جمہوریت میں ادارے نہیں، آئین بالادست ہوتا ہے
ایوب بیگ مرزا
آئین میں چھبیسویں ترمیم جس میں بہت سی ترامیم پوشیدہ تھیں اُس کے لیے طرفین کی طرف سے ہر ہر سطح پر جو کچھ ہوا اورجس طرح ساری قوم ایڑیوں پر کھڑی تھی یوں لگتا تھا کہ ایٹمی جنگ چھڑنے والی ہے یا کم از کم پانی پت کی چوتھی جنگ اب 2024ء میں اسلام آباد کے میدان میں لڑی جانے والی ہے۔ مجوزہ ترمیم کے شور و غوغا نے آسمان یوں سر پر اٹھایا ہوا تھا کہ ہمسائے ممالک کی نیندیں بھی خراب ہو رہی تھیں۔شنید یہ ہے کہ عرب ممالک سے ایک حکمران نے بھی رابطہ کیا گویا یہ تماشا گلوبل ہو گیا تھا البتہ ہر کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ ترمیم کا مسودہ میں نے تو ابھی تک نہیں دیکھا اور جمہوریت کی تاریخ کا سب سے بڑا لطیفہ یہ ہوا کہ ایک موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے منہ سے نکل گیا کہ مجوزہ ترمیم کا مسودہ تو میں نے بھی نہیںدیکھا حالانکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میںیہ ہوتا ہے کہ آئین میں ترمیم تو بڑی بات ہے عام قانون سازی بھی وزیر قانون سے شروع ہو کر وزیر قانون پر ختم ہوتی ہے۔کوئی قانون سازی یا آئینی ترمیم کسی وزیر اعظم کا brain child ہوسکتی ہے لیکن وزیر قانون اُس کو تیار کرتا ہے ہاں نوک پلک سنوارنے کے لیے وہ دوسروں سے خاص طور پر قانونی ماہرین سے مدد لے لیتا ہے لیکن اُن کی حیثیت اس حوالے سے محض سہولت کار کی ہوتی ہے۔ بہرحال گزشتہ اڑھائی سال سے جس طرح دنیا کے لیے مختلف انداز میں مزاح کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے اِس سے تو شنید ہے کہ اب اپنے بھی تنگ آگئے ہیں ۔کہتے ہیں بڑے میاں صاحب نے برادر خوردکو تو اس پر بہت ڈانٹا ہے کیونکہ جب مولانا فضل الرحمان سے حمایت حاصل کرنے کے لیے حکومت کا وفد گیا تھا تو اُن کے پا س بھی ترامیم کا مسودہ نہ تھا۔مولانا نے بھی جاتے ہوئے یہی شکوہ کیا کہ مسودے کی اتنی پردہ داری کیوں ہے؟
بہرحال فی الحال وہ ڈریکولا ترمیم ٹل گئی ہے جس کا بعد ازاں مسودہ دیکھ کر کسی کی خوف سے گھِگھی بندھ جاتی تھی اور کسی کے ہنستے ہنستے آنکھوں سے آنسو چھلک جاتےتھے کہ یہ ترمیم ایک ایسی حکومت پیش کررہی ہے جو وقت بے وقت جمہوریت کا ڈھول پیٹتی رہتی ہے۔ یہ جمہوریت خاص طور پر اُس کے ایک ستون عدلیہ پر خود کش حملہ تھا جو بروقت پکڑا گیا اور فی الحال ملک و قوم بڑی تباہی سے بچ گئے۔ بہرحال مستقبل میں بھی حماقت خیزترمیم جو قیامت خیز ہوگی اُس کی تراش خراش کرکے اسمبلی میں لانے کوشش کی جائے گی اور سپریم کورٹ کے اوپر ایک کورٹ بنا کر عدلیہ کو حکومت ریموٹ کنٹرول کے ذریعے آگے پیچھے کرتی رہے گی۔ جلدی اور بے حدجلدی اس لیے ہے کہ 25ا کتوبر آیا چاہتا ہے۔ جب حکومت اپنےایک ایسے محسن سے ہاتھ دھو بیٹھے گی جس نے حکومت دلوانے میں کلیدی کردار اداکیا ہےاور بقول سابق اسسٹنٹ کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ 2024ء کے انتخابات میں جو شفافیت کو ذبح کیا گیا تھا اور عوام کے مینڈیٹ پرڈاکہ ڈالا گیا تھا اُس میں موصوف چیف الیکشن کمشنر کے بھر پور ساتھی اور مددگار تھے۔
اندازہ کیجئے کہ حکومت نے یہ طوفان ایک ایسے وقت اٹھایا ہے جب شنگھائی کانفرنس سرپر ہے اور اگلے ماہ اس کا انتہائی اہم اجلاس پاکستان میں ہونے جارہا ہے۔ اگرحکومت کامیاب اغوا پالیسی کے بدولت ترمیم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو تحریک انصاف اور وکلاء کو ملک بھر میں اس کے خلاف تحریک چلانے سے کون روک سکے گا۔ اور وہ معزز مہمان خاص طور پر چین کے وزیراعظم یہ دھینگا مشتی یہاں دیکھیں گے یا کم از کم سنیں گے تو ضرور تب وہ جو اڑھائی سال سے دہائی دے رہے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرو وگرنہ تمہارا ملک تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے اُس کی مزید دہائی دینے کے سواوہ کیا کرسکتے ہیں۔ کسی خودکشی کرنے والے کو دوسرے بچا نہیں سکتے۔بہرحال ہم ہیں کہ ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں کہ ہم صرف طے ہی نہیں کرچکے بلکہ بآوازِ بلند کہتے ہیں جو ہو سو ملک رہے نہ رہےعمران کو جیل سے باہر نہیں نکلنے دیں گے اور ہر دوسرے روز ایک نیا مقدمہ قائم کررہے ہیں جس کا نہ سر ہوتا ہے نہ پاؤں اور عمران خان کھمبے کی طرح ہے نہ ہلتا ہے نہ جھلتا ہے۔ یعنی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔اپنی ذات کے اِن کھلاڑیوں کو رتی بھر پرواہ نہیں کہ خطے میں کیا تبدیلیاں آرہی ہیں۔ عرب ممالک کس انجام سے دوچار ہوتے نظر آتے ہیں۔ فلسطینیوں کا خون پانی سے بھی ارزاں کیوں ہوگیا۔چین اور امریکہ کی بڑھتی ہوئی کشیدگی عالمی سطح پر کیا اثرات مرتب کرے گی وغیرہ وغیرہ پھر یہ کہ اپنی تباہ ہوتی معیشت گہرے گڑھے میں گرتی جا رہی ہے جس میں سے اسے نکالنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔اقتدار کی جنگ اورانا کی دیوانہ وار پوجااور حسد کی آگ 25 کروڑ عوام کے ملک کو بھسم کرنے کو ہے۔ اگر ذرا سے بھی ملک وقوم کی فکر ہوتی تو سچ یہ ہے کہ قدرت نے پاکستان کے لیے ایک ایسا نادر موقع پیدا کیا ہے۔حقیقت میں یہ ایک سنہری چانس ہے جسے پاکستانی حکمرانوں نے چاہے وہ اسٹیبلشمنٹ ہو یا سول حکومت، نے ضائع کردیا تو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔ گزشتہ ماہ اگست میں بنگلہ دیش میں تبدیلیوں کی لہر نے سب کچھ تلپٹ کردیا ہے۔ وہاں سے بھارت کی غلام حکومت کو ذلیل و خوار کرکے ملک بدر کردیا گیا اور وہاں بھارت دشمن حکومت قائم ہوگئی ہے جس نے پاکستان کی حکومت کو کئی گرین سگنلز دیئے ہیں ۔
11ستمبر کو ڈھاکہ کی پریس کلب میں قائد اعظم کی برسی منائی گئی یہ بنگلہ دیش میں گزشتہ نصف صدی میں پہلی مرتبہ ہوا ہے جس میں پاکستان کے سفیر کو مدعو کیا گیا۔ لیکن تُف ہے پاکستان کی حکومت پر جس نے بھارت کی ناراضی کے خوف سے سفیر کو اُس تقریب میں شرکت کی اجازت نہ دی اور سفارت خانہ کے ایک کمتر افسر کو وہاں بھیج کر بنگلہ دیش کو ایک منفی میسج دیا۔اس وقت بھارت سے ناراض بنگلہ دیش کی حکومت کی طرف ہمیں دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔ پھر یہ کہ اس خطے کے دوسرے چھوٹے چھوٹے ممالک جو بھارت سے نفرت کے باوجود اُس کے خلاف کوئی قد م اٹھانے سے اس لیے ڈرتے ہیں کیونکہ اُن کے لیے بھارت ایک بڑی قوت ہے اگر پاکستان ہمت کرے تو اس سے ان چھوٹے ممالک کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی اور یہ سب اپنا رخ چین کی طرف کرلیںگے۔ دوسری طرف افغانستان امریکہ دشمنی برقرار ہے لہٰذا بھارت خطے میں تنہا رہ جائے گا اور امریکہ اِس خطے میں یتیم ہوجائےگا۔سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو سوچنا چاہیے کہ اندھی خواہشوں کی تکمیل میں اگر ملک کی سلامتی پر حرف آگیا تو پھر کہاں کی سیاست اور کہاں کا اقتدار۔ بعض سیاست دان اس زعم میں مبتلا ہیں کہ اُن کے بیرون ملک اثاثہ جات اور جائیدادیں ہیں جو ان کی کئی نسلوں کی عیاشیوں کی کفایت کریں گی لیکن راقم آج اعلانیہ کہہ رہا ہے کہ بیرونی ممالک خاص طور پر مغربی ممالک جتنے اپنوں کے لیے ایماندار اور دیانتدار ہیں دوسروں کے لیے اتنے ہی خائن اور بدیانت ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کے ممالک میں جو کچھ غیروں کا جمع ہے، وہ کرپشن اور بدعنوانی کی کمائی ہے۔ وہ یہ سارے اثاثے اس طرح چٹ کر جائیں گے کہ ہمارے لوگ منہ دیکھتے رہ جائیں گے لہٰذا سمجھنے کی بات یہ ہے کہ حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ اپنی اپنی انا کو قربان کریں باہم مل کر بیٹھیں اور یہ جو انتشار پھیلاہوا ہے اِسے ختم کریں پُرامن ماحول میں پاکستان کی معیشت کو مضبوط کریں کیونکہ جب تک معیشت مضبوط نہیں ہوگی ہم دوسروں خاص طور پر امریکہ کی غلامی سے نجات حاصل نہیں کرسکیں گے۔طرفین سمجھ لیں کہ امریکہ ہم سے ڈبل گیم کررہا ہے وہ ایک طرف حکومت کو عمران خان کو رہا کرنے کی اجازت نہیں دے رہا اور دوسری طرف ایسے اقدام کروا رہا ہے جس سے ہر نئے دن عمران خان کی مقبولیت اور حمایت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ باہمی ٹکراؤ کو بڑھاوا دے کر اپنے پنجے پاکستان میں گاڑھتا چلا جارہا ہے ۔ہمیں اس کی یہ پالیسی سمجھ کر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جس سے پاکستان آزاد اور باوقار ملک کی حیثیت اختیار کرے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024