(تنظیم و تحریک) فرد کی شخصیت کے دو رُخ یعنی فکر و عمل - ڈاکٹر اسرار احمد

8 /

فرد کی شخصیت کے دو رُخ یعنی فکر و عمل


ڈاکٹر اسرار احمدؒ

(بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے 1988 ءکے ایک خطاب ’’اسلامی نظام کی نظریاتی اساس :ایمان‘‘کی تلخیص ندائے خلافت میں پانچ اقساط میں شائع کی گئی تھی۔ جس میں سے انتخاب کر کے ’’فرد کی شخصیت کے دو رُخ یعنی فکر و عمل‘‘ کےعنوان سے مضمون شائع کیا جا رہا ہے۔اس سال مملکت ِ خداد پاکستان میں انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ میڈیا پر جمہوریت کے علمبردار زور و شور سے تبصرے کر رہے کہ ملک کے حالات اسی ایک راستے سے سنور سکتےہیں ۔سیاسی جماعتیں اور امید وار بھی عوام کو جمہوریت کے ثمرات گنو ا رہے ہیں۔ لیکن بانی تنظیم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے بارہا اپنےبیانات و تقاریر میں تفصیل کے ساتھ بذریعہ دلائل واضح کیا ہے کہ انتخابات کے ذریعے اس ملک میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ۔ حقیقی تبدیلی کے لیے لوگوں کے فکر و عمل کو تبدیل کرنا ہو گا۔یہاں ڈاکٹر صاحب کے پیش کردہ حل کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔ )
انتخاب:سجاد سرور معاون ، شعبہ تعلیم و تربیت تنظیم اسلامی
فرد کی شخصیت کے دو رُخ ہیں‘ یعنی اس کا فکر اورعمل ۔ ایک متوازن شخصیت میں یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں‘ ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ فکر صحیح ہوتو عمل صحیح ہو گا اور فکر میں کجی ہو تو اس کا لازمی نتیجہ عمل میں کجی کی صورت میں نکلے گا۔فکر محدود ہوتو عمل بھی محدود ہو گا‘ اور فکر میں وسعت کی صورت میں انسان کے اخلاق‘معاملات ‘ رویّے اور عمل میں بھی وسعت موجود ہوگی۔ فکر و عمل کی عدم مطابقت ایک صحت مند شخصیت میں نہیں ہوسکتی‘ البتہ مریض شخصیات کا معاملہ جدا ہے۔ اُن کے ہاں ہوسکتا ہے کہ فکر اور عمل کے دھارے مخالف سمت چلتے ہوں۔البتہ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مَیں لفظ ’’فکر‘‘ استعمال کر رہا ہوں ’’قول‘‘ نہیں۔ ایک نارمل انسان میں فکر و عمل کا تضاد نہیں ہوتا۔ قول و فعل کا تضاد اور شے ہے‘اور ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے قول اورعمل میں تضاد پایا جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کو سخت غُصّہ دلانے والی شے ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں فرمایاگیا:
{یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(2) کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(3)}(الصف) ’’اے ایمان والو! کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ اللہ کے ہاں یہ بات سخت بیزاری کی ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں۔‘‘
قول و عمل کا تضاد اس لیے ہوتا ہے کہ انسان جو کچھ کہہ رہا ہوتا ہے اس پر اس کو ذاتی یقین حاصل نہیں ہوتا۔ وہ جس بات کا دعویٰ اور اعلان کرتا ہے‘ اُس پر عمل اس لیے نہیں کرتا کہ اس کی حقیقی سوچ وہ نہیں ہوتی۔ قول و عمل کے تضاد کی سب سے بڑی مثال ہم مسلمانوں کا طرز عمل ہے۔ ہماری عظیم اکثریت اس وقت جن چیزوں کو ماننے کی مدّعی ہے‘ وہ اکثر و بیشتر لوگوں کے ہاں صرف ایک عقیدہ کی حد تک ہیں اور بندھی پوٹلی کی صورت میں دماغ کے کسی گوشے میں رکھی ہوئی ہیں۔ یہ عقیدہ ان کے فکر میں پیوست شدہ اوران کی سوچ میں سرایت کیے ہوئے نہیں ہے۔جب تک یقین کی گہرائی پید انہیں ہوگی اسلامی تحریک نہیں چل سکتی اس کے بغیر ایک سیاسی تحریک تو برپا ہو سکتی ہے اور اس میں ایک گہرا مذہبی رنگ اور نمایاں جوش وولولہ بھی ہوسکتا ہے، اس میں لوگ قربانیاں بھی دے سکتے ہیں اور تن من دھن بھی لگا سکتے ہیں جیسا کہ ماضی قریب میں مسلمانانِ پاکستان نے نظام ِ مصطفی ﷺ کی تحریک میں جانیں دی ہیں، لیکن ایک اسلامی تحریک جو اسلامی نظام قائم کرسکے ، اس کی بنیادیں اگر ایمان پر نہ اٹھائی گئی ہوں اور اس کی فکری اساس پختہ ،محکم اور مستحکم نہ ہوں تو وہ کبھی اسلامی نظام کے قیام اور حقیقی اسلامی انقلاب کے برپا ہونے پر منتج نہیں ہوسکتی بلکہ لازما کہیں درمیان میں رہ جائے گی۔یا تو اس کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ جائے گا یا وہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ موڑ لے گی یا ماحول کے ساتھ مصالحت کر لے گی،یا تحریک کے وابستگان کی ہمت جواب دے جائے گی اور وہ اپنی کم ہمتی کے لیے طرح طرح کے بہانے تراشیں گے۔
