(منبرو محراب) اہل جہنم کے خصائل باعث عبرت - ابو ابراہیم

8 /

اہل جہنم کے خصائل باعث عبرت

(سورۃ قٓ کے دوسرے رکوع کی روشنی میں )


جامع مسجدقرآن اکیڈمی، لاہور میں امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے 12 جنوری2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

مرتب: ابو ابراہیم

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
گزشتہ جمعہ میں سورۃ قٓ کے دوسرے رکوع کی ابتدائی آیات کا ہم نے مطالعہ کیا تھا ۔ آج اسی سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے ہم ان شاء اللہ اس رکوع کی باقی آیات کا مطالعہ کریں گے۔ سورہ قٓ کے اس رکوع کا موضوع فکر آخرت ہے اور انسان کے اعمال پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا عقیدہ آخرت کا عقیدہ ہے ۔ جمعہ کے خطاب کا ایک بڑا مقصد اور حاصل بھی یہی ہے کہ لوگوں کو یاددہانی کروائی جائے کیونکہ انسان بھول جاتاہے ، دل سخت ہو جاتے ہیں ، غفلت طاری ہو جاتی ہے ۔ یہ یاددہانی دلوں کو نرم کر سکتی ہے ، غفلت کے پردے ہٹ سکتے ہیں اور انسان اپنی اصلاح کی طرف لوٹ آتا ہے ۔ اسی یاددہانی کے لیے قرآن میں فکرآخرت کا بیان مسلسل آیا ہے ۔ چنانچہ زیر مطالعہ آیات میں فرمایا :
{وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِط ذٰلِکَ یَوْمُ الْوَعِیْدِ(20)} ’’اور صُور میں پھونکا جائے گا۔ یہ ہے وعدے کا دن!‘‘
اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ دو مرتبہ صور پھونکا جائے گا بعض تین مرتبہ کا بھی کہتے ہیں ۔ اس کے بعد قیامت برپا ہوگی اور وہ جس دن کا وعدہ اللہ نے کیا ہے آکر رہے گا ۔ اس دن مجرمین کے لیے انتہائی درد ناک عذاب ہوگا ۔اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں کہ میں کیسے دنیا میں دل لگا لوں، میں کیسے کھل کھلا کر ہنسنے کی باتیں کروں، اسرافیل تو کان لگائے بیٹھا ہے کہ ادھر اللہ کاحکم ہو اُدھر وہ صور میں پھونک دیں اور قیامت برپا ہو جائے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ قیامت بہت دور ہے جبکہ قیامت صغریٰ تو ہمارے سر پر کھڑی ہے ۔ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں کہ جس کی موت ہوگئی اس کی گویاقیامت ہوگئی ۔ وہ اٹھے گا تو محشر برپا ہوگا ۔ وہی دن ہے جس میں مجرمین کے لیے سخت عذاب کاوعدہ کیا گیا ہے۔ آگے فرمایا:
{وَجَآئَ تْ کُلُّ نَفْسٍ مَّعَہَا سَآئِقٌ وَّشَہِیْدٌ (21)} ’’اور ہر جان آئے گی (اس حالت میں کہ) اس کے ساتھ ہوگا ایک دھکیلنے والا اور ایک گواہ۔‘‘
اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ یہ کراماً کاتبین ہیں جو انسان کے ہر ہر عمل کو نوٹ کرتے جاتے ہیں ۔ روز محشر ان میں سے ایک انسان کو ہانکنے والا ہوگا اور دوسرا انسان کا اعمال نامہ پیش کرے گا ۔ آگے فرمایا :
{لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا فَـکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَ کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ(22)} ’’(اللہ فرمائے گا: اے انسان!) تُو اس دن سے غفلت میں رہاتھانا!‘تو آج ہم نے تجھ سے تیرا پردہ ہٹا دیا ہے‘تو آج تمہاری نگاہ کتنی تیز ہو گئی ہے۔‘‘
