(اداریہ) ’’تری بَربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں! ‘‘ - ایوب بیگ مرزا

8 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزا

’’تری بَربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں! ‘‘

ہمسایہ برادر اسلامی ملک ایران نے 16 جنوری کو پاکستان کی سرزمین ﴿(بلوچستان)پرایک میزائل داغا تھا جس کے نتیجہ میںپاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق ایک عورت اور 2 معصوم بچے شہیدہوگئے۔ یہ ایک ناقابلِ یقین اور افسوسناک سانحہ ہے۔اہل پاکستان کو ہرگزیہ توقع نہیں تھی کہ ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک ایران پاکستان کے خلاف اتنا بڑا قدم اٹھائےگا۔حقیقت میں تو یہ ایک ریاستی دہشت گردی ہے جس کا پاکستان شکار ہوا ہے۔ہم اِسےکسی صورت قبول نہیں کرسکتےپاکستان نے عسکری سطح پرجوابی کاروائی کرنے کے ساتھ سفارتی سطح پرپہل کرتے ہوئے ایران سے اپنا سفیر واپس بلا لیاہے اور ایران کے سفیر کو پاکستان سے نکل جانے کا حکم دیا ہے۔بہرحال اِس سانحہ سے ناقابل ِ برداشت صدمہ پہنچاہے اس لیےبھی کہ عوامی سطح پر تو دونوںممالک کے قریبی اور دوستانہ تعلقات ہیں۔فقہی اختلافات کے باوجود دونوں ممالک کے عوام اسلام سے وابستہ ہیں۔ایران نےاِسی روز صرف پاکستان پر ہی نہیں بلکہ عراق میں موساد کے ہیڈ کواٹراورشام میں باغیوں پرحملہ کیا۔لہٰذایہ بات آسانی سے سمجھ آتی ہے کہ یہ امریکہ کے خلاف Proxy-Warکا حصہ ہے۔اِس لیےکہ عراق کی حکومت مکمل طور پرا مریکہ کے کنٹرول میں ہے اور وہ امریکن ایجنڈےکو بغیرکسی لگی لپٹے کے آگےبڑھاتی ہے۔ اور امریکہ ہی کی اشیر بادسے اسرائیل کوعراق میں ہرقسم کی سہولت کاری حاصل ہےلہٰذاایران کاعراق میں موساد کے ہیڈ کواٹرپر حملہ درحقیقت اسرائیل اوراس کے کے سہولت کا رپر حملہ تھاالبتہ یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایران نے یہ جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ عراق کا سیاسی جھکاؤ اب کس طرف ہے۔ دراصل ایران کا دشمنوں کو محض اپنی طاقت کا مظاہرہ دِکھانا مطلوب تھا۔ شام میں باغیوںپرحملہ کا سیدھا سادھا مطلب یہ تھا کہ اگر تم(یعنی امریکہ)ہمیں غزہ کی جنگ میںزبردستی گھسیٹتے ہو تو ہم (یعنی ایران) بشارالاسد کو تقویت پہنچائیںگے جو شام میں روس کی پوزیشن مضبوط کرنے کا باعث بنے گا۔ پاکستان پرحملہ کرنے کی فوری وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ گذشتہ سال 06دسمبر 2023ءکو ایران کے بلوچستان میں سیستان کی ایک پولیس چوکی پرایک زمینی حملہ ہوا تھا جو ایران کے مطابق جیش العدل نے کیا تھا جس کے پاکستان کے بلوچستان میں اڈے ہیں اور تازہ ترین وجہ یہ بنی کہ وہ حوثی باغی جن کی پشت پرایران ہے انہوں نے دعویٰ کیا کہ اُنہوں نے اسرائیل کا بحری جہاز اغوا کر لیا ہے اورجو بحرہ احمر میں کاروائیاں کر کےغزہ کی جنگ میں اسرائیل اور اُس کے پشت پناہوں کی تجارت کے لیے خطرہ کا باعث بن رہے تھے۔اُس سمندری علاقے میں پاکستان اپنے تین بحری جہاز بھیج کر بلاواسطہ طور پر فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کی بالواسطہ طور پر مدد کرتا دکھائی دے رہا تھا۔ پاکستان پرا یران کے حملہ کی مزید وجہ سمجھنےکے لیے ہمیں رضا شاہ پہلوی کے دور میںایران اور پاکستان کے تعلقات امریکہ کے حوالے سے دیکھنا ہوںگےاُس دور میں دونوںاسلامی ممالک امریکہ کے کیمپ میں تھے۔ لہٰذا اِن میں گاڑھی چھنتی تھی اور بڑے دوستانہ تعلقات تھے۔ایرانی انقلاب کے بعد ایران امریکہ تعلقات بگڑ گئے۔ لیکن امریکہ پاکستان تعلقات اچھے رہے۔ ضیاء الحق کے دور میں امریکہ پاکستان تعلقات کی گہرائی اور مضبوطی کا اندازہ کریں کہ امریکہ نے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی کوششوں اورپیش رفت کو نظر انداز کرنا شروع کردیا۔ حالانکہ ایٹم بم ہی کے مسئلہ پرامریکہ بھٹو کو ایک فوجی طالع آزما کے ذریعے پھانسی دلا چکا تھا۔سوویت یونین افغانستان سے پسپاہواتو امریکہ نے پاکستان سے آنکھیں پھیرلیں، کیونکہ امریکہ پاکستان سے جتنا کام لینا چاہتا تھا لے چکا تھا۔لیکن جلدہی امریکہ کو افغانستان پرخود حملہ کرنا پڑا کیونکہ افغانستان میں ملا عمرؒ کی قیادت\\میں ایک مکمل اسلامی ریاست قائم ہونے کے واضح امکانات پیدا ہو گئے تھےامریکہ ایک بار پھرپاکستان سے بغل گیر ہوگیا کیونکہ امریکہ کو افغانستان میں  پاکستان کی شدید ضرورت تھی۔لیکن اب ناکامی امریکہ کا مقدر تھی اوراُس نے اپنی شکست کا ملبہ مکمل طو ر پر پاکستان پر ڈال دیا ۔ لہٰذا پاکستان کے بڑوں نے 15-2014ۓءسے اپنا رخ کسی حد بلکہ کافی حدتک موڑ کر چین جو نئی ابھرتی ہوئی طاقت تھی اُس کی طرف کرلیا۔یہاں ہم چین سے بھی ایک گِلہ کریں گے اِس لیے کہ پاکستان نے قریباً ستر سال بعدامریکہ سے اپنا تعلق کمزور کرکےچین سے اپنا تعلق مضبوط بلکہ انتہائی مضبوط کیا تھا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اِن ستر سالوں میںاگر پاکستان امریکہ کے بہت کام آیاتو امریکہ نے بھی (چاہے اپنے مفاد میں ہی) پاکستان کی بہت مدد کی تھی۔خاص طورپر جنگی سازوسامان کے حوالے سے پاکستان کو اِس قابل کردیا تھا کہ بھارت کے حملہ کا مقابلہ کرے۔ 1965ء کی جنگ میںپاکستان کے پاس صرف امریکی اسلحہ تھا۔ اس سب کے باوجود پاکستان نے سفارتی چھلانگ لگا کر چین کا ساتھی بننے کا فیصلہ کیا لیکن چین نے ہماراہاتھ اُس طرح نہیں تھاما کہ ہم امریکی مدد سے بے نیاز ہوجاتے علاوہ ازیں یہ کہ کچھ ہمارے حکمران اِس بات پر بضد ہوگئے کہ ہمارے غیر ملکی دوست بنیادی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری(یعنی حکمرانوں کی)عیش و عشرت کاسامان بھی مہیاکریں۔ عام تجارتی سودوں میںہی نہیں دفاعی سامان کے حوالے سے بھی جو لین دین ہواُس میں ہمیں (حکمرانوں) ایک بڑاحصہ ملنا چاہیے۔عین ممکن ہے کہ ہمارے یہ اطواردیکھ کر چین بھی سوچتا ہوکہ جب یہ خود بربادہونے پرتُلے ہوئے ہیں تو اِن ڈوبتے ہوؤں کو کوئی اپنا نقصان کرکے کیوں بچائے۔
بہرحال جہاں تک امریکہ کے اس الزام کا تعلق ہے کہ پاکستان افغانستان کی جنگ میں ڈبل گیم کرتا رہا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ بعض حالات اور واقعات کےپس منظر میں امریکہ کے اِس الزام کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان مشرف دور میں امریکہ کے ساتھ ڈبل گیم کررہا تھا لیکن افغان طالبان کے ہاتھوں اپنی بدترین اور ذلت آمیز شکست کا ذمہ دار کُلی طور پر پاکستان کو ٹھہرا دینا یہ امریکہ کی کھلی بدیانتی ہے کہ وہ اپنی افواج کی بزدلی، غلط حکمت عملی اور اپنے غلط اندازوں کو ایک طرف رکھ کرصرف پاکستان کو ذمہ دار قرار دے دے۔ یہ درحقیقت ایک چاروں شانے چت گرے ہوئے پہلوان کے جھوٹے عذرات ہیں جووہ تراش رہا ہے اِسی بنا پر اب وہ بڑی کامیابی سے پاکستان کے خلاف ڈبل گیم کررہا ہے۔لیکن حکمران جانے یا انجانے میںاِسے قبول کررہے ہیں ایک طرف وہ بڑے سوچے سمجھے منصوبہ کے ساتھ پاکستان کے سیاسی بحران کو بدترین انتشار کی طرف لے جارہا ہے تاکہ پاکستان میں مقتدر طبقات اور عوام ایک دوسرے کے مدِ مقابل آجائیں اور پاکستان داخلی سطح پر کمزور سے کمزور تر ہوجائے اور دوسری طرف پاکستان کو ایسی خارجہ پالیسی اپنانے پر مجبور کررہا ہے جس سے بھارت جیسے غیر مسلم ملک ہی نہیں افغانستان اور ایران جیسے مسلمان ممالک بھی پاکستان کے دشمن بن جائیں ۔یاد رہے پاکستان افغان مہاجرین کو ایک ماہ میں نکلنے کا بیک جنبش حکم دے چکا ہے جو آسانی سے ممکن نہیں۔ افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ پر غیر ضروری ٹیکس لگا دیا گیا اور اب بار بار تو رخم بارڈر بند کیا جارہا ہے جس سے افغانستان کی تجارت تباہ ہو رہی ہے اور اُن کی معیشت متاثر ہو رہی ہے۔
امریکہ نے ایران کا حریف ہونے کے باوجود پاکستان پر حملہ کرنے کے حوالے سے ایران کی کھلے الفاظ میں مذمت نہیں کی جبکہ پاکستان قریباً ڈیڑھ دو سال سے عالمی اور خطے کے معاملات میں امریکہ کی پالیسیوں کو اندھا دھند آگے بڑھا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے چین جیسا دوست خاموش احتجاج کے ساتھ قدرے بلند آواز میں بھی احتجاج کررہا ہے۔چین کے وزیرخارجہ پاکستان کے دورے کے دوران کھلم کھلا یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اپنے ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرے علاوہ ازیں چین کا میڈیا جو ہمیشہ حکومتی کنٹرول میںرہا ہے اُس کے تبصرے چینی حکومت کی سوچ کی غمازی کررہے ہیں۔روس بھی یوکرائن کے مسئلہ پر پاکستان سے ناراض ہو چکا ہے۔ کیونکہ پاکستان کے راستے یوکراین کو اسلحہ کی فراہمی کی اطلاعات اور یوکرائن کے ذمہ داران کو پاکستان کے دورہ کی دعوت روس کی شدید ناراضگی کی وجوہات میں شامل ہیں۔ البتہ امریکہ پاکستان کو سعودی عرب اور امارات سے مالی امداد دلا رہا ہےلیکن بے وفائی کا پس منظر رکھنے والاامریکہ جونہی اپنا مقصد حاصل کرلے گا یہ عرب ممالک بھی پیچھے ہٹ جائیں گے اور پاکستان بدترین تنہائی کا شکار ہو جائے گا۔ جبکہ صرف 2024ء میں پاکستان نے27.47 بلین ڈالر اور اگلے تین سالوں میں 77.5 بلین ڈالر غیر ملکی قرضہ ادا کرنا ہے جس کی ادائیگی موجودہ صورتِ حال میں ناممکن نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر ہمارے پاس فروخت کرنے کے لیے کیا ہوگا جبکہ پہلے ہی ملک کے کچھ ایئرپورٹ اور شاہراہیں غیر ممالک کے پاس گروی ہیں۔
کل کیا ہوگا یہ اللہ رب العزت کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ موجودہ صورت حال کو دیکھ کر مستقبل کے بارے میں انداز ے لگائے جا سکتے ہیں اور اندازے صحیح بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی۔ ہمارے اندازے کے مطابق جس طرح یکطرفہ طور پر الیکشن کرائے جا رہے ہیں اِس کے نتائج سے مزید انتشار بڑھے گا۔ اب تک کی صورتِ حال کے مطابق الیکشن نہیں بلکہ مبینہ طور پر سلیکشن ہو رہی ہے اور کامیاب امیدواروں کا محض نوٹیفیکیشن ہو جائے گا اور عوام غیر متعلق ہو کر رہ جائیں گے اور اِس مزاحیہ کھیل میں وہ غریب قوم جو پہلے ہی قرضوں کے پہاڑ تلے دبی ہوئی ہے اُس پر انتخابات کے حوالے سے 47 ارب روپے کا قرضہ مزید بڑھ جائے گا اور حاصل کچھ نہ ہوگا۔ اس لئے کہ ایسے انتخابات کے ذریعےجو حکومت طاقتوروں کی پشت پناہی سے بنائی جائے گی اُسے 20 فیصد سے زیادہ عوام کی حمایت حاصل نہ ہو سکے گی کیونکہ اب تک کے تمام سروے یہی ظاہر کررہے ہیں ۔لہٰذا ایک انتہائی کمزور حکومت ہوگی اور یہی امریکہ چاہتا ہے۔ اور اگر الیکشن ملتوی کردیئے جائیں تو ہمیں یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ یہ ملک کے لیے کتنے مہلک ثابت ہوں گے گویا غلط فیصلوں اور حکمت عملی کی وجہ سے ہمارے آگے گڑھا اور پیچھے کھائی ہے۔اِس بات کا ریکارڈ پر آنا لازم ہے کہ عالمی حالات اور موجودہ ملکی سیاسی عدم استحکام، عوامی بے چینی، ملک کی داخلی صورت حال اور ملک کی سلامتی پر منڈلاتے خطرات کے حوالے سے ہم تمام مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانی قوم کو آگاہی دے رہے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔اللہ تعالیٰ سے ہی دعا ہے کہ وہ کوئی راہ نکال دے۔