الہدیٰ
قیامت کے دن جھوٹے معبودوں اور اُنہیں پوجنے والوں کی حالت ِ زار
آیت 74{وَیَوْمَ یُنَادِیْہِمْ فَیَقُوْلُ اَیْنَ شُرَکَآئِ یَ الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ74} ’’اور جس دن وہ انہیں پکارے گا اور پوچھے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم لوگوں کو زعم تھا؟‘‘
آیت 75{وَنَزَعْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیْدًا} ’’اور ہم نکالیں گے ہر اُمّت میں سے ایک گواہ‘‘
جو پیغمبر جس قوم کی طرف مبعوث کیا گیا ہو گا وہ قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں استغاثہ کا گواہ (prosecution witness) بن کرگواہی دے گا کہ اے اللہ! تیری طرف سے جو ہدایت مجھ تک پہنچی تھی میں نے وہ اپنی قوم تک پہنچا دی تھی۔
{فَقُلْنَا ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ}’’ پھر ہم کہیں گے کہ تم اپنی دلیل پیش کرو!‘‘
پھر متعلقہ اُمّت سے پوچھا جائے گا کہ اب تم لوگ بتائو تمہارا کیا معاملہ تھا؟ ہمارے رسول نے تو گواہی دے دی ہے کہ اُس نے میرا پیغام تم لوگوں تک پہنچا دیا تھا۔ اب اس سلسلے میں تمہارا کوئی عذر ہے توپیش کرو۔
{فَعَلِمُوْٓا اَنَّ الْحَقَّ لِلہِ} ’’تو وہ جان لیں گے کہ حق تو اللہ ہی کی طر ف ہے‘‘
انہیں یقین ہو جائے گا کہ وہ عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں۔
{وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(75)} ’’اور گم ہو جائے گاان سے وہ سب کچھ جو افتراوہ کرتے رہے تھے۔‘‘
جب دوسری دنیا میں ان کی آنکھ کھلے گی تو ان کے خود ساختہ عقائد‘مَن گھڑت معبودوں کے بارے میں ان کے خوش کن خیالات وغیرہ سب ان سے گم ہو چکے ہوںگے اور اس کیفیت میں عذاب کو دیکھ کر ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ جائیں گے۔
درس حدیث
نیکی اور گناہ؟
عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ ؓ قَالَ سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ عَنِ الْبِرِّ وَالْاِثْمِ؟ فَقَالَ : ((اَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالْاِثْمُ مَا حَاکَ فِی الصَّدْرِ وَکَرِہْتَ اَنْ یَّطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ)) (رواہ مسلم)
حضرت نواس بن سمعان ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے ’’نیکی اور گناہ‘‘ کا مفہوم دریافت کیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’نیکی‘‘ اچھے اخلاق کو کہتے ہیں اور ’’گناہ‘‘ یہ ہے کہ اس سے تیرے ضمیر میں چبھن اور خلش پیدا ہو اور لوگوں کا اس پر مطلع ہونا تجھے ناگوار ہو۔‘‘
تشریح:نیکی یہ ہے کہ آدمی ہر ایک سے خندہ پیشانی سے پیش آئے، گفتگو میں سنجیدگی اور وقار کو ملحوظ رکھے،ہمیشہ سچی اور کھری بات کہے‘ غصے پر قابو پائے، ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرتا رہے۔ وہ شخص قطعاً نیک نہیں ہے جس کے اخلاق اچھے نہ ہوں اور کردار مشکوک ہو۔
گناہ کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کے لیے حضورﷺ نے دو بڑی نشانیاں بیان فرما دی ہیں: پہلی نشانی یہ ہے کہ اس سے دل میں اطمینان نہ ہو بلکہ اس کے کرنے سے کھٹک پیدا ہو‘ ضمیر چبھن محسوس کرے۔دوسری نشانی یہ ہے کہ اسے علانیہ کر گزرنے کی جرأت نہ ہو اور چاہا جائے کہ یہ بات لوگوں کے علم میں نہ آئے۔