پیش کر غافل عمل.....
عامرہ احسان
ہفتۂ رفتہ پی ٹی آئی کے جلسے کی گرفت میں رہا۔ ملکی معیشت پر ایک بھاری بوجھ جلسوں، دھرنوں، جمہوری گردبادوں کا بھی رہتا ہے۔ جمہوریت نہایت مہنگا کھیل ہے۔ شہروں میں آمد و رفت، کاروبارِ زندگی کا معطل ہو جانا ایک معمول ہے۔ حکومت اور عوام سب کے کام ٹھپ۔ پھر قوم نے بے شمار دن منانے کی چھٹیاں لینی ہوتی ہیں۔ عیدین، یومِ آزادی، محرم، ربیع الاوّل سبھی ہفتے بھر پر محیط۔ نتیجہ یہ کہ اپنی معیشت رو بہ زوال دائماً اور ہم آئی ایم ایف کے در کے بھکاری۔ وہاں تک رسائی کے لیے وزیرا عظم کے مطابق ہم سعودی عرب، امارات اور چین کے ممنون ہیں! آج دنیا کے کسی اہم فورم، بین الاقوامی تنازعات، مسلم دنیا کے مسائل میں ایٹمی پاکستان کی کوئی حیثیت باقی نہ رہی معاشی محتاجی کے ہاتھوں۔ تحریک ِانصاف کے جلسے کے صرف کنٹینر ہی قوم کو 10 کروڑ میں پڑے۔ باقی اخراجات الگ رہے۔ اور صوبائی حکومت کے وسائل مزید لٹائے گئے۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ دل دماغ جھنجھنا کر رکھ دینے والی گنڈا پوری تقریر کی بازگشت ۔صحافیوں کے خلاف بد زبانی پر معافی درکار ہے تو برادر ملک افغانستان کو عصبیت پر ابھارنے پر نہایت متنازعہ بیان کی للکار معافی طلب نہیں؟ بانی پی ٹی آئی نے اس تقریر کی تائید فرمائی اور گنڈا پور کے الفاظ پر معذرت کرنے والوں کو ’بزدل‘ قرار دیا۔ چلیے یہ زبان تو چونکہ ان کے ہاں (سوشل میڈ یا پربھی) پارٹی کی شناخت رہی۔ مگر برادر ملک سے تعلقات مجموعی طور پر مضبوط اور درست، مثبت نہج پر قائم کرنا لازم ہے، امریکہ کی ضروریات، خواہشات نبھاتے ہوئے الجھاؤ پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ مسلم پڑوسی، جس کے ذریعے آگے پوری زنجیر مسلم آبادی کے وسط ایشیائی ممالک کی ہے، ان تک رسائی کی ہماری دینی، معاشی ضروریات پیشِ نظر رکھنی لازم تھیں۔اپنی غلطیوں، کوتاہیوں کا اعتراف کر کے دن بدن دنیا سے کٹ کر بھی افغان کرنسی اور معیشت مضبوط تر ہو رہی ہے، ہم بھی فیض یاب ہوتے۔ قوم کو خود سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہے! قبل ازیں عمران خان شیخ مجیب الرحمن کے حوالے سے متنازعہ ٹویٹ دے چکے ہیں۔ (اگر چہ ایسے ہر بیان، ہر پوسٹ سے جلد ہی انکاری ہو جاتے ہیں۔)یہ معاملات افغانستان اور بنگلہ دیش پر مسلسل نگاہ رکھنے اور بے لاگ صرف اور صرف اپنے ملک کی سانسیں بحال رکھنے اور اسے مضبوط کرنے کی فکررکھنے سے ہی سمجھنا ممکن تھا۔ نظریاتی حوالے تو امریکہ اور رئیس ممالک کی معاشی غلامی نے ہمیں بھلا دیئے۔ بلوچستان اور کے پی کے کے لیے ملک توڑنے کے مترادف باتیں کیونکر گوارا کی جاسکتی ہیں۔ اقبالؔ تو سپین پر بھی مسلمانوں کا حق جتا چکے ہیں کہ 8 سو سال ہماری حکمرانی رہی۔ قدموں تلے پاکستان بے پناہ قربانیوں کا ثمر، کیونکر کھلنڈری، مفاداتی، صرف پارٹی سیاست استوار کرنے والے کسی بھی گروہ کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔
بار بار متوجہ کر رہی ہوں۔ بنگلہ دیش سے نظریں نہ چرائیں، یہ سابقہ پاکستان ہی ہے۔ وہ محبت کی زبان ہمارے لیے بول رہے ہیں۔ بھارت کے لیے ان کا ہر فرد سراپا نفرت ہے۔اس وقت شیخ مجیب الرحمن یا حسینہ واجد کا حوالہ نری حماقت اور اپنی تاریخ اور رواں حالات سے لاعلمی کا ثبوت ہے۔
ڈھاکہ ٹربیون جو ایک سیکولر اخبار ہے، تمام خبریں دیانتداری سے دے رہا ہے۔ بشمول پاکستان کی طرف مثبت اشارات والی تقریبات وبیانات کے۔ پاکستان دونوں اطراف مغرب یا مشرقی بنگال، لسانی یا نسلی بنیاد پر نہیں بنا تھا۔ اس کی بنیا د سرتاسر ایمانی اور کلمہ لا الٰہ الا اللہ کی تھی۔ اس پر قائد اعظم کی سو تقاریر گواہ ہیں۔ مگر حکومت اور بیانات دینے والوں کی تربیت اکلوتی 11 اگست کی تقریر ہے جس میںاقلیتوں کو تسلی دینے کے چند حروف ہیں۔ (جسے ماہرینِ جناح، وضع کی گئی اختراعی تقریر گردانتے ہیں!) بنگلہ دیش نے رواں تاریخ میں پہلی مرتبہ 53 سال بعد بانیٔ پاکستان کی حیثیت سے قائد اعظم کی برسی منائی ہے، حیران کن اور خوش آئند ہے۔ پاکستانی ہائی کمشنر کو مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیا۔ (خود نہ گئے، ڈپٹی ہائی کمشنر کو بھیجا۔ امریکہ نے بلایا ہوتا تو کبھی ایسا نہ کرتے!) صدارتی خطبے میں پروفیسر ڈاکٹر مستفیض الرحمٰن نے جناح کی زندگی پر تفصیلی گفتگو کی۔ بار بار مقررین نے یہ دہرایا کہ اگر 1947 ء میں بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ نہ ہوتا تو آج ہمارا حشر بھارتی بندوقوں کے سائے تلے کشمیر کا سا ہوتا۔ حقیقت پسندی اور اعترافات (بڑھکوں کی نسبت) بڑائی کی علامت اور قومی زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے لازمی ہیں ۔ کنوینر نذر الاسلام نے کہا: اب جبکہ ہم نے آزادی حاصل کرلی ہے، (مجیب الرحمن، بابائے بنگلہ دیش کو 4 سال بعد اُن کی قوم نے خاندان سمیت مار ڈالا تھا۔ اب بیٹی حسینہ واجد کے بھارت فرار کو پورا بنگلہ دیش، قوم کی آزادی قرار دے رہا ہے!) پاکستان سے تعلقات قائم رکھنا نہایت اہم ہے۔ جناح بابائے قوم ہیں ہم اس کا اقرار نہیں کرتے۔ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر شاہد الزمان نے ایک اور مقام پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمارا سب سے زیادہ لائقِ اعتماد اور قابلِ بھروسا سیکورٹی اتحادی ہو سکتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو بھارت نہیں چاہتا کہ ہم جانیں اور تسلیم کریں۔ پروفیسر کی خوش گمانی کی حد یہ تھی کہ: پاکستان ہمیں بھارت سے بچانے کے لیے سب کچھ کر گزرے گا! اللہ ہمیں اس قابل کر دے۔ کشمیر کے بعد اب بنگلہ دیش امید باندھنے چلا ہے!
یہ سمجھ لیجیے کہ بھارت، سوویت یونین گٹھ جوڑ نے پاکستان توڑا۔ (مجیب الرحمن اور مکتی باہنی کی تفصیل خود ان کی زبانی ’بنگلہ پیڈیا‘ کے حوالے سے پہلے لکھ چکی ہوں۔) امریکہ آج بھی ایٹمی پاکستان اور معاشی طور پر بہت بہتر (ٹیکسٹائل صنعت میں دنیا میں نمبر 2) بنگلہ دیش کا قرب گوارا نہ کرے گا۔ بھارت کی 3 اطراف سے جڑی سرحد پر 54 دریاؤں سمیت وہاں ایک نئے پاکستان کا ظہور بھارت کے لیے جان لیوا ہے۔ اسی طرح ٹی ٹی پی سے الجھاؤ کا توڑ گنڈا پور فارمولے میں نہیں، برادر افغانستان کو دھمکانے الجھانے کی بجائے بھلے طریقے، حقیقت پسندی اور دیانتدرانہ مذاکرات میں مضمر ہے۔
بنگلہ دیش کے پاس ولولہ انگیز، سنجیدہ فکر، با صلاحیت قابلِ رشک طلبہ کی کھیپ ہے۔ ہماری کم نصیبی یہ ہے کہ ہم غلامانہ طرزِ تعلیم نظامِ تعلیم کے نتیجے میں لا ابالی، کھلنڈری، تماش بین نسل دیکھ رہے ہیں جو ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف! مہنگی پرائیوٹ یونیورسٹیاں۔ انڈس یونیورسٹی کا ڈگری شو۔ دعوت نامہ عام ہے۔ جس پر نیم برہنہ سے کچھ زیادہ ایک دھندلا عکس، شو کے نمونے کے طور پر، تعلیمی کار کردگی، تخلیقی صلاحیت، لگن کا عکاس ہے! (یہ میزبانوں کا کہنا ہے۔) نسلیں کیا کر رہی ہیں۔ آئے دن کی کہانیاں ہیں۔ اسلام آباد میں ایف الیون میں دو لڑکیاں اور ایک نوجوان ڈانس پارٹی میں شریک زہریلی شراب پی کر مرگئے! پناہ بخدا۔ منشیات اور ڈانس پارٹیاں پوش نامور یونیورسٹیوں کی ہم نصابی سرگرمیاں ہیں۔ امریکہ میں ساری یونیورسٹیوں کے ڈگری شو( بلا مبالغہ) غزہ کے غم میں ڈوبے رہے۔ فلسطینی جھنڈے، کفنیہ پہنے، بینر اُٹھائے، اپنی جوانی کی قوتیں اور عزائم ہمارے فلسطین اور ہماری مسجدِ اقصی پر سال بھر سے نچھاور کر رہے ہیں! حتیٰ کہ اُن کی رقاصائیں، فلم میکر بھی غزہ غزہ پکار رہی ہیں۔ یہو دی سارہ فریڈ لینڈ نے اپنا ایوار ڈاہل غزہ کے نام کیا۔ پورا ہال تالیوں سے گونج اُٹھا، زبردست پذیرائی ہوئی۔ ہمارے ہاں کوئی ایسا کہہ دے تو سناٹا شائقین، تماشائیوں پر چھا جائے۔ ہائے! یہ کیا کہہ دیا۔ ہماری ایک نامور رقاصہ نے آواز بلند کی تھی تو ہال سے باہر دھکیل دی گئی۔ سرزنش ہوئی! جبکہ اس فلم میکر نے کہا کہ میں فلسطین کی آزادی کے لیے ان کے ساتھ کھڑی ہوں! ضرورت ہے کہ ہر ادارے، ہر پلیٹ فارم پر عالمی سطح پر اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔
اسرائیل کو دنیا نہیں روک سکی۔ امریکہ، مغربی لیڈر اسلحہ سپلائی میں حصہ دار رہے۔ اب اندرون خانہ نتین یاہو کو اپوزیشین، یرغمالیوں کے لواحقین کی شدید تنقید اور مزاحمت کا سامنا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ جب تک یا ہو حکمران ہے۔ یہ جنگ ختم نہ ہوگی۔نیتن یا ہو حکومت ملک کو لا منتہا جنگ میں گھسیٹ رہی ہے۔ اسرائیل کا لہو مسلسل غزہ میں بہہ رہا ہے۔ سابق میجر جنرل کے مطابق، یہ اپنی حکومت کے قائم رکھنے، اپنے سیاسی استحکام کی خاطر جنگ لڑ رہا ہے۔ (جنگ ختم ہوئی تو فوری انتخابات اور اس کی شامت متوقع ہے!) تا کہ اس کا کرپشن کا مقدمہ ٹل جائے ورنہ گرفتار ہو جائے گا۔ دونوں میاں بیوی غیر ملکی شراب اور آئس کریم (بیوی کی کمزوری!) میں دھت، لت پت فلسطین کو لہو میں رنگ رہے ہیں۔ ہم بھی تماش بین ہیں! لمحہ لمحہ ہر انسان کے نامۂ اعمال میں ثبت ہو رہا ہے۔ حساب تو ہوگا۔
کیا عامی اور کیا عالم! کیا حکمران اور کیا عوام!
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے