(زمانہ گواہ ہے) بنگلہ دیش میں تبدیلی کے پاکستان پر ممکنہ اثرات - محمد رفیق چودھری

12 /

بنگلہ دیش میں حالیہ سیاسی تبدیلی سے بھارت خطے میں تنہا ہو گیا

ہے جس کا بھرپور فائدہ پاکستان کو اُٹھانا چاہیے : رضاء الحق

اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے نظریۂ پاکستان کو خلیج بنگال

میں غرق کر دیا ہےجبکہ حالیہ بنگلہ دیشی انقلاب نے یہ ثابت کر

دیا ہے کہ نظریہ کبھی دفن نہیں ہو سکتا : ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

ہمارے بنگالی بھائیوں کی اکثریت آج بھی قائداعظم کو ہندو اور

انگریز سے آزادی کا ہیرو مانتی ہے : قیوم نظامی

بنگلہ دیش میں تبدیلی کے پاکستان پر ممکنہ اثرات کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:6اگست 2024ء کوبنگلہ دیش میں ایک عوامی انقلاب دیکھنے میں آیا جب 15 سال تک برسر اقتدار رہنے والی شیخ حسینہ واجد بھرپور عوامی احتجاج کا سامنا نہ کر پائی اوراُسے اپنی جان بچا کے بھارت بھاگنا پڑا۔ اس انقلاب کے محرکات کیا تھے؟
رضاء الحق: اصطلاحی طورانقلاب وہ ہوتا ہے جس میں اجتماعی زندگی کے تینوں گوشوں ( سیاسی ، معاشی اور معاشرتی ) میںسے کم ازکم کسی ایک میں جوہری تبدیلی آئے۔ انقلاب فرانس کو دیکھیں تو وہاں بادشاہت کا نظام ختم کرکے جمہوری نظام لاگو کیا گیا ۔ وہ ایک سیاسی انقلاب تھا ۔ اسی طرح بالشویک انقلاب میں سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ اشتراکیت نے لے لی ۔اُسے معاشی انقلاب کہا جائے گا ۔ بنگلہ دیش میں جو تبدیلی آئی ہے اس کو ہم حکومت کی  تبدیلی کہہ سکتے ہیں۔ وہاں شیخ حسینہ واجد 5 مرتبہ وزیراعظم رہ چکی تھیں اور گزشتہ پندرہ سال سے مسلسل اقتدار پر قابض تھیں۔ بدترین فسطائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کے رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالا ہوا تھا ۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسیاں دے رہی تھیں ۔ پھر یہ کہ انہوں نے بھارت نواز پالیسیاں جاری رکھی ہوئی تھیں کیونکہ بہرحال بنگلہ دیش کے قیام میں بھارت کا عمل دخل تھا اورپاکستان کو دولخت کرنے میں شیخ مجیب کو انڈیا کی مکتی باہنی کی مدد حاصل تھی ۔ شیخ حسینہ واجد بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کا گلا گھونٹے ہوئے تھیں ۔ یہاں تک کہ گزشتہ سال رمضان میں بعض یونیورسٹیز میں نماز تراویح کے اجتماعات پر بھی پابندی عائد کر دی تھی ۔اس وجہ سے بھی بنگلہ دیشی عوام میں غم و غصہ تھا کیونکہ اسلام سے محبت بنگلہ دیشی عوام کے دلوں میں رچی بسی ہوئی ہے جبکہ شیخ حسینہ واجد سیکولر ازم کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ ان سب محرکات نے مل کر ایک ایسی تحریک کو جنم دیاجس کا آغاز 13 جولائی کو یونیورسٹیز کے طلبہ نے کیا ۔ انہوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں۔ یہاں تک کہ فوج نے بھی مزید گولیاں چلانے سے انکار کر دیا ۔ جیسا کہ 1974ء میں پاکستان میں جب اینٹی قادیانی تحریک چلی تھی تو پاک فوج نے شہریوں  پر گولیاں چلانے سے انکار کر دیا تھا ۔ یعنی ایسا واقعہ مغربی پاکستان میں بھی ہوچکا ہے۔ وہاں دینی جماعتوں نے عبوری حکومت کا حصہ بننا پسند نہیں کیا ۔ جماعت اسلامی کےجو دفاتر سیل کیے ہوئے تھے وہ اب عبوری حکومت نے کھول دیے ہیں ۔ جماعت اسلامی کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں حصہ لے گی اور اندازہ یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں بنگلہ دیش میں  اسلام پسند جماعتیں پاکستان کے مقابلے میں زیادہ کامیابی حاصل کریں گی۔
