ابلیس کی مجلس شوریٰ
(گزشتہ سے پیوستہ)
ابلیس کی مجلس شوریٰ میںتیسرا مشیر کارل مارکس کے نظریہ اشتراکیت کو ابلیسی نظام کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے جبکہ چوتھا مشیرمسولینی کی فسطائی تحریک کو کارل مارکس کے اشتراکیت کے تصور کا توڑ قراردیتا ہے ۔ اٹلی کا حکمران مسولینی فاشزم کا رہنما تھا اور فاشزم قدیم قیصریت کے احیاء کی تحریک تھی، جس کا مقصد روم کی قدیم سلطنت کا دوبارہ احیاء تھا ۔ مگر تیسرا مشیر اس جواب سے مطمئن نہیں ہے کیونکہ اس کے نزدیک فاشزم کی عاقبت نا اندیشی کے سبب افرنگی سیاست کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہورہا ہے۔اس کے بعد پانچواں مشیر ابلیس کو مخا طب کرکے یوں گویا ہوا ؎
اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم اُستوار!
تُو نے جب چاہا، کِیا ہر پردگی کو آشکاراے میرے آقا! (ابلیس ) آپ کے اندراولادِ آدم سے نفرت اور جوش انتقام کی جو آگ بھڑک رہی ہے اُس کی وجہ سےہی اس دنیا کی تمام سرگرمیاں جاری ہیں۔ بعض اوقات ہماری سمجھ میں کچھ چیزیں نہیں آ رہی ہوتیں لیکن آپ جب چاہتے ہیں ان سے پردہ اُٹھا دیتے ہیں اور حقیقت ہمارے سامنے آجاتی ہے ۔
آب و گِل تیری حرارت سے جہان سوز و سازاللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو جنوں اور انسانوں کے لیے امتحان گاہ بنایا ہے ۔ اگر ابلیس کی آدم سے دشمنی نہ ہوتی تو یہ امتحان گاہ کیسے سجتی؟یہ معرکۂ حق وباطل کیسے جاری ہوتا۔ اسی بنیاد پر پانچواں مشیر ابلیس کو کہتا ہے کہ اس مادی دنیا میں جو بھی گہما گہمی اور رنگینی ہے یہ سب تیرے جوش انتقام کا نتیجہ ہے ۔ اقبال کی ایک دوسری نظم میں(تخیلاتی طور پر) جبرائیل ؑ نے ابلیس کو پیشکش کی کہ آسمانوں میں واپس آجاؤ تو ابلیس نے جواب میں یہی کہا تھا کہ اس دنیا کا سارا سوز و ساز، یہ معرکۂ حق وباطل میری وجہ سے ہے ، اگر میں نہ ہوتا تو یہ ساری چیزیں نہ ہوتیں ۔ لہٰذا میرا اب یہاں دل لگ گیا اور واپسی کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ پانچواں مشیر مزید کہتاہے ؎
ابلہ جنت تری تعلیم سے دانائے کارابلہ سادہ انسان کو کہتے ہیں ۔ جیسا کہ ایک حدیث میں بھی آیا ہے کہ اہل جنت میں بہت سے بھولے بھالے اور سادہ لوگ ہوں گے ۔ ابلیس کا مشیر کہتا ہے کہ ایسے بھولے بھالے انسانوں کو آپ (ابلیس) نے اپنی تعلیم اور تربیت سے ہوشیار اور چالاک بنا دیا ہے ۔
تجھ سے بڑھ کر فطرتِ آدم کا وہ محرم نہیں
سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگارپروردگار کی بات تولوگوں نے نہیں مانی مگر آپ کے راستے پر بے شمار لوگ چل پڑے ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کی طبیعت کے ساتھ ان کی طبیعت میل کھانے والی ہے۔
کام تھا جن کا فقط تقدیس و تسبیح و طواف
تیری غیرت سے ابد تک سر نگوں و شرمساروہ فرشتے جن کا کام صرف یہ تھا کہ بس سجدے کرتے رہیں اور عبادت میں مصروف رہیں،وہ بھی اس وجہ سے اب شرمندہ ہیںاور سر جھکائے ہوئے ہیں کہ دیکھو ابلیس نے آدم کو سجدہ نہ کرکےغیرت کا مظاہرہ کیا اور انسانوں کی حالت دیکھو کہ اب ابلیس کی بندگی کر رہے ہیں ۔ اس وجہ سے فرشتے بھی اب شرمندہ ہیں ۔ (یہ محض شاعرانہ اسلوب ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ) ۔
گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحر تمام
اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتباراے ابلیس !اے شاہ پناہ !یہ جو فرنگی سیاست کے بڑے بڑے کردار اور نام ہیں یہ سب تیرے مرید ہیں ، تجھ سے ہی سیاست کی جادوگری سیکھتے ہیں ، یہ تمام بڑے بڑے سرمایہ دار ، بینکار ، افواج کے سربراہ ، سیاستدان ، حکمران اور دانشور تجھ سے ہی ٹریننگ اور ہدایت لے رہے ہیں ۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ اب ان کی تمام تر جادوگری ناکام ہورہی ہے ۔ اب مجھے ان کی فراست پر شک ہونے لگا ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ غلطی کر رہے ہیں ورنہ کیسے ممکن ہے کہ کارل مارکس جیسا شخص اُٹھتا اور اُس کی دعوت سے لوگ اتنے متاثر ہوجاتے ۔
وہ یہودی فتنہ گر وہ روح مزدک کا بروزبروز کا مطلب ہے ظاہر ہونا۔ مزدک مجوسیوں کا ایک نام نہاد دانشور تھا جس نے کہا تھا کہ دنیا میں سارے جھگڑوں کی بنیاد تین چیزیں ہیں : زن ، زر اور زمین ۔ اس نے کہا تھا کہ زن، زراور زمین کو مشترک ہونا چاہیے ۔ سب لوگوں کو مساوات کی بنیاد پر حقوق ملنے چاہئیں ۔ یہی بات آج کارل مارکس بھی کہہ رہا ہے ۔ گویا کہ مزدک کی روح اب کارل مارکس کی شکل میں دوبارہ ظاہر ہورہی ہے ۔
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تارہمارے ابلیسی نظام پر اب تک جو پردے پڑے ہوئے تھے اور اس کی وجہ سے دنیا میں ظلم و وحشت کاجو بازار گرم تھا اور انسان ہی انسان کے حقوق کا مخالف تھا ، انسان ہی انسان کے گلے کاٹ رہا تھا ، اب اس یہودی فتنہ گر کی وجہ سے وہ سارے پردے چاک ہورہے ہیں ۔ اس ظالم نے مزدوروں کو ان کے حقوق کا شعور دلا کر سرمایہ دار کے مدمقابل کھڑا کر دیا ہے ۔
زاغِ دشتی ہو رہا ہے ہمسرِ شاہین و چرغ
کتنی سُرعت سے بدلتا ہے مزاجِ روزگارزاغ دشتی کوے کی طرح کا ایک مردار خور پرندہ ہوتاہے جو کمزور پرندوں کا شکار کرتاہے اور شاہین اور چرغ سے مراد وہ پرندے ہیں جو اونچائی پر اُڑتے ہیں۔ مشیر کہتا ہے کہ اب ایک مردار خور پرندہ شاہین اور چرغ کا مقابلہ کرنے لگا ہے ۔ یعنی اس یہودی فتنہ گر کی وجہ سے ایک غلام یعنی مزدور اپنے آقا (سرمایہ دار) کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنے لگا ہے اور اپنے حقوق کی بات کرنے لگا ہے ۔ کیا غلاموں کے بھی کوئی حقوق ہوتے ہیں؟یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے زاغ دشتی شاہین اور چرغ کا مقابلے کرنے کی سوچے ۔ یعنی حالات کس قدر تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں ،حاکم اور محکوم کے تصور پر مبنی ہمارے نظام میں زلزلہ برپا ہوگیا ہے ۔
چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر
جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبارآشفتہ کا مطلب ہے بکھرکر پھیلا ہوا اور مشت غبار سے مراد ہے دھول ۔ وہ مزدور اور عام آدمی جن کی حیثیت ہمارے ابلیسی نظام میں گرد وغبار سے زیادہ نہ تھی اب کارل مارکس کے نظریہ اور افکار نے ان کے اندر ایسی اجتماعیت اور طاقت پیدا کر دی ہے کہ مستقبل میں وہ سیاست کے آسمانوں کو چھوتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور یہ ابلیسی نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے ۔ (جاری ہے )
tanzeemdigitallibrary.com © 2024