پامردئ مومن
عامرہ احسان
7اکتوبر سے سال کے خاتمے تک دنیا بھر میں غزہ کے حق میں 7 ہزار مظاہرے 3 ماہ کے عرصے میں ہوئے۔ نیا سال اس طرح طلوع ہوا کہ ناچ گا بجا شراب کے خم لنڈھا کر یہ دن منانے والی قومیں غزہ کے غم میں ڈوبی، اپنے حکمرانوں سے یکسر جدا، جنگ بندی کے نعرے لگاتی رہیں۔ نیوزی لینڈ میں لوگ لاشوں کی صورت اختیار کیے لہو رنگ کپڑا اوڑھے لیٹے ہیں، لکھ رکھا ہے غزہ کو جینے دو۔ 2024 ء کی پہلی پکار یہ تھی کہ فلسطین کی آزادی تک دنیا میں کوئی خوشی نہیں منائی جا سکتی! Celebration...... جس کے لوگ مواقع تلاش کرکے ہمارے ہاں بھی کمربستہ رہتے ہیں، حرفِ ممنوعہ قرار دے دیا! بیروت (لبنان) سے بوسٹن (امریکا) تک اسرائیل کو بمباری روکنے کو چیخ وپکار جاری رہی۔ حتیٰ کہ ہالی وڈ کے اوپر آسمان پر لکھ رکھا تھا۔ 'امریکی ٹیکسوں کے ڈالروں نے غزہ میں بچے مار ڈالے۔ یہودی امریکی سیکریٹری سٹیٹ بلنکن کے گھر کے باہر بھی امریکی، اس کی گاڑی کے پیچھے ہنگامہ کھڑا کرتے لال رنگ (لہو کا استعارہ) کا چھڑکاؤ اور نعرے لگاتے دیکھے گئے۔ جنگی مجرم، جنگی مجرم، غزہ میں بمباری بند کرو، بلنکن تم چھپ نہیں سکتے، تم قتلِ عام کے مجرم ہو۔ یہی منظر برطانیہ میں، برسٹل کا میئر جو پیدل چلتا نعرہ زن ہجوم میں گھر گیا۔ شرمناک، شرم ہو تم پر! تم قتلِ عام کے پشت پناہ ہو! برطانوی وزیراعظم پر مانچسٹر میں مطالبہ برس رہا ہے۔ 'استعفیٰ دو۔ چلے جاؤ۔ یہ سب مسلسل ہر جا، جاری وساری ہے۔ امریکا میں جابجا یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ ہمارے ٹیکس عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کرنے کی بجائے غزہ کی تباہی وبربادی، بچوں کے قتل پر جھونکے جا رہے ہیں۔ دنیا دو حصوں میں بٹی دیکھی جا سکتی ہے۔ عوام کی اکثریت غزہ کے غم میں گھلتی احتجاج کناں۔ حکمران، اسرائیل نواز ہیں۔
نسل کوئی بھی ہو نیتیں ایک سی، رنگ کچھ بھی سہی خصلتیں ایک سی زرد وسرخ وسفید وسیہ حکمراں، سرمئی گندمی تاجور بھیڑیےبے بسوں اور نہتوں پہ یلغار کو، غول در غول ہیں آخری وار کوباخبر، معتبر، دیدہ ور جانور، صاحبِ درد، صاحب نظر بھیڑیے امریکن نرس ایملی کیلہان غزہ میں تھی۔ 'ایکس پر وہ 70 لاکھ مرتبہ دیکھی گئی۔ یہ 'ڈاکٹر بلاحدود تنظیم کا حصہ تھی۔ (فلاحی تنظیم جو جنگوں میں طبی امداد دیتی ہے۔) غزہ میں انڈونیشیا ہسپتال سے 26 دن کی جنگ کے بعد نکالی گئی۔ سی این این سے انٹرویو میں اس سے پوچھا گیا: کیا تم غزہ واپس جاؤ گی؟ کہنے لگی: میرا دل اب بھی وہیں اٹکا ہوا ہے جن کے ساتھ میں کام کرتی تھی۔ میں اپنی زندگی میں اس سے زیادہ حیرت انگیز ناقابلِ یقین افراد سے نہیں ملی۔ جب سب کچھ ختم ہوگیا۔ ہم ایک ساتھی نرس بھی ایمبولینس پر حملے میں کھو چکے تھے۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے جنوب کی طرف جانے کا حکم ملا۔ میں نے اپنے ساتھیوں (فلسطینی ڈاکٹر، نرس) سے پوچھا، کیا تم میں سے کوئی جنوب جا رہا ہے؟ سب کا ایک ہی جواب تھا: یہ ہمارے لوگ، ہمارا خاندان، ہمارے احباب ہیں۔ اگر وہ (اسرائیلی) ہمیں قتل کرنا چاہتے ہیں تو ہم مر جائیں گےمگر ہمیں آخر تک اپنے لوگوں کو بچانا ہے۔ (ہسپتالوں میں 6 دسمبر تک 278 طبی عملے کے افراد شہید ہوئے جن میں 104 ڈاکٹر، 87 نرس اور 87 دیگر طبی عملے کے کارکن قتل کیے اسرائیلی فوج نے۔ نیز 41 افراد کو اغوا کیا گیا 60 دنوں میں۔) وہ ناقابلِ یقین لوگ تھے۔ وہ اپنے لوگوں کی مدد اور خدمت کی خاطر نہیں نکلے۔ جو ٹھہر گئے، وہ ہیرو ہیں۔ انہیں پتا ہے وہ مارے جائیں گے پھر بھی ٹھہرنا چاہتے تھے۔ یہ ہیرو ازم ہی اصل خطرہ ہے! (اسرائیل کے لیے۔) بے خوف لوگ! موت سے ڈرتے نہیں ذرا۔ یہ نرس، اس تنظیم کا حصہ تھی جو دنیا بھر میں رنگ نسل قومیت سرحدوں سے ماوراء انسانی جذبے کے تحت کام کرتے ہیں۔ مگر صرف انسانی جذبہ بہت دور تک نہیں جا سکتا۔ جیسے بہادر نرس نے کہا کہ اگر میرے پاس ایک اونس بھی ویسا دل ہوتا جیسا تمہارا ہے تو میں خوشی خوشی تم لوگوں کے ساتھ مر جاتی۔ ساری کہانی اس ایک اونس دل ہی کی تو ہے۔ یہ عقیدے اور کلمے کا وزن ہے جو دل کو پہاڑوں سے قوی تر، گراں تر بنا دیتا ہے۔ اس دل نے جو قرآن کی امانت کلمہ پڑھ کر اٹھا رکھی ہے، اس کے آگے تو پہاڑ بھی دبا جاتا پھٹا ٹرتا ہے۔ اہلِ غزہ کو غیرمتزلزل بنانے والا کلمۂ توحید اور قرآن ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: کلمہ اتنا طاقتور ہے کہ اگر ایک پلڑے میں سات آسمان اور سات زمین رکھ دیے جائیں اور دوسرے پلڑے میں کلمہ لاالٰہ...... رکھ دیا جائے تو کلمے والا پلڑا جھک جائے گا۔ (مسند احمد، ترمذی) سات آسمان وزمین کے مادی وزن کا اندازہ لگانے کو یہ دیکھیے کہ نیوٹران ستارہ کائنات کا سب سے چھوٹا ستارہ ہے مگر مادی اعتبار سے نہایت کثیف ہے۔ اس ستارے کا چمچہ بھر مواد ایک ارب ٹن سے زیادہ وزنی ہے۔ اور یہ ستارہ فی نفسہٖ فولاد سے 10 ارب گناہ زیادہ سخت سطح کا مالک ہے، مگر یہ نرا مادہ ہے۔ ہم معرکۂ ایمان ومادیت سے گزر رہے ہیں۔
دنیا کو ہے پھر معرکہ ٔروح وبدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردئ مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا!ایک طرف تہذیب کے عنوان سے درندوں کی تاریخ کی بدترین قسم معرکہ زن ہے۔ دوسری طرف کلمہ، ایمان ہے۔ روحانیت، کلمے کا وزن اس کی قوت غزہ کے میدان میں، حماس کی جنگ میں ثابت ہوگئی۔ اگرچہ دنیا میں ڈاکٹر بلاحدود اور صحافی بلاحدود تنظیم ہے مگر حقیقتاً صرف ایمان، اسلام، دعائیں ہی بلاحدود ہوا کرتی ہیں۔ یہ مادی حد بندی سے ماوراء، عظیم ترین روحانی جذبے ہیں جو آج کی دجالی دنیا کے لیے چیلنج ہیں۔ صحابہؓ اور اہلِ ایمان کی قبریں ہر خطے میں بلاحدود پائی جانی اس کا ثبوت ہیں۔ قبل ازیں ابلیسی جنگی مشین افغانستان کے پہاڑوں سے ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہوئی۔ روس کی بے پناہ فولادی قوت کسی کام نہ آئی، قبائلی بندوقوں سے اس کا آہنی پردہ Iron Curtain پھٹا، دیوارِ برلن گری۔ وہ کلمے کی قوت سے زیر ہوا۔ پھر امریکا اپنے زعم میں روئے زمین کا سارا بارود، لوہا، سائنسی شعبدے، سیاہ چٹان پر سیاہ چیونٹی کا نشانہ لینے کی مہارت لیے آن اترا۔ بیس سال بعد تابوت اٹھائے، معذور ، پاگل مخبوط الحواس فوجی لیے ہر ملک بھاگ نکلا۔ یہ تھا مادیت کا زعم جو چکنا چور ہوا اور پورے افغانستان کی سرکاری عمارات، فوجی اڈوں، قلعوں، غنیمت میں ملی بھاری فوجی گاڑیوں پر یہی کلمہ لہرا رہا تھا جس کا وزن سات آسمان سات زمین سے زیادہ ہے! حدیث ثابت ہوگئی! وہی کلمہ ہے جو اس ایک اونس دل میں بھی گڑا ہے۔ اس کلمے نے پوری دنیا کی سرحدیں ختم کر ڈالیں۔ شرق تا غرب تمام انسان رنگ نسل زبان کی حدود سے ماوراء 'دریا سے سمندر تک فلسطین کے لیے آنسوؤں کے دریا بہا رہے ہیں۔ اپنے قیمتی شب وروز ان کے غم میں ایک کیے دے رہے ہیں جن کے سینوں پر ان کے ننھے بچوں کا خون بہہ کر جذب ہوا۔ جس رب تعالیٰ کے نام پر یہ قربانی پیش ہوئی، پاکیزہ خون نے اس دل کو صبر وثبات، توکل، علم ودانائی کا مخزن ومہبط بنا دیا۔ مومنانہ فراست، فقر وفاقہ میں اگتی ہے۔ میکڈونلڈ کے برگر، پیپسی، پیزے رگیں اور دل سخت اور بصیرت اندھی کر دیا کرتے ہیں۔ آکسفورڈ سے ملالائیں اور غزہ میں صالح الحروری جیسے شیروں کی مائیں پیدا ہوتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت بمقابل شجاعت، ایمان، غیرت وعزت، ضمیر مجسم جننے والیاں! جس سرزمین پر شہداء کے خون کی بارش برسی ہے، اس کا ایک انچ یہ قوم بیچنے کو تیار نہیں۔ ادھر سیکورٹی کونسل میں پوری دنیا کے حکمران، فوجیں، قوانین، کنونشنز باربار ظلم اور خونین درندگی کے آگے ہتھیار ڈالنے کی (ویٹو) شرمناک رسمی کارروائی سے گزرکر، مگرمچھ کے آنسو بہاکر اپنے عوام کو راضی رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔
لاشوں کا مثلہ تو جنگِ احد میں بھی ہوا تھا مگر اہلِ مکہ نے اعضاء کاٹ کر ان کی تجارت اور اس سے پیسہ بنانا نہ سیکھا تھا۔ اس کے لیے یہودی، مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی 'جمہوریت اور 'مہذب ترین ریاست ہونے کے دعوے دار اسرائیل کی ضرورت تھی۔ اس نے کھال اجسادِ خاکی سے اتارکر حسن وجمال کی بحالی کی پلاسٹک سرجری کے لیے منجمد کرکے عالمی تجارت میں دام بنائے۔ ننھے بچوں کا خون عالمی منڈیوں میں بیچا۔ خون آشام درندوں (سوٹڈ بوٹڈ مال دار منصب دار) کی بڑھتی عمر کی رفتار روک کر انہیں سدا بہار رکھنے کے لیے۔ پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم ِمساوات! ملبوں تلے دب کر اور گولیاں کھاکر بہتاخون بھی غزہ کو سیراب کرتا ہے۔ یہ وہ ہے جو پوری قوم کی رگوں میں اترکر ہر فرد کو اٹھا کھڑا کرتا ہے۔ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔ اس سے وہ دل توانائی پاتے ہیں جس کے ایک اونس کی تمنا میں امریکی نرس سسکتی ہے۔ اس سے اقصیٰ کے وہ غازی پیدا ہوتے ہیں جو تشدد سہتے، قید وبند کے خطرے انگیز کرتے فوجیوں کے بیچ سے گزرکر اس سرزمین کو اپنے سجدوں سے آباد کرتے ہیں۔ گولیاں بھی تعاقب میں رہتی ہیں اور ڈنڈے بھی برستے ہیں۔ مگر یہ دل ہیں کہ فولادی عزم پیوست ہے ان میں۔ یہ اللہ کے ہاتھ جنت کے عوض اپنی جانیں اور اموال فروخت کرنے والے سوداگروں ہی کے حوصلے ہیں۔ یہ اپنی پوری زندگی کی جمع پونجی کا بنا ایک گھر ملبہ کروا کے باریک پلاسٹک کے خیمے میں خاندان، بچے لیے جا بیٹھے ہیں۔ وہ جو دو ماہ سے نہایا نہیں تھا۔ سردی میں سمندر میں کھڑا اپنا آپ صاف کر رہا ہے۔ خیموں میں غسل کی سہولت نہیں ہے! گھر کے ملبہ ہو جانے عزیز واقارب لٹ جانے کی مرثیہ خوانی نہیں کی۔ سمندر پار بستے مسلمانوں، جیتے جاگتے انسانوں بارے پوچھ رہا ہے بس!
کہ بے نور است وبے سوز است ایں عصر!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024