اداریہ
خورشید انجم
اسرائیل اور امریکہ کی سب سے بڑی غلط فہمی....
حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار بھی آخری سانس تک جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہوئے شہید ہو کر بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہو چکے ہیں۔ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّــآ اِلَـیْہِ رٰجِعُوْنَ!
اطلاعات کے مطابق اسرائیلی ٹینکوں نے گولہ باری کرکے اُن کی رہائش گاہ کو مسمار کردیا۔ صہیونی افواج کا خیال تھا کہ سنوار اِس گولہ باری سے شہید ہوچکے ہیں، تصدیق کے لیے ایک منی ڈرون کیمرے کو بھیجا گیا تو اُنہیں زخمی حالت میں دیکھا گیا۔ یحییٰ سنوار نے ڈرون کو گرانے کے لیے اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی سے اُس ڈرون کو گرانے کی کوشش بھی کی ۔اِس کے بعد مزید گولہ باری کرکے اُنہیں کچھ اِس طرح سے شہید کیا گیا کہ اُن کی شناخت کے لیے باقاعدہ ڈی این ٹیسٹ کرانا پڑا۔
بطور سربراہ حماس اُن کا دور بہت ہی مختصررہا ہے۔ اُنہیں 7 اکتوبر کے ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کا ماسٹر مائنڈ بھی کہا جاتا رہا کیونکہ غزہ کی حالیہ جنگ یحییٰ کاہی منصوبہ تھی اورغزہ میں جنگی پوزیشنوں کے درمیان وہ بڑی ثابت قدمی سے آگے بڑھ رہے تھے۔اسماعیل ہنیہ کی دورۂ ایران کے دوران ایک دھماکے میں شہادت کے بعد وہ اس منصب پرنامزد ہوئے تھے ۔یہ حقیقت ہے کہ گوریلا جنگ کے حوالے سے وہ انتہائی تجربہ کار مجاہد تھے ۔اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ اُنہوں نے اسرائیلی عقوبت خانوں میں گزارا ۔سنوار شہیدکا مکمل نام یحیی ابراہیم حسن سنوار ہے ۔وہ 1962ء میں مصر کے زیر اقتدار غزہ کے خان یونس پناہ گزین کیمپ میں ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے تھے، جسے 1948ء کی فلسطینی جنگ کے دوران عسقلان سے نکال دیا گیا تھا یا کچھ لوگ وہاں سے از خود نکل گئے تھے ۔ اُنھوں نے اپنی تعلیم غزہ کی اسلامی جامعہ سے مکمل کی، جہاں سے اُنہوں نے عربی علوم میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ مقامی عربی کے علاوہ، عبرانی پر بھی عبور رکھتے تھے جو اُنھوں نےدورانِ قیدسیکھی۔اِس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی ثقافت پر بھی وہ وسیع علم کے حامل تھے ۔ سنوار حافظ قرآن بھی تھے۔ 1989ء میں دو اسرائیلی فوجیوں اور چار فلسطینی مخبروں کے اغوا اور قتل کا منصوبہ بنانے کے الزام میں، سنوار کو اسرائیل نے چار بار عمر قید کی سزا سنائی تھی۔جیل میں انسانیت سوز اذیتیں برداشت کیں۔ 22 سال کے بعد اُن کی رہائی ایک سو چھبیس دیگر فلسطینی قیدیوں کے ہمراہ 2011ء میں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے میں ممکن ہوئی۔ دورانِ قید اُنہیں اسرائیلی ذہنیت اوراسرائیلی زبان عبرانی سیکھنے اور سمجھنے کابخوبی موقع ملا۔ جیل میں گزرا ہر دن اُنہوں نے اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی میں ہی گزارا۔
اسرائیلی فوج اور میڈیا کا دعویٰ تھا کہ سنوار عام شہریوں کے بیچ چھپ کر اُنہیں ڈھال کے طور استعمال کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حماس کی سربراہی کی ذمہ داری ملنے کے بعد وہ منظر عام پر کبھی آئے ہی نہیں اور کہا جاتا تھا کہ وہ غزہ کے نیچے سرنگوں میں موجودتھے۔ اُن پر جس طرح سے حملہ کیا گیا ہے،یہ پروپیگنڈا بھی بے نقاب ہو گیا کہ وہ عام شہریوں کے بیچ میں چھپے ہوئے نہیں تھے اور نہ انہیں بطور ڈھال استعمال کر رہے تھے۔یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو فلسطینیوںکی مکمل نسل کُشی چاہتا ہے مگر یحییٰ سنوار نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں دشمن کی ناکامی کی تصویر دنیا کو دکھا دی۔یہی وجہ ہے کہ اب نیتن یاہو نے اس جنگ کا نام بدل کر آرمیگاڈان (جنگ ہرمجدون) یعنی ’’قیامت کی جنگ‘‘ رکھ دیا۔چند روز قبل اسرائیل کی صہیونی حکومت کے چینل 12 نے اطلاع دی ہے کہ نیتن یاہو نے کابینہ کے متعدد وزراء کو فوری مشاورت کے لیے اپنے دفتر میں بلایااور اُنہیںاطلاع دی کہ جنگ کا نام ’’آہنی تلوار‘‘ سے بدل کر ’’قیامت کی جنگ‘‘ رکھا جارہا ہے۔واضح رہے کہ جنگِ ہرمجدون وہی جنگ ہے جو عہدِ قدیم و جدید اور اسلامی روایات کے مطابق حضرت مہدیؑ کے تشریف لانے کے بعد مسلمان اُن کی معیت میں یہود و نصاریٰ کے خلاف لڑیں گے۔ اور اس جنگ میں لاکھوں اور کروڑوں نہیں بلکہ اربوں لوگ جاں بحق ہو جائیں گے۔ اسلامی روایات میں اس جنگ کو الملحمتہ العظمیٰ اور الملحمتہ الکبریٰ کہا گیا ہے۔
اسرائیل اور امریکہ یحییٰ سنوار کی شہادت کو اپنے لیے بڑی کامیابی خیال کررہے ہیں اور سنوار کا قتل غزہ میں ’’انصاف کا لمحہ‘‘ اور ’’امن کا راستہ‘‘ تلاش کرنے کا ایک موقع قرار دے رہے ہیں جبکہ حال یہ ہے کہ غزہ کا ہر بچہ یحییٰ سنوار کی طرح چھڑی ہاتھ میں لیے اور منہ پر کپڑا باندھے یحییٰ سنوار بنا ہوا ہے۔ یہ اسرائیل اور امریکہ کی سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں مجاہدین کی کوئی کمی نہیں۔حماس جس طرح فلسطین میں ارضِ مقدس اور مسلمانوں کی جنگ لڑ رہی ہے، وہ معمولی یا آسان کام نہیں ۔ وہ اپنے قیام سے لے کر آج تک ہزاروں جانوں کی قربانی دے چکے ہیں ۔ 7اکتوبر 2023ء کو شروع ہونے والے طوفان الاقصیٰ میں ہی اب تک 43 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں17ہزار سے زائد بچے اور 13 ہزار سے زائد خواتین شامل ہیں۔ حماس یہ جنگ بے سروسامانی کے عالم میں دنیا کی سب سے مضبوط اور طاقتور افواج کے خلاف لڑ رہی ہے۔کئی غیر مسلم ریاستوں اور حکمرانوں نے حماس کے ساتھ یکجہتی نہیں تو حمایت ضرور کی ہے لیکن یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ ایران اوریمن کے سوا کسی مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ارضِ مقدس کی حفاظت کی جنگ میں حماس کے کندھے سے کندھا ملاکر چلنا تو دور کی بات، اُن کے پیچھے ہی کھڑے نظر آجائیں۔ فلسطینی عوام کی قوت اور عزم قابل تعریف ہے کہ فلسطینی عوام تاریخ کے ایک نازک ترین موڑ پر کھڑے ہیں اور اُن کی استقامت اورحوصلہ مندی سے دشمن کی سیکیورٹی اور دفاعی صلاحیتیں کمزور ہورہی ہیں۔
صہیونی ریاست جس بات کو اپنی کامیابی خیال کررہی ہے، دراصل وہ دنیا بھرکی تمام آزاد قوموں کے درمیان اس کی بھرپور بدنامی ہے۔حماس کے قیام کی سالگرہ کے موقع پر ہونے والی ایک ریلی میں چالیس ہزار سے زائد افراد سے خطاب کرتے ہوئے بانی رہنما شیخ احمد یاسین شہید نے 2025ء تک اسرائیل کے صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کی پیش گوئی کی تھی۔آج اسرائیل بوکھلاہٹ میںایسے فیصلے کررہا ہے جو بظاہراور فوری طور پر تو اُس کے حق میں جاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں جبکہ حقیقت میں اِس کے برعکس ہیں ۔
اِس میں شک نہیں کہ غزہ کے مسلمان ایک غیر متوازن جنگ لڑرہے ہیں، جہاں دشمن ایک مجرم کی طرح بے دریغ ہر قسم کے جرائم کئے جا رہا ہے اور اس کے مقابلے میں مجاہدین وطن کے ہر کونے میں بہادری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور طویل اور تکلیف دہ جنگ کوجاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ اُن کا یہی عزم اُنہیں کامیابی کی طرف لے کر جارہا ہے۔اللہ کی راہ میں جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہوئے موت کی آرزو تو ہر شخص ہی کرتا ہے مگر یہ اعزاز سب کو نہیں ملتا اور جس کو بھی یہ اعزاز مل جاتا ہے وہ اپنے ساتھیوں سے مبارک بادیں وصول کرتا ہے۔
سرِدست جنگی مجرم نیتن یاہو اپنی تقریروں میں نہ صرف غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں بسنے والے مسلمانوں کا صفایا کرنے کی دھمکی دے رہا ہے بلکہ واشگاف الفاظ میں یہ اعلان دہرا رہا ہے کہ حماس کے قائدین کو دیگر ممالک میں بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ نیتن یاہو کی جانب سے ریاستی دہشت گردی کے اس کُھلم کُھلا اظہار پر مغربی ممالک میں موجود صہیونی غلام تالیاں پیٹ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یحییٰ سنوار نے ہزاروں دیگر فلسطینی مسلمانوں کی طرح مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اہلِ فلسطین اپنی شہادتوں کے ذریعے امتِ مسلمہ کی طرف سے جو فرضِ کفایہ ادا کر رہے ہیں وہ انتہائی قابلِ ذکر و قدر ہے۔ سچ پوچھیں تو جہاں اس وقت اہلِ غزہ سخت امتحان سے گزر رہے ہیں تو اُس سے بڑا امتحان باقی امتِ مسلمہ کابھی ہے اور وہ اِس امتحان میں بُری طرح ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ محض نیتن یاہو کو جنگی مجرم کہہ دینے اور زبانی مذمت کر دینے سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ہی اسرائیل کو ظلم اور درندگی سے روکا جا سکتا ہے۔ اگر اب بھی مسلمان ممالک کے حکمران اور مقتدر حلقے فلسطینی مسلمانوں کی مدد کے لیے عملی اقدامات نہیں اٹھاتے تو دنیا کی رسوائی کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی مجرم قرار پائیں گے۔
اللہ تعالیٰ حماس کے تمام عہدیداران اور مجاہدین کو شیخ احمد یاسین، ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی ،اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار جیسے مجاہدینِ اسلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مسجد اقصیٰ کی حفاظت کی اہم ترین دینی ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ تعالیٰ صہیونیوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملائے اور فلسطینی مسلمانوں کو کامیابی و کامرانی عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!