(مطالعۂ کلام اقبال) ابلیس کی مجلس شوریٰ - ڈاکٹر حافظ محمد مقصود

11 /

ابلیس کی مجلس شوریٰ

ڈاکٹر حافظ محمدمقصود

(گزشتہ سے پیوستہ) 
فتنۂ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج
کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار
ابلیس کی مجلس شوریٰ میں پانچواں مشیر ابلیسی نظام کو درپیش خطرات اور چیلنجز سے آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ کمیونزم ( اشتراکیت ) کے نام سے جو فتنہ سر اُٹھا رہا ہے اس کی ہیبت سے پہاڑ لرز رہے ہیں ۔کارل مارکس نے مزدوروں کے حقوق کے نام پر عام آدمی کو اس قدر جگا دیا ہے کہ اب وہ سرمایہ دار انہ نظام کی اینٹ سے اینٹ بجانے کو تیار ہیں ۔
میرے آقا وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار
اے میرے آقا( ابلیس)!وہ نظام جو آپ نے صدیوں  کی محنت اور عرق ریزی سے ترتیب دیا تھا اب ان نئے نظریات کی مقبولیت سے پاش پاش ہونے کو ہے ۔ ان نئے تصورات سے ابلیسی نظام کی بنیادیں ہل رہی ہیں ۔ ان چیلنجز سے کیسے نمٹا جا سکے گا ، ہماری سمجھ سے تو باہر ہے ، تاہم ہمیں آپ کی سیادت پر پورا بھروسا ہے کہ آپ کے ذہن رسا نے ضرور کوئی مداوا سوچ رکھا ہوگا ۔
اپنے مشیروں کے تحفظات ، خیالات اور تجزیے سننے کے بعد اب ابلیس مستقبل کے منظر نامے کے متعلق کھل کر اپنی ابلیسی ذہنیت کا اظہار کرتا ہے ؎
ہے میرے دست تصرف میں جہان رنگ و بو
کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمان تو بتو
اے میرے مشیرو! اس دنیا میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس سے میں بے خبر قطعاً نہیں ہوں ۔ یہ مادی دنیا میرے قبضۂ قدرت میں ہے۔ یہاں ایک ایک ذرے پر میری حکمرانی قائم ہے۔ میری نگاہوں سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے ۔ اس نظام شمسی کے ایک ایک سیارے پر میری نظر ہے ، ان پر ہونے والی ایک ایک حرکت سے میں واقف ہوں ، مجھے کم تر نہ سمجھا جائے اور نہ ہی کارل مارکس کے نظریات سے مجھے کوئی پریشانی ہے ۔
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
مَیں نے جب گرما دیا اقوامِ یورپ کا لہُو
آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ لوگ اپنے حقوق مانگنا شروع ہوگئے اور ان کے مطالبے پر کوئی ایسا نظام قائم ہوگیا جو انسانوں کو مساوات کی بنیاد پر حقوق دینے لگے تو اس سے ہمارے ظلم و استحصال پر مبنی ابلیسی نظام کو خطرہ لاحق ہو جائے گا، حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ وہ وقت آنے والا ہے جب میں نے اقوام مغرب کوجنگ و جدل پر آمادہ کر دیا تو حقوق ، آزادی اور مساوات کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں  گے اور یہ اقوامِ عالم پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح جھپٹ پڑیں گے ، شرق و غرب میں ظلم و جبر اور قتل و غارت گری کا وہ بازار گرم ہوگا کہ انسانیت شرمندہ ہو کر رہ جائے گی ۔
کیا امامانِ سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہو
میں نے ایک نعرہ مستانہ لگا دیا تو کیا ایوان سیاست اور کیا کلیسا ، سب دیوانہ وار میری آواز پر لیبک کہیں گے اور جو میں چاہوں گا وہ فساد دنیا میں پھیلائیں گے ۔
کار گاہِ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو
جو شخص سمجھتا ہے کہ ہمارا ابلیسی نظام اتنا ہی کمزور ہے کہ ہوائے زمانہ سے اس کی بنیادیں ہل جائیں گی تو یہ اس کی خام خیالی ہے ۔ یہ کوئی شیشہ گھر نہیں ہے کہ ایک معمولی پتھر لگنے سے ڈھیر ہو جائے گا ، ہم نے اس کی بنیادیں بہت سوچ سمجھ کر اور بہت گہرائی میں رکھی ہیں ۔ اگر کسی کو اتنا ہی زعم ہے تو وہ اپنا زور آزما کر دیکھ لے ۔
دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک
مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو
حاکم اور محکوم، امیر اور غریب ، ظالم اور مظلوم کی تقسیم قدرت کی طرف سے ہے ۔ کارل مارکس کی یہ بے وقوفی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ سب کو ایک جیسا بنا دو ۔ حالانکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ امیر و غریب کی تمیز سرے سے ہی ختم کردی جائے ۔ اگر سارے ہی امیرہو جائیں تو پھر ایک دوسرے کے کام کون کرے گا ؟ کوئی مزدور ہے ، کوئی معمار ہے ، کوئی کسان ہے ، کوئی انجینئر ہے ، یہ سب لوگ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کام کرتے ہیں تو نظام چلتاہے ۔ لہٰذا یہ محتاج و غنی ، مزدور و سرمایہ دار ، کسان و زمیندار ، امیر و غریب کا فرق قدرتی ہے ، مزدک یا کارل مارکس کے فلسفوں سے یہ فرق ختم نہیں ہو سکتا ۔
کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کُوچہ گرد
یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشُفتہ مُو
کارل مارکس کے نظریات کو فالو کرنے والے انقلابی اس قدردیوانے تھے کہ ایک مرتبہ روس کے بادشاہ نے انہیں سائبیریا کے برفانی جنگلوں میں محصور کردیا تاکہ سردی کی شدت کو برداشت نہ کرتے ہوئے اپنے نظریات سے تائب ہوجائیں لیکن ان لوگوں نے اپنے نظریات کو نہیں چھوڑا ۔ یہاں تک کہ ان کو بندوقوں کے سامنے کھڑا کیا گیا لیکن وہ تب بھی استقامت کا پہاڑ بنے رہے ۔اسی لیے ابلیس کہتا ہے کہ یہ دیوانے جو کارل مارکس کے نظریات پر اپنی جان چھڑک رہے ہیں ، یہ تو اس چیز کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جو ناممکن ہے۔ لہٰذا یہ مجنون ہیں ۔ یہ مجھے کیا ڈرائیں گے ؟لہٰذا دوستو اور بھائیو! ابلیسی نظام کو ان نئے تصورات سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ جمہوریت بھی ہمارے گھر کی لونڈی ہے اور کارل مارکس کا اشتراکی نظام تو سرے سے فطرت کے ہی خلاف ہے جو چل ہی نہیں سکتا ۔ ہاں البتہ ابلیسی نظام کو اگر کہیں سے خطرہ ہےتو وہ مسلمان ہیں ۔
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اُس اُمّت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
وہ اُمت جس کے اندر اب بھی کہیں کہیں یہ آرزو موجود ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم ہونا چاہیے ۔ وہ جو نظام ِ عدل اجتماعی کی بات کرتے ہیں، ہمارے ابلیسی نظام کے لیے اصل خطرہ ہیں ۔ لہٰذا کارل مارکس ، مسولینی اور جمہوریت سے ساری توجہ ہٹا کر اس اُمت پر لگانی ہے کہ یہ کہیں جاگ نہ جائے ۔
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضُو
اس اُمت میں اب بھی ایسے نیک دل اور پارسا لوگ موجود ہیں جو اللہ سے اپنا تعلق برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور راتوں کو اُٹھ کر اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرتے ہیں ، رو رو کر التجائیں کرتے ہیں اور اپنے عہد کو تازہ کرتے ہیں ۔ یہ لوگ اگر ایک بار پھر منظم ہونا شروع ہوگئے تو ابلیسی نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ بن جائیںگے۔ (جاری ہے )