اور اذکار کا اہتمام کرتے ہیں ؟آپ ﷺکا اللہ سے تعلق تو ایسا تھا جیسا کسی سے بھی نہ تھا۔ حضورﷺ نے فرمایا: اگر میں انسانوں میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا ۔ یہاں تک کہ وصال کے وقت حضورﷺ نے فرمایا کہ جس کسی نے بھی مجھ پر احسان کیا اُس کا بدلہ میں نے چکا دیا مگر ابوبکر کے احسان کا بدلہ انہیں اللہ دے گا۔ یعنی ابوبکر؄ آپ ﷺ کے اس قدر محسن رفیق تھے مگر آپ ﷺ نے اپنا دوست اللہ کو بنایا ۔ بالکل آخری لمحات میں جب حضرت فاطمہ ؅نے محسوس کیا کہ آپ ﷺ دنیا سے تشریف لےجارہے ہیں تو آپ روئیں ، آپ ﷺنے فرمایا: بیٹا! آج کے بعد تیرے ابا جان کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی کیونکہ میں اپنے رب سے ملاقات کے لیے جارہا ہوں۔ آپ ﷺ کی زبان پر آخری الفاظ یہ تھے : ((اللھم رفیق الاعلیٰ)) ’’اے اللہ!تو ہی میرا سب سے بڑھ کر دوست ہے ۔‘‘
آج ہم سوچیں کہ کیا ہمارا اللہ کے ساتھ ایسا تعلق ہے ؟ کیا اللہ ہماری ترجیحات میں شامل ہے ؟حالانکہ قرآن میں  اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم دی ہے :
{قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (162)}( الانعام )’’ آپؐ کہیے میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
 اللہ ہمیں حضورﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے تعلق کی مضبوطی کی توفیق عطا فرمائے۔
(2)رسول اللہ ﷺ کافکرآخرت
ایک مرتبہ آپ ﷺکے گھر بکری ذبح ہوئی۔  آپ ﷺجب واپس تشریف لائے تو حضرت عائشہ؅ سے پوچھا : کیا بچ گیا ؟ عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ! ایک شانہ بچ گیا ہے باقی سب اللہ کی راہ میں تقسیم کردیا گیا ۔  آپ ﷺنے فرمایا : جو اللہ کی راہ میں خرچ ہوگیا وہ تو بچ گیا لیکن جو بچ گیا وہ خر چ ہوگیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ(8)}(التکاثر) ’’پھر اس دن تم سے ضرور پوچھا جائے گا نعمتوں کے بارے میں۔‘‘
جو اللہ کی راہ میں دے دیا وہ تو آخرت کا خزانہ ہے،اس کا اجر وہاں مل جائے گابلکہ 10 گنا سے لے کر 700 گنا تک زیادہ اجر ملے گا ۔قرآن میں فرمایا : 
’’ان لوگوں کی مثال جو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں ایسی ہے کہ جیسے ایک دانہ جو سات بالیں اگائے ہر بال میں سو سو دانے، اور اللہ جس کے واسطے چاہے بڑھاتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا جاننے والا ہے۔‘‘(البقرہ: 261 )
لہٰذا اصل خزانہ آخرت کا خزانہ ہے ۔ پھر یہ کہ اللہ کی ان نعمتوں کے بارے میں بھی آخرت میں سوال ہوگا جن کو ہم دنیا میں خرچ کرتے ہیں۔ حضور ﷺ کی ترجیح آخرت تھی، دنیا نہیں ۔ ایک مرتبہ حضرت عمر؄ آپ ﷺ کے حجرے میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ ﷺ صرف ایک تہہ بند میں زمین پر چٹائی بچھا کر آرام فرما رہے ہیں جس سے آپ کے جسم مبارک پر نشان پڑ گئے ہیں۔یہ دیکھ کر حضرت عمر ؄ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمانے لگے :  اے اللہ کے رسولﷺ! روم اور ایران کے بادشاہ مشرک ، کافر اور اللہ کے باغی ہیں مگر وہ تو عالی شان محلوں میں سوتے ہیں اور عیش کرتے ہیں جبکہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور اس کیفیت میں زندگی گزار رہے ہیں؟فرمایا: اےعمر! کیاتم اس پر راضی نہیں ہو کہ ان لوگوں کو دنیا مل جائے اور ہمیں آخرت مل جائے؟