یہ یقین گویا اس نظامِ حیات کی فکری اساس ہے جس کو ہم قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جب تک یہ حقیقت ہمارے رگ و پے میں سرایت نہ کرجائے‘ جب تک یہ ایک زندہ یقین کی صورت اختیار نہ کرلے‘ تب تک وہ قوت پیدا ہو ہی نہیں سکتی جو اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے لازمی ہے اور نہ کبھی انقلاب آسکے گا۔ البتہ یہ بات بھی ذہن میں ضرور رکھیے‘ ورنہ مغالطہ ہو جائے گا ‘کہ یقین کی یہ گہرائی اور گیرائی تمام کے تمام لوگوں میں نہ تو پہلے کبھی ہوئی ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوگی۔ تمام انسانوں میں یہ یقین تو صرف قیامت کے دن ہی پیدا ہوگا‘ جب سب حقائق آنکھوں کے سامنے آجائیں گے۔ لیکن اسلامی نظام کے بالفعل نفاذ کے لیے ضروری ہوگا کہ کسی معاشرے میں ایک مؤثر اقلیت اس یقین سے سرشار ہوجائے اور اپنے یقین کی گہرائی کی بنا پر اسلام کی خاطر ہر قسم کی قربانی اور ایثار کے لیے تیار ہوجائے۔ (واضح رہے کہ مَیں ’’اکثریت‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کر رہا‘ اس لیے کہ میرا دعویٰ ہے کہ اکثریت کی کیفیت کبھی یہ نہیں ہوسکتی ۔) جب تک اس قسم کی مؤثر اقلیت پیدا نہ ہوجائے جو{قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ F}(الانعام) ’’بے شک میری نماز ‘میری عبادت ‘میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے‘‘ کو اپنی زندگی کا مقصد نہ بنالے ‘اور جب تک یہ فکری اساس ان کے دلوںمیں پختہ نہ ہوجائے عملی طور پر اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ اسلامی تحریک کی جدّوجُہد نتیجہ خیز اور کامیاب ہوجائے ۔ ہم تمنّا تو کرتے رہیں گے کہ اسلام آجائے‘ اسلام کا نظامِ حیات قائم ہوجائے‘ لیکن تمنّاسے اسلام نہیں آئے گا۔ ہم مقالے پڑھتے رہیں گے‘ تقریریں کرتے رہیں گے کہ یہ اسلام ہے اور یہ اسلام نہیں ہے‘ لیکن اس سے بالفعل اسلامی نظام کی عمارت کی تعمیر ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔
یقین ِقلبی کا ذریعہ: قرآن مجید
مَیں نے جو کچھ بیان کیا ہے اس کی تفصیلات میں توکسی کو اختلاف ہوسکتا ہے‘ لیکن کم ازکم اس کی واضح اور کھلی کھلی باتیں تو ہر مسلمان مانتا ہے‘ البتہ اصل کمی یقین کی ہے جب کہ یقین قلبی بہت ضروری ہے۔ بقولِ اقبال ؎
یقیں پیدا کر اے ناداں‘ یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری!
لیکن اب سوال یہ ہے کہ وہ یقین کیسے پیدا ہو؟ یہ یقین کہاں سے آئے؟ اس کے لیے مَیں پھر عرض کروں گا کہ اس کا ذریعہ قرآن حکیم ہے۔ قرآن حکیم میں حضورﷺ سے خطاب ہوا
{وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَـآ اِلَـیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَاط مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآئُ مِنْ عِبَادِنَاط وَاِنَّکَ لَتَہْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(52)} (الشوریٰ:52)’’اور(اے نبیﷺ!) اسی طرح ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے ایک روح (یعنی قرآن) اپنے امر میں سے۔ آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے‘لیکن ہم نے اس(قرآن ) کو ایسا نُور بنایا ہےجس کے ذریعے ہم اپنے بندوںمیں سے جس کو چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔ اور بے شک (اے محمدﷺ!) آپ سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتے ہیں۔‘‘
حضورِ اقدس ﷺجو یقین مجسم بنے اور پھر آپؐ سے یہ یقین معاشرے کے اندر متعدی ہوااور لوگوں میں پھیلا‘ قرآن مجید اس کا بھی یہی synthesis کرتا ہے۔ سورۃ الضحیٰ آیت :7 میں فرمایا: {وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی}’’اور اُس نے آپؐ کو تلاشِ حقیقت میں سرگرداں پایا تو ہدایت دی۔‘‘ یعنی آپؐ تفکر و اعتبار (غوروفکر) کے مراحل طے کرتے ہوئے جب ایسے مرحلے تک جاپہنچے گویا حقیقت کے دروازے پردستک دی‘ تو آپؐ پر دروازے وا کر دیے گئے۔ پھر اس کے بعد اس میں یقین کا رنگ وحی کے ذریعے سے پیدا ہوا۔ آج ہمارے دلوں میں اگر ایمان کی شمع روشن ہوسکتی ہے تو اسی نورِ وحی یعنی آیاتِ قرآنی سے ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہی ہمارے اندر ایمان کی جوت جگا سکتی ہے۔ اللہ کی معرفت یوں تو ہمارے دلوں میں موجود ہے‘ لیکن وہ خوابیدہ (dormant) ہے ۔ اسے بیدار کرنے کے لیے آیاتِ قرآنیہ نازل ہوئی ہیں اور یہ قرآن مجید ہی کے ذریعے متحرک (activate) ہوسکتی ہے ؎
ایسے کچھ تار بھی ہیں سازِ حقیقت میں نہاںچھو سکے گا نہ جنہیں زخمہ ٔ مضرابِ حواسانسان کی فکر کی سطح پر ایمان کو (activate) کرنے کے لیے تو آیاتِ آفاقیہ موجود ہیں۔ چنانچہ فرمایا:
{سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ ط} (حٰمٓ السجدۃ:53)’’ ہم عنقریب اُن کو اطراف ِ عالم میں اور خود اُن کی ذات میں بھی نشانیاں دکھائیں گے‘ یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے۔‘‘لیکن اُس کے اندر کے تاروں کو چھیڑنے کے لیے آیاتِ قرآنیہ کا نزول ہوا ہے۔ ارشاد ہوا:{اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِط} (البقرۃ:257) ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اُن کا دوست اللہ ہے جو ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے۔‘‘
وہ لوگ جو ذہنی صلاحیتیں رکھتے ہوں اور جنہوں نے غور و فکر کے مراحل طے کیے ہوں‘ ان کے اندر قرآن مجید کی آیات ہی کے ذریعے سے یہ ایمان اُبھرے گا اور اسی کے ذریعے فکرکی جڑیں مضبوط ہوں گی۔ آپ غالب کا ایک شعر سنتے ہیں تو جھوم جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس شعر نے آپ کے وجودکے اندر کے تاروں میں سے کسی تار کوچھیڑدیا ہے۔ آپ کااپنا کوئی احسا س تھا جو اس شعر کے ذریعے متحرک ہوا اور آپ جھوم گئے۔ ایمان و یقین حواس کے مشاہدے اور خارجی تجربہ سے پیدا نہیں ہوسکتا۔ یقین ِقلبی آیاتِ قرآنیہ سے پیدا ہوگا۔حافظ ابن قیم ؒفرماتے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو قرآن کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس کرتے ہیں گویا یہ قرآن میں لکھا ہوا نہیں بلکہ ان کے اپنے دل پرنقش ہے۔ کلام اللہ اور اُن کے دل کے درمیان اتنی ہم آہنگی اور توافق ہوتا ہے کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو میری فطرت کی پکار ہے۔
اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ! آیاتِ قرآنیہ کے ذریعے تزکیہ اگرچہ دِقّت طلب کام ہے‘ لیکن یہ انتہائی ناگزیر ہے۔ ایمان کی تعمیر نو (reconstruction of faith)کے لیے یہ محنت بہرحال کرنی پڑے گی۔ ضروری ہے کہ پہلے سماج کے ایک طبقے اور گروہ کے اندر یہ ایمان پیدا ہو‘ پھر اس طبقے سے متعدی ہو کر کچھ اور لوگوں کے دلوںمیں گھر کر ے ‘اور یہ یقین اس درجے تک ہوکہ وہ غلبہ ٔ دین ِحق کے لیے اپنا تن من دھن لگا دینے کے لیے تیار ہو جائیں ‘ اُن میں وہ قوت پیدا ہوجائے کہ اللہ کی رضا اور اُخروی فلاح کے لیے اپنی ہر شے قربان کرسکتے ہوں۔ تب صحیح طور پر اسلامی تحریک کے لیے افراد کی تیاری کی پہلی شرط پوری ہوگی۔ ایسے ہی افراد انقلاب کے مراحل سے گزرتے ہوئے وہ انقلاب لائیں گے جس سے اسلام کا نظام ِ حیات بالفعل قائم ہو جائے گا۔اگر ہم محض موروثی عقیدے‘ جو ہمیں وراثتاً منتقل ہوتا ہوا چلا آرہا ہے‘ مگر لوگوں کی سوچ اور ان کے نظامِ اقدار کے اندر سرایت کیے ہوئے نہیں ہے‘ کی بنیاد پر کوئی جذباتی تحریک اٹھا کریا کچھ وقتی ہنگامے کھڑے کر کے‘ مطالبات کا ایک طومار سامنے لا کر ‘ سیاسی تحریکیں چلاتے رہے تو اس سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ کرنے کا اصل کام یہ ہے جو مَیں نے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اُس زندہ ایمان سے نوازے جسے مَیں نے ’’روشن یقین‘‘ (burning faith)سےتعبیر کیا ہے۔(آمین!)