ہمیں اللہ کے دین کے نفاذ سے منہ موڑے ہوئے 77 برس ہوگئے ،
اس پر کوئی سوال نہیں اُٹھا رہا، کئی غیر ضروری معاملات میں
دینی سیاسی جماعتوں کو پریشانی ہو جاتی ہے مگراللہ کی شریعت
پامال ہونے پر انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی، ہمیں اپنے
منفی رویوں پر نظر ثانی کرنے اور حق پر عمل کرکے
اُس کی دعوت دینے کی ضرورت ہے۔
جو لوگ داعی کا کام کررہے ہیں ان کے لیے ڈاکٹر ذاکر نائیک
کا پیغام ہے کہ وہ تہجد اور دعاکا اہتمام ضرورکریں ،
عالم اسلام کے حکمران کتنے معصوم فلسطینی بچوں کی
لاشیں گرنے کا انتظار کر رہے ہیں ۔
رفقائے تنظیم واحباب کے سوالات اور امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے جوابات
میز بان :آصف حمید
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال:تنظیم اسلامی کے سالانہ اجتماع کے انعقاد کا اعلان ہو گیا ہے جو کہ 15 تا 17 نومبر کو ان شاء اللہ بہاولپور میں ہوگا ۔ سالانہ اجتماع کا انعقاد کیوں ضروری ہے ، اس کی کیا افادیت ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی: تنظیم اسلامی کے نظم میں ہفتہ وار اجتماعات بھی ہوتے ہیں ،ماہانہ ، سہ ماہی ، ششماہی اجتماعات بھی ہوتے ہیں ، حلقہ قرآنی ، دروس قرآن اور خطبات جمعہ کا اہتمام بھی ہوتا ہے ۔ اسی طرح رمضان میں دورہ ترجمہ قرآن ہوتاہے ، خلاصہ ٔمضامین قرآن کے پروگرامز ہوتے ہیں ۔ پھر رفقاء کے لیے مختلف لیولز کے تربیتی پروگرامز ہوتے ہیں ۔ ان سب اجتماعات اور کورسز کا بڑا مقصد تربیت اور یاددہانی ہوتا ہے ۔ سالانہ اجتماع کسی بھی دینی اجتماعیت اور تحریک کے لیے بہت اہم موقع ہوتا ہے جس میں دنیا بھر سے رفقاء اور احباب شرکت کرتے ہیں۔ایک ہی فکر ، نظریہ اور مشن سے جُڑے ہوئے لوگوں کو ایک دوسرے سے تعارف کا موقع ملتا ہے ، فکر اور نظریہ کی آبیاری ہوتی ہے ۔ پھر یہ کہ اس میں تربیت کا ایک پہلو بھی ہوتاہے کہ بندہ اللہ کی راہ میں گھر سے نکلتا ہے ، سفر کی تکلیفیں اور مشقتیں جھیلتا ہے ، گھر سے دور رہتا ہے ، اللہ کی راہ میں اپنا وقت ، پیسہ ، صلاحیتیں صرف کرتاہے تو اس کا اجر و ثواب بھی اُس کو ملتا ہے۔ تنظیم کے قائدین اور سینئر لوگوں کے خطبات سننے کا موقع ملتا ہے جس سے تنظیمی فکر اور منہج کا اعادہ ہوجاتاہے ،حالات حاضرہ کے بارے میں آگاہی حاصل ہوتی ہے کہ موجودہ عالمی حالات کیا ہیں اور ان کے تناظر میں ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے ، ہمیں کن مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے ۔ ان حالا ت میں بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داریوں کا ہمیں پتا چلتا ہے ۔ دوردراز سے آئے ہوئے رفقاء و احباب کی دینی جدوجہد اور تجربات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے اور دینی جذبہ اور جوش بڑھتا ہے۔اسی طرح بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے خطاب ملٹی میڈیا کے ذریعے اور پینل ڈسکشن کی صورت میں اہم موضوعات پرماہرین کی گفتگو سننے کا موقع ملتا ہے ۔ بہت سارے رفقاء و احباب ہوتے ہیں کہ سال بھر نجی مصروفیات میں مشغول رہ کر اُن کا تنظیمی فکر اور جذبہ مانند پڑ جاتاہے لیکن سالانہ اجتماع میں شرکت کی وجہ سے ان کا جذبہ تازہ ہو جاتاہے۔ آپ کے توسط سے یہ پروگرام کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ رفقاء اور احباب ذہنی طور پر اجتماع میں شرکت کے لیے تیار ہو جائیں ، جو تیاری کرنی ہے وہ کرلیں اور اپنے اپنے اداروں سے جنہوں نے رخصت لینی ہے وہ لے لیں تاکہ وقت پر کسی دقت اور پریشانی کا سامنا نہ ہو ۔
