(گوشۂ تربیت) صحبت ِ صالح ترا صالح کند - سجاد سرور، معاون شعبہ تعلیم و تربیت

10 /

صحبت ِ صالح ترا صالح کند

سجاد سرور ، معاون شعبہ تعلیم و تربیت

صحبت کے اثر سے کسی کو انکار نہیں، یہ حقیقت ہے کہ اچھوں کی صحبت سے انسان اچھا بنتا ہے اور بروں کی صحبت سے برا ، فارسی مثل مشہور ہے: 
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالع ترا طالع کند
یعنی صالح اور نیک لوگوں کی صحبت تجھے نیک بنائے گی اور برے افراد کی ہم نشینی، ان کے ساتھ میل جول سے تم میں برے اور ناپاک خیالات جنم لیں گے، تمہاری روش اور چال چلن خراب ہوجائے گا۔
بقول شیخ سعدی’’کبوتر با کبوتر و  بازبا باز‘‘
اور   ؎
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تیری رہے بے داغ
(اقبال)
انسان انس سے بنا ہے اور مل جل کر رہنا انسان  کی فطرت میں شامل ہے۔ انسان جب اکٹھے رہتے ہیں تو ایک دوسرے کو متاثر بھی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کومختلف ذہنی و جسمانی ساخت و استعداد عطا کی  ہیں ۔ایک انسان فکر و عقیدہ اور اخلاق و اعمال میں  دوسرے انسانوں کو متاثر کرتا ہے یا ان سے متاثر ہوتا ہے۔ اگر انسان ہم خیال لوگوں کے ساتھ رہے گا  تو فکری و ذہنی انتشار سے محفوظ رہےگا ، اس کے خیالات کج نہیں ہوں گے۔ لیکن باطل فکر اور خیالات کے حامل لوگوں کی مجلس اس کے ذہن میں شکوک و شبہات پید ا کرے گی  اور برے اخلاق و کردار کے مالک لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا اس کے اخلاق و کردار کو متاثر کرے گا۔ 
صحبت صادقین کےلیے قرآن کی رہنمائی 
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں اہل ایمان کو سچے لوگوں کے ساتھ رہنے کا حکم دیاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَO} (التوبۃ)’’اے اہل ِایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سچے لوگوں کی معیت اختیار کرو۔‘‘
قرآن مجید میں صادقین و صالحین کی علامات
درج ذیل آیات میں صادقین کی علامات بیان کی گئی ہیں:
’’ پورے مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول   ( ﷺ ) پر ایمان لائے، پھر شک نہیں کیا اور اپنے مال اور جان سے اللہ کے راستے میں محنت اٹھائی یہ لوگ ہیں سچے۔‘‘   (الحجرات:15)
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ  فرماتے ہیں کہ: صادقین وہ ہیں جو اپنے ایمان میں سچے ثابت ہوئے اور جو اللہ ورسولﷺ سے اطاعت پر معاہدہ کیا ہے، اس میں سچے ثابت ہوں۔ (روح المعانی، ج:6، ص:45)
سورۃا لبقرۃ آیت :177 میں اللہ تعالیٰ نے صادقین کی صفات بیان کی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
’’نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف پھیر دو بلکہ نیکی تو اس کی ہے جو ایمان لائے اللہ پر، یوم آخرت پر، فرشتوں پر، کتاب پر اور نبیوں پر اور وہ خرچ کرے مال اس کی محبت کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں ، مسافروں اور مانگنے والوں پر اور گردنوں کے چھڑانے میں اور جو پورا کرنے والے ہیں اپنے عہد کو جب کوئی عہد کرلیں اور خاص طور پر صبر کرنے والے فقر و فاقہ میں، تکالیف میں اور جنگ کی حالت میں یہ ہیں وہ لوگ جو سچے ہیں اور یہی حقیقت میں متقی ہیں۔‘‘
اس آیت ِ مبارکہ کو آیۃ البر کا نام دیا گیاہے، اس  میں نیکی کی حقیقت اور نیکی کے مظاہر بیان فرما ئے گئے ہیں۔ جو انسان اس آیت میں بیان کیے گئے معیار پر پورا اترے وہی حقیقت میں نیک اور سچا ہے۔’’ نیکی کی جڑ اور بنیاد ایمان ہے ۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان یعنی نیکی صرف اللہ کےلیے اور آخرت پر ایمان یعنی نیکی کااجر صرف آخرت میں مطلوب ہو، اور رسالت پر ایمان یعنی نیکی کے لیے نمونہ رسول اللہ ﷺ کی ذات ِ مبارکہ ہے۔ اس کے بعد نیکی کے مظاہر میں انسانی ہمدردی ہے، اگر یہ نہیں ہے تو نیکی کا وجود نہیں ہے۔ عبادات کے انبار لگے ہوں مگر دل میں شقاوت ہو، انسان کو حاجت میں دیکھ کر دل نہ پسیجے ، کسی کو تکلیف میں دیکھ کر تجوری کی طرف ہاتھ نہ بڑھے، حالانکہ تجوری میں مال موجود ہو، تو یہ طرز عمل دین کی روح سے بالکل خالی ہے۔ سورۃ آل عمران آیت 92 میں الفاظ آئے ہیں :  {لَــنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط}’’ تم نیکی کے مقام کو پہنچ ہی نہیں سکتے جب تک کہ خرچ نہ کرو اس میں سے جو تمہیں محبوب ہے۔‘‘پھر نماز اور زکوٰۃ کا ذکر آیا تاکہ ایمان تازہ رہے،پھر ایفائے عہد کا ذکرآیا اور آخر میں راہِ حق میں آنے والی مصیبتوں کو برداشت کرنا  اور میدان کارزار میں اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کا مقابلہ صبر کے ساتھ کرنا یہ صادقین کی صفات ہیں۔‘‘  
( البقرۃ :  177،ماخوذ:بیان القرآن، از ڈاکٹر اسرار احمد ؒ)
ہمیں بھی مندرجہ بالاجامع صفات کے حامل صادقین کی صحبت اختیار کرنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور محبوب بندوں میں سے ایک طبقہ صالحین کا ہے۔ صالحین کے نام سے ظاہر ہے کہ ان افراد کی زندگی اعمالِ صالحہ سے عبارت ہوتی ہے۔ وہ بطورِ عادت خواہشاتِ نفس کی بجائے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکے احکامات کی پیروی کرتے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
’’اور جو کوئی اطاعت کرے گا اللہ کی اور رسولﷺ ‘ کی تو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہیں معیت حاصل ہو گی اُن کی جن پر اللہ کا انعام‘ہوا‘یعنی انبیاء کرام‘ صدیقین‘ شہداء اورصالحین۔ اور کیا ہی اچھے ہیں یہ لوگ رفاقت کے لیے۔‘‘ (النساء:69)
علامہ رازی ؒنے تفسیرِ کبیر میں صالحین کی تعریف یہ کی ہے کہ وہ شخص جو اپنے عقائد واعمال کے لحاظ سے در ستگی پر(یعنی  اس کا عقیدہ اور عمل ٹھیک ) ہو۔
تفسیر ِعثمانی میں اس کی تشریح یوں کی گئی ہے کہ صالح اور نیک بخت وہ ہیں کہ جن کی طبیعت نیکی ہی پر پیدا ہوئی ہے، اور بری باتوں سے اپنے نفس اور بدن کی اصلاح اور صفائی کرچکے ہیں۔
 دوست کس کو بنائیں؟ 
دوست بنانے میں انسان بعض دفعہ غلطی کر لیتا ہے۔  بقول شاعرؔ؎ ’’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا‘‘
نبی کریم ﷺ نے دوست بنانے میں احتیاط کی تلقین کی ہے۔ کیونکہ آدمی دوست کی عادتوں ا ور طرز زندگی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا’’ آدمی اپنے دوست کے دین (طریقہ) پر ہوتا ہے لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔‘‘( امام ابو داؤد و ترمذی)
دوست کی صحبت سے انسان کس طرح متاثر ہوتا ہے نبی کریم ﷺ نے اس کی مثال یوں بیان فرمائی ہے:
’’نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال ان دو شخصوں کی طرح ہے جن میں سے ایک کستوری اٹھائے ہوئے ہو اور دوسرا بھٹی جھونکنے والا ہو۔ کستوری اٹھانے والا تجھے مفت خوشبو دے گا یا تو اس سے خرید لے گا ورنہ کم از کم تو اس کی خوشبو اور مہک تو سونگھ ہی لے گا اور بھٹی جھونکنے والا یا تیرے کپڑے جلا دے گا یا اس کا بدبودار دھواں تجھے تنگ کرے گا ۔‘‘(رواہ المسلم )
حضرت ابو سعید خدری ؒ سے روایت ہے : ’’رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ: صرف مومن کی صحبت اختیار کرو اور تیرا کھانا متقی کے سوا کوئی نہ کھائے۔‘‘   (الترمذی)
صحبت صالح کیسے حاصل ہو ؟ 
حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں: ’’اگر تم میں سے کسی کا ارادہ صادقین کی معیت وصحبت اختیار کرنے کا ہو تو دو کام کرو، تم کو صادقین کی معیت نصیب ہوجائے گی۔ 1:- دنیا میں رہ کر زہد اختیار کرو،2:-اہلِ دنیا سے اپنے آپ کو بچاتے رہو۔‘‘ (ابن کثیر، ج:4، ص:399)
صحابہ کرام ؓ نبی کریم ﷺ کے صحبت یافتہ تھے ۔ آپ ﷺ کی صحبت نے ان کی زندگیوںمیں انقلاب پیدا کردیا ۔ ان کے دن رات بدل گئے ان کی مجلسیں بدل گئیں، اخلاق بدل گئے۔ اس دنیا کے بارے میں ان کا نظریہ بدل گیا ان کو زندگی سے زیادہ موت عزیز ہوگئی، دنیا کے مقابلےمیں آخرت ان کی ترجیح بن گئی ۔ 
آ ج جس ماحول میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں۔ اور جو آلات ہمارے زیرِ استعمال ہیں خاص طور پر انٹر نیٹ اور موبائل کی بدولت جو مواصلات میں انقلاب آیا اس نے انسان کے فکرو عمل کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر گمراہ کن نظریات کی بھر مار ہے ۔الحاد و مادہ پرستی کے علمبردار عوام الناس خاص طور پر نوجوان نسل کو شکار کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بے حیائی او ر فحاشی پر مبنی اخلاق سوز ویڈیوز عام ہیں۔ سوشل میڈیا کی بھی ایک صحبت ہے۔ جس طرح برے دوستوں کی مجلس کے اثرات انسان پر مرتب ہوتے ہیں اسی طرح سوشل میڈیا بھی انسان کو متاثر کرتاہے۔
اپنی فکری اور عملی و اخلاقی تعمیر کے لیے ہمیں اچھی صحبت کی ضرورت ہے۔ اہل علم کی مجلس، نیک و متقی لوگوں کی صحبت ،درس ِقرآن کی مجالس میں باقاعدگی سے شرکت، دروسِ حدیث میں شرکت ،دینی مجالس میں شرکت، صحبت ِ صالح کا بہترین ذریعہ ہیں ۔ ہم نظریہ وہم فکر لوگوں سے میل ملاقات بھی اس کا ذ ریعہ ہے۔ پھر ایسی کتابیں جن میں نبی کریم ﷺ کے شمائل و سیرت اور صحابہ کرام j کی سیرت کا بیان کیاگیاہے ان کے مطالعہ سے بھی  انسان  کے ایمان و عمل میں اضافہ ہوتا ہے۔   
نیک لوگوں سے ملاقات کو جانا اتنااہم اور محبت افزا ہے کہ احادیث میں خود اس عمل کو باعث ثواب بتایا گیا ہے ۔
سیدنا معاذ بن جبلhسے روایت کرتے ہیں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میری محبت واجب ہوگئی ان لوگوں کے لیے جو باہم میری وجہ سے محبت کرتے ہیں ، اور میری وجہ سے باہم مل بیٹھتے ہیں اور میری وجہ سے ایک دوسرے کی ملاقات کو جاتے ہیں اور میری وجہ سے باہم ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔ ‘‘  (موطا امام مالک)
صحابہ کرامj باہمی ملاقات کاخاص اہتمام کیا کرتے تھے ۔سیدنا عبد اللہ بن مسعود hکہتے ہیں: ’’ ہم جب اپنے کسی بھائی کو غائب پاتے تھے تو ہم اس کے پاس آتے تھے اور وہ ایسے کہ اگر خدانخواستہ وہ بیمار ہوتاتھا تو اس کی عیادت کے لیے اور اگر وہ کسی کام میں مصروف ہوتا تو اس کی مدد کے لیے اور اگر ان میں سے کوئی بات نہ ہوتی تو ویسے ہی اس کی ملاقات کو آجاتے تھے۔
نبی کریم ﷺ نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود ؓ کو اپنے بھائی اور دوست کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ـ:’’ پس اگر وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کو جاؤ  اگر اسے کوئی ضرورت لاحق ہو تو اس کی مدد کرو اوراگر کہیں وہ باہر گیا ہو تو اس کے اہل وعیال کا خیال رکھو۔‘‘