(الہدیٰ) نیک اور برے اعمال کا بدلہ - ادارہ

8 /

الہدیٰ

نیک اور برے اعمال کا بدلہآیت 89{مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَیْرٌ مِّنْہَاج} ’’جو کوئی بھی (اُس دن) نیکی لے کر آئے گا تو اُس کے لیے اس سے بہتر صلہ ہو گا۔‘‘
ایک نیکی کا اجر دس گنا بھی ہو سکتا ہے‘ سات سو گنا بھی اور اس سے بھی زیادہ۔ بہر حال نیکی کا بدلہ بڑھا چڑھا کر دیا جائے گا۔
{وَہُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍ اٰمِنُوْنَ(89)} ’’اور وہ اُس دن کی گھبراہٹ سے امن میں ہوں گے۔‘‘
اس سے قیامت کے دن کی گھبراہٹ مراد ہے جسے سورۃ الحج کی پہلی آیت میں {اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْ ئٌ عَظِیْمٌ(۱)}کہا گیا ہے۔احادیث میں آتا ہے کہ قیامِ قیامت سے پہلے اللہ تعالیٰ مؤمنین صادقین کو سکون کی موت عطا کر کے اس دن کی گھبراہٹ سے بچا لے گا۔ اس کے علاوہ ان الفاظ میں اس مفہوم کی گنجائش بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو بعث الموت کے بعد میدانِ حشر کی گھبراہٹ سے بھی محفوظ رکھے گا۔
آیت 90{وَمَنْ جَآئَ بِالسَّیِّئَۃِ فَکُبَّتْ وُجُوْہُہُمْ فِی النَّارِط} ’’اور جو کوئی بُرائی لے کر آئے گا تو ایسے لوگوں کے منہ آگ میں اوندھے کردیے جائیں گے۔‘‘
یعنی ان لوگوں کو اوندھے منہ جہنّم میں جھونک دیاجائے گا ۔ اعاذنا اللہ من ذٰلک!
{ہَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(90)} ’’(اور کہا جائے گا کہ) تمہیں بدلے میں وہی تو دیا جارہا ہے جو تم عمل کرتے رہے ہو۔‘‘
یعنی اس سزا کی صورت میں تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو رہی ‘بلکہ تمہارے اعمال کے عین مطابق ہی تمہیں بدلہ مل رہا ہے۔

درس حدیث

باپ جنت کا دروازہ

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ؓ  سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ : (( اَلْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ ‘فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ أَوِ احْفَظْهُ )) (سنن الترمذی)
حضرت ابولدرداء ؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا: ’’باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، چاہے تم اس دروازے کو ضائع کر دو، یا اس کی حفاظت کرو۔‘‘
تشریح: اگرچہ اس حدیث میں صرف والد کا ذکر ہے لیکن جب ہم حضورﷺ کے اقوال مبارک کا بحیثیت مجموعی جائزہ لیںگے تو یہ بات واضح ہو جائےگی کہ مراد والدین ہیں۔ والدین کی خدمت کو جنت میںجانے کا قریب اور آسان راستہ قرار دیا ہے۔ اگر کوئی مسلمان والدین کو خوش رکھے تو آسانی سے جنت مل سکتی ہے اور جو والدین کو ناراض رکھے گا تو جنت سے محرومی ان کا مقدر ہو گی۔