سوال: تنظیم اسلامی کےسالانہ اجتماع میںشرکت کے لیے ہم عوام الناس کو دعوت عام نہیں دیتے ۔ اس کے پیچھے کیا حکمت ہے؟
امیر تنظیم اسلامی: عوام الناس کےلیے ہم احباب کا لفظ استعمال کرتے ہیں یعنی وہ لوگ جو ڈاکٹر اسراراحمدؒ سے لگاؤ رکھتے ہیں ، تنظیم اسلامی سے محبت رکھتے ہیں ، اس کے منہج اور فکر کو پسند کرتے ہیں ۔ بنیادی بات یہ ہے کہ سالانہ اجتماع میں زیادہ اہتمام تنظیمی منہج اور فکر کی آبیاری اور یاددہانی کے حوالے سے ہوتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ رفقاء کی فکر اور ان کا جذبہ تازہ ہو جائے۔ جہاں تک احباب کا تعلق ہے تو پورے سال میں جہاں جہاں بھی ہمارے اجتماعات ہوتے ہیں ، دروس قرآن ہوتے ہیں ان میں وہ شرکت کرتے ہیں اور ہم ان کو دعوت بھی دیتے ہیں ۔ سالانہ اجتماع میں شرکت کے لیے بھی ہم احباب کو دعوت دیتے ہیں اور ہر اجتماع میں احباب شریک بھی ہوتے ہیں لیکن وہ قریبی احباب ہوتے ہیں جن تک تنظیم کی دعوت پہنچ چکی ہوتی ہے ۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ وہ اجتماع میں شرکت کرکے تنظیم کے فکر اور مشن کومزید سمجھیں اور پھر ایک قدم آگے بڑھ کر تنظیم میں شمولیت بھی اختیار کریں۔ البتہ چونکہ سالانہ اجتماع میں خواتین کے لیے کوئی انتظام نہیں ہوتا اس لیے ہم خواتین کو دعوت نہیں دیتے ۔ تاہم لوکل سطح پر اجتماعات میں خواتین بھی شرکت کرتی ہیں جہاںشرعی پردے کا انتظام ہوتاہے۔ جہاں تک اجتماعی دعا کا معاملہ ہے تو آخری دن دعا کے موقع پر حاضری اپنے عروج پر ہوتی ہے کیونکہ اجتماعی دعا کا موقع کبھی کبھی ملتا ہے ۔ خاص مواقع پر اجتماعی دعا بھی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے تاہم اس کو ٹرینڈ بنا کر ہم نے پروموٹ نہیں کرنا ۔
سوال:سالانہ اجتماع میں شرکت کے لیے آپ رفقاء کو ترغیب و تشویق کے لیے کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
امیر تنظیم اسلامی: رفقائے تنظیم کو معلوم ہے کہ سالانہ پلانر کے مطابق بحیثیت امیر تنظیم میرا دورہ ہر حلقہ میں دو مرتبہ ہوتا ہے ۔ ایک مرتبہ تنظیمی امور کے اعتبار سے اور ایک مرتبہ دعوتی امور کے اعتبار سے۔ وہاں رفقائے تنظیم سے عرض کیا کرتا ہوں کہ دیکھیں ! ابھی تو میں خود آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ کا دیدار کر سکوں، ملاقات بھی ہو جائے ،گفتگو بھی ہو جائے، افہام و تفہیم بھی ہو جائے، سوال و جواب بھی ہو جائیں، بیعت ِمسنونہ کا بھی اہتمام ہو جائے۔ اب میری خواہش ہوگی کہ ہم ایک دوسرے کا دیدار سالانہ اجتماع میں بھی کریں۔ امیر کی اس خواہش کو یہیں تک رکھ لیںتوکفایت کرجائے گا۔البتہ وہ رفقاء جن کو ہم ملتزم رفقاء کہتے ہیں اور انہیں اچھی طرح معلوم ہےکہ:
فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ
چاہے مشکل ہو یا آسانی ہو، طبیعت چاہےیا نہ چاہے ، میں نے حکم ماننا ہی ماننا ہے۔لہٰذا ملتزم رفقاء کو صرف اتنی یاددہانی کہ سمع وطاعت فی المعروف کی بیعت کو ذہن میں لے آئیے تو پھر یہ سوال نہیں آئے گا۔ بہرحال امید ہے کہ رفقاء میری اس خواہش کا لحاظ رکھتے ہوئے حتی الامکان پہنچیں گے ۔ ان شاء اللہ ۔ ماسوائے اس کے کہ کوئی عوارض کا معاملہ ہو یا خدانخواستہ کوئی ایمرجنسی کی بات آجائے۔ اس کے علاوہ ہم سب پلان بھی کریں اور دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ آسانیاں اور توفیق عطا فرمائے ۔
سوال: تنظیم اسلامی ڈاکٹر ذاکر نائیک کے سرکاری دورۂ پاکستان کو کس نظر سے دیکھتی ہے۔ خاص طور پر ان حالات میں جبکہ ملک کے اندر آئین کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟(ابیر صاحب، رفیق تنظیم اسلامی نارتھ سرکل)
امیر تنظیم اسلامی: حکومتیں نہ جانے کن کن لوگوں کو کن کن مقاصد کے تحت بلاتی رہتی ہیںلیکن اگر اللہ کے کسی نیک بندے کو کوئی حکومت بلائے جس سے اللہ تعالیٰ دین کی خدمت کا کام لے رہا ہو تو ہمیں اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک سے اللہ نے دین کا جو کام لیا ہے بہت کم لوگوں کے حصے میں یہ قبولیت آتی ہے ۔ خاص طور پر تقابل ادیان کا علم اللہ نے ان کو عطا کیا ہے اور وہ پورے وثوق کے ساتھ دنیا کے سامنے دین کی دعوت پیش کرتے ہیں جس کو قبول کرتے ہوئے لاکھوں لوگ اسلام لا چکے ہیں ۔ یہ بہت بڑی سعادت کی بات ہے اور اس دور میں ایسے افراد کا اُمت میں موجود ہونا نعمت سے کم نہیں ہے۔ لہٰذا ہم ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کو دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے مزید خیر کا کام لے اور ان کو بلانے پر ہمارے حکمرانوں کو بھی اللہ تعالیٰ اجر دے ۔ جب ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کا پاکستان کا دورہ طے ہوگیا تو میں نے ان کے آنے سے دو ہفتے قبل اپنے خطاب میں ان کا خیر مقدم کیا اور لوگوں کو توجہ بھی دلائی ۔ پھر ان سے گورنر ہاؤس کراچی میں ملاقات بھی ہوئی ۔ تنظیم کی طرف سے ایک پریس ریلیز بھی جاری کی گئی ۔ جہاں تک ملک کے اندر آئینی تناؤ یا آئین کو بدلنے کی بات ہے تو یہ بحران آج کا نہیں ہے بلکہ آئین کے ساتھ یہ کھلواڑ تو شروع دن سے چلا آرہا ہے ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک یا ملائشیا کے وزیراعظم کے دورے کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اسی دوران سعودی وفد بھی معاہدے کر رہا ہے ۔ اس پر کوئی سوال نہیں اُٹھا رہا۔ اگر کوئی بھانڈ ، اداکار ، مراثی، کافر ، مشرک انڈیا سے آجائے تو کہا جاتاہے کہ امن کا سفیر آرہا ہے ، امن کا پیغام لا رہا ہے ۔ لیکن کوئی اللہ کا موحد بندہ دین کی بات کرنے کے لیے آجائے تو سوالات کھڑے کیے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ 77 برس ہوگئے ، اللہ کے دین کے نفاذ سے منہ موڑے ہوئے ، اللہ اور اس کے رسول ﷺسے جنگ جاری رکھے ہوئے اس پر کوئی سوال نہیں اُٹھا رہا ۔ بے حیائی کے طوفان کو اجازت دے کر اللہ کے غضب کو دعوت دی جارہی ہے اس پر کوئی سوال نہیں اُٹھا رہا ۔ کوئی اداکار، کافر، مشرک شیطانی تہذیب کو پروموٹ کرنے آجائے تو بہت سی دینی جماعتوں کو بھی پریشانی نہیں ہوتی ۔ بہت سے غیر ضروری معاملات میں دینی سیاسی جماعتوں کو پریشانی ہو جاتی ہے مگر اللہ کے احکامات ٹوٹنے پر ، اللہ کی شریعت پامال ہونے پر انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی ۔ ہمیں اپنے منفی رویوں پر نظر ثانی کرنے اور حق پر عمل کرکے اُس کی دعوت دینے کی ضرورت ہے ۔
سوال: ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب ڈاکٹر اسراراحمدؒ کو اپنا استاد مانتے ہیں جس کا انہوں نے اظہار بھی کیا ۔ جب آپ کی ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے تنظیم اسلامی اور انجمن خدام القرآن کے بارے میں کیا نصیحت فرمائی ؟
