عہد کی پابندی
پروفیسر محمد یونس جنجوعہ
آپس میں مل جل کر رہتے ہوئےوعدے وعید اورعہد و معاہدے کے معاملے پیش آتے رہتے ہیں۔ اسلامی اخلاق میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ خود وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ اور مومنوں کو بھی اللہ کے اخلاق سے متصف ہونے کی ہدایت ہے۔ تخلقوا باخلاق اللہ۔ اللہ کے اخلاق اپنائو۔ قرآن مجید میں ہے:{فَلَنْ یُّخْلِفَ اللہُ عَہْدَہٗ} (البقرہ:80) ’’اللہ تعالیٰ اپنے قول وقرار کے خلاف نہ کرے گا۔ ‘‘چنانچہ عہد کو پورا نہ کرنا منافقت کی علامت ہے۔ آپ ؐنے فرمایا منافق کی چار علامتیں ہیں۔ یہ چاروں عادتیں ایسی ہیں کہ جس کسی میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے۔ (اور وہ اسی حال میں رہے گا) جب تک کہ وہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔(وہ چاروں عادتیں یہ ہیں) جب اس کو کسی امانت کا امین بنایا جائے تو اس میں خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب عہدیا معاہدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب کسی سے جھگڑے اور اختلاف کرے تو بدزبانی کرے۔(متفق علیہ عن عبد اللہ بن عمروؓ)
جب ہم منافقت کی بات کرتے ہیں تو عہد رسالت کے مشہور منافق عبد اللہ بن ابی کا نام ذہن میں آتا ہے۔ وہ عقیدے کا منافق تھا، وہ بدترین انسان تھا اور بظاہر مسلمان تھا لیکن اسلام اور مسلمانوں کا دشمن تھا۔ منافق اس قدر بے کردار انسان ہے کہ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ وہ دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہو گا۔قرآن مجید میں ہے: ‘{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِط} (المائدۃ:1) ’’اے اہل ِایمان! اپنے عہد و پیمان (قول و قرار )کو پورا کیا کرو۔‘‘ جس کے ساتھ وعدہ کیا جائے اسے پورا کرنا لازم ہے کیونکہ اسے امید ہوتی ہے کہ یہ وعدہ پورا ہو گا۔ اگر وہ پورا نہیں ہوتا تو اس کو پہلے انتظار کی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے اور اگر وعدہ کرنے والے نے اسے پورا نہ کیا تو یہ تکلیف شدید ہو جاتی ہے اور اپنے رویے سے کسی کو تکلیف دینا گناہ کا کام ہے۔ قرآن مجید میں عہد کی پابندی کا بار بار حکم ہے۔ سورۃالبقرہ میں نیکی کے کاموں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: {وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰہَدُوْاج } (آیت:177) اچھے لوگوں کی یہ صفت ہے کہ وہ جب وعدہ کرتے ہیں تو پورا کرتے ہیں۔ اسی طرح سورۃ المعارج میں ہے:{وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ(32)}(المعارج) ’’اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس کرنے والے ہیں۔‘‘
یہ جنتی لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے۔ عہد اور معاہدہ کا تاکیدی حکم ہے کہ جب کسی کے ساتھ لین دین یا کسی اور بات پر عہد کر لیا جائے تو اس کو بلا کم وکاست پورا کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں باز پرس ہو گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:{وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِج اِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْئُوْلًا(34)} (بنی اسرائیل)’’اور عہد کو پورا کرو‘یقیناً عہد کے بارے میںباز پُرس ہو گی۔‘‘
اگر مشرکوں کے ساتھ کوئی معاہدہ کر لیا ہے تو اُس کی بھی پابندی کرنی ہے ہاں اگر وہ عہد کو توڑیں تو مسلمان بھی اس عہد کو توڑ سکتے ہیں۔ پہلے بتا کر کہ تم لوگ عہد توڑ رہے ہو تو ہمارا تمہارا معاہدہ ختم۔ تاکہ ان کو صورت حال کا علم ہو جائے۔ منافقت کی ان علامتوں میں ایک علامت عہد و معاہدہ کی پابندی نہ کرنا ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مومن کی طبیعت میں ہر خصلت کی گنجائش ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔ (مسند احمد وشعب الایمان للبیہقی) مسلمان ماں باپ کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود ان عادتوں کو چھوڑیں۔ اپنے بچوں کی تربیت ان کے ذمہ ہے لہٰذا ان کے لیے لازم ہے کہ وہ ان کو ان بُری عادتوں سے بچنے کا نمونہ بھی پیش کریں اور ان کے کردار کا جائزہ بھی لیتے رہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ عہد کی پابندی کے سلسلہ میں آپؐ کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ آپؐ نے عبد اللہ بن ابی الحمساء کے ساتھ وعدہ کر لیا کہ تم آجائو میں یہاں تمہارا انتظار کروں گا۔ مگر وہ جا کر بھول گئے۔ رسول اللہ ﷺ ایفائے عہد کی خاطر وہیں کھڑے اس کا انتظار کرتے رہے۔ عبد اللہ تین دن کے بعد وہاں آئے تو دیکھا کہ حضور ﷺ اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ عبد اللہ کو دیکھ کر آپؐ نے فرمایا تم نے مجھے بڑی مشکل میں ڈالا اور بڑی زحمت دی۔ میں تین دن سے تمہارے انتظار میں یہیں ہوں۔(سنن ابی دائود)
یہ واقعہ قبل ازنبوت کا ہے گویا نبوت ملنے سے پہلے بھی آپؐ کا کردار اس قدر بلند تھا کہ آپؐ نے اتنی مشقت برداشت کر لی لیکن عہد کی خلاف ورزی نہیں کی۔ یہ تو ایک واقعہ ہے ایسے واقعات ہی تھے جن کی بنا پر لوگ آپؐ کو صادق اور امین کے القابات سے پکارتے تھے۔ نبوت کے بعد تو کردار کی بلندی آپ کی زندگی کا خاصہ تھا۔
سورۃ البقرہ میں قرض کے لین دین میں معاہدہ لکھ لینے کا حکم ہے تاکہ بعد میں اختلاف کی نوبت نہ آئے۔ قرض خواہ بھی واقف رہے کہ مجھے معاہدے کے مطابق قرض کی رقم واپس کرنی ہے۔ اگر معاہدے کی پابندی کی جائے تو فریقین میں سے کسی کو تکلیف نہ ہو گی۔ ہاں اگر مقروض کو کوئی عذر ہو تو بیان کر کے مہلت لے سکتا ہے جس کا مہلت دینے والے کو بھرپور اجر ملے گا۔ انسانوں میں آپس کے معاملات معاہدوں پر ہی چل رہے ہیں جس کی اتنی اہمیت ہے کہ قرآن مجید میں معاہدہ لکھنے کی تاکید ہے تاکہ فریقین میں سے کوئی فریق خلاف ورزی نہ کرے اس معاہدے کو نہ صرف لکھنے کا حکم ہے بلکہ ا س پر گواہ بھی بنا لیے جائیںتاکہ معاہدہ مزید پختہ ہو جائے۔ ہمارے معاشرے میں اس حکم پر عمل بہت کم کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے جھگڑے اور لڑائیاں عام ہیں۔ لین دین کے وقت تو اس کا دھیان نہیں رکھا جاتا اور کوئی فریق لکھنے کی بات کرے تو کہا جاتا ہے کہ اس کو بھروسا نہیں۔ اگر دومادر زاد بھائیوں کے درمیان بھی شراکت داری ہو تو قرآنی ہدایت کے مطابق تحریر ضرور لکھی جائے۔ اگر اس بات کی پابندی نہ کی جائے تو بھائیوں اور گہرے دوستوں میں تنازعات پیدا ہو جاتے ہیں۔ معاشرے کے اندر جگہ جگہ فریقین کے درمیان معاملات ہوتے رہتے ہیں۔کار خانہ دار اور کارکن ، مالک اور نوکر،صاحب خانہ اور خادم۔ دکاندار ، گاہگ قرض خواہ اور قرض دار۔ پس ان میں عدل و انصاف کے ساتھ معاہدات ہوں اور ان کی پابندی کی جائے تو ہر ایک کو سکون میسر آتا ہے اور جھگڑے کی نوبت نہیں آتی۔ اس لیے گواہوں کی موجودگی ضروری رکھی گئی ہے تاکہ ان کی مداخلت سے معاملہ آسان ہو جائے۔
رسول اللہ ﷺ اپنے خطبوں میں اکثر یہ الفاظ دہراتے تھے کہ جس شخص میں امانت کی پابندی نہیں اس کا ایمان نہیں اور جس شخص میں عہد کی پابندی نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔(شعب ایمان للبیہقی) گویا اس کا ایمان کامل نہیں ناقص ہے۔
اس سلسلہ میں ایک ضروری بات پیش نظر رہنی چاہیے جس کی طرف عام طور پر دھیان نہیں جاتا وہ یہ کہ اپنے فرائض کی طرف تو ہماری توجہ نہیں ہوتی جبکہ حقوق کے حصول کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔ کسی ادارے نے کارکن رکھنے ہوں یا حکومت کو مختلف محکموں میں ملازمین کی ضرورت ہو تو اُس کے لیے درخواستیں طلب کی جاتی ہیں۔ اس کے لیے قابلیت کے علاوہ امید وار کو یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ اوقات کار یہ ہوں گے، تنخواہ اتنی ہو گی، ضرورت کے لیے ملازم ایک سال میں اتنی چھٹیاں کر سکتا ہے۔ ملازم کو ملازمت کے تمام قواعد و ضوابط بتا دے جاتے ہیں جن کی پابندی قانوناً اور اخلاقاً فریقین کے لیے ضروری ہوتی ہے ۔ یہ معاہدہ جس قدر ضروری ہے اسی قدر اس کی پابندی میںکوتاہی کی جاتی ہے اور اپنی پوزیشن سے ناجائز فائدہ اٹھانا عام روش ہے۔ اسی طرح رشوت لینے والے ملازم اس بات سے بے خبرہوتے ہیں کہ دوسروں کو نقصان پہچانا کتنا بڑا گناہ ہے۔ قیامت میں حساب کتاب کے وقت ملازم اپنی تنخواہ کے علاوہ جو رقم سائلین سے ناجائز بٹورتے ہیں وہ رقم حرام کمائی کی ہوتی ہے جس کا وبال اُنہیں بھگتنا پڑے گا۔ سچائی اور دیانت داری ہی ہر اعتبار سے نجات کا ذریعہ ہیں۔