دنیا میں بڑے سےبڑا محل اور تمام تر عیش و آرام عارضی اور فانی ہے ، جبکہ آخرت دائمی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے :
’’اور یہ دنیا کی زندگی تو کھیل اور تماشے کے سواکچھ نہیںاور آخرت کا گھر ہی یقیناً اصل زندگی ہے۔ کاش کہ انہیں معلوم ہوتا!‘‘(العنکبوت:64)
’’بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو،جبکہ آخرت بہتر بھی ہے اور باقی رہنے والی بھی۔‘‘(الاعلیٰ:16،17)
یہ آخرت کی فکر ہی تھی کہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں  خطاب عام میں آپ ﷺنے فرمایا :’’ اگر مجھ سے کسی سے کوئی زیادتی ہوئی ہو تو وہ ابھی آکر مجھ سے بدلہ لے سکتاہے۔‘‘ غور کیجئے ! اللہ کے رسول ہیں اور معصوم ہیں مگر اس کے باوجود آخرت کی جوابدہی کی اتنی فکر ہے ۔ آج ہم روزانہ کتنے لوگوں کا حق مارتے ہیں ، کتنے لوگوں پر ظلم کرتے ہیں ، کیا ہمیں اس کی فکر ہے کہ ہم نے حساب دینا ہے ؟ اُسوہ پر عمل کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم اس دنیا میں معافی مانگ لیں ، دوسروں کا حق ادا کردیں ورنہ اللہ قرآن میں فرماتا ہے: 
’’اے اہل ِایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اُس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے!‘‘(الحشر : 18 )
 سیدنا عمرh کا قول ہے:
( حاسبواانفسکم قبل ان تحاسبوا)’’اپنا محاسبہ خود کر لو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔ ‘‘
پھر وہ دعا بھی یاد رہے:
((اَللّٰھُمَّ حاسِبْنَا حِسَابًا یَّسِیْرًا))’’اے اللہ ہم سب کے حساب کو آسان فرما دے۔‘‘
(3)رسول اللہﷺ کاحسن معاشرت
مفسرین لکھتے ہیں کہ جب حضورﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ خوف اور گھبراہٹ کی کیفیت میں گھر لوٹے اور حضرت خدیجہ ؅سے فرمایا : مجھے کمبل اوڑھا دو ۔ حضرت خدیجہ؅ نے آپﷺ کو تسلی دی کہ اللہ ہرگز آپﷺ کو ضائع نہیں فرمائے گا کیونکہ آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں، یتیموں کے ساتھ بھلا سلوک کرتے ہیں، رشتہ داروں کا حق ادا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جو     آپ ﷺ کو محروم کرتا ہے، آپﷺ اُس کو عطا کرتے ہیں اور جو آپﷺ کے ساتھ بُرا کرتا ہےآپ ﷺ اس کے ساتھ اچھا کرتے ہیں ۔ یہ گویا آپ ﷺ کے  حسن ِمعاشرت کی ہی گواہی تھی جو آپ ﷺکے گھر سے دی جارہی تھی ۔ اسی طرح حضرت عائشہ ؅سے کسی نے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کے اخلاق کیا ہیں؟ فرمایا: (کان خلقہ القرآن) اللہ کے پیغمبر ﷺ کے اخلاق تو قرآن ہیں۔یعنی آپ ﷺ مجسم قرآن تھے۔ ایسی ہزاروں گواہیاں آپ ﷺکے گھر سے ملیں گی ۔ آج ہم غور کریں کہ ہمارے گھر والوں کی ہمارے بارے میں  گواہیاں کیسی ہوں گی ؟کیا حضور ﷺ کے اُسوہ کا تقاضا یہ نہیںہے کہ ہم حسنِ معاشرت اختیار کریں ؟ اسی طرح  حضور ﷺکی خادمہ نقل کرتی ہیں کہ حضور ﷺ کے ہاں ایک بیٹی کی ولادت ہوئی۔آپ ﷺ کعبہ شریف کے پاس تھے ۔ میں نے جا کر حضور ﷺ کو بشارت دی۔ حضور ﷺ کا چہرہ گلاب کے پھول کی طرح کھل اُٹھا۔ آپ ﷺ نے اللہ کا شکر ادا کیا ،وہاں سے دوڑے دوڑے گھرآئے اوراپنی بیٹی کو سینے سے لگاکر چومتے رہے اور بار بار اللہ کا شکر ادا کرتے رہے۔ حالانکہ اسی دور میںجب مشرکین کو بیٹی کی پیدائش کی خبر ملتی تھی تو ان کے چہرے سیاہ پڑ جاتے تھے (النحل :58) یہاں تک کہ اس زمانے میں بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا لیکن آپ ﷺکا حسن معاشرت یہ تھا کہ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اگر اولاد میں سے کسی کو ترجیح دینے کی اجازت ہوتی تو میں بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دیتا ۔ آج ہم بھی اپنا جائزہ لیں ۔ خود کوحضور ﷺ کا اُمتی کہتے ہیں اور بیٹی کی پیدائش پر ہماری کیفیات کیا ہوتی ہیں ؟ اسی طرح موازنہ کیجئے کہ خوشی و غمی کے موقع پر حضور ﷺ کا اُسوہ کیا ہوتا تھا اور آج ہمارا کیا طرزعمل ہے ؟ آپ ﷺ کے عزیز بیٹے ابراہیم؄ کی وفات ہوئی تو آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو بھی تھے لیکن زبان پر یہ فرمان تھا کہ اے بیٹا ! تیری جدائی میں دل غمگین ہے ، آنکھ آنسو بہاتی ہے مگر زبان پر وہی ہوگا جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے۔ یعنی آپ ﷺ نے رب سے شکوہ بھی نہیں کیا ۔ 
حضرت عائشہ؅ سے پوچھا گیا کہ حضور ﷺ گھر میں کیسے رہتے ہیں؟فرمایا: کچھ آرام بھی کرتے ہیں ، نوافل بھی ادا کرتےہیں، گھر والوں سے گفتگو بھی کرتے ہیں، ان کی حاجات کو پورا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور ان کے کاموں میں ہاتھ بھی بٹاتے ہیں ۔کبھی بکری کا دودھ خوددوہ لیتے ، کبھی اپنا جوتا خود مرمت کرلیتے ۔ آج ہم بھی اپنا جائزہ لیں کہ گھر والوں کے ساتھ کیسے رہتے ہیں ؟
 (4) رسول اللہ ﷺ کاحسن اخلاق
ایک غزوہ یا کسی سفر کا موقع تھا ، کہیں پڑاؤ ڈالا گیا تو کھانے کا وقت آیا۔ کسی نے کہا کہ بکری میںذبح کروں گا، کسی نے کہا کھال میں اُتار دوں گا ، کسی نے کہا کہ کھانا میں تیار کر دوں گا، اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ لکڑیاں میں لے کر آؤں گا۔صحابہ ؇نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ! آپ آرام فرمائیں۔ فرمایا : مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اپنے آپ کو دوسروں پر ترجیح دوں ۔ غور کیجئے ! اللہ کا رسول ہو کر آپ ﷺ نے اپنے لیے کوئی امتیازی شان پسند نہیں فرمائی ۔ آج ہمارا اور ہمارے لیڈروں کا حال کیا ہے ؟ اکثر صحابہ؇ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ سے بڑھ کر مسکراتا چہرہ کسی کا نہیں تھا مگر آپ ﷺ کو کبھی قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ اللہ کا خوف اور حیااس قدر تھی کہ رات کو تہجد میں رو رو کر اللہ سے التجائیں کرتے تھے ۔ حسن اخلاق کا عالم یہ تھا کہ صحابی ؄  روایت کرتے ہیں کہ جب میں آپ ﷺ سے ملتا تو آپ ﷺ مجھ پر اتنی توجہ فرماتے کہ لگتا مجھ سے بڑھ کر دنیا میں آپ ﷺ کو کوئی محبوب نہیں ہے ۔ آج ہمارا حال کیا ہے ؟ سمارٹ فون سے نظریں ہٹا کر ایک دوسرے سے سلام دعا تک کرنے سے عاری ہیں ۔ بچے سکول سے واپس آتے ہیں ، سلام تک کرنے اور والدین ان کو توجہ دینے سے عاری ہیں ۔ 
روایات میں ہے کہ آپ ﷺ ایک کنواری اور باپردہ خاتون سے بھی زیادہ حیا کرنے والے تھے، حیا کا ایک پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر برائی سے بندہ دور رہے ۔ آج ہمارا حال کیا ہے ؟ بقول شاعر؎
غیرت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
آج کسی نے اپنا کریکٹر سرٹیفیکیٹ چیک کرنا ہوتو سمارٹ فون چیک کرلے پتا چل جائے گا کہ غیر ت ، حمیت ، حیا کہاں جارہی ہے ۔ حالانکہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: حیا اور ایمان دونوں ساتھی ہیں ایک چلا جائے تو دوسرا بھی چلا جائے گا۔
حضورﷺ کے حسن اخلاق کا ایک اور پہلو ملاحظہ فرمائیے کہ حضرت انس؄ فرماتے ہیں کہ دس برس تک میں حضور ﷺ کا خادم رہا ۔ آپ ﷺ نے ایک مرتبہ بھی مجھے یہ نہیں کہا کہ تم نے فلاں کام کیوں نہیں کیا    یا فلاں کام کیوں کیا ؟
(5)رسول اللہﷺ کاحسن معاملہ
ہجرت کےموقع پر آپﷺ نے حضرت علی؄ کی ذمہ داری لگائی کہ وہ رات کو آپﷺ کے بستر پر سو جائیں اور صبح اُن سب کی امانتیں لوٹا دیں  جنہوں نے اپنی امانتیں حضور ﷺ کے پاس رکھوائی تھیں ۔ غور کیجئے ! حالانکہ وہ کافر اور مشرک آپﷺ کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے اور آپﷺ کی جان لینے کی منصوبہ بندی کر کے بیٹھے ہوئے تھے لیکن دوسری طرف ان ہنگامی حالات میں بھی حضور ﷺ کو ان کی امانتیں لوٹانے کی فکر تھی ۔ یہ آپﷺ کا حسن معاملہ ہی تھا کہ آپ ﷺ کے دشمن بھی آپ ﷺ کو الصادق اورالامین کہتے تھے ۔ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں: اُس کا کوئی ایمان نہیں جو امانت کی پاسداری نہ کرے۔ عہد کی پاسداری بھی امانت کی پاسداری ہے ۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین کے ساتھ جو معاہدہ ہورہاتھا اُس میں یہ شق بھی تھی کہ اگر کوئی اسلام قبول کرکے مسلمانوں کے پاس آئے گا تو وہ اُسے واپس کردیں گے ۔ اسی دوران ابو جندل ؄ مشرکین کی قید سے نکل کر زخمی حالت میں حضور ﷺکے پاس آگئے ۔ حضور ﷺ نے انہیں یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ اے ابو جندل ! میں معاہدہ کر چکا ہوں ۔ یہ عہد کی پاسداری کی ایک اعلیٰ مثال تھی ۔ 
آج ہم اُمتی اپنا جائزہ لیں کہ حضور ﷺ سے محبت کے کتنے دعوے ہیں اور آپ ﷺ کے اُسوہ پر کس قدر عمل پیرا ہیں؟محض محافل میلاد منانے سے اور رنگا رنگ تقریبات کا انعقاد کرنے سے اللہ راضی نہیں ہوگا بلکہ اللہ اُس وقت راضی ہوگا جب ہم حضور ﷺ کی اطاعت عملی طور پر بھی کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین!