0 ہم اہل ِپاکستان کے کندھوں پربڑا قرض ہے کہ اس ملک کو اللہ تعالیٰ کے
نام پر لیا لیکن اللہ کے دین کو نافذ نہیں کرسکے ت ہم سمجھتے ہیں کہ پُرامن ،
منظم اور غیر مسلح تحریک سے نظام کی تبدیلی ممکن ہے
0 اقرارباللسان کے لحاظ سے تو ہم سب مسلمان ہیں، الحمدللہ! لیکن
تصدیق بالقلب کے لحاظ سے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے
0 اگر اللہ کا تقویٰ دل میں ہو تو روزِ قیامت جو ابدہی کا احساس بھی دل میں
ہو گا اور خانگی معاملات ٹھیک رہیں گے
0 نکاح کے بعد میاں بیوی میں مسلسل دوری ہمارے دین کے مزاج کے خلاف ہے
امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات میں اظہار خیال
میز بان :آصف حمید
ابو ابراہیم
سوال: میرے والدین کئی کئی مہینے آپس میں بات چیت نہیں کرتے ۔کیا اسلامی احکام کے مطابق ایسی حالت میں انہیں اکٹھے رہنے کی اجازت ہے؟
امیر تنظیم اسلامی:اللہ کا دین میاں بیوی کا جو مزاج بنانا چاہتا ہے اس کے لیے قرآن حکیم میں لباس کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ انسان کے وجود کے قریب ترین چیز لباس ہوتا ہے ۔ میاں بیوی کے رشتے میں ایسا ہی قرب قلبی اعتبار سے بھی مطلوب ہے، فکری اعتبار سے بھی مطلوب ہے اورحق زوجیت کے دیگر تمام گوشوں کے اعتبار سے بھی مطلوب ہے ۔یہ معاملہ فطری اعتبار سےبھی درست نہیں ہے کہ میاں بیوی کئی مہینوں تک آپس میں بات چیت بھی نہ کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر کے دور میں باقاعدہ قانون بنا دیا گیا تھا کہ وہ فوجی جو جنگ کے لیے گھر سے دور گئے ہوئے ہیں اُنہیں چار مہینے بعد لازماً رخصت دینی ہے تاکہ گھر واپس جا سکیں۔یہاں تک کہ سفر میں رسول اللہﷺ کی سنت ہمارے سامنے رہے ۔ آپﷺ ہرسفر میں ایک زوجہ محترمہ کواپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔لیکن ہمارے ہاں جو لوگ بیرون ممالک جاتے ہیں ان میں سے اکثر سال دو سال بعد گھر واپس آتے ہیں ۔ یہ غیر فطری بات ہے۔بالغ افراد کے لیے بے نکاحی زندگی گزارنا بھی غیر فطری ہے لیکن نکاح کرنے کے بعد بھی سالہا سال دوری کا معاملہ ہو تو یہ دین فطرت کے عین خلاف ہے ۔ انسان کے ایک فطری تقاضے کی تکمیل کے لیے نکاح کا پاکیزہ بندھن عطا کیا گیا لیکن اس سے آگے بڑھ کر نکاح کے کچھ دیگر تقاضے بھی ہیں ۔ نفسیاتی اعتبار سے بھی ، قلبی اعتبار سے بھی ، فکری اعتبار سے بھی اور دنیوی معاملات میں بھی نکاح کے بعد ایک دوسرے کا سہارا بننے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بڑھاپے میں ایک دوسرے کا ہمدرد اور غم خوار بننا ہوتا ہے ۔ لہٰذا نکاح کے بعد مسلسل دوری ہمارے دین کے مزاج کے خلاف ہے۔ دین چاہتا ہےکہ میاں بیوی کے درمیان مضبوط تعلق ہو تاکہ اولاد کی اچھی تربیت ممکن ہو سکے ۔ پھر بحیثیت مسلمان ہمارا ویژن تو بہت بڑا ہے ۔ ہمارے مدنظر آخرت کی دائمی زندگی ہے ۔ کیا ہم اپنی فیملی کو اپنے ساتھ جنت میں دیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں دیکھنا چاہتے ؟قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور اُن کی اولاد نے بھی اُن کی پیروی کی ایمان کے ساتھ‘ ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ان کی اُس اولاد کو‘اور ہم اُن کے عمل میں سے کوئی کمی نہیں کریں گے۔‘‘(الطور:21)
اتنا بڑا وژن اگر سامنے ہو تو پھر میاں بیوی کے تعلقات بھی خوشگوار ہوں گے ، اولاد کی تربیت بھی اچھی ہوگی ، گھر میں سکون کا ماحول بھی ہوگا ۔ یہ سارے تقاضے تو دور بیٹھے بیٹھے پورے نہیں کیے جا سکتے۔ دین میاں بیوی میں دوری اور علیحدگی پسند نہیں کرتا ۔ طلاق کو بھی حلال چیزوں میں ناپسندیدہ ترین قرار دیا گیا ہے ۔ اس کی گنجائش صرف اس لیے رکھی گئی ہے کہ بالفرض اگر ساتھ رہنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی ساتھ رہنے کی کوئی صورت نہیں بنتی تو پھر طلاق مجبوری ہے ، لیکن اس سے قبل شریعت نے کئی تقاضے رکھے ہیں ۔ قرآن کریم اس حوالے سے لائحہ عمل عطا کرتاہے (النساء :34، 35)جس کے تین درجات بتائے گئے ۔سب سے پہلے گھر کے معاملے کو گھر میں ہی سلجھانے کی کوشش کی جائے ۔ گھر میں معاملہ نہ سلجھ سکے توپھر ایک معتبر اور سمجھدار شخص شوہر کے خاندان سے لیا جائے اور ایک بیوی کے خاندان سے لیا جائے اور وہ بیٹھ کر معاملہ حل کرنے کی کوشش کریں۔ پھر بھی معاملہ حل نہیں ہوتا تو آخری درجے میں پھر طلاق ہے لیکن طلاق سے پہلے اگر اولاد جوان ہے تو وہ بھی کوشش کرے ، خاندان کے بڑے بھی کوشش کریں کہ صلح ہو جائے ۔ اللہ کے رسولﷺ میاں بیوی میں ناچاقی ختم کروانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے ۔ یہ اللہ کے رسول ﷺ کی سنت بھی ہے کہ اگر کہیں میاں بیوی میں دوری پیدا ہورہی ہے تو اس کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے ۔
سوال: ایسے میاں بیوی کو آخرت کے حوالے سے آپ کیا مشورہ دینا چاہیں گے ؟
امیر تنظیم اسلامی:پہلی بات یہ ہے کہ یہ زندگی اللہ تعالیٰ نے ہمیں بطور امتحان عطا کی ہے ۔ اچھے بُرے حالات ، یہ سب آزمائشیں ہیں ۔ لہٰذا جس اللہ کا نام لے کر نکاح کیا جاتا ہے، اس کے نام کی اگر لاج رکھ لی جائے تو زندگی کے سارے معاملات درست ہو سکتے ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نکاح کے خطبے کے موقع پر چار آیات خاص طور پر تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔ ان چاروں آیات (آل عمران: 102 ، سورۃ النساء :01 ، سورۃ الاحزاب:70،71) میں خاص طور پر اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کا حکم ہے ۔ لہٰذا اگر اللہ کا تقویٰ دل میں ہوتو روزِ قیامت جوابدہی کا احساس بھی دل میں ہوگا اور معاملات بھی ٹھیک ہوں گے ۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
((اتقوااللہ فی النساءکم)) ’’عورتوں کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا۔‘‘
جس اللہ کا نام لے کر تم نے اپنی بیویوں کو اپنے لیے حلال کیا ہے وہی تم سے روز قیامت ان کے بارے میں پوچھے گا بھی ۔ بیوی سے بھی شوہر کے حقوق کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ اگر آخرت کی یہ جوابدہی مد ِنظر ہو تو سارے معاملات بہتر ہو سکتے ہیں ۔ اللہ کے رسولﷺ نے یوں بھی فرمایا: تم میں سے کوئی شوہر اپنی بیوی سے نفرت نہ کرے ۔اگر اس کی کوئی ایک ادا پسند نہیں آرہی تو تلاش کر لے، کوئی دوسری ادا ضرور پسند آجائے گی ۔ یعنی حضور ﷺ خوبیاں تلاش کرنے کی طرف متوجہ کررہے ہیں ۔ اِسی طرح بیویوں سے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس بیوی کا شوہر اُس سے راضی ہو جائے اُسے اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اختیار دے گا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے جنتی گھرانے کے لیے جو کچھ تیار کر رکھا ہے اُس کا اگر معمولی سا تصور بھی انسان کے ذہن میں آجائے تو انسان دنیا میں ہر قسم کا کڑوا گھونٹ پینے کو تیار ہو جائے گا ۔ ایک مسلمان کی خواہش ہونی چاہیے کہ اس کی بیوی ، اس کی اولاد جنت میں اس کے ساتھ ہو ۔ اِس بات کو سامنے رکھ کر اگر ہم معاملات کو حل کرنے کی کوشش کریں گے تو ان شاء اللہ وہ ضرور حل ہوں گے ۔ مسلم شریف میں حدیث ہے کہ شیطان کا پسندیدہ ترین مشن میاں بیوی میں جدائی ڈالنا ہے ۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمیں رحمان کی ماننی ہے یا شیطان کی ۔ بحیثیت مسلمان ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ میاں بیوی کے درمیان صلح کروائیں ،انہیں آخرت کے حوالے سے توجہ دلائیں ، اللہ سے ان کے لیے دعا بھی کریں ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: شوہر اور بیوی کے درمیان صلح کرانے کے لیے اگر(کچھ) مبالغہ آرائی کرنا پڑے تو کرلو ۔یہ اس قدر اہم معاملہ ہے ۔
سوال:ایسے والدین کے بچوں کے لیے آپ کیا نصیحت کریں گے ؟
امیر تنظیم اسلامی:بعض رشتے بندہ اپنے اختیار سے بناتا ہے۔ جیسے نکاح کے معاملے میں گنجائش ہے کہ حرمت والے رشتوں سے باہر جو عورت پسند ہے اس سے نکاح کرلو لیکن والدین کے گھر بچے اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوتے ۔ والدین کا کوئی نعم البدل نہیں ہے ۔ ہمارے والدین ہماری جنت بھی ہیں اور ہماری جہنم بھی ہو سکتے ہیں(اللہ محفوظ رکھے)۔ اگر ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو وہ ہمارے لیے جنت کا ذریعہ بن جائیں گے ۔ پھر کون نہیں چاہے گا کہ اس کے والدین جنت میں بھی اس کے ساتھ ہوں ۔ لہٰذا اولاد اگر بالغ ہے تو اس کو چاہیے کہ ہر ممکن کوشش کرکے والدین میں صلح کروائے ۔ ان کے لیے اللہ سے دعا بھی کریں کیونکہ حدیث ہے کہ بندے کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتاہے ، وہ جب چاہےکسی طرف پھیردے ۔
سوال: اسلام کا پیش کردہ نظام ہر لحاظ سے بہترین ہے، عدل و انصاف ،چادر چار دیواری کی عصمت، ہر شخص کے ہر طرح کے انفرادی اور اجتماعی حقوق اس میں محفوظ ہیں، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی لحاظ سے بھی قابل قبول ہے ، پھر بھی اکثریت اس کے خلاف کیوں نظر آتی ہے ؟ (شوکت الرحمان ، لاہور)
امیر تنظیم اسلامی:پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری عظیم اکثریت کے سامنے اسلام کی بنیادی تعلیمات تو ہیں مگر اسلامی نظام کی برکات اور خوبیوں سے اکثر لوگ لاعلم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
’’اور اگر انہوں نے قائم کیا ہوتا تورات کو اور انجیل کو اور اس کو جو کچھ نازل کیا گیا تھا ان پر اِن کے رب کی طرف سے‘ تو یہ کھاتے اپنے اوپر سے بھی اور اپنے قدموں کے نیچے سے بھی۔‘‘(المائدہ:66)