دنیا میں تمہاری آنکھوں پر پردے پڑے تھے ، آخرت کی فکر نہیں تھی ، جنت اور جہنم تیری نظروں سے اوجھل تھے ، حشر کا میدان تمہیں دکھائی نہیں دیتا تھا مگر آج تمہاری آنکھیں سب کچھ صاف صاف دیکھ رہی ہیں ۔ اِس دنیا میں اور اُس دنیا میں اللہ نے باقاعدہ پردہ رکھا ہے تاکہ ہمارا امتحان ہو سکے ۔ یہ پردہ جب ہٹتا ہے تو فرعون بھی ایمان لانے پر تیار ہو جاتا ہے ۔ جب انسان حالت نزع میں ہوتا ہے ، موت کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے اورانسان اِس عالم سے اُس عالم میں ٹرانسفر ہورہا ہوتا ہے تو وہ کچھ ایسے مناظر بھی دیکھ رہا ہوتاہے جو اس دنیا میں رہتے ہوئے وہ نہیں دیکھ پاتا ۔ ایسے وقت میں فرعون بھی ایمان لے آیا تھا مگر اس وقت ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ قیامت کے دن تو بڑے بڑے کافر بھی یہی کہیں گے : 
{فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا}(السجدۃ:12) ’’تو(ایک بار) ہمیں واپس لوٹا دے‘ ہم نیک عمل کریں گے۔‘‘
لیکن سب کا امتحان ایک بار ہی ہونا ہے دوبارہ بھیجنے کا کوئی سوال ہی نہیں رہتا ۔ لہٰذا فائدہ وہی ایمان دے گا جو اس دنیا میں غیب میں رہتے ہوئے انسان لائے جہاں اللہ نے پردے رکھے ہوئے ہیں ۔ یہاں جو ایمان لائے گا وہی اگلے جہاں کام آئے گا ۔ لیکن یہاں انسان غفلت میں پڑا رہتا ہے ۔ اس کے سامنے اللہ کی کتابیں موجود ہوتی ہیں مگر وہ توجہ نہیں دیتا ،اس کے سامنے پیغمبروں کی تعلیمات ہوتی ہیں مگر وہ ان پر عمل پیرا نہیں ہوتا ۔ اس کو دین کی دعوت دی جاتی رہی مگر وہ تکبر کرتا رہا ، اس کے سامنےآخرت کا ذکر ہوتا رہا مگر وہ منہ موڑتا رہا ۔ اس کے سامنے موت کا تذکرہ ہوتا تھا تو وہ ناپسند کرتا تھا ۔کچھ ایسے بھی ہیں جو پنج وقت نماز میں مسلسل یہ زبانی اقرار اور تکرار کرتے ہیں : 
{ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ(o)} لیکن مسجد سے باہر جاتے ہی وہ اس دن کو بھول جاتے ہیں، اخلاق میں ، معاملات میں ، سیاست اور معیشت میں وہ فکر آخرت نظر نہیں آتی ۔ غزہ میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے اور یہاں بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے ٹس سے مس نہیں ہورہے کہ آخرت میں جواب بھی دینا ہے ۔ وہاں تو بڑے بڑے فرعون بھی کہیں گے ایک موقع اور دیا جائے تو ہم نیک اعمال کریں گے لیکن دوبارہ موقع نہیں ملے گا ۔جن کے پاس آج اختیار ہے ، موقع ہے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ جبکہ مومن وہ ہے جو اس دنیا میں ایمان لاتاہے اور آخرت کو مدنظر رکھ کر زندگی گزارتاہے ۔ حدیث میںہے کہ مومن وہ ہے جسے دیکھ کر اللہ یاد آئے ۔ اس کے کردار سے ، اس کی گفتار سے ، اس کے ظاہر سے ، اس کے معاملات اور اخلاق سے پتا چلے کہ یہ اللہ کا بندہ ہے ۔ یہ فرعون بن کر نہیں بیٹھا ہوا بلکہ اس کے دل میں اللہ کا خوف ہے ۔ جب وقت مقرر آپہنچے گا اور نگاہوں سے پردے ہٹ جائیں گے تب تو سارے ہی ایمان لے آئیں گے ۔ اللہ کی یہ بھی شان کریمی ہے کہ اس نے ساری باتیں آج ہی بتلا دی ہیں ۔ قرآن میں تسلسل کے ساتھ آخرت کا بیان ہے ۔ اللہ کے آخری رسول ﷺ کی سینکڑوں احادیث میں آخرت کی فکر کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ حضورﷺ کے دور میں ایک مرتبہ ذرا کھل کھلا کر باتیں ہو رہی تھیں، مسکراہٹیں چہروں پر آرہی تھیں ۔ اللہ کے رسولﷺ نےفرمایا کہ اگر تم غفلتوں کو توڑ دینے والی موت کو کثرت سے یاد رکھو توتمہاری یہ کیفیت نہ ہو۔ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتاہے اسی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتے ہیں ، انسان غفلت میں پڑ جاتا ہے ۔ اس زنگ کو اُتارنے کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ کثرت کے ساتھ موت کو یاد کیا کرو اور قرآن کی تلاوت کیا کرو ۔ زیر مطالعہ آیت آگے فرمایا:
