(اداریہ) سائبر پلس جنگ! - خورشید انجم

11 /

اداریہ


خورشید انجم


سائبر پلس جنگ !


دشمن اگرغیرت مند اور بااصول ہو تو یہ اِس بات کی ضمانت ہوتی ہے کہ اُس کی طرف سے کوئی اوچھاوار نہیں آئے گا اور اُس سے جنگ محض میدان کارزار ہی میں ہوگی۔اِس کے برعکس اگر دشمن مکار،گھٹیا اور صہیونی ہو تو یہ سوچنا بھی محال ہے کہ وہ کسی قانون اوراخلاقی ضابطہ کو خاطر میں لائے گا۔ یہود کی طرف سے مسلط کی گئی جنگوں کی تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ اُنہیں جب بھی اور جہاں بھی کہیں بظاہر کامیابی ملی، گھٹیا اور اوچھے ہتھکنڈوں کے سبب ہی ملی ۔اسلامی تاریخ کی بات کریں تو یہودیوں کے قبیلے بنو نضیرنے آپ ﷺ کو دھوکے سے اپنے ہاں بلا کر پتھر گرانے کی بظاہر فول پروف سازش کی مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آجانے کے باعث وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکے ۔ نورالدین زنگی کے دور میں اُنہوں نے رسول اللہﷺ کے جسد مبارک کو قبر مبارک سے نکال کر مسلمانوں کو کمزور کرنے کی ناپاک جسارت کی مگر تب بھی یہ ناکام ہوئے ۔ پھر صلاح الدین ایوبی جب بیت المقدس کی آزادی کے لیے سر پر کفن باندھ کر نکلے تو اُنہیں اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش میں جس طرح عورتوں اور منشیات کا استعمال کیا گیا ،تاریخ میں شاید اِس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام چالوں کو ناکام بنا دیا۔حقیقت یہ ہے کہ مؤخر الذکر دونوں مثالیں ان ادوار کی ہیں جب مسلمان بہرحال ابھی تک کسی بڑے مقصد کو حاصل کرنے کےمتمنی تھے۔ بڑی حد تک متحد تھے اوروہ معتدبہ تعداد میں ایک امیر کے تابع تھے۔لہٰذا صہیونیوں کا کوئی بھی وار کارگرنہ ہوسکا۔ مگر دورِ جدید میں جب مسلمانوں کا شیرازہ بکھر گیا اور وہ منتشر ہو گئے تو صہیونی اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے چلے گئے۔ بہرحال دوسری جنگ عظیم کے خاتمے سے تقریباً متصل اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام کے بعد صہیونیوں کا بدبودار جنگی کردار کسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔ جون 1967ء کے پہلے ہفتے میں اسرائیل نے کسی نوٹس کے بغیر ہی مصر پر حملہ کردیا۔مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم، غزہ، شام میں گولان کی پہاڑیاں مسلمانوں سے چھن گئیں۔ جزیرہ نمائے سینا کے ایک لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد علاقہ پر بھی اسرائیل نے قبضہ کرلیا، نہر سوئز بند ہو گئی اور مصر جزیرہ نمائے سینا کے تیل کے چشموں سے محروم ہو گیا۔ مصر جو اس سے قبل مسلم دنیا میں کسی حد تک قائدانہ کردار ادا کر رہاتھا یکسربجھ کررہ گیا ۔بے شک اس جنگ سے بظاہر اور بڑا فائدہ تو امریکہ کو ہی ہوا مگراسرائیل نے جس طرح مہرے کی حیثیت سے کیمپ ڈیوڈ اور بعد ازاں اوسلو معاہدوں میں اپنی قیمت لگوائی، اُس نے شرق وسطیٰ کی تاریخ بدل کر رکھ دی ۔اِس کے بعد80ءکی دہائی میں عراق کے نیوکلیئر پلانٹ پررات کی تاریکی میں حملہ کر کے دنیاکو اپنے سازشی وجود کا ایک اور نظارہ دکھایا۔ 2010ء میں اسرائیلی حکومت سے منسلک ہیکرز نے کمپیوٹر وائرس سٹکسنیٹ کے ذریعے ایرانی جوہری سینٹری فیوجز میں خلل ڈال کر تباہی مچا دی۔تین سال قبل وسطی ایران میں واقع زیرزمین جوہری تنصیبات کو ایک اور تباہ کن سائبر حملے سے نقصان پہنچایا۔
اسرائیل کی ایسی کارروائیوں پر مسلم دنیا سےکم جبکہ غیر مسلم دنیا سے زیادہ صدائے احتجاج بلند ہوتی رہی ہے مگر اسرائیل نے کبھی کسی بھی احتجاج کی پروا نہیں کی اور اپنی دہشت گردی دنیا بھر میں پھیلاتا چلاآ رہا ہے ۔ ناجائز صہیونی ریاست نے 7اکتوبر2023ء کے بعد جس درندگی کا آغاز کیا تھا اُس کو ایک برس پورا ہونے کو ہے۔ایک سال سے غزہ پر اسرائیل کی مسلسل وحشیانہ بمباری جاری ہے جس سے تقریباً 43ہزار مسلمان شہید ہو چکے ہیں اور 95 ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ شہداء کی اکثریت عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہے۔ غزہ کے 85 فیصد گھروں کو تباہ کر دیا گیا ہے اور تقریباً تمام ہسپتالوں، سکولوں اور پناہ گزین کیمپوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق غزہ کے 20 لاکھ مسلمان یعنی آبادی کا تقریباً 95 فیصد حصہ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ خوراک، پانی، ادویات اور دیگر بنیادی ضروریاتِ زندگی کی شدید ترین قلت ہے۔ 15 لاکھ سے زائد افراد امراض اور فاقہ کشی کا شکار ہیں۔اِسی دوران اسمٰعیل ہنیہ سمیت حماس کے کئی رہنماوں کو بھی شہید کیا جا چکا ہے۔
اب مسلمان بلکہ انسانیت دشمن صہیونی درندہ اسرائیل جنگ کے دائرہ کو پھیلا کر پوری دنیا کا امن و امان تباہ کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ حال ہی میں لبنان کے دارالحکومت بیروت میں مجاہدین کے زیراستعمال پیجرز اور واکی ٹاکی دھماکوں سے پھٹنے لگے ۔ مسلسل دو دن ہزاروں پیجرز اور واکی ٹاکی سمیت دیگر مواصلاتی اور برقی آلات کو تباہ کر کے جس سائبر دہشت گردی کا ارتکاب کیا گیااس میں درجنوں افراد شہید اور ہزاروں زخمی ہوگئے۔انٹر نیشنل میڈیا نے اسرائیل کی اِس کارروائی کو’’ سائبر پلس حملے‘‘کا عنوان دیا ہے۔ اِس کارروائی اور عنوان میں مطابقت پر تو بات ہوسکتی ہے مگر جس نتیجہ پر بھی پہنچیں اِس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسرائیل نے اوچھا وار کیا ہے ۔دوسری جنگ عظیم میںجرمن اور اتحادی دونوں افواج نے جنگ سے متاثرہ خاندانوں کے کیمپس کے آس پاس فضا سے ایسے بم پھینکے جو بظاہر بہت خوبصورت کھلونے تھے ،بچوں نے لاعلمی میں اُن کھلونوں کو اُٹھا کر اُن سے کھیلنا شروع کیا تو وہ دھماکے سے پھٹ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر بڑی طاقتوں کے کسی ناپسندیدہ ملک نے اس نوعیت کی بہیمانہ دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہوتا تو ساری دنیا مل کر اُس پر پَل پڑتی اور اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی۔ لیکن اسرائیل کو امریکہ، مغربی یورپ کے اکثر ممالک اور بھارت جیسی طاقتوں کی مکمل پشت پناہی بلکہ معاونت حاصل ہے لہٰذا اُس کی ریاستی دہشت گردی اور فلسطینی مسلمانوں کے قتلِ عام پر معدودے چند آوازیں بلند ہوئیں، کچھ ممالک اور عالمی اداروں کی جانب سے مذمتی بیانات سامنے آئےلیکن کوئی اسرائیلی درندگی کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنے کو تیار نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اِن سائبر حملوں سے ٹیکنالوجی کے میدان میں اسرائیل کی بعض ایسی تیاریوں کی نشاندہی ضرور ہوگئی ہے جن کا اظہار اسرائیل کے آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل ہرزی نے کچھ عرصہ قبل نئے آپریشنل منصوبوں کی منظوری دیتے ہوئے کیاتھا۔صہیونی جرنیل کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بہت سی صلاحیتیں ہیں جنہیں ہم نے ابھی تک استعمال نہیں کیا لیکن جلد دنیا ہماری جنگی صلاحیت کو دیکھ لے گی۔ دشمن کیونکہ مکار،گھٹیا اور صہیونی ہے اس لیے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل میں اسرائیل اسی قسم کے انسانیت سوز ہتھکنڈے اپنے ہر حریف فرد، گروہ اور ملک کے خلاف استعمال کرے گا۔سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں روسی اور چینی مندوبین نے بالکل درست کہا کہ لبنان میں جنگ کا آغاز بڑی جنگ کی طرف لے کرجائے گا اور اس کے ذمہ دار صرف اسرائیل اور امریکہ ہوں گے۔
ہم قارئین کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ لبنان میںاسرائیلی سائبر دہشت گردی سے چند روز قبل اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی جانب سے پیش کی گئی ایک قرار داد منظور کی تھی جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ 12 ماہ کے اندر مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے اپنی غیر قانونی موجودگی ختم کرے۔ قرارداد میں فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی افواج کے انخلاء، صہیونی آبادکاروں کے لیے نئی بستیوں کی تعمیر کو روکنے، غصب شدہ اراضی اور املاک کی واپسی اور بے گھر فلسطینیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا گیاتھا۔یہ قرارداد 14 کے مقابلے میں 124 ووٹوں سےکامیاب ہوئی۔ 43 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ہم سمجھتے ہیں کہ لبنان سائبر حملے کر کے اسرائیل نے اس قرارداد کے حامی تمام ممالک کو ایک وارننگ بھی دی ہے کہ اچھی طرح جان لو، میرے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی تو ایسا حشر ہو گا۔ سائبر حملہ کی گونج ابھی تھمی بھی نہ تھی کہ اسرائیل نے لبنان پر فضائی حملے بھی شروع کر دیے۔ کئی دہائیوں میں صہیونیوں کے لبنان پر سب سے بڑے حملہ میں پہلے ہی دن تقریباً 500 مسلمان شہید کر دیئے گئے جس میں 25 بچے تھے۔ لبنان پر جاری اسرائیلی حملوں سے واضح ہوچکا ہے کہ اسرائیل اب دنیا کو ایک بڑی جنگ کی طرف ہانک رہا ہے۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مغربی قوتوں کی پون صدی کی غیر مشروط پشت پناہی کے باعث آج اسرائیل جدید ٹیکنالوجی اور عسکری اعتبارسے نہتے فلسطینیوں ،اپنے عرب پڑوسیوں بلکہ اکثر ترقی یافتہ ممالک سے بھی بہت آگے نکل چکا ہے۔ اس کا فوری اگلا ہدف یقیناً پڑوسی عرب ممالک ہی ہوں گے۔ یہ بات بھی اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ اقوامِ متحدہ اور اُس جیسی دیگر عالمی تناظیم و ادارے اپنی رہی سہی ساکھ اور افادیت بھی کھوچکے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب مسلمان ممالک کا اتحاد و اتفاق ناگزیر ہو چکا ہے اور دروں بینی سے معاملات کا جائزہ لینے اور جوابی لائحہ عمل بنانے کی اشد ضرورت ہے، عرب ممالک کی بزدلی اور کم ہمتی کا یہ عالم ہے کہ اسرائیلی مظالم کے خلاف کُھل کر آواز بلند کرنے کو بھی تیار نہیں چہ جائیکہ متحد ہو کر اس کے خلاف کسی عملی قدم کا بھی سوچیں۔ان کی مثال اس شتر مرغ کی سی ہے جو دشمن کو آتا دیکھ کر سر ریت میں دھنسا لیتا ہے کہ شاید ایسے دشمن کاوجود ختم ہو جائے!
پاکستان کی بات کریں تو قائد اعظم نےاول روز سے ہی قوم کو خبردار کر دیا تھا کہ ’’اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے ‘‘۔ پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ پڑوس میں بھارت اور فاصلہ پر اسرائیل نہ صرف مملکتِ خداداد کے ازلی دشمن ہیں بلکہ اس کے خلاف فطری اتحادی ہیں۔پاکستان کے خلاف مذموم عزائم کے حوالے سے یہودوہنود میں گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔ اسرائیل کے پہلے وزیراعظم بن گوریان نے 1967ء کی جنگ میں فتح کے بعد پیرس میں جشن کے دوران صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ بین الاقوامی صہیونی تحریک کو کسی طرح بھی پاکستان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان ہمارا اصلی اور حقیقی نظریاتی حریف ہے۔بن گوریان کا کہنا تھا کہ بھارت سے دوستی اسرائیل کے لیے نہ صرف مفید بلکہ ضروری ہے۔ اسرائیل کو اس تاریخی عناد سے فائدہ اُٹھانا چاہیے جو بھارت کا انتہا پسند ہندو پاکستان اور اس میں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف رکھتا ہے۔ پھر بھارت اور اسرائیل کے تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے۔ اسی طرح کی مشابہت اسرائیل اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اگر نیتن یاہو نے گزشتہ برس اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد X (سابقہ ٹویٹر)پر گریٹر اسرائیل کا نقشہ پیش کیا تھا جو یہودیوں کا دیرینہ خواب ہے تو ہندوؤں کے ہاں بھی گریٹر انڈیا کا خواب ہے اور اپنے ان توسیع پسندانہ عزائم کوبھارتی پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں دیوار پر لگے نقشے کے ذریعے واضح کر دیا گیا ہے جس میں پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کوبھارت کے اندر ضم کر کے دکھایا گیا ہے۔ اسرائیل اور بھارت دونوںمسلم کُش پالیسیاں اختیار کیے ہوئے ہیں۔کون نہیں جانتا کہ بھارت اور اسرائیل دونوں کا اصل نشانہ پاکستان ہے اور اس میں خاص طور پر پاکستان کے ایٹمی دانت نکالنا ان کی ترجیح اوّل ہےجس کے لیے کئی بار کوشش بھی کی جا چکی ہے لیکن ہر بار غیبی مدد سے پاکستان محفوظ رہا۔ پھر یہ کہ پاکستان کی نظریاتی اساس کو کمزور کرنے کے لیےاپنے ہرکاروں کے ذریعے آئین سے اسلامی شقوں کو نکالنے کی بھی کوشش جاری رہتی ہے۔
ان حالات میں جب کہ ’’تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں‘‘ کے مصداق دشمن تاک لگا کر بیٹھا ہے، آنے والے واقعات کی پیش بینی کر کے اس حوالے سے مؤثر پیش بندی نہ کرنا بلی کو دیکھ کر کبوتر کا آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہو گا۔ اس لیے ’’اپنی خودی پہچان او غافل مسلمانِ پاکستان‘‘ کے مصداق یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنا فرض پورا کریں۔ نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث مبارک کے مطابق اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نہیں اتاری جس کا علاج نہ اتارا ہو۔ کون نہیں جانتا کہ اس دنیا کو جب اسرائیل کی بیماری لاحق ہوئی تو اُس کے علاج یعنی پاکستان کو قائم ہوئے 9 ماہ ہو چکے تھے۔ پھر اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان ایک ایٹمی قوت بھی بن گیا۔ لہٰذا فطری طور پر امت ِمسلمہ میں اسلامی ایٹمی پاکستان ہی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آگے بڑھے اور فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے اسرائیل کا ہاتھ روکے۔ ہم یہ نہ بھولیں کہ احادیث میں یہ خوش خبری موجود ہے کہ ’’ کچھ لوگ مشرق کی جانب سے نکلیں گے جو مہدی کی حکومت کے لیے راستہ ہموار کریں گے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ) اور ’’ خراسان سے کالے جھنڈے نکلیں گے۔ ان جھنڈوں کا کوئی طاقت مقابلہ نہ کر سکے گی۔ یہاں تک کہ ایلیا(القدس‘ یروشلم) میں(فتح ہونے پر) یہ گاڑ دیے جائیں گے۔‘‘ (جامع ترمذی ومسند احمد)
آ ج ہمارا سب سے بڑا جرم دینِ اسلام سے بے وفائی کرتے ہوئے اس کو نافذ و غالب کرنے کی جدو جہد کو پس ِپشت ڈالنا ہے ۔سچ پوچھیں تو جہاں اس وقت اہلیانِ بیت المقدس سخت امتحان سے گزر رہے ہیں تو اُس سے بڑا امتحان باقی امتِ مسلمہ کابالعموم اور اہلِ پاکستان کا بالخصوص اپنی جگہ جاری ہے۔ پاکستان کو مستقبل کے عالمی منظرنامہ پر فعال کردار ادا کرنے کے لیے حقیقی معنوں میں اسلامی ایٹمی پاکستان بننا ہو گا۔لہٰذا" The best defense is a good offense "کے مصداق ہمارے بچاؤ کا واحد، پہلااور آخری حل یہی ہے کہ یہاں اسلام کا نظام خلافت قائم ونافذ کیا جائے جو پوری دنیا کے لیے لائٹ ہاؤس کا کام کرے ۔اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں، مقتدر حلقوں اور عوام کو اپنا دینی فریضہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!