ہمارا حال یہ ہے کہ ہماری عظیم اکثریت نے قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھا ہی نہیں۔ مختلف فورمزپر ہم نےتجزیے کروائےتو معلوم ہوا کہ صرف ایک یا دو فیصد لوگ ہوں گے جنہوں نے زندگی میں ترجمہ کے ساتھ مکمل قرآن پڑھا یا سنا ہوگا اور ترجمہ کافی نہیں تشریح کی ضرورت بھی ہے۔ لہٰذا ایک تو لاعلمی کا پہلو بھی ہے جس میں ہمارا اپنا قصور ہے۔ دوسرا شیطان نے بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے قسم اُٹھائی تھی کہ میں تیرے بندوں کی اکثریت کو گمراہ کروں گا اور تو ان کو اپنا شکرگزار نہیں پائے گا ۔ لہٰذا آج شیطانی حملوں کی بھی بھرمار ہے ۔ نبی کریم ﷺکی حدیث ہے کہ میں تم پر فتنوں کو اِس طرح برستے ہوئے دیکھ رہا ہوں جیسے موسلا دھار بارش ہو اور ہر آنے والا دن پچھلےدن سے زیادہ پُرفتن ہوگا۔ اگلی بات یہ ہے کہ اقرارباللسان کے لحاظ سے تو ہم سب مسلمان ہیں الحمدللہ! لیکن تصدیق بالقلب کے لحاظ سے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ باقی احکامات تو ایک طرف ، صرف نماز کا معاملہ ہی دیکھ لیں ، کتنے فیصد لوگ نماز پڑھتے ہیں اور ان میں سے بھی کتنے فیصد مساجدمیں جاکر باجماعت نماز پڑھتے ہیں ۔ پھر فجر اور عشاء کی نماز میں کتنے ہوتے ہیں ؟یہ ہماری کیفیت ہے کہ ماں کی گود میں کلمہ مل گیا ہے مگر دل میں یقین والا ایمان نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم ایمان والوں سے بھی کہتا ہے:
’’اے ایمان والو! ایمان لائو اللہ پر‘ اُس کے رسولؐ پر اور اُس کتاب پر جو اُس نے نازل فرمائی اپنے رسولؐ پر اور اُس کتاب پر جو اُس نے پہلے نازل فرمائی۔‘‘(النساء:136)
یعنی وہ ایمان جو تمہاری زبان تک محدود ہےتمہارے دل میں اُترے گا تو تمہارا عمل ثبوت پیش کرے گا۔ اسی طرح ایک اور پہلو ڈاکٹر اسرار احمدؒ واضح کرتے تھے کہ آج اکثریت کے نزدیک دین محض انفرادی سطح پر چند عبادات کا مجموعہ ہے جبکہ اجتماعی سطح پر دین کی برکات اور اس کے ثمرات سے اکثریت لاعلم ہے ۔ زیادہ سے زیادہ شرعی سزاؤں کا تصور ذہن میں آتا ہے کہ ہاتھ کٹیں گے ، گردنیں اُڑیں گی ، کوڑے لگیں گے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! لیکن جس عدل اجتماعی کی بات ہمارا دین کرتا ہے ، کفالت عامہ کا جو تصور عطا کرتا ہے ، احتساب کا جو نظام عطا کرتا ہے وہ اکثریت کے ذہنوں سے مفقود ہے ۔ یہ اسلامی نظام ہی تھا جس میں خلیفہ وقت کا خطبہ روک کر پہلے اس کے لباس کے بارے میں پوچھا جاتا تھا کہ یہ لباس کہاں سے آیا؟ پھر یہ کہ اسلامی نظام میں لوگوں کی جان ، مال ، عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست لیتی ہے ۔ دین کے اجتماعی نظام کی یہ خوبصورتی بیان کرنے میں ہمارے دینی طبقات کےہاں بھی کوتاہی کا معاملہ رہا ہے ۔ پھر دین کو نافذ کرکے اس کا یہ روشن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے معاملے میں بھی کوتاہی رہی ۔ یہ سارے فتنے اور ہماری تمام کمزوریاں اپنی جگہ لیکن اللہ کا دین مکمل نظام حیات ہے، زندگی کے تمام گوشوں کے لیے رہنمائی دیتا ہے ، اس پر یقین کرکے اس کا علم حاصل کرنا ، اس پر عمل پیرا ہونا ، قرآن و سنت کی پیروی کرنا اور دینی اجتماعیت اختیار کرکے اس کے نفاذ کی جدوجہد میں حصہ لینا ، ہر مسلمان کے فرائض میں شامل ہے ۔
سوال: میں دسویں جماعت کا طالب علم ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ میں پاکستان ہجرت نہیں کر پاؤں گا لیکن بھارت میں رہتے ہوئے تنظیم اسلامی میں شمولیت اختیار کر لوں تو اس کی کیسے مدد کر پاؤں گا۔میری موجودہ زندگی کاطرزعمل کیا ہونا چاہیے ؟( زید احمد ، نیو دہلی ، انڈیا)
امیر تنظیم اسلامی:پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہندوستان کے بھائیوں کی طرف سے سوالات ہمارے لیے تقویت کا باعث ہیں اور ہم ان کے لیے دعا گو بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے بھی معاملات کو آسان فرمائے۔ بڑا قرض تو ہم اہل ِپاکستان کےکندھوں پر ہے کہ جنہوں نے اس مملکت خداداد کو اللہ تعالیٰ کے نام پر لیا لیکن آج تک اللہ کے دین کو نافذ کر کے دنیا کے سامنےدکھا نہ سکے۔ جہاں تک ہجرت کامعاملہ ہے توایک بات ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ ایک ہجرت تو ہر وقت کرنی ہے۔ رسول اللہﷺ سے پوچھاگیا:اے اللہ کے رسولﷺ! سب سےافضل ہجرت کیا ہے؟آپﷺ نے فرمایا: ’’ہر وہ بات ترک کر دو جو تمہارے رب کو ناپسند ہے۔ ‘‘
حدیث میں ایسے سات قسم کے افراد کا ذکر آتا ہے کہ وہ روز محشر اللہ کے عرش کے سائے تلے ہوں گے ، ان میں سے ایک وہ فرد ہوگا جس نے جوانی کے عالم میں اللہ کی عبادت کی ہوگی کیونکہ جوانی میں بگڑنے کےزیادہ مواقع، اسباب اور امکانات ہوتے ہیں۔ اس عمر میں اللہ کی طرف رجوع کرنا بڑی سعادت کی بات ہے ۔ زید صاحب اس حوالے سے خوش بخت ہوں گےکہ اگر ان معنوں میں وہ ہجرت کریں ، تقویٰ اختیار کریں تو ان کے لیے عظیم خوشخبری ہے ۔ جہاں تک تنظیم اسلامی میں شمولیت کا تعلق ہے تو تنظیم اولاً پاکستان میں جدوجہد کر رہی ہے ۔ بھارت کے مسلمانوں کے لیے ہماری گزارش یہ ہے کہ وہ اپنے قرب و جوار میں دیکھیں کوئی ایسی دینی اجتماعیت ہو جو دعوت دین کا کام کررہی ہو ، قرآن کی تعلیم کو عام کر رہی ہو ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے کو ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہو تو اس میں شامل ہو جائیں ۔ زندگی کا طرزعمل کیا ہونا چاہیے ؟ اس حوالے سے سورۃ العصر میں پورا لائحہ عمل دے دیا گیا ہے ۔
’’زمانے کی قسم ہے۔یقیناً انسان خسارے میں ہے۔سوائے اُن کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور اُنہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور انہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔‘‘
اِن چار شرائط پر جو استقامت دکھائے گا، وہی زندگی کے مقصد میں کامیاب ہوگا ۔ سب سے پہلے یقین والا ایمان ہونا چاہیے اورعمل سے اُس کا ثبوت بھی پیش ہو رہا ہے ۔ اعمال صالح میں صرف عبادات ہی نہیں بلکہ اللہ اور اللہ کی مخلوق سے متعلق تمام حقوق و فرائض کی ادائیگی بھی شامل ہے ۔ بیٹا ، بھائی ، شوہر ، والد غرض ہر حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو قرآن وسنت کی روشنی میں ادا کرنا، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا اور پھر اس راستے میں جو مشکلات آئیں ان پر صبر کرنا اور دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرنا ۔اجتماعیت اختیار کرنے سے یہ سب مراحل آسان ہو جائیں گے ۔ ان شاء اللہ!