{وَقَالَ قَرِیْنُہٗ ہٰذَا مَا لَدَیَّ عَتِیْدٌ (23)}’’اور اُس کا ساتھی کہے گا :(پروردگار!) یہ جو میری تحویل میں تھا‘ حاضر ہے!‘‘
بعض مفسرین کی رائے ہے کہ روز محشر جو گواہی دینے والا فرشتہ ہوگا وہ انسان کے اعمال کا سارا ریکارڈ پیش کردے گالیکن بعض کی رائے ہے کہ وہ انسان کا ساتھی شیطان ہوگا کیونکہ لفظ قرین شیطان کے لیے بھی آیا ہے ۔ جیسا کہ سورۃ الزخرف میں فرمایا :
{وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَـیِّضْ لَـہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ(36)} ’’اور جو کوئی منہ پھیر لے رحمٰن کے ذکر سے‘ اُس پر ہم ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں ‘تو وہ اس کا ساتھی بنا رہتا ہے۔‘‘
مفسرین کے نزدیک یہ وہ شیطان ہوتاہے جو ہر وقت انسان کے ساتھ رہتا ہے اور اس کو بہکانے کی کوشش کرتا رہتا ہے ، وہ بھی انسان کے ہر قول و فعل کا گواہ ہوتاہے اور روز محشر وہ بھی انسان کے خلاف گواہ بن جائے گا کہ اس نے یہ یہ حرکتیں کی تھیں ۔ تاہم بعض مفسرین کے نزدیک وہ فرشتہ ہوگا اور انسان کا نامہ اعمال پیش کرے گا ۔ پھر اللہ کا حکم ہوگا:
{اَلْقِیَا فِیْ جَہَنَّمَ کُلَّ کَفَّارٍ عَنِیْدٍ (24)} ’’(اللہ تعالیٰ فرمائے گا:) جھونک دو جہنّم میں ہر ناشکرے سرکش کو۔‘‘
ان دونوں فرشتوں کو حکم ہوگا کہ ایسے نافرمانوں کو جہنم میں ڈال دو ۔ عنید سرکشی کرنے والے کوبھی کہتے ہیں ، حدود کو پامال کرنے والے کوبھی ، اللہ کے احکام توڑنے والے کو بھی ، اللہ کے رسولﷺ کے احکام توڑنے والے ، دین کی تعلیمات کو رد کرنے والے ، شریعت کے باغی کو بھی ، اور اللہ کی ناشکری کرنے والے کو بھی ۔ معلوم ہوا کہ عنید سے مراد وہ لوگ بھی ہیں جو ایمان تو لاتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے ۔ اس لحاظ سے بعض ایمان والے بھی کفر کر جاتے ہیں ۔ وہ کفر عقیدہ کا نہیں ہوتا بلکہ وہ کفر عمل کا ہوتاہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((من ترک الصلوٰۃ متعمدا فقد کفر)) جس نے جان بوجھ کے نماز ترک کردی وہ کفر کر چکا۔
چار ائمہ (امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم اجمعین)میں سے تین کا فتویٰ ہے کہ بے نمازی کو تو قتل ہی کر دینا چاہیے ۔ جبکہ ان میں سے ایک امام ابو حنیفہ ؒ کی رائے ہے کہ اس کو قید کر دینا چاہیے جب تک کہ پابند نہ ہو جائے۔
آج ہم ہیں کہ دعوے بھی ہیں مسلمان ہونے کے اور آرام سے پانچوں نمازیں ضائع کرتے ہیںاور نماز جمعہ میں بھی دوڑتے ہوئے آخر میں آتے ہیں جب عربی خطبہ چل رہا ہوتا ہےا وردو رکعت پڑھنے کے بعد اسی سپیڈ سے بھاگتے ہوئے واپس چلے جاتے ہیں ۔ بے نمازی اگر کلمہ پڑھتا ہے تواس کا جنازہ ہم پڑھیں گے اور پڑھائیں گے لیکن نماز نہ پڑھنا عملاً کفریہ روش ہے ۔ اسی طرح حج کے بارے میں اللہ قرآن میں فرماتا ہے:
{وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْـبَـیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَـیْہِ سَبِیْلًا ط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ(97)} (آل عمران)’’اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر کہ وہ حج کریں اُس کے گھر کا‘ جو بھی استطاعت رکھتا ہو اس کے سفر کی۔اور جس نے کفر کیا تو (وہ جان لے کہ) اللہ بے نیاز ہے تمام جہان والوں سے۔‘‘
غیر مسلموں پر تو حج فرض نہیں ہے۔ یہاں خطاب مسلمانوں سے ہو رہا ہے کہ وہ مسلمان جو استطاعت کے باوجود زندگی میں ایک مرتبہ حج نہیں کرتے تو وہ عملاً کفر کر رہے ہیں ۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور سواری میسر ہو جو بیت اللہ تک اسے پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔لہٰذا ایسے مسلمان جواللہ کی حدود کو ، پیغمبر کی تعلیم کو پامال کرنے والے ہیں، اللہ کے دین پر عمل نہیں کرتے ان کے لیے ہی یہاں عنید کا لفظ آیا ہے اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ ان کفار عنید کو جہنم میں ڈال دو ۔ اگلی آیت میں ان کی مزید وضاحت فرمائی :
{مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ }’’جو خیر سے روکنے والا ۔‘‘
خیر سے متعلق ہم سب جانتے ہیں کہ نیکی کا کام ، دین کا کام، اچھائی کا کام خیر ہے ۔ ایسا مسلمان جو نہ خود نیکیاں کرتا ہے، نہ دوسروں کو نیکی کی دعوت دیتا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر نیکی کے کاموں میں روڑے اٹکاتاہے۔اس معاشرے میں کتنی مسلمان بہنیں اور بیٹیاں ہیں جو اماں عائشہ صدیقہؓ اور بی بی فاطمہؓ کی سیرت پر چلنا چاہتی ہیں ، شرم و حیا ، چادر اور پردہ کا اہتمام کرنا چاہتی ہیں مگر ماں باپ آڑے آجاتے ہیں، بھائی آڑے آ جاتا ہے۔ کتنے نوجوان ہیں جو چہرے پر محمد مصطفیٰﷺ کی سنت کو سجانا چاہتے ہیںمگر گھر والے آڑے آ جاتے ہیں، دوست مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں، کتنے ہیں جو دین کے لیے خود کو وقف کرنا چاہتے ہیں مگر ماں باپ ، رشتہ دار آڑے آجاتے ہیں ، ٹھیک ہے ذریعہ معاش بھی ضروری ہے مگر دین کے لیے جدوجہد کرنا بھی ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ ڈانس پارٹی ، کنسٹرٹس ، مخلوط محافل میں جائے ، شراب اور جوئے کی محافل میں جائے تو کوئی ٹینشن نہیں لیکن اللہ کے دین کے لیے وقت لگائے تو پریشانی ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح حکومتی سطح پر کبھی خیر کے کاموں میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے ، مساجد اور مدارس پر پابندیاں لگانا ، دین پر چلنے والوں کی زندگی اجیرن کر دینا یہ سب مناع الخیر کے زمرے میں آتا ہے ۔ اسی طرح ایک مسلمان کے ذمہ زکوٰۃ و عشر کی ادائیگی ہے ، یہ بھی خیر کا کام ہے اس کو ادا نہ کرنا ، صدقات و خیرات میں کنجوسی کرنا ، حقوق العباد کو ادا نہ کرنا ، اللہ نے وسعت دے رکھی ہے لیکن اس کے باوجود اللہ کی مخلوق پر خرچ نہ کرنا یہ سب مناع الخیر جیسے کام ہیں ۔ پھر یہ کہ اللہ کے دین کو دیکھتا ہے کہ وہ پامال ہے، مغلوب ہے مگر اس کے غلبے کے لیے جدوجہد نہیں کرتا ، جان و مال خرچ نہیں کرتا ، ان سب لوگوں کے لیے یہ سخت وحید ہے کہ ان کو کفار عنید کے گروہ میں شامل کرکے اللہ فرشتوں کو حکم دے گا کہ ان کو جہنم میں ڈال دو ۔ آگے فرمایا : 
{ مُعْتَدٍ مُّرِیْبِ(25)}’’حد سے بڑھنے والا اور شکوک و شبہات میں مبتلا رہنے والا ہے۔‘‘