سوال: 1971ء میں جب مشرقی پاکستان ہم سے کٹ کر بنگلہ دیش بن گیا تو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے ۔ کیا بنگلہ دیش میں حالیہ تبدیلی سے دو قومی نظریہ کی حقانیت ایک مرتبہ پھر واضح نہیں ہوگئی ؟
فرید احمد پراچہ:حالیہ بنگلہ دیشی انقلاب نے یہ ثابت کردیا ہے کہ نظریہ کبھی دفن نہیں ہو سکتا ۔ پاکستان کا نظریہ اسلام ہے اور اسلام زندہ حقیقت ہے ۔ بنگلہ دیش ہو یا دنیا کا کوئی بھی ملک، نظریۂ اسلام دن میں پانچ مرتبہ مساجد کے میناروں سے بلند ہوتاہے اور اس کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔بنگلہ دیش کے لوگ ہم سے زیادہ اسلام سے محبت کرنے والے اور اسلام کے لیے قربانیاں دینے والے لوگ ہیں۔ ان کا تعلق دین کے ساتھ بہت زیادہ مضبوط اور گہرا ہے۔ انہوں نے نظریۂ پاکستان کو ختم کرنے کی بھارتی کوشش کو خاک میں ملا دیا ہے ۔ بھارت نے 1971ء میں جو غلط فہمیاں پیدا کرکے بنگالی مسلمانوں کو ہم سے جدا کرنے کے کی کوشش کی تھی وہ ڈراما بے نقاب ہو چکا ہے ۔ بنگالیوں کو یاد ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد کس طرح بھارت نے بنگلہ دیش کو لوٹا اور بنگالیوں کو قحط جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ ڈھاکہ کی سڑکیں بھوک سے مرنے والوں کی لاشوں سے بھر جاتی تھیں۔ وہ ساری یاداشتیں بنگالیوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ہمارا بنگالیوں کے ساتھ صرف کلمہ کا رشتہ تھا ورنہ ہماری نہ زبان ایک تھی ، نہ نسل ، نہ ثقافت ۔ ہمیں صرف کلمے نے جوڑا تھا لیکن جب ہم نے کلمہ کے نظام کو قائم نہیں کیا تو مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے کا موقع ہم نے خودفراہم کیا ۔ پھر ہماری بیوروکریسی نے بھی سامراج کا رول ادا کیا ، پھر جب شیخ مجیب نے 1970ء کےانتخابات جیت لیے تو ہم نے اسے حکومت نہیں بنانے دی ۔ ورنہ بنگالی تو اسلام کی وجہ سے ہم سے بہت محبت کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں ۔2005ء میں جب میں ممبر اسمبلی تھا تو ایک نجی دورے پر بنگلہ دیش گیا ۔ وہاں جماعت کے ساتھی مجھے ناشتے کے لیے ایک بڑے ہال میں لے گئے اور اعلان کیا کہ آج ہمارے ساتھ پاکستان کی اسمبلی کے ممبر موجود ہیں۔ یہ سن کر پورے ہال میں لوگ کھڑے ہوگئے اور تالیاں بجانے لگے ۔ پھر ایک مرتبہ ڈھاکہ سٹیڈیم میں پاک بھارت کرکٹ میچ ہورہا تھا تو بنگالیوں نے پاکستان کے جھنڈے لہرائے ہوئے تھے۔ لہٰذا بنگالیوں کی محبت آج بھی پاکستان کے ساتھ ہے ، بھارت کے ساتھ نہیں ہے ۔
سوال: بنگلہ دیش میں حالیہ انقلاب کے بعد 11 ستمبر 2024 ءکووہاں متعدد مقامات پر قائد اعظم کا یوم وفات منایا گیا۔ کیا بنگلہ دیشی عوام میں واقعتاً شیخ مجیب کی بیٹی سے نفرت اور قائد اعظم سے محبت پیدا ہو گئی ہے؟
