(دعوت غوروفکر) نظامِ تعلیم اور تعلیمی نصاب - پروفیسر چودھری محمدیٰسین ظفر

11 /

نظامِ تعلیم اور تعلیمی نصاب

پروفیسر چودھری محمد یٰسین ظفر

( قومی سیرت النبی ﷺ کانفرس اسلام آباد میں خطاب کا اقتباس)

 

دعائیہ کلمات کے بعد! سامعین محترم و سامعات، اس سے پیشتر آپ نے بہت ہی جذباتی اورپرجوش گفتگو سنی ہے جس میں بہت سارے مسائل کا احاطہ ہو گیا ہے۔ وہ ہمارے دلوں کی ترجمانی تھی اور یہی ہمارا مقصد بھی تھا۔ چونکہ یہ موضوع پاکستان کے لیے بہت اہمیت کا حامل اور یہاں جتنے بھی حضرات موجود ہیں، ان سب کا تعلق بھی اہل ِفکر و دانش اور تعلیمی شعبہ سے ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اس کانفرنس کو بامقصد بنائیں اور ایسی سفارشات مرتب کریں جن کی روشنی میں ہم اپنے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو سیرت النبیﷺ کا سائبان مہیا کر سکیں۔ اس لیے کہ یہ نظام اُس وقت تک درست ہو ہی نہیں سکتا جب تک یہ سیرت النبی ﷺکے سائبان تلے نہیں آجاتا۔ تعلیم بنیادی طور اپنی معلومات، اپنا علم، اپنی عادات اور اپنی مہارتیں آنے والی نسلوں کو منتقل کرنے کا نام ہے۔ مقصد کا حصول تبھی ممکن ہے کہ اگر ہم اپنی عادات اور تہذیب و ثقافت کو اُس پیمانے پر لے آئیں جس کو اپنانے کے بعد ایسی نسل تیار ہو جو میرے اور آپ سب کے لیے راحت کا باعث بنے۔ مشکل یہ ہے کہ پاکستان کے نظامِ تعلیم کو اگر سرسری نظر سے بھی دیکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ بہت سارے نظاموں کا ایک مجموعہ ہے۔ یہاں کہا گیا کہ ’’ شاید دو نظام ہیں‘‘ ایسا نہیں ہے۔ یہاں 20 نظام ہیں جن میں سے ایک مدارس کا نظام بھی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں اس وقت تعلیمی وحدت نہیں ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبائی حکومتوں کو منتقل ہوا اورآج ہر صوبے کا اپنا الگ نظام اور نصاب ہے۔ وہ چاہیں تو اپنی زبان یااردو زبان میں تعلیم دیتے رہیں۔جب اٹھارویں ترمیم ہو رہی تھی ہم نے اس وقت بھی حکومت سے یہ گزارش کی تھی کہ باقی جو چاہیں آپ کر لیں لیکن تعلیم کے شعبہ میں وحدت قائم رکھیں اور اس کو مرکز کے سپرد ہی رہنے دیں۔ وفاق پورے پاکستان کے نظام تعلیم کو کنٹرول کرے، تب ہی اس قوم میں وحدت پیدا ہو سکتی ہے لیکن وہ بات تسلیم نہیں کی گئی۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر صوبے کا اپنا ایک سسٹم ہے۔ اس کے اندر بھی انگلش میڈیم سکول الگ سے ہیں اور اردو میڈیم الگ ہیں۔ سرکاری اورغیرسرکاری سکولوں کے درمیان جو فرق ہے وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔
مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے مقاصد ہی متعین نہیں ہیں اور یہاں بے مقصد تعلیم دی جا رہی ہے۔ ظاہر ہےہمارے نوجوانوں کی اکثریت سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوںمیںہے۔ اُن کی اکثریت سے آپ پوچھ لیں کہ ٓاپ کس مقصد کے لیے تعلیم حاصل کررہے ہیں تو ایک ہی مقصد ان کے سامنے ہوگا کہ پڑھ لکھ کر کہیں ملازمت حاصل کرنی ہے، روزگار کا کوئی سلسلہ کرنا ہے ۔
حضرات و خواتین! تعلیم کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہوتا بلکہ تعلیم انسان سازی کا نام ہے۔ تعلیم کے ذریعے سے ہم معاشرے کو اچھے انسانوں کا معاشرہ بناتے ہیں۔ تعلیم کے بہت ہی اعلیٰ مقاصد ہیں۔ سب سے بڑا مقصد تو یہ ہے کہ تعلیم اللہ کی معرفت عطا کر تی ہےاور جب تک اللہ کی معرفت حاصل نہیں ہوتی تعلیم کا مقصد بھی حاصل نہیںہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں ایسی تعلیم دی جاتی ہے جس کا کوئی بڑا مقصد نہیںہوتا۔ بہت عرصہ ہوا ایک کالم نگار نے یونیورسٹی میں پڑھاتے ہوئے اپنی کلاس کے طلبہ سےسوال کیا کہ آپ نے شعبہ صحافت کا انتخاب کیوں کیا ہے؟ تو ایک بچے کا جواب تھا کہ مجھے کسی اور شعبہ میں داخلہ نہیں ملا۔ دوسرے بچے سے پوچھا اس نے کہا چونکہ یہاں میرے دوست ہیں تو میں بھی اس شعبہ میں آگیا۔یہاں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کا کوئی بڑا مقصد نہیں ہےما سوا اس کے کہ ملازمت مل جائے۔
حضرات گرامی! یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے جس کو درست کرنے کی ضرورت ہےاور یہ کام حکومت کر سکتی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ان چیزوں کو پیش نظر رکھ کر تعلیم کا قبلہ درست کرے۔ تعلیم جہاں اللہ کی معرفت کاذریعہ ہے وہاں رضائے الٰہی کا بھی ذریعہ ہے۔ تعلیم کے جتنے بھی شعبہ جات ہیں، اُن کا تعلق انسانیت سے ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ انسان تعلیم حاصل کر کے کہیں جنگل میں نکل جائے، کہیں صحرا میں چلا جائے یا وہ اکیلا انفرادی زندگی بسر کرے۔ بلکہ انسان تعلیم حاصل کر کے معاشرے کی طرف لوٹتا ہے۔اگرتعلیم میں رضائے الہٰی، خلوص اور محبت ہو تو یہ تعلیم آخرت کو سنوارتی ہے۔موجودہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد تقریباً ہر شعبے میں لوگ بظاہر تو یہی کہتے ہیں کہ ہم خدمت کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ خدمت نہیں ہوتی وہ معاشی مستقبل کے لیے کوشش کررہا ہوتا ہے۔ آپ میڈیکل کا شعبہ لے لیں، انجینئرنگ کا شعبہ لے لیں، آئی ٹی کا شعبہ لے لیںاور بھی دیگر شعبہ جات دیکھ لیںان کی حالت ہمارے سامنے ہے۔ کس طرح سے اس وقت پوری قوم مشکلات سے دوچار ہے۔
حضرات گرامی میں اس موقع پر یہ بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ موجودہ تعلیم میں اخلاقیات کا پہلو بہت کم ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی بچے کو اچھی عادات سکھانے کے لیے5سے لے کر 14 سال کے درمیان بہترین عمر ہوتی ہے۔ میری یہ گزارش ہے کہ پرائمری کی تعلیم اخلاقیات کو سنوارنے کے لیے ہونی چاہیے۔ پرائمری میں بچے کوآداب سکھائیںاوراسلامی آداب کے ساتھ ساتھ بنیادی اخلاقی تعلیم بھی دیں جیسے سچائی، امانت اور دیانت وغیرہ ہیں۔ اساتذہ کرام ہمارے معاشرے کا ایک بہت معزز طبقہ ہیں۔اساتذہ کرام کو خصوصی تربیت دی جائے، انہیں بتایا جائے کہ نبیﷺ سے بہتر کوئی معلم نہیں ہے۔ آپﷺ کمال محبت اور شفقت کے ساتھ صحابہ کرام ؓکو تعلیم دیتے تھے اور نفسیات کو مد نظر رکھ کر اُن تک علم منتقل کرتے تھے اور بہت ہی پیار اور الفت کے ساتھ صحابہ کرامؓ کے مسائل کو سنتے تھے۔ آزادانہ سوال سن کر ان کے جوابات دیتے تھے ۔
اس حوالے سے میں چند تجاویز بھی دوں گا چونکہ اس وقت اہل ِ اقتدار بھی یہاں موجود ہیںاور ان کی وساطت سے یہ باتیں اوپر تک جائیں گی۔
پہلی تجویز یہ ہے کہ سیرت النبیﷺ پر مبنی ایک ایسا نصاب مرتب کیا جائے جو وفاقی اور صوبائی وزراءو اراکین پارلیمنٹ کو لازماً پڑھایا جائے۔دوسری تجویز یہ ہے کہ پرائمری کے نصاب میں سیرت النبیﷺ کے واقعات کو داخل کیا جائے اوردیگر قصے کہانیوں کو نکال دیا جائے۔ تیسری تجویز یہ ہے کہ کسی بھی یونیورسٹی اور کالج کےجتنے بھی اساتذہ ہیں،چاہے کسی بھی شعبے کوپڑھاتے ہیں، (لازمی نہیں اسلامیات اور دینیات سے منسلک ہوں) اُن اساتذہ کرام کے لیے سیرت النبیﷺ کا مطالعہ لازمی قرار دیا جائے۔ اسی طرح کالج اور یونیورسٹیوں کی سطح پر سیرت نبی ﷺ کے موضوع پر کانفرنسز کے انعقاد کو لازمی قرار دیا جائے۔سالانہ ایک کانفرنس ہر یونیورسٹی اور ہرکالج کے اندر ہو جہاں دینی سکالرز جائیں اور طلبہ و اساتذہ کے سامنے نبی اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ کو بیان کریں۔پاکستان میں جتنے بھی ٹی وی چینل ہیں ان کے لیے بھی لازم قرار دیا جائے کہ روزانہ کم از کم15 منٹ یا آدھا گھنٹہ سیرت النبیﷺ کے حوالے سے پروگرام نشر کریں۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میںایک روایت قائم کی گئی تھی کہ جتنے بھی لوگ سیرت النبیﷺ پر کام کرتے تھے اور کتابیں لکھتے تھے، جہاں انہیںانعام وغیرہ دئیے جاتے تھے،وہاں انہیں حرمین شریفین کی زیارت کے لیے بھی بھیجا جاتا تھا۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ حکومت اربوں روپے باقی معاملات میں صرف کرتی ہے۔ یہ تو ایک نیکی کا کام ہے اور یہ ایک ترغیب بھی ہوگی کہ سیرت النبیﷺ پر محنت کرنے والوں کو پزیرائی ملے اور سیرت کا کام اچھے انداز کے ساتھ ہو۔
میں اس خوبصورت پروگرام کی وساطت سے قوم کو اور اہلِ اقتدار کویہ بتانا چاہتا ہوں کہ جہاں یہ وزارت بین المذاہب ہم آہنگی کا کام کرتی ہے وہاں وہ اگر اپنے ایجنڈے میںایک خاص کام کو بھی شامل کریں تو زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے۔ وہ کام یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام مسالک(بریلوی،دیوبندی، اہل حدیث، اہل تشیع اور جماعت اسلامی ) نے مل کر قرآن پاک کے ایک ترجمہ پر اتفاق کیاہے۔حیرت اور افسوس ہے کہ حکومت اور میڈیا کی سطح پر اس انتہائی مبارک اور بڑے کام کو خاص پزیرائی نہیں دی جاتی۔ یہ ترجمہ چھپ چکا ہے۔ اس ترجمہ کو وفاق اور تمام صوبوں میں نافذ العمل ہونا چاہیے۔ ہمارے کالجوں، یونیورسٹیوں اور سکولوں کے اندر اس متفقہ ترجمہ قران کی روشنی میں تعلیم دینی چاہیے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں وحدت قائم ہو تو اس سے بڑی وحدت آج تک پاکستان میں نہیں ہو سکی کہ قرآن حکیم کے ایک ترجمے پر سب مکاتب فکر کی مہریں لگی ہیں اور ایک ترجمے کے اوپر سب مسالک کا اتفاق ہے۔
میں دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ اس کانفرنس کو کامیاب کرے اورجو سفارشات پیش کی گئیں ہیںان پر عمل کرنے
کی خلوصِ نیت سے کوشش کی جائے۔
تعارف:پروفیسر چودھری محمد یٰسین ظفر، مدارسِ سلفیہ پاکستان کے ترجمان اور وفاق المدارس السلفیہ پاکستان کے ناظمِ اعلیٰ ہیں۔