قرآن مجید نے آج سے ساڑے چودہ سو سال پہلے جو پیشین گوئی کی تھی وہ یہود
و ہنود کے گٹھ جوڑ کی شکل میں اب کھل کر سامنے آچکی ہے : خورشید انجم
شیخ صالح العروری کی لبنان میں شہادت سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ جنگ فلسطین
سے نکل کر اب آس پاس کےممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے : رضاء الحق
غزہ پر ظلم اور اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال:اسرائیل نے ڈرون حملے کے ذریعے حماس کے نائب سربراہ کو شہید کر دیا ہے اور یہ بڑا افسوس ناک واقعہ کہ حماس کے اتنے ٹاپ لیول کے سربراہ کی شہادت ہوئی ہے ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس شہادت کی وجہ سے حماس اور اسرائیل کے درمیان یہ جنگ مزید پھیلے گی؟
رضاء الحق: غزہ پراسرائیلی جارحیت اور درندگی تین ماہ سے جاری ہے جس کی وجہ سے اب تک 25ہزار سے زائد شہادتیں ہو چکی ہیں ۔ انٹر نیشنل میڈیا رپورٹس کے مطابق ان میں ساڑھے نو ہزار بچے اور ساڑھے چھ ہزار خواتین بھی شامل ہیں ۔ملبے کے نیچے ہزاروں افراد دبے ہوئے ہیں ۔60 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔ یہ وہ رپورٹس ہیں جو آزاد ذرائع سے آرہی ہیں جبکہ باقاعدہ رپورٹنگ کی وہاں صحافیوں کو اجازت نہیں ہے بلکہ اسرائیل صحافیوں کو بھی قتل کر رہا ہے ، بین الاقوامی قوانین کی وہاں کھل کر خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔ مغربی کنارہ میں بھی اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں کیس بھی دائر کیا ہے ۔ حماس کے سیاسی ونگ کے نائب صدر شیخ صالح العروری کو لبنان میں ان کے دفترپر ڈرون حملہ کرکے شہید کیا گیا۔ اس سے قبل بھی حماس کی اعلیٰ قیادت شیخ احمد یاسین کو اسرائیل ٹارگٹ کرکے شہید کر چکا ہے ۔ شیخ صالح العروری کی لبنان میں شہادت سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جنگ فلسطین سے نکل کر اب آس پاس کے علاقوں میں بھی پھیل رہی ہے اور سب سے پہلے لبنان اس کی لپیٹ میں آتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔ جنگ کے پھیلنے سے یقیناً آس پاس کے مسلمان ممالک بھی متاثر ہوں گے ۔ اس کے نتیجہ میں ان ممالک کو بھی اپنی پالیسی بدلنی پڑے گی اور دنیا بھر میں جو سٹیک ہولڈر ہیں ان کو بھی غور کرنا پڑے گا ۔
سوال: لبنان میں اس ٹارگٹ killing پر حزب اللہ نے بڑا شدید ردعمل دیا ہے اور کہا ہے کہ ہم اس کا بدلہ لیں گے ۔ کیا حزب اللہ اور ایران اس جنگ میں involve ہوتےہوئے نظر آتے ہیں ؟
خورشید انجم: حزب اللہ بنیادی طور پر ایران کے ہی زیر اثر ہے ۔ اب چونکہ یہ جنگ غزہ تک محدود نہیں رہی اور لبنان بھی اس کی لپیٹ میں آرہا ہے اور لبنان میں حزب اللہ ایک عسکری قوت ہے جو کہ بظاہرحماس کی حمایت کر رہی ہے اور اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائیاں بھی کر رہی ہے ۔ اب تک 60 راکٹ انہوں نے اسرائیل پر فائر کیے ہیں اور ان کے بھی تین لیڈرز اس جنگ میں شہید ہو چکے ہیں ۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ حزب اللہ بھی اس جنگ میں داخل ہو چکی ہے۔ ایران یہ چاہتا ہے کہ وہ براہ راست اس جنگ میں ملوث نہ ہو ۔ لیکن جیسا کہ اسرائیل شام پر بھی بمباری کر رہا ہے اور لبنان میں جنگ چھیڑ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ایران کو اس جنگ میں ملوث کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ایران کب تک صبر کرے گا یہ کہنا مشکل ہے۔ دوسری طرف یہ کوشش بھی کی جارہی ہے کہ ایران اور سعودی عرب کو دوبارہ ایک دوسرے کے خلاف کیا جائے ۔ یعنی divide and rule کی policy کے تحت اسرائیل آگے بڑھنا چاہتا ہے ۔ امریکی نائب وزیر خارجہ بھی بار بارے خطے کا دورہ کر رہے ہیں۔ 1990ء میں عراق کو کویت کے خلاف بھی ایسی ہی دوغلی سفارت کاری کے ذریعے اکسایا گیا تھا پھر جب عراق نے کویت پر حملہ کیا تو عراق پر 42 ممالک چڑھ دوڑے ۔ اب بھی کچھ ایسے ہی حالات پیدا کیے جارہے ہیں کیونکہ جنگ بعض طاقتوں کے مفاد میں ہے ، ان کی اسلحہ ساز فیکٹریاں ہیں ، پھر روس اور چائنا جس طرح طاقت ور ہوتے جارہے ہیں ان کو الجھانے کے لیے فضا بنائی جارہی ہے کیونکہ جب ایران اس جنگ میں ملوث ہوگا تو اس کے ساتھ چائنا اور روس بھی ہوں گے ۔ اگر ایسا ہوا تو پھر یورپ بھی پیچھے نہیں رہے گا اور ایک عالمی جنگ شروع ہو جائے گی ۔
سوال: غزہ پر جنگ مسلط کیے تین ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے ، 25 ہزار سے زائد مسلمان شہید ہو چکے ہیں، 60 ہزار سے زائد زخمی ہیں لیکن نیتن یاہو کا جنگی جنون ختم نہیں ہو رہا ۔وہ کہہ رہا ہے کہ ہم حماس کے خاتمے تک جنگ جاری رکھیں گے۔ اب تو موساد کے سربراہ نے کہا ہے کہ حماس کے رہنما جس مسلم ملک میں بھی ہوئے ہم وہاں بھی ان کو ٹارگٹ کریں گے ۔ دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ ان تین ماہ میں چوتھی مرتبہ مڈل ایسٹ کا دورہ کر چکے ہیں ، بظاہر تو ان کا موقف یہ ہے کہ جنگ خطے سے باہر نہ جائے۔کیا واقعی امریکہ یہ چاہتا ہے کہ جنگ پھیلے نہ بلکہ ختم ہو جائے ؟
رضاء الحق: دیکھیےاسرائیل کی پالیسی اس کے قیام سے بھی بہت پہلے واضح تھی ۔پہلی جنگ عظیم سے لے کر اسرائیل کے قیام تک آپ دیکھ لیں کہ کس طرح انہوں نے دہشت گردی کے ذریعے فلسطین پر قبضہ کیا اور آس پاس کے مسلم ممالک کو غیر مستحکم کیا ، ٹارگٹ killing بھی جاری رکھی ۔ 1972ء میں olympicsمیں جو اسرائیلی کھلاڑی جرمنی گئے ہوئے تھے ان کو چند فلسطینیوںنے ہلاک کر دیا تھا ۔ اس کو بہانہ بنا کر اسرائیل نے اپنا ایک ڈیٹھ سکواڈ بنایا جس کا کام ہی یہ تھا کہ پوری دنیا میں فلسطینی کاز کے لیے کام کرنے والے مسلمانوں رہنماؤں کو چن چن کر قتل کیا جائے۔ اس بات کا ذکر خود موساد کے چیف ڈیوڈ بارنیا نے کیا ہے ۔ اسی طرح اسرائیل نے ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی۔ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کی برسی کےموقع پربم دھماکہ کر کے سو سے زیادہ افراد کو لقمہ ٔ اجل بنایا گیا۔ اگرچہ اس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی لیکن سب جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے سی آئی اے اور موساد ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ داعش نے آج تک اسرائیل کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا ۔ پیرس میں فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے والے فسلطینی صحافیوں اور سیاستدانوں کو موساد نے ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے شہید کیا ۔ یہ سب اسرائیل کی دہشت گردی کے واضح ثبوت ہیں مگر اسرائیل کو کٹہرے میں کون لائے گا ۔غزہ جنگ کے بعد امریکی وزیر خارجہ چوتھی مرتبہ دورے پر آیا ہے ،اپنے پہلے دور ے میں اس نے کہا تھا کہ میں ایک یہودی کی حیثیت سے آیا ہوں ۔ لیکن اب وہ امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے آئے ہیں کیونکہ امریکہ کو اندازہ ہو گیا ہے کہ اگر جنگ پھیلی تو یورپ بھی متاثر ہوگا اور تجارتی راستے بھی بند ہو ں گے ۔ اسی لیے یورپی یونین کے سیاسی شعبے کے سربراہ جوزف بورل نے بھی دورہ کیا ہے ۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ انٹونی بلنکن کو چاہیے کہ وہ جس سے بھی ملے ، سب سے پہلے اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی بند کروانے کی بات کرے اور اس کے بعد دوسری چیزوں کی طرف آئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اسرائیل اپنے طرز عمل سےباز نہ آیا تو اس خطے میں اس کا براہ راست تصادم ایران کے ساتھ ہوگا کیونکہ متحدہ عرب امارات تو حماس کی کھل کر مخالفت کر رہا ہے ، سعودی عرب ابھی تصادم کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ جب ایران کے ساتھ اسرائیل کا تصادم ہوگا تو چین اور روس بھی ملوث ہوں گے۔ تب یورپ بھی خطرے میں ہوگا اور امریکی مفادات کو بھی نقصان پہنچے گا ۔ اس لیے شاید انٹونی بلنکن کو شاید سمجھانے بجھانے کے لیے بھیجا گیا ہے کہ اس جنگ کو محدود کریں ۔ لیکن یہ محدود نہیں ہوگی جب تک کہ جنگ بندی نہیں ہوتی۔
سوال: امریکی وزیر خارجہ کےدور ےکے دو مقاصد واضح طور پر بتائے گئے ہیں۔(1)جنگ مزید علاقوں میں نہ پھیلے ۔ (2)جنگ کے بعد غزہ بغیر حماس کے کیسا ہوگا، اس پر پلاننگ ۔اس پلاننگ کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟
رضاء الحق:مصر کےصدر سیسی نے بھی اس حوالے سے کہا ہے کہ غزہ کی جنگ کا حل نکل سکتا ہے اگرغزہ ڈی ملٹرائز ہو جائے۔ اس حوالے سے جنرل سیسی نے محمود عباس کو مصر بلا کر ان سے ملاقا ت بھی کی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ غزہ میں بھی فلسطینی اتھارٹی کی طرح بے جان قسم کی اتھارٹی قائم کرنے کا منصوبہ تیار کیا جارہا ہے۔ اسرائیل کا اصرار ہے کہ غزہ سے مسلمانوں کو نکال کر کہیں دوسرے ملک میں آباد کیا جائے ۔ اب یہ عرب ممالک پر منحصر ہے کہ وہ کیا موقف اختیار کرتے ہیں ۔
سوال: انٹرنیشنل میڈیا کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق اس جنگ میں بھارتی فوج اور اس کے افسران باقاعدہ طور پر ملوث ہیں۔مسلمانوں کے خلاف یہود ونصاریٰ کا اتحاد تو چل ہی رہا اب ہنود بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں ۔آپ کی نظر میں یہ اتحاد ثلاثہ کیا رنگ لائے گا ؟
خورشید انجم: بنیادی بات تو یہ ہے کہ پورا عالم کفر مسلمانوں کے خلاف الکفر ملۃ واحدہ کے مصداق ایک ہو چکا ہے ۔ چاہے آپس میں ان کے اختلافات بھی ہوں لیکن مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے یہ ایک ہیں ۔ پھر اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ یہود و ہنود کا اتحاد فطری بھی ہے۔ بن گوریان نے واضح کہا تھا کہ ہمارا سب سے بڑا دشمن پاکستان ہے ۔ اسی طرح ہندوؤں میں پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف جو نفرت ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔ اندرا گاندھی نےباقاعدہ ایک مشن سپین بھیجا تھا تاکہ تحقیق کرے کہ کس طرح سے وہاں سے مسلمانوں کا صفایا کیا گیا تھا ۔ آج بھارت میں مسلمانوں کو اسی طرح ختم کیا جارہا ہے ۔ اٹل بہاری واجپائی کے دور حکومت میں اسرائیلی وزیراعظم موشے دایان نے بھارت کا دورہ کیا ۔ اگرچہ یہ دورہ خفیہ تھا لیکن ایک شخص نے ان کو پہچان لیا اور ان سے آٹو گراف لیا تو اس طرح بات کھل گئی ۔موجودہ مودی حکومت تو کھل کر اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہے ۔ ان کی سیاسی پارٹی BJP، آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے جس کی بنیاد گولوالکر نے 1925ء میں رکھی تھی ۔ وہ ہٹلر سے بہت متاثر تھا ۔ ہٹلر جس طرح یہودیوں کی نسل کشی کر رہا تھا اسی طرح گولوالکر مسلمانوں کی نسل کشی چاہتا تھا۔ اسی ایجنڈے کو مودی لے کر چل رہا ہے ۔ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ وہاں ہندوؤں کو بھی بسایا جارہا ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف یہود و ہنود کا ایجنڈا ایک ہی ہے ۔ ضیاءالحق کے دور میںہمارے ایٹمی پلانٹ کے خلاف بھارت سے ایک کوشش کی گئی تو اس میں اسرائیل کے لوگ بھی شامل تھے ۔ آر ایس ایس کی بنیاد مہاراشٹر میں پڑی تھی اور اسی علاقے سے مرہٹوں نے اٹھ کر اورنگ زیب کے خلاف بغاوت کی تھی اور پھر شاہ احمد ابدالی کے ساتھ ان کی جنگ ہوئی ۔ وہی مسلم دشمنی اور وہی شدت آج آر ایس ایس کے سیاسی ونگ BJPمیں موجود ہے ۔
سوال: یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ کافی تعداد میں انڈین شہری اسرائیل کا رُخ کر رہے ہیں اور اسرائیلی کمپنیاں ان کو ہاتھوں ہاتھ لے رہی ہیں ۔ دوسری طرف بڑی تعداد میں بھارتی این جی اوز فلسطین کے جنگ زدہ علاقوں ری ہیبلی ٹیشن کے نام پر موجود ہیں ۔ آپ یہ بتائیے کہ یہود و ہنودکایہ حالیہ معاشی گٹھ جوڑ کیا رنگ لانے والا ہے؟
رضاء الحق: دیکھیں قرآن پاک میں اس کے حوالے سے ہمارے پاس قطعی دلیل موجود ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
{لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّـلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْاج} (المائدہ:82) ’’تم لازماًپائو گے اہلِ ایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں۔‘‘
یہود و ہنود کا یہ وہ گٹھ جوڑ ہے جو کہ آج ہم اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ اگر آپ ان احادیث کا بھی مطالعہ کریں جو آخری زمانے کے متعلق ہیں تو مستقبل کا نقشہ مزید واضح ہو جاتاہے ۔ حدیث میں ہے کہ جب عیسیٰ d تشریف لائیں گے اور یوروشلم میں دجال کے خلاف آخری معرکہ لڑا جا رہا ہو گا تو ہمارے خطے سے لشکر جائے گا اور عیسیٰd کے ساتھ مل کر دجال کے خلاف لڑے گا ۔ ایک دوسری روایت میں غزوہ ہند کا بھی ذکر ہے ۔ ظاہر ہے یہ ہندوؤں کے خلاف ہوگا ۔ آج دیکھئے اسرائیل فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے اور بھارت کشمیر میں اسی طرح کی نسل کشی کر رہا ہے ۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے جب انڈیا میں جی 20 کانفرنس ہوئی تھی تو وہاں امریکی صدر بھی موجود تھے اور مودی کے ساتھ مل کر انہوں نے سی پیک کے مقابلے میں انڈیا مڈل ایسٹ اکانومک کوریڈور کی بنیاد رکھی ۔ اس کےکچھ عرصے کے بعداقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے کھڑے ہوکر تقریر کی اور ایک نقشہ دکھایا جس میں فلسطین کہیں موجود نہیں تھا لیکن انڈیا مڈل ایسٹ اکانومک کوریڈور موجود تھا جو انڈیا سے شروع ہو کر مڈل ایسٹ سے ہوتا ہوا اسرائیل کی بندرگاہ تک جاتاہے اور وہاں سے پھر یونان اور باقی یورپی ممالک میں داخل ہوتاہے ۔اسرائیلی ذرائع کے مطابق حالیہ جنگ کی وجہ سے ایک لاکھ کے قریب اسرائیلی اسرائیل سے نکل کر دوسرے ممالک میں جا چکے ہیں ۔ اب اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اسرائیلی کمپنیوں میں انڈین کو بھرتی کیا جارہا ہے ۔ ان کو free ویزے بھی دیے جا رہے ہیں ۔ دوسری طرف انڈیا کی بعض یونیورسٹیز اور کالجز میں جن طلبہ نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کیا تھا ان کو گرفتار کیا گیا اور ان تعلیمی اداروں سے ان کا اخراج بھی کر دیا گیا ۔ انڈیا کا میڈیا بھی اسرائیل کا بھرپور ساتھ دے رہا ہے ۔ ایک مشہور انڈین اینکر پالکی شرما باقاعدہ اسرائیل جاکر لائیو کوریج کرتی رہی ہیں کہ یہ دیکھو حماس کے دہشت گرد حملے کررہے ہیں اور اسرائیل کی فوج غزہ میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ انڈیا کی یہ سرکاری پالیسی ہے کہ انڈیا مڈل ایسٹ اکانومک کوریڈور کو سی پیک کے مقابلے میں لایا جائے لیکن موجودہ حالات میں یہ کامیاب ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا ۔
سوال:اگر خدانخواستہ یہ جنگ پھیلتی ہے تو ممکن ہے عرب ممالک کے بعد پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے۔ اس ممکنہ خطرے سے نمٹنے کےلیےآپ حکومت پاکستان کو کیا اقدامات تجویز کریں گے؟
خورشید انجم: بنی اسرائیل نے انبیاء ؑ کو شہید کیا ، ان کو سزا ملی بخت نصر نے پہلے یروشلم پر حملہ کیا اور ان کا قتل عام کیا ۔پھر حضرت عیسیٰd کا انہوں نے انکار بھی کیا اور اپنے بس پڑتے ان کو بھی سولی پر چڑھا دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے : {وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَـبُوْہُ وَلٰــکِنْ شُبِّہَ لَـہُمْ ط} (النساء:157) ’’حالانکہ نہ تو انہوں نے اُسے قتل کیا اور نہ ہی اُسے سولی دی‘ بلکہ اس کی شبیہہ بنا دی گئی ان کے لیے۔‘‘
اس کے بعد رومی جنرل ٹائٹس نے ان پر حملہ کیا اور سیکنڈ ٹمپل بھی تباہ کر دیا اور اس کے بعد ان کا Diaspora کا دور شروع ہوا ۔ پھر انہوں نے اللہ کے آخری نبیﷺ کا بھی انکار کیا اور ان سے خیر امت کا اعزاز اللہ نے چھین لیا لیکن ان کو مکمل تباہ نہیں کیا ، جیسا کہ ان سے پہلی نافرمان قوموں کو نیست و نابود کیا گیا تھا ۔ وہ تباہی ابھی ان کی آنی ہے ۔ اس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے : {فَاِذَا جَآئَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ جِئْنَا بِکُمْ لَفِیْفًا(104)} (بنی اسرائیل)’’پھر جب آئے گا پچھلے وعدے کا وقت تو ہم لے آئیں گے تم سب کو سمیٹ کر۔‘‘
اب وہ وقت آرہا ہے ۔ پوری دنیا سے یہودی اسرائیل میں اکٹھے ہورہے ہیں ۔ احادیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰd دجال کو مقام لد پر قتل کریں گے ۔ اس جگہ اب اسرائیل کا ایئر ہیڈ کوارٹر ہے ۔ بانی تنظیم اسلامی محتر م ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرماتے تھے کہ اسرائیل یہود کا great graveyard بنے گا۔ جو جنگ شروع ہو چکی ہے اگر عرب ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آتے ہیں تو ظاہر ہے کہ پھر یہ کوئی چھوٹی موٹی جنگ نہیںہوگی ۔ اس جنگ کو بائبل میں آرمیگاڈان کہا گیا ہے جبکہ احادیث میں اس کا ذکر الملحمۃ الکبریٰ اور الملحمۃ العظمیٰ کے نام سے آیا ہے ۔
سوال: لیکن ابھی تمام یہودی اسرائیل میں اکٹھے نہیں ہوئے اور جو ہیں ان میں سے بھی ایک لاکھ سے زائد حالیہ صورت حال میں اسرائیل چھوڑ چکے ہیں ۔اس لحاظ سے وعدے کے وقت میں التواء نہیں محسوس ہورہا ؟
خورشید انجم:یہود کا گریٹر اسرائیل کامنصوبہ تو ہے۔ وہ اس پر کام کریں رہے ہیں ۔ جب گریٹر اسرائیل کا منصوبہ پایہ تکمیل کے قریب پہنچے گا تو پورا عالم کفر ان کی پشت پر ہوگا ۔ ابھی تو پھر بھی ان کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی ہیں ۔ جیسے ساؤتھ افریقہ نے عالمی عدالت میں کیس دائر کر دیا ہے ۔ لاطینی امریکہ کے تین ممالک نے اپنے سفرا کو واپس بلا لیا ہے۔انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہی سہی لیکن انہوں نے مسلم حکمرانوں سے زیادہ غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ہمارے حکمران مسلمان ہو کر بزدل اور بے حمیت ہو چکے ہیں ۔ البتہ جب بڑی جنگ کا وقت قریب آئے گا تو پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آئے گی اور کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ممالک کی یہ کوشش ہے کہ جنگ نہ پھیلے۔ جب دجال آئے گا تو اس کے خلاف جنگ میں ہمارے خطے سے بھی لشکر جائیں گے اور یروشلم میں جاکر اپنے جھنڈے گاڑیں گے لیکن یہ اس وقت ہوگا جب یہاں اسلام نافذ ہو ۔ اس کے لیے ہمیں قومی اور حکومتی سطح پر وہن کی بیماری کو دور کرنا ہوگا اور جذبہ ایمانی کو اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا ۔ کسی کے گڑھے کی مچھلی بننے کی بجائے ہمیں خود مختاری اور خود انحصاری کی طرف آنا ہوگا ۔ یہ نہیں کہ پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے غلام تھے تو اب امریکہ یا چائنا اور روس کے کٹھ پتلی بن جائیں بلکہ اپنی آزادی اور خودمختاری کو یقینی بناتے ہوئے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہوگا ۔ خاص طور پر مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنی قوم کو بیدار کرنا ہوگا ۔ اپنی تحریر و تقریر ، خطبات جمعہ میں مسجد اقصیٰ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوگا ۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تین مساجد ایسی ہیں کہ انسان قصد کرکے وہاں جائے تو اس کو کئی گنا ثواب ملے گا ، ان میں مسجد حرام ، مسجد نبویﷺ اور مسجد اقصیٰ شامل ہیں ۔ لہٰذا مسجد اقصیٰ کی جنگ صرف فلسطین کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اس کے دفاع کے لیے جو ہو سکے وہ کریں ۔ کم ازکم مظاہرے ، سیمینار اور مختلف پروگرامز کے ذریعے اس مسئلے کو زندہ رکھیں۔معاشی طور پر یہودی کمپنیوں کا بائیکاٹ تو ہم سب کر سکتے ہیں ۔ حماس اپنی جگہ پرعزم ہے ہمیں بھی پرعزم ہونا چاہیے ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024