قیوم نظامی: میں یہ سمجھتا ہوںکہ ہمارے بنگالی بھائیوں کی قائد اعظم سے محبت پرانی ہے۔ تحریک پاکستان میں قائداعظم کے سب سے زیادہ ساتھی اور دست و بازو بنگال سے تھے ، پاکستان کے باقی صوبے اس معاملے میں بہت پیچھے تھے۔ بنگالیوں کی اکثریت آج بھی قائد اعظم کوہندو اور انگریز سے آزادی کا ہیرو مانتی ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ شیخ مجیب انڈیا کا ایجنٹ تھا اور اس کی بیٹی بھی اسی کے نقش قدم پر چل رہی تھی۔ شیخ حسینہ واجد نے اپنی یاداشتوں پر مبنی کتاب میں لکھا ہے کہ شیخ مجیب نے 1962ء میں علیحدگی کی خفیہ تحریک انڈین خفیہ ایجنسی کی مدد سے شروع کی تھی ۔ وہ بنگلہ نیشنل ازم کے بھی خلاف جارہے تھے اسی وجہ سے بعد ازاں شیخ مجیب اور اس کی فیملی کو قتل کر دیاگیا تھا۔ بنگالیوں کو نہ تو قائداعظم سےنفرت تھی اور نہ ہی پاکستان سے بلکہ ان کو نفرت مغربی پاکستان کے ان جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، جرنیلوں اور بیوروکریٹس سے تھی جو ان کا استحصال کر رہے تھے اور وہ حقوق ان کو نہیں دے رہے تھے جن کا وعدہ 1940ء کی قرارداد میں کیا گیا تھا کہ تمام صوبوں کو خود مختاری دی جائے گی ۔ لیکن بعدازاں پاکستان کو سکیورٹی سٹیٹ بنا دیا گیا ویلفیئر سٹیٹ نہیں بنایا گیا ۔ اب موقع ہےکہ ایک بار پھر بنگالیوں کا دل جیتا جائے ۔
سوال: شیخ حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں مذہبی رہنماؤں اور مذہبی سیاسی جماعتوں پر بدترین کریک ڈاؤن کیا گیا ۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش سے وابستہ کئی قدآور شخصیات کو پھانسی دی گئی ۔ شیخ حسینہ واجد کی ایسی وحشیانہ حرکات کی وجوہات کیا تھیں ؟
فرید احمد پراچہ:جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو جماعت اسلامی نے اسے تسلیم کیا۔ خود جماعت اسلامی بنگلہ دیش قائم ہوئی تو کسی نے اسے خلافِ قانون قرار نہیں دیا ، پروفیسر غلام اعظم کی شہریت بحال ہوئی تو وہاں کی عدلیہ نے بحال کی۔ خودشیخ مجیب کے وقت 37442 افراد پر مقدمات قائم ہوئے ،782 کو سزائیں ملیں ، ان میں سے کوئی بھی جماعت اسلامی کا نہیں تھا ۔ پھر اس کے بعد عام معافی کا اعلان کر دیا گیا۔ پھر ایک سہ فریقی معاہدہ پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان ہوا جس میں طےپایا کہ کسی پر جنگی جرائم کے مقدمات قائم نہیں ہوں گے ۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کے رہنما انتخابات میں حصہ لیتے رہے ، حکومتوں کا حصہ رہے ، وزراء  رہے ۔ خود حسینہ واجد کی پارٹی نے ان کے ساتھ اتحاد کیا ۔ کوئی ایسی وجہ نہیں تھی کہ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو اتنی سخت سزائیں دی جاتیں سوائے اس کے کہ بھارت دیکھ چکا تھا کہ یہاں تو ایک اور پاکستان بن رہا ہے ، بنگالی عوام میں اسلام اور پاکستان سے اب بھی محبت ہے تو اس کو ختم کرنے کے لیےشیخ حسینہ واجد کے ذریعے جعلی ٹربیونل بنائے اور جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے ۔ پروفیسر غلام اعظم، مولانا ابوالکلام محمد یوسف ، مولانا عبدالسبحان جیسے لوگوں کے جنازے جیلوں سے نکلے ، مطیع الرحمن نظامی ، عبدالقادر ملا اورقمر الزماں جیسے لوگوں کو پھانسیاں دی گئیں ۔ یہ سارے وہ لوگ ہیں جو اپنے معاشرے میں بہت ہی بلند مقام رکھنے والے لوگ تھے ۔
سوال:کہا یہ جا رہا ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ اورڈاکٹر محمد یونس کی عبوری حکومت کا قیام بھارت کے لیے بہت بڑا دھچکا ہیں ۔اس میں کتنی سچائی ہے ؟
رضاء الحق: یہ واقعتاً بھارت کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے کیونکہ سقوط ڈھاکہ کے وقت اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میںغرق کر دیا ہے ۔ اس وقت سے لے کر حسینہ واجد کے دور حکومت تک بھارت بنگلہ دیش کو اپنی پراکسی کے طور پہ استعمال کرتا رہا ۔ بھوٹان ، مالدیپ ، میانمار ، نیپال اور سری لنکا جیسے ہمسایہ ممالک پہلے ہی بھارت سے دور ہوتے جارہے تھے۔ بنگلہ دیش اس کا واحد اتحادی رہ گیا تھا لیکن اب وہ بھی دور ہوگیا ہے اور بھارت خطے میں تنہائی کا شکار ہورہا ہے ۔ دوسری طرف ڈاکٹر محمد یونس کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے خواہاں  ہیں۔ یہ فضا پاکستان کے حق میں اور انڈیا کے خلاف بن رہی ہے لیکن پاکستان اس سے فائدہ اُٹھاتا ہوا نظر نہیں آ رہا کیونکہ 11 ستمبر کو ڈھاکہ یونیورسٹی اور دیگر کئی مقامات پر پاکستان کے حق میں تقاریب کا انعقاد ہوا جن میں پاکستان نے اپنے سفیر کو نہیں بھیجا بلکہ ماتحت سفارتی افسر نے نمائندگی کی۔ یہ ایک سٹریٹیجک غلطی ہے جو پاکستان نے کی ہے۔ امید ہے کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں دہرائی جائے گی ۔ بھارت کے ساتھ امریکہ اور اسرائیل بھی ہیں جو پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں کیونکہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور اسرائیل کی آنکھوں میں  بھی کھٹکتا ہے ۔ ان حالات میں پاکستان کو کم ازکم بنگلہ دیش کو اپنے ساتھ ملانا چاہیے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اور دیگر ادارے مل بیٹھ کر ایک لانگ ٹرم سٹریٹجی اور پالیسی بنائیں جوکہ پاکستان کے مفاد میں ہو ۔
سوال: بنگلہ دیش کے عبوری وزیراعظم ڈاکٹر محمد یونس کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان سے تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں اس اُبھرتی ہوئی صورتحال میں حکومت پاکستان کو کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے؟
قیوم نظامی:بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان ڈپلومیسی کے لحاظ سے عالمی سطح پر بالکل ناکام ہو چکا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں میرٹ کی پامالی اور کرپشن عام ہے ۔ اعلیٰ عہدوں پر لوگ میرٹ کی بجائے تعلقات کی بنیاد پر تعینات ہورہے ہیں ۔ اس وجہ سے اللہ پاک نے جو موقع دیا ہے کہ ہم بنگالی مسلمانوں کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھائیں اس سے ہم فائدہ نہیں اُٹھا پارہے ۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ بنگلہ دیش میں انتہائی جذبہ رکھنے والا کوئی سفیر تعینات ہوتا اور پاکستان کے لیڈرز بھی مخلصانہ کوشش کرتے تو بنگلہ دیش کے ساتھ ہماری کنفیڈریشن قائم ہو نے کی بات کا آغاز ہو چکا ہوتا ۔
سوال: کیاوجہ ہے کہ معاشی بدحالی اور سیاسی استحصال کے شکار پاکستانی عوام لوٹ مار میں مصروف اشرافیہ کے خلافبنگلہ دیشی عوام کی طرح  اُٹھ کھڑے نہیں ہوئے ؟
فرید احمد پراچہ: بنگلہ دیش کے مقابلے میں پاکستان میں حکمرانوں کے مظالم بہت بڑھے ہوئے ہیں ۔ یہاں تو ان ظالموں نے ملک اور قوم کو ہی بیچ دیا ہے ۔ سودی نظام مسلط کرکے قوم کو قرضوں کی دلدل میںاس قدر دھنسادیا ہے کہ لوگ مہنگائی کی چکی میں بُری طرح پس رہے ہیں ، آئی پی پیز جیسے بدنامِ زمانہ معاہدوں کے ذریعے قوم کا لہو نچوڑا جارہا ہے اور ان بدنامِ زمانہ کمپنیوں کے مالک بھی خود ہمارے حکمران ہیں ۔ یعنی ظلم کی انتہا ہے ۔ یہاں لوگوں کو زیادہ شدت کے ساتھ ان ظالموں کے خلاف کھڑے ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اگر عوام ان کے خلاف کھڑے نہیں ہورہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں ایک تو جاگیر دارانہ نظام ہے ، دوسرا لوگوں کو انفرادی سطح پر اپنے مسائل میں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ دو وقت کی روٹی مہیا کرنا ان کے لیے مشکل ہو گیا ۔ لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ یہاں کبھی طوفان نہیں آئے گا ۔ حکمران مطمئن نہ ہوں ۔یہ لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے ۔ اگر حکمرانوں نے قوم کواسی طرح سودی نظام اور IMFکی غلامی میں جکڑے رکھا اور قادیانیوں کی سرپرستی کا سلسلہ بند نہ کیا تو یہ لاوا کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے ۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ لوگوں میں سیاسی شعور نہیں ہے ۔ ابھی جماعت اسلامی نے 14 دن کا دھرنا دیا تو لوگ ہی تھے جو اس میں شامل تھے پھر اس کے بعد ہڑتال ہوئی تو دو کروڑ کے قریب شٹر بند ہوئے ۔ لہٰذا حکمرانوں کو عوام پر ظلم کرکے خوابِ خرگوش کے مزے نہیں لینے چاہئیں بلکہ حسینہ واجد کے انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہیے ۔
قیوم نظامی: بدقسمتی سے پاکستان کے لوگ اس طرح کے نیشنلسٹ نہیں ہیں جس طرح کے بنگالی نیشنلسٹ ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہاں پر ایک قومیت کے لوگ ہیں ، ان کی زبان ایک ہے ، ثقافت ایک ہے ، زیادہ فرقہ پرستی بھی نہیںہے، نہ ہی اتنے زیادہ پیرزادے ہیںاور نہ طبقاتی تفریق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش معاشی ، سیاسی اور ہر لحاظ سے ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے ۔ جبکہ یہاںیہ سب مصیبتیں موجود ہیں اور ان کی وجہ سے یہاں کرپشن اور اقربا ء پروری بہت زیادہ ہے ۔ البتہ اگر نوجوانوں کی کوئی جماعت اُٹھے اور تحریک چلا کر شخصیت پرستی سے قوم کو ہٹا کر نظام کی تبدیلی کی طرف لے کر آئےتو شاید کوئی انقلاب آجائے۔ بنگلہ دیش کے نوجوانوں نے روایتی لیڈروں کو مسترد کرکے عوام کی بالادستی قائم کی۔ اسی طرح آزاد کشمیر میںنوجوانوں نے روایتی لیڈروں کو مسترد کر کے اپنے زورِ بازو پر تحریک چلائی اور اپنے مطالبات منوا لیے ۔ پاکستان کے نوجوان بھی اگر روایتی لیڈروں سے الگ ہو کر اپنا کوئی پلیٹ فارم بنائیں اور اس کے تحت جدوجہد کریں تو یہاں بھی ایک بڑی تبدیلی آسکتی ہے ۔
سوال:بنگلہ دیش میں طلبہ یونین کا بہت اہم کردار رہا ہےاور حالیہ تحریک بھی طلبہ کی ہی مرہونِ منت تھی جبکہ پاکستان میں طلبہ یونین پر ایک عرصہ سے پابندی عائد ہے تو یہاں کس طرح سے طلبہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں گے اور پھر کسی تحریک کی بنیاد رکھیں گے ؟ 