سوال:جیسا کہ آپ نے خود بتایا تھا کہ نظام کی تبدیلی اے سی والے کمروں میں بیٹھ کر باتیں کرنے سے نہیں بلکہ کمفرٹ زون کو چھوڑ کر میدان عمل میں نکلنے سےممکن ہوگی۔ آپ نظام کی تبدیلی کے لیے بیانات سے بڑھ کر رفقاء کے ساتھ سڑکوں پر کب آئیں گے؟( محمد ذیشان، رؤف پراچہ، کراچی)
امیر تنظیم اسلامی: جہاں تک سڑکوں پر آنے کی بات ہے تو ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ کہیں مساجد میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے ہمارے رفقاء گلی محلے میں بیٹھ کر درس قرآن دیتے ہیں ۔ خود مجھے 10 سال گلی محلے میں بیٹھ کر درس دینے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ اسی طرح ہم ہر تین مہینے بعد آگاہی منکرات مہم چلاتے ہیں اور ان میں ہم گلی محلوں میں جاکر لوگوں تک آگاہی پہنچاتے ہیں ، مظاہرے کرتے ہیں ، ریلیاں نکالتے ہیں ۔ جہاں تک نظام کی تبدیلی کی بات ہے تو اس حوالے سے تنظیم اسلامی کا منہج واضح ہے ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے منہج انقلاب نبویﷺ کی روشنی میں پورا طریقہ کار طے کیا ہے ۔ اس موضوع پر ان کی کتابیں منہج انقلاب نبوی ﷺاور رسول انقلاب ﷺ کا طریق انقلاب بھی موجود ہیں ۔نبی ﷺکا فرمان ہے کہ اگر تم بدی کو دیکھو تو اپنے ہاتھ سے بدل دو، اگر ہاتھ سے بدلنے کی طاقت نہیںہے تو زبان سے بدلو ، زبان سے بدلنے کی بھی طاقت نہیں ہے تو دل میں برا جانو اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ۔ فی الحال ہمارے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ ہم برائی کو ہاتھ سے روک سکیں ۔ اس لیے دوسرے درجے میں زبان سے جس حد تک ہو سکتاہے خطبات جمعہ میں ، میڈیا کے تمام ذرائع استعمال کرکے ، دروس قرآن کے ذریعے ، آگاہی منکرات مہمات کے ذریعے ، جلوس اور ریلیاں نکال کر ہم اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے دیگر دینی اجتماعیتوں کے ساتھ مل کر کبھی مشترکہ جدوجہد بھی ہوتی ہے۔ جیسا کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں قادیانی مسئلے پر معاملہ چل رہا تھا تو دینی طبقات کی جانب سے بھی آواز اُٹھائی گئی ، عوامی حلقوں، وکلاء بار کونسلز اور پارلیمنٹ سے بھی آواز بلند ہوئی اور وہ معاملہ حل ہوگیا ۔ الحمدللہ ۔ اسی طرح ان شاء اللہ وہ مرحلہ بھی آئے گا جب تنظیم اسلامی کے رفقاء کی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے بقول معتدبہ تعداد ہو جائے گی تو ہم باطل نظام کے خلاف تحریک کا آغاز کریں گے ۔ اس کے لیے کم ازکم اتنی تعداد ہونی چاہیے کہ جو مدمقابل قوتیں ہوں گی ان کو سوچنا پڑ جائے کہ کتنوں کو جیلوں میں ڈالیں گے ، کتنوں کو ماریں گے۔ اس مرحلے پر ہم جان دینے کی بات کریں گے ، جان لینے کی بات نہیں کریں گے ۔ اللہ کے رسولﷺ کا خون اگراس راہ میں بہا ہے ، آپؐ کے صحابہ ؇کا بہا ہے تو پھر ہماری جانیں کیا حیثیت رکھتی ہیں ؟ لیکن اس مرحلہ تک پہنچنے کے لیے افراد کی تیاری اور ذہن سازی ضروری ہے۔ رسول اللہﷺ نے 13 برس تک کفار کے بتوں کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ جماعت کی تیاری میں مصروف رہے ۔ جب ایک جماعت تیار ہوگئی اور اقدام کے بعد اللہ تعالیٰ نے فتح عطا کر دی تو پھر اُن بتوں کو توڑا گیا ۔ اسی طرح ہمارے پاس بھی متعدد بہ تعداد ہونی چاہیے ۔ اس ضمن میں طے شدہ بات یہ ہے کہ ہم کسی ایسے منکر کے خلاف تحریک چلائیں گے جو تمام مکاتب فکر کے نزدیک متفقہ ہواور پھر یہ تحریک نظام کی تبدیلی پر جاکر منتج ہوگی ان شاء اللہ ۔ اس حوالے سے 77 سال کی تاریخ میں ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں ۔ جیسا کہ فتنہ قادیانیت کے خلاف تمام دینی حلقوں نے مل کر تحریک چلائی اور الحمدللہ 1974ء میں ایک قانون پاس ہوگیا ۔ تحفظ ختم نبوت کے لیے سب نے مل کر تحریک چلائی تو وہ بھی کامیاب ہوئی ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پُرامن ، منظم اور غیر مسلح تحریک سے نظام کی تبدیلی ممکن ہے ۔
سوال: جولوگ سوشل میڈیا کے ذریعے کمائی کرتے ہیں ان کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ اس طرح کی کمائی سے مستفید ہونا چاہیے یا نہیں ؟
امیر تنظیم اسلامی: اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ :((استفت قلبک)) ’’اپنے دل سے فتویٰ لو۔‘‘یعنی جس چیز میں شکوک و شبہات آجائیں اس سے دوری بہتر ہے ۔ اس حوالے سے دواحادیث سے مزید رہنمائی ملتی ہے ۔ ایک مسلم شریف میں حدیث ہے جس میں حلال و حرام چیزوں کی بھی وضاحت کر دی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ مشتبہ چیزوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جو لوگ مشتبہ چیزوں سے اپنے آپ کو بچائیں گے وہ اپنی عزت اور ایمان کی حفاظت کریں گے اور جومشتبہ میں مبتلا ہو جائے گا وہ حرام میں مبتلا ہو جائے گا۔ دوسری معروف حدیث ہے کہ جو شے تمہیں شک میں ڈالے اس کو چھوڑ دو اور جو غیر مشکوک ہو اس کو اختیار کر لو۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کے ذریعے جو کمائی کی جاتی ہے اس میں کچھ مشتبہ چیزیں بھی ضرور آجاتی ہیں اور پھر انسان کچھ حرام چیزوں کی پروموشن کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے لہٰذا اس سے پرہیز بہتر ہے ۔
سوال: میں خود تو کسی جماعت میں شامل نہیں اور باقاعدہ طور پر کوئی دینی خدمت بھی سرانجام نہیں دے رہا البتہ شوق ضرور ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تصادم کا مرحلہ آئے گا تو کیا تنظیم کے سربراہان بھی میدان میں گولیاں کھائیں گے یا محض اس مرحلے کی کامیابی کے لیے گائیڈ لائن دیتے رہیں گے؟(اسامہ حیدر ،حویلی لکھا)
امیر تنظیم اسلامی: جب ہم منہج انقلاب نبویﷺ کی بات کرتے ہیں تو ظاہر ہے اللہ کے نبی ﷺ کا میدان جنگ میں خون بھی بہا ہے ، آپﷺ کے صحابہ ؇نے شہادتیں پیش کی ہیں تو ہماری کیا حیثیت ہے۔ حقیقت میں تو ہم تب قیمتی ہوں گے جب اس راہ میں ہماری جان ، مال ، اولاد سب کچھ قربان ہو جائے ۔ ہم اللہ سے التجا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں یہ سعادت نصیب فرمائے ۔ آمین !