معتد سے مراد ہے حد سے بڑھنے والا ، اللہ کی حدود کو پامال کرنے والا ، ایک تو کافر ہے جو حدود کو مانتا ہی نہیں۔ وہ تو کہتا ہے میرا جسم میری مرضی ۔ it's my life , my choice۔آج تو یہ گلوبل ایشو بنتا جارہا ہے ۔ ٹرانسجینڈر قوانین بن گئے کہ کوئی مرد کہتا ہے کہ میں عورت جیسا feelکرتا ہوں تو اس کو عورت مان لیا جائے ۔ کوئی عورت کہتی ہے کہ میں مردجیسا feelکر رہی ہوں تو اسے مرد تسلیم کر لیا جائے ۔ اب ایک شخص جو اللہ کی حدود کو مانتا ہی نہیں وہ تو پکا کافر ہوا لیکن جو مانتا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ کی حدود کو پامال کرتا ہے تو وہ بھی کفار عنید میں شامل ہے اور یہ حرکات و خصائل اہل جہنم کی بیان ہورہی ہیں ۔
یہاں بیان کرنے کا مقصد ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیں، کیا ہم بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کا انکار تو نہیںکرتے؟دین کے احکام پر عمل کرنے میں اگر کمزوری آڑے آرہی ہے تو اعتراف کرلو مگر سیدھا انکار کرنے سے کفر لازم آتاہے ۔ اسی طرح ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہم اللہ کی ناشکری تو نہیں کرتے ؟ کیا ہم اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے بھی ہیں یا نہیں ؟اللہ کے احکامات سے سرکشی تو نہیں کرتے؟ اللہ کی راہ میںخرچ کرنے سے ہاتھ تو نہیں رکتا ؟ نیکی کرنے میں آگےبڑھ رہے ہیں کہ نہیں؟خود دین پر عمل کر رہے ہیں کہ نہیں ؟ دوسروں کو دین کی دعوت دے رہے رہیں کہ نہیں ؟کہیں نیکی ، خیر اور دین کے کاموں میں رکاوٹ تو نہیں بنتے ؟ سب پہلے تو ہمیں خوداللہ کی حدود کا پتا ہونا چاہیے ، حلال و حرام میں فرق معلوم ہونا چاہیے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں جب کوئی مارکیٹ میں آکر دوکان کھولتا تھا تو آپ پوچھتے تھے کہ حلال و حرام کے مسئلے سیکھے ہیں کہ نہیں ؟ اگر کہتا نہیں تو آپ فرماتے کہ جاکر پہلے مسئلے سیکھ کر آؤپھر دوکان کھولنا ۔ بہرحال حدود معلوم بھی ہونی چاہئیں اور ان پر عمل بھی ہونا چاہیے ۔ حدود سے تجاوز جہنم کا باعث ہے ۔ زیر مطالعہ آیت میں ایسے اہل جہنم کی دوسری خصلت یہ بیان ہوئی کہ وہ مریب ہیں یعنی دین میں شک کرنے والے اور دوسروں کو شکوک و شبہات میں متبلا کرنے والے ہیں ۔ خالق کائنات کے بارے میں شک ، اللہ کے رسولوں اور کتابوں کے بارے میں شک ، دین کے احکام میں شک ، اللہ کی حدود میں شک ۔ سورۃ الکہف میں اللہ تعالیٰ نے باغ والوں کی مثال بیان فرمائی کہ انہیں آخرت کے بارے میں شک تھا ، اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں ہی ایسی سزا دی کہ حقیقت ان کے سامنے آگئی ۔ بعض کو مرنے کے بعد دوبارہ جی اُٹھنے پر شک ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں کئی مقامات پر ایسے لوگوں سے سوال کرتا ہے کہ تمہیں پہلے کس نے پیدا کیا ہے ؟ جو پہلے پیدا کر سکتا ہے وہ دوبارہ بھی اُٹھا سکتاہے ۔
پچھلی ایک صدی کے اندر دین دشمنوں نے مسلمانوں میں بہت سے شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں ۔ قرآن کی آیات کے بارے میں ، احادیث کے بارے میں۔ آج ہماری امت میں بھی یہ فتنے پھیل رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ یہاں ایسے لوگوں کے لیے واضح فرما رہے ہیں کہ ان سب کو جہنم میں ڈالا جائے گا ۔ آگے فرمایا :