قیوم نظامی: ضیاءا لحق نے سیاسی جماعتوںکو کمزورکرنے کے لیے طلبہ یونین پر پابندی لگائی تھی۔ اس پابندی کوختم ہونا چاہیے تاکہ طلبہ کو تعلیم کے ساتھ سیاسی امور کے حوالے سے بھی آشنائی ہواور پاکستان کی سیاست پر چند خاندانوں ، جاگیرداروں اور گدی نشینوں کی اجارہ داری ختم ہو اور مغربی نظام کی بجائے اسلامی نظام کا تصور پروان چڑھ سکے ۔
سوال: بنگلہ دیش میں رونما ہونے والے واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کوئی پُرامن احتجاجی تحریک چلے تو اس سے ایک بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔پاکستان میں بھی کئی دینی جماعتیں انقلاب کے لیے کام کر رہی ہیں کیا بنگلہ دیش کےاس سارے منظر نامے میں پاکستانی دینی جماعتوں کے لیے کوئی سبق ہے؟
رضاء الحق: یقینا ً پاکستانی دینی جماعتوں کے لیے اس میں بہت اہم سبق ہے۔ تاہم پاکستان میں انقلابی جدوجہد کی قائل جماعتوں کے نزدیک محض حکومت کی تبدیلی مطلوب نہیں ہے ۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ  نے منہج انقلاب نبوی ﷺکی روشنی میں اس حوالے سے ایک پورا لائحہ عمل دیا ہوا ہے ۔ نظام کی بنیاد کے لیے نظریہ یعنی اسلام تو ہمارے پاس موجود ہے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم منظم ہو کر اس مشن کو پورا کرنے کی جدوجہد کریں ۔ اس جدوجہد میں مشکلات اور رکاوٹیں بھی آئیں گی ، قربانیاں بھی دینی پڑیں گی ۔ جب تک جدوجہد کرنے والے اس پوزیشن میں نہ آجائیں کہ وہ باطل نظام کا مقابلہ کر سکیں اس وقت تک ان کو سختیاں جھیلنی پڑیں  گی۔ مکمل نظام کی تبدیلی تک غیر مسلح ، منظم اور پُرامن جدوجہد جاری رکھنا پڑے گی ۔ تحریک کے مرحلہ میں بھی جان دینے کی بات کی جائے گی لیکن جان لینے کی بات نہیں کی جائے گی کیونکہ یہاں سب مسلمان ہیں۔ اس طریقہ کار کے مطابق یہاںایسا انقلاب آسکتا ہے جو سیاسی، معاشی اور معاشرتی تینوں سطحوں پر باطل نظام کو اُکھاڑ کر اسلامی نظام قائم کر سکتا ہے۔محض حکومت کی تبدیلی یا چہرے بدلنے سے وہ انقلاب نہیں آئے گا ۔ دو قومی نظریہ بھی یہی تھا اور اس کی بنیاد پر پاکستان کا قیام بھی اسی مقصد کے لیے عمل میں آیا تھا کہ یہاں اسلام کا نظام قائم کیا جائے ۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم کی قیام پاکستان سے قبل اور اور بعد کی کم وبیش 110 تقاریر ایسی ہیں جن میں یہ مقصد واضح طور پر دکھائی دیتا ہے ۔ اس سے قبل علامہ اقبال کا بھی یہی خواب تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ دور ملوکیت میں اسلام پر جو بدنما داغ پڑ گئے تھے انہیں دھو کر ایک حقیقی نظامِ عدلِ اجتماعی قائم کیا جائے ۔ بنگلہ دیش میں چند ماہ کے اندر جو تبدیلی آئی ہے اس میں صرف حکومت تبدیل ہوئی ہے ، نظام وہی پرانا ہے جبکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہاں سود کا بھی خاتمہ ہو ، فحاشی اور بے حیائی کا بھی سدباب ہو ،ہمارا سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام بھی قرآن و سنت کی روشنی میں قائم ہو۔ یہ درحقیقت اقامت ِ دین کی جدوجہد ہے۔ ممکن ہے ہماری زندگیوں  میں ایسا انقلاب نہ آسکے لیکن اگر ہم اس کے لیے جدوجہد کریں گے تو ہمیں اس کا اجر ضرور ملے گا اور روزِ قیامت عذر پیش کرسکیں گے کہ ہم نے اللہ کے دین کے لیے جدوجہد کی تھی ۔