(زمانہ گواہ ہے) اسرائیل کا لبنان پر سائبر حملہ - محمد رفیق چودھری

11 /

ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو ٹیکنالوجی ہم استعمال کر رہے ہیں اس کا

کنٹرول ہمارے دشمنوں کے پاس ہے : آصف حمید گریٹر اسرائیل کا

منصوبہ دراصل دجال کی عالمی حکومت کی طرف پیش قدمی

ہے، لبنان پر سائبر حملے اُسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے : رضاء الحق

لبنان پر سائبر حملہ اسرائیل کی دہشت گردی ہے اور اس سے مغرب کا

دہرا معیار کھل کر سامنے آگیا ہے : امجد علوی

اسرائیل کا لبنان پر سائبر حملہ کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: لبنان میں اسرائیل کی حالیہ دہشت گردی جس میں واکی ٹاکی اور پیجرز دھماکوں میں ہزاروں لبنانی زخمی اور درجنوں شہید ہو گئے  ، یہ کس قسم کی دہشت گردی ہے ، کیا ان پیجرز اور واکی ٹاکی کے سافٹ ویئر میں تبدیلی کی گئی، بیٹریاں تبدیل کی گئیں یا کوئی منی بم رکھے گئے تھے ؟
امجد علوی:درحقیقت اسرائیل جنگ میں بڑے نقصان کی وجہ سےہیجانی کیفیت کا شکار ہو چکا ہے ، اس پر اندرونی دباؤ بھی بڑھ رہا ہےاور معاشی گھیرا بھی تنگ ہورہا ہے لہٰذا کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق اب اس طرح  کی حرکتوں پراُتر آیا ہے اور مغرب کے اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کو روند رہا ہے ۔ اگر مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایسا حملہ کیا جائے تو دہشت گردی کا نام دیا جائے  لیکن خود یہ اس قسم کی دہشت گردی سے عام لوگوں کا خون بہا رہے ہیںاور اس پر یہ فخر کر تے ہیں ۔ اس حملے میں  یا تو کسی کمرشل کمپنی کو ملوث کیا گیاہے یا پھر راستے میں شپمنٹ روک کر بیٹریاں تبدیل کی گئی ہیں ، ابھی اس کی مکمل تفصیل سامنے نہیں آئی ۔ تاہم حیرت اس بات پر ہے کہ لبنانی ان پیجرز اور واکی ٹاکی کو اگر خاص مقصد کے لیے استعمال کر رہے تھے تو انہوں نے شپمنٹ لیتے وقت ان کے ہارڈویئرز کی جانچ پڑتال کیوں نہیں کی۔ایک بات واضح  ہے کہ یہ 100 فیصد اسرائیل کی دہشت گردی ہے اور اس سے مغرب کا دہرا معیار کھل کر سامنے آگیا ہے ۔
سوال: گزشتہ چند سالوں سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور سائبر ٹیکنالوجی میں بڑی ترقی دیکھنے میں آرہی ہے ۔ یہ جو حالات اس وقت ہم دنیا کے دیکھ رہے ہیںان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں سائبر وار کے کن کن ذرائع سے محتاط رہنا ہوگا ؟
آصف حمید: حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ہمارا تمام تر دارومدار مغرب پر ہے ۔ اب چائنا بھی کسی حد تک میدان میں ہے لیکن اس سے قبل ہمارا مکمل انحصار مغرب پر تھا اور مغرب کے ہی ایک شخص نے 1578ء میں یہ اصول متعارف کروایا تھا کہ :"All is fair in love and war." آپ دیکھ لیں اقوام متحدہ نے عالمی امن کے لیے جو اصول بنائے تھے ان کی خود امریکہ نے نائن الیون کے بعد دھجیاں اُڑا کر رکھ دیں ۔ بعض اوقات وہ اصول اس لیے بھی بناتے ہیں تاکہ وقت آنے پر ان کے تحت کسی کمزور کو تباہ کر دیا جائے ۔ حالیہ واقعہ جس میں پیجرز اور واکی ٹاکی پھٹنے سے لبنانیوں کی شہادتیں ہوئی ہیں اور ہزاروں زخمی ہیں تو یہ ڈیوائسز گولڈ اپالونامی کمپنی نے سپلائی کی تھیں اور کہا یہ جارہا ہے کہ راستے میں کہیں سپلائی روک کر دھماکہ خیز مواد ان میں رکھا گیا اور پھرسافٹ ویئر میں کوئی ایسی تبدیلی کی گئی کہ مطلوبہ وقت پر استعمال کیا گیا تو دھماکہ ہوا اور کئی لوگوں کی جان چلی گئی یا زخمی ہوئے ۔ یہ ہر لحا ظ سے انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم ہے مگر یہود کا عقیدہ ہے کہ وہ خدا کے چنیدہ لوگ ہیں جبکہ باقی لوگ انسان نما حیوان ہیں ۔ لہٰذا ان کے ساتھ جو مرضی سلوک کریں جائز ہے ۔ اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ ان کے نزدیک کسی عام انسان کو مارنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی کیڑے مکوڑے کو مار دیا ۔ 7 اکتوبر کے بعد سے لے کر اب تک اسرائیل جو بھی کررہا ہے اس سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ان میں انسانوں کے حوالے سے کوئی رحم نہیںہے ۔ ہمارے پاس جو ڈیوائسز ہیں مثلاً سمارٹ فون وغیرہ ان کی بیٹریز بھی بلاسٹ کر سکتی ہیں ۔ اگر فون کو کان کے پاس رکھا ہوا ہے اور بلاسٹ کرگیا تویقیناً وہ نقصان پہنچائے گا۔ بعض اوقات آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ فون چارجر پر لگا یا یا کوئی ایسا سافٹ وئیر استعمال کیا تو فون گرم ہو جاتاہے اور گرم ہونے کے بعد ہی کوئی چیز بلاسٹ کرتی ہے ۔ لہٰذا اگر ان ڈیوائسز میں کوئی ایسا سافٹ ویئر ڈال دیا جائے یا کوئی بارودی مواد ڈال دیا جائے تو وہ تباہ کن ثابت ہو سکتاہے ۔ اسرائیل کے آرمی چیف نے بھی کہا ہے کہ ابھی صرف 2 فیصد چیزیں سامنے آئی ہیں ، 98فیصد تو دنیا نے دیکھی ہی نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل اس طرح کی دہشت گردی کی منصوبہ بندی بہت پہلے سے کر رہا تھا اور اب تک اس نے کیا کچھ نہیں بنا لیا ہو گا؟ حقیقی معنوں میں اسرائیل نے اس وقت دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔ دنیا کی معیشت پر ان کا کنٹرول ہے ، امریکہ جیسی بڑی ریاستیں ان کے اشاروں پر ناچ رہی ہیں ، دنیا بھر کے لوگوں کے ذہنوں کو وہ پہلے ہی کنٹرول کر چکے ہیں ۔ ان کی پھیلائی ہوئی بے حیائی اور فکری خلفشار نے نوجوان نسلوں کو پوری طرح جکڑ لیا ہے ۔ دلوں سے ایمان وہ پہلے ہی نکال چکے ہیں۔ (الا ماشاء اللہ) سائبر ٹیکنالوجی میں بھی وہ دنیا کو فتح کر چکے ہیں اور ان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ جب ایمان کمزور ہو جاتاہے اورذہن پراگندہ ہو جاتے ہیں تو لوگوں کی نفسیات پر یہود کے سحر کا غلبہ رہتاہے ۔ ہم سمجھتے ہیں ہمیں بڑی سہولتیں میسر آگئی ہیں فیس بک فری ہے ، یوٹیوب فری ہے ، ای میل وغیرہ وغیرہ لیکن حقیقت میں انہوں نے ہمیںاپنے قابو میں رکھنے کے لیے یہ ساری چیزیں فری میں دی ہوئی ہیں ۔ قرآن میں کہا گیا کہ :
’’بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اسے دشمن سمجھو، وہ تو اپنے گروہ کو اسی لیے بلاتا ہے تاکہ وہ بھی دوزخیوں میں سے ہوجائیں ۔‘‘(الفاطر:6)
ہمیں شیطان کے ہتھکنڈوں کو سمجھنا چاہیے ۔ بے شک ٹیکنالوجی نے ہمیں فائدے دیئے ہیں لیکن اس کو صرف ضرورت کے مطابق محتاط انداز سے استعمال کرنا چاہیے ، اس پر زیادہ بھروسا نہیں کرنا چاہیے ۔
سوال:کہا یہ جا رہا ہے کہ اسرائیل ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بہت سے مغربی ممالک اور ترقی یافتہ ممالک سے بھی آگے نکل چکا ہے۔آنے والے وقت میںجب گریٹراسرائیل کے قیام کے لیے جنگ پھیلائی جائے گی جیسا کہ لبنان میں نئی جنگ چھڑ چکی ہے تو کیا اس جنگ میں اس طرح کے سائبر حملوں سے بڑھ کر بھی کوئی انوکھی طرز کے حملے ممکن ہیں ؟
رضاء الحق: گریٹر اسرائیل کا منصوبہ دراصل دجال کی عالمی حکومت کی طرف پیش قدمی ہے۔ اس جنگ میں صرف سائبر ٹیکنالوجی ہی استعمال نہیں ہوگی بلکہ ہر قسم کے دجالی ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں گے ۔ اس میںسودی معیشت بھی ہے ۔ آپ دیکھ لیں کہ امریکہ اور یورپ سمیت پوری دنیا کی معیشت ان کے کنٹرول میں ہے ۔ اس میں سیاسی غلبہ بھی شامل ہے کہ پوری دنیا کی حکومتیں ان کے اشاروں پر چل رہی ہیں ۔پھر دجل اور فریب بھی ان کا ہتھیار ہے ۔ آپ نے دیکھا کہ ابرہام اکارڈز کے نام پربہت سارے عرب اور کچھ افریقی ممالک کو انہوں نے رام کر لیا ۔ تاہم ٹیکنالوجی اس جنگ کا بہت بڑا حصہ ہے اور اس میدان میں اسرائیل نے کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر بہت ترقی کر لی ہے ۔ اس نے لبنان پر جہاں سائبر حملہ کیا ہے وہاںفضائی حملہ بھی اس قدر شدید کیا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں لبنان کا اتنا نقصان نہیں ہوا ۔ تقریباً 500 لبنانی تو ایک دن میں شہید کر دیے گئے ہیں۔اصل میں اسرائیل نے دنیا کو ایک میسج دینے کی کوشش کی ہے کیونکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جب یہ قرارداد پیش ہوئی کہ اسرائیل ان تمام علاقوں کو خالی کردے جن پر اس نے 1948ء کے بعد قبضہ کیا ہے تو124 ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیے ہیں جبکہ صرف 14 نے اسرائیل کی حمایت کی اور 42غیر جانبدار رہے ۔ لبنان پر حالیہ جارحیت اسی ناکامی کا رد عمل ہو سکتاہے ۔ تاہم یہ اسرائیل کا پہلا سائبر حملہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل 2010ء میں ایران کے نیوکلیئر پلانٹ پر بھی سائبر حملہ کیا تھا ۔ سائبر ٹیکنالوجی اس جنگ کا اہم حصہ ہے۔
سوال:کیا پاکستان سائبر سکیورٹی کے محاذ پر اپنا دفاع کرنے کے قابل ہے ؟
امجد علوی:میرے خیال میں ہماری آرمی اور ہمارا دفاع تو بالکل محفوظ ہے اور ہماری آرمی اس قابل بھی ہے کہ ایسے حملوں کا جواب بھی دے سکتی ہے ۔ لیکن ہمارے معاشی ادارے اور عوام کے ڈیجیٹل اثاثے بالکل غیر محفوظ ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو یہاں بہت ساری باہر کی کمپنیاں ہمارے ٹیلی کام، انٹرنیٹ اوراس طرح کی دیگر چیزوں پر کام کر رہی ہیں اور ان کو یہاں بڑی آزادی بھی حاصل ہے ۔ وہ یہاں سے ہر قسم کی انفارمیشن اکٹھی کرکے باہر منتقل کر رہی ہیں۔ پاکستان گورنمنٹ نے بہت اچھا کام کیا کہ یہ پالیسی بنائی ہے کہ ہمارا جو حساس ڈیٹا ہے وہ باہر کی بجائے پاکستان میں ہی ذخیرہ کیا جائے گا لیکن اس پر عمل درآمد بہت کم ہوا ہے ۔ عوام کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کونسا اہم ڈیٹا ہے ،اگر باہر چلا گیا تو کونسا فرق پڑے گا؟ حالانکہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے کیونکہ جب وہ جمع شدہ ڈیٹا میں سے انفارمیشن نکالتے ہیں تو وہ حیرت انگیز ہوتی ہے اور اس کے مطابق وہ ہماری سوچ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس جنگ میں اپنا دفاع کرنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہر قسم کا ڈیٹا لوکل کمپنیوں کے پاس رہے۔
سوال:ففتھ جنریشن اور ہائبرڈ وارخطرناک طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا کی ہلاکت خیزیوں سے بچاؤ کے لیےحکومتی سطح پر اور عوامی سطح پر ہمیں کیا اقدامات اُٹھانے چاہئیں؟
آصف حمید :سب سے پہلی بات ہمیں یہ مدنظر رکھنی چاہیے کہ جو ٹیکنالوجی ہم استعمال کر رہے ہیں وہ ہمارے دوستوں کی نہیں ہے بلکہ دشمنوں کی ہے ۔ اس کا کنٹرول بھی ان کے ہاتھوں میں ہے اور کچھ پابندیاں بھی لگا رکھی ہیں ۔ مثال کے طور پر پاکستان کو جو F-16امریکہ نے دیئے ہوئے ہیں ان کو پاکستان سے باہر لے جانے کی اجازت نہیںہے کیونکہ شرائط کے مطابق وہ صرف دفاع کے لیے ہیں کسی ملک پر حملے کے لیے نہیں دیئے گئے۔ لہٰذا جب ہمارا F-16یہاں ٹیک آف کرتاہے تو امریکیوں کو پتہ چل جاتاہے ۔ یہ بات تب کھل کر سامنے آگئی جب ابھی نندن والے واقعہ میں بھارت نے شور مچایا کہ اس واقعہ میں پاکستان نے ایف 16 استعمال کیے ہیں تب امریکہ نے گواہی دی کہ ایف 16 اڑا ہی نہیں ۔ پاکستان نے جے ایف 17 تھنڈر طیارہ بنا کر اس کمزور ی پر قابو تو پا لیا ہے تاہم اس ضمن میں مزید پیش رفت کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح ہائبرڈ وار میں اپنا دفاع مضبوط کرنے کے لیے بھی پاکستان کو کام کرنا چاہیے ۔ مثال کے طور پر کچھ عرصہ پہلےآپ نے دیکھا کہ پاکستان کا سوشل میڈیا بالکل بے قابو ہو گیا تھااور بھارت سے کتنے سوشل میڈیا اکاونٹ ہینڈل ہو رہے تھے اور یہاں انتشار پھیلایا جارہا تھا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اپنا سوشل میڈیا بنائے جو پاکستان کے کنٹرول میں ہوکیونکہ اخلاقی ، نفسیاتی اور فکری تباہی بھی عسکری طور پر کسی ملک کو تباہ کرنے سے کم خطرناک نہیں ہوتی ۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اب یہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں لوکل کلاؤڈ بیس پرآنا چاہیے ۔ ہمارا اپنا فیس بک ہو ، اپنا واٹس ایپ ہو ، اپنا یوٹیوب ہو ،ہر ایپ اپنی ہو ۔ باہر کی تمام ایسی ایپس کو پاکستان میں بند کر دیا جائے کیونکہ ان چیزوں کو بطور ہتھیار استعمال کرکے دشمن پاکستان میں مذہبی ، نسلی ، لسانی ، علاقائی منافرت پھیلا رہے ہیں۔ بے دینی اور بے حیائی پھیلا کر ہماری نسلوں کو تباہ کیا جارہا ہے ۔ اب وقت ہے کہ ان چیزوں کو کنٹرول کیا جائے۔ اگر ان کو کنٹرول نہیں کریں گے تو ملک میں استحکام نہیں آسکے گا ۔ پاکستان کی چند کمپنیوںنے ماشاء اللہ اب موبائل فون خود بنانا شروع کر دیئے ہیں ، ان کا استعمال ملک میں بڑھانا چاہیے اور امپورٹڈ موبائلز پر انحصار کم سے کم کیا جانا چاہیے ۔ کیونکہ وہ ساری انفارمیشن باہر بھیج رہے ہیں۔ اسی ڈیٹا کی بنیاد پر وہ ہمارے ذہنوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ وہ ہماری سوچ کو بھی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ غزہ اور اسرائیل کی جنگ میں سوشل میڈیا پر جو مواد بھی اسرائیل کے خلاف یا فلسطینیوں کے حق میں آتا ہے اس کو وہ ہٹا دیتے ہیں، اکاؤنٹس اور چینل بند کردیتے ہیںجس کے بعد لوگ محتاط ہو جاتے ہیں اور فلسطینیوں کے حق میں بات نہیں کرتے ۔ گویا اس طرح وہ رائے عامہ کا رُخ موڑ رہے ہیں ۔ ٹھیک ہے ہم ٹیکنالوجی استعمال کریں مگر یہ بھی ضرور دیکھیں کہ کہیں ٹیکنالوجی ہمیں تو استعمال نہیں کر رہی ۔ بہرحال حکومت کوجنگی بنیادوں پراس حوالے سے کام کرنا چاہیے۔ جیسے چین میں آپ فیس بک ، یوٹیوب وغیرہ نہیںکھول سکتے ۔ان کے متبادل ان کے اپنے پلیٹ فارم ہیں ۔
سوال:کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کا اپنا یوٹیوب ، واٹس ایپ ، فیس بک ، سرچ انجن ہو جیسے چائنا نے یہ ساری چیزیں اپنی بنالی ہیں ؟
امجد علوی:پاکستان یہ ساری چیزیں خود بنا سکتاہے اور اس ضمن میں کچھ پروجیکٹس شروع بھی ہوئے اور گورنمنٹ اس میں کافی مددگار بھی ہے ۔ ہمارا ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے نام سے ایک فنڈ ہے جو ہم ٹیلی کام انڈسٹری سے لیتے ہیں ۔ اپنی ہر سیل میں سے ہم 0.5 فیصد اس فنڈ میں جمع کرواتے ہیں ۔ اسی طرح ایک ادارہ Ignite کے نام سے ہے جہاں ایسے ذہین بچوں کے لیے فنڈز مہیا کیے جاتے ہیں جو ٹیکنالوجی میں ریسرچ کرسکتے ہیں ، ان کو وہاں رہنمائی بھی دی جاتی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم ابھی فیس بک ، یوٹیوب ، گوگل اور واٹس ایپ جیسے بڑے پروجیکٹ نہیں کر سکتے کیونکہ اس کے لیے کثیر سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاہم 10 ہزار سے لے کر 50 ہزار ڈالر تک کے پروجیکٹ ہم کر سکتے ہیں ۔ ہمارے پاس ذہانت کی کمی نہیں ہے البتہ وسائل کی کمی ہے۔ ہماری حکومت کو چاہیے کہ ایک ایسی قومی پالیسی بنائے کہ عوام کی اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ تربیت اور ذہن سازی کرکےسوشل میڈیا کا استعمال کم سے کم کروایا جائے ۔ اس میں والدین زیادہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔
سوال: اسرائیل نے لبنان پر جو سائبر حملہ کیا ہے جس میں واکی ٹاکی اور پیجرز دھماکوں کے ذریعے لوگوں کو شہید اور زخمی کیا گیا ہے تو کیا ایسے حملے فتنہ دجال کی علامت اور دجال کی عالمی حکومت کا شاخسانہ نہیں ہیں ؟
رضاء الحق: دجالیت ایک نظریہ بھی ہےاور ایک نظام بھی ہے اور پھرایک معین شخص نے بھی دجال کے طور پر آنا ہے ۔ لہٰذا صرف حالیہ سائبر حملہ ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے بہت کچھ ہو چکا ہے جس کا تعلق فتنہ دجال سے ہے ۔ اس سے قبل اقوام متحدہ سمیت جتنے عالمی ادارے انہوں نے بنائے تھے وہ سب اسی مقصد کےلیے بنائے تھے اور ان میں سے کئی مقاصد پورے ہو چکے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اب ان عالمی اداروں کی بھی کوئی ساکھ نہیں رہی ۔ جیسا کہ اقوام متحدہ ہے ، قرارداد پاس کرتا ہے مگر اس کو ماننے والا کوئی نہیں ہے۔ دجال اور ٹیکنالوجی کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔ احادیث سے بھی اس طرف اشارہ ملتا ہے ۔ مثال کے طور پر کہا گیا ہے کہ وہ بارش برسائے گا۔ آج ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس کے ذریعے وہ بارش برسا سکتے ہیں ۔ پھر کہا گیا ہے کہ دجال کا زمین کے خزانوں پر کنٹرول ہو گا۔ جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان پر خوشحالی آئے گی اور جو اس کو نہیں مانیں گے وہ تنگ دستی کا شکار ہو جائیں گے ۔ یہ ساری چیزیں آج ہو رہی ہیں ۔ جیسا کہ اقبال نے کہا تھا ؎
دنیا کو ہے پھر معرکۂ رُوح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درِندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا
اِبلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
دجالیت کا بنیادی فتنہ ہی مادہ پرستی ہے ۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ اس فتنہ کی وجہ سے ہماری روحانی آنکھ بند ہو چکی ہے جبکہ صرف مادی ترقی کو دیکھنے والی آنکھ کھلی ہے ۔ دنیوی ترقی اپنی جگہ اہم ہے لیکن اپنی نظریاتی اساس کو بچانا اس سے بھی زیادہ اہم ہے ۔
سوال: لبنان پر سائبر حملے کے بعد اسرائیل کے آرمی چیف کا بیان آن ریکارڈ ہے کہ ابھی اس ٹیکنالوجی کا صرف 2فیصدانہوں نے استعمال کیا ہے ۔ اس بیان کے بعد پوری دنیا خوف میں مبتلا ہے ۔ اس وقت دنیا میں صرف ڈیڑھ کروڑ یہودی ہیں ، ان میں سے بھی صرف آدھے اسرائیل میں بستے ہیں جبکہ دوسری طرف 57 مسلم ممالک اور پونے دو ارب مسلمان ہیں، اس کے باوجود وہ یہودیوں کے سامنے اتنے بے بس کیوں ہیں؟
امجد علوی:یہ بھی ایک حربہ ہے کہ خوف کو اتنا بڑھا دو کہ لوگ ذہنی غلامی میں مبتلا ہو جائیں ۔ مسلمانوں کے پاس بھی بہت کچھ ہے ، اگر ہم کرنا چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں مگر ہم اخلاقیات کو کراس نہیں کرتے جبکہ وہ جب چاہیں اخلاقیات کی دھجیاں اُڑا دیں ۔ مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کر دیا گیا ہے کہ اس کا ردعمل سخت آئے گا ۔ اس خوف سے نکلنے کے لیے ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے ۔ اگر تمام مسلم ممالک ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جائیں تو یہ بیریئر کراس کیا جا سکتا ہے ۔
رضاء الحق:حدیث میں وہن کی بیماری کا ذکر ہے جس میں آج مسلمان مبتلا ہیں ۔ اس کی دو علامات میں سے ایک موت کا خوف ہے اور دوسری دنیا سے محبت ہے ۔ 57مسلم ممالک میں آج یہی دو چیزیں نظر آتی ہیں۔
آصف حمید :اقبال کی مشہور نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ ہے جس میں ابلیس کہتاہے ؎
چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئِیں تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں
یہ صورتحال اس لیے ہے کہ ہم منقسم ہیں ۔ ہمارا ایمان اللہ پر نہیں ہے بلکہ امریکہ ، چین اور روس پر ہے ۔ مسلم ممالک کے لیڈروں کی عظیم اکثریت انہی کی معنوی اولاد ہے۔مسلم ممالک میں باہمی نفرت بہت زیادہ ہوچکی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
’’تو اللہ نے سزا کے طور پر ڈال دیا ان کے دلوں میں نفاق(اور یہ نفاق اب رہے گا) اُس دن تک جس دن یہ لوگ ملاقات کریں گے اُس سے‘بسبب اُس وعدہ خلافی کے جو انہوں نے اللہ سے کی اور بسبب اس جھوٹ کے جو وہ بولتے رہے۔‘‘(التوبہ:77)
اسرائیل کی ہر حرکت سے نظر آرہا ہے کہ وہ گریٹر اسرائیل کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کے نقشے میں آدھا سعودی عرب بھی آتاہے ۔ ہمیں روحانی ا ور نفسیاتی طور پر بھی اپنی اصلاح کرنی ہے اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی ترقی کرنا ہوگی ۔ قرآن حکیم میںہم سے کہا گیا ہے کہ :
’’اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ، وہ (صرف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔‘‘(المائدہ: 51)
جبکہ آج ہمارے حکمران ان کوصرف ولی نہیں بلکہ سب کچھ سمجھے بیٹھے ہیں۔یہ بڑے دکھ کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ  ہمیں توبہ کرنے کی اوراپنی اصلاح کرنے کی توفیق دے۔آمین !