{نِ الَّذِیْ جَعَلَ مَعَ اللہِ اِلٰہًا اٰخَرَ فَاَلْقِیٰــہُ فِی الْعَذَابِ الشَّدِیْدِ (26)} ’’جس نے اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ بھی بنا لیا تھا۔تو جھونک دو اس کو بڑے سخت عذاب میں۔‘‘
سب سے بڑا گناہ شرک ہے لہٰذا سب سے بڑا کافر اور گنہگار مشرک ہوگا جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتاہے ، ایسے لوگوں کو سب سے بڑھ کر شدید عذاب دیا جائے گا اور ان کا یہ جرم ناقابل معافی ہوگا ۔ آگے فرمایا :
{قَالَ قَرِیْنُہٗ رَبَّـنَا مَآ اَطْغَیْتُہٗ وَلٰــکِنْ کَانَ فِیْ ضَلٰلٍ م بَعِیْدٍ(27)}’’اُس کا ساتھی (شیطان) کہے گا: پروردگار! میں نے اس کو سرکش نہیں بنایا‘ بلکہ یہ خود ہی بہت دور کی گمراہی میں پڑا ہوا تھا۔‘‘
یہ قرین وہی شیطان ہے جوانسان کے ساتھ رہتا ہے اور اس کو گمراہ کرتا رہتا ہے ۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر ایک کےساتھ ایک شیطان لگا ہوا ہے۔ عرض کیا گیا: حضورﷺ! آپ کے ساتھ بھی؟ فرمایا: ہاں  میرے ساتھ بھی لیکن اللہ نےاس کے مقابلے میں میری مدد فرمائی یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو گیا۔ یہ تو حضور ﷺ کی امتیازی شان ہے ورنہ عام انسان کا قرین اس کو گمراہ کرتا رہتا ہے ۔ روز محشر جب پیش کیا جائے گا تو انسان اس قرین پر الزام لگائے گا کہ اس نے مجھے گمراہ کیا تھا لہٰذا س کو سزا دی جائے ۔ وہ کہے گا یارب ! میں نے اس کو گمراہ نہیں کیا بلکہ وہ تو خود ہی گمراہی میں پڑا ہوا تھا ۔ سورہ ابراہیم میں ہے کہ شیطان کہے گا :{فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ط} (آیت:22)’’تو اب تم لوگ مجھے ملامت نہ کرو‘ بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو۔‘‘
لیکن اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
{قَالَ لَا تَخْتَصِمُوْا لَدَیَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ اِلَـیْکُمْ بِالْوَعِیْدِ (28)}(ق ٓ)’’(اللہ فرمائے گا:) اب میرے سامنے جھگڑ۱ مت کرو ‘جبکہ میں پہلے ہی تمہاری طرف وعید بھیج چکا ہوں۔‘‘
جنات ہوں یا انسان ، سب کو اللہ کے دین کی دعوت دی گئی ہے ، یہ قرآن جنات کے لیے بھی ہے اور انسانوں کے لیے بھی ، رسول اللہ علیہ السلام نے خود جنات تک اللہ کا پیغام پہنچایااور جنات نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے۔ اب ان میں سے جو بھی سرکشی کرے گا اور حدود کو پامال کرے گا، اللہ کے دین سے ، خیر سے لوگوں کو منحرف کرے گا ، شکوک و شبہات میں ڈالے گا ان سب کے لیے اللہ کا فیصلہ محفوظ ہے اور اس فیصلے کے مطابق ان سب کو سزا مل کر رہے گی ۔ آگے ارشاد ہوتاہے :
{مَا یُـبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَآ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ(29)}(ق ٓ)’’میرے حضور میں بات تبدیل نہیں کی جاسکتی اور مَیں اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہوں۔‘‘
اللہ کے فیصلے اٹل ہیں ، وہ بدلا نہیں کرتے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو خوامخواہ کسی سے دشمنی ہے ، نہ ہی وہ کسی پر ظلم کرنا چاہتا ہے ۔ یہ ظلم یہ لوگ خود اپنے آپ پر کرتے ہیں جو کفار و مشرکین ہیں یا کفار عنید ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان میں شامل ہونے سے بچائے اور اللہ کا نیک بندہ بننے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین !