توبہ و استغفار کے بارے میں اسوئہ حسنہ
مولانا حافظ زبیر حسن
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’اللہ کی قسم میں دن میں ستر دفعہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں توبہ اور استغفار کرتا ہوں۔‘‘(بخاری شریف)
اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی، جلال و جبروت کے بارے میں جس بندے کو جس طرح کا شعور و احساس ہو گا وہ اپنے آپ کو اس درجہ ادائے حقوق عبدیت میں قصور وار سمجھے گا۔ آپﷺ بار بار اور مسلسل توبہ و استغفار کی طرف متوجہ رہتے تھے اور اس کا اظہار فرما کر دوسروں کو بھی اس طرف متوجہ کرتے اور تلقین فرماتے تھے جیسے کہ ایک دوسری روایت میں اغرالمزنیؓ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’اے لوگو! اللہ کے حضور میں توبہ کرو میں خود دن میں سو سو دفعہ اس کے حضور میں توبہ کرتا ہوں۔‘‘ یہ ستر اور سو کی تعداد دراصل کثرت کو بیان کرنے کے لیے ہے اور قدیم عربی زبان کا عام محاورہ ہے ورنہ حضور ﷺ کے توبہ و استغفار کی تعداد یقینا ً اس سے بہت زیادہ ہوتی تھی۔ یہ تو اس ذات کا حال ہے جس کے کوئی گناہ ہیں ہی نہیں۔ دراصل اس طرح کی روایات سے امت کو تعلیم دینا مقصود ہے کہ ہمیں ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور توبہ و استغفار کرنا چاہیے کیونکہ توبہ و استغفار نہ کرنے کی صورت میں گناہوں کی سیاہی رفتہ رفتہ انسان کے دل پر چھا جاتی ہے۔ اسی بناء پر ایک حدیث میں فرمایا گیا مومن بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے پھر اگر اس نے اس گناہ سے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں معافی و بخشش کی التجاء اور استدعاء کی تو وہ سیاہ نقطہ زائل ہو کر قلب صاف ہو جاتا ہے اور اگر اس نے گناہ کے بعد توبہ و استغفار کے بجائے مزید گناہ کیے اور گناہوں کی وادی میں قدم بڑھائے تو دل کی وہ سیاہی اور بڑھ جاتی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہی وہ زنگ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: ’’کہ ان لوگوں کی بدکاریوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ اور سیاہی آگئی ہے۔‘‘
کسی مسلمان کے لیے بلاشبہ یہ انتہائی بدبختی کی بات ہے کہ گناہوں کی ظلمت اس کے دل پر چھا جائے اور اس کے قلب میں اندھیرا ہی اندھیرا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی اس سے حفاظت فرمائے (آمین) دراصل خطاء اور لغزش آدمی کی فطرت میں داخل ہے کوئی ابن آدم اس سے مستثنیٰ نہیں ہے لیکن وہ بندے بڑے اچھے اور خوش نصیب ہیں جو خطا و قصور اور گناہ کے بعد نادم ہو کر اپنے مالک کی طرف رجوع کرتے ہیں اور توبہ و استغفار کے ذریعہ اس کی رضا و رحمت حاصل کرتے ہیں۔ اسی کو سرکار دو عالم ﷺ نے ایک حدیث میں یوں فرمایا کہ ہر آدمی خطا کار ہے اور خطاکاروں میں وہ بہت اچھے ہیں جو مخلصانہ توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو جائیں۔ اس بناء پر ہم سب کو چاہیے کہ خود بھی توبہ و استغفار کریں اور دوسروں کو بھی توبہ و استغفار کی طرف متوجہ کریں تاکہ ہمارے گناہوں کی نحوست کی وجہ سے آج امت مسلمہ جن پریشانیوں اور تکلیفوں سے دوچار ہے وہ چاہے مہنگائی کی صورت میں ہوں، چاہے بے رحم حکمرانوں کی صورت میں ہوں یا بہت سے علاقوں میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے عذاب کی صورت میں ہوں یا یہود و نصاریٰ کے ہم پر تسلط کی صورت میں ہوں، اللہ تعالیٰ توبہ و استغفار کی برکت سے اس طرح کی سب پریشانیوں اور تکلیفوں سے ہماری خلاصی کروا دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ و استغفار کرنے والا بنا دے۔ آمین
tanzeemdigitallibrary.com © 2024