امیر تنظیم اسلامی:ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب سے میری گورنر ہاؤس کراچی میں ملاقات ہوئی جہاں میں نے انہیں تنظیم اسلامی اور انجمن خدام القرآن کے بارے میں بتایا اور ان دونوں کے تحت قائم اداروں اور ان کے ذریعے دعوتی ترتیب اور پروگرامز کے متعلق بتایا ۔ انجمن خدام القرآن کے تحت کراچی ، لاہور ، فیصل آباد ، جھنگ اور دیگر شہروں میں قرآن اکیڈمیز قائم ہیں جن کے تحت دروس قرآن کا سلسلہ پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے ۔ خطبات جمعہ کا اہتمام ہوتا ہے ۔ حلقہ جات قرآنی قائم ہیں۔ تربیتی کورسز ہوتے ہیں ۔ اسی طرح تنظیم اسلامی کے تحت پورے ملک میں ہما را نظم قائم ہے اور اس کے تحت دعوت دین اور اسلامی نظام کے قیام کے لیے منہج انقلاب نبوی ﷺ کی روشنی میں جدوجہد جاری ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے اس پر خوشی کا اظہار کیا اور ڈاکٹر اسراراحمدؒ ، تنظیم اسلامی اور انجمن خدام القرآن کی کوششوں کو بہت سراہا۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ہم پوری اُمت کو جوڑنے کی بات کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے قرآن کے پیغام کو عام کیا تو اس سے بڑھ کرکس کی بات اُمت کو جوڑنے والی ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عوام الناس میں قرآن کو پڑھنے اور پڑھانے کی روایت کو عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ قرآن کا پیغام سنیں اور سمجھیں اور انہیں ہدایت حاصل ہو ۔ البتہ داعیان دین کے لیے ان کا خصوصی پیغام تھا کہ جو لوگ بھی داعی کا کردار ادا کر رہے ہیں انہیں اللہ سے رجوع کرنے اور اللہ سے تعلق بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ ان کے لیے تہجد کی نماز اور تہجد میں دعا کا اہتمام کرنا بہت ضروری ہے ۔ انہوںنے تنظیم اسلامی کی کوششوں کو بھی سراہا جو خلافت راشدہ کے طرز پر نظام کے قیام کی جدوجہد میں لگی ہوئی ہے۔
سوال: بحیثیت مسلمان ہم پاکستان میں رہ کر فلسطین میں ہونے والے مظالم کو نہیں روک سکتےاور نہ ہی احتجاج کر سکتے ہیں کیونکہ حکومت کے اقدامات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اسرائیل کے بائیں ہاتھ کے طور پر کام کر رہی ہے۔ اس صورتحال میں اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ ہی آخری حل ہے۔ اس سلسلہ میں عوام اور بالخصوص تنظیم اسلامی کیا کردار ادا کر سکتی ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:جہاں تک احتجاج کا تعلق ہے تو اللہ کا شکر ہے کہ لوگ احتجاج کر رہے ہیں ۔ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے پاکستان میں کئی حلقوں نے احتجاج بھی کیے ہیں ، مارچ بھی ہوئے ہیں ، دھرنے بھی دئیے گئے ہیں ، آل پارٹیز کانفرنس بھی منعقد ہوئی ہے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس لحاظ سے ابھی تک پاکستان میں مواقع ہیں ۔ اگرچہ اسلام آباد میں ڈاکٹر مشتاق صاحب اور ان کی اہلیہ کے ساتھ ناانصافیاں ہوئی ہیں جن کی ہم مذمت کرتے ہیں ۔ البتہ ان چند ناخوشگوار واقعات کے علاوہ ہمارے ریاستی ادارے یا حکومتی مشینری رکاوٹ نہیں بنے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کی تحریک پر آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں صدر مملکت اور وزیراعظم نے بھی شرکت کی اس کا اچھا میسج دنیا کو گیا ہے ۔ اگر کسی بھی پارٹی کی جانب سے کوئی خیر کی بات سامنے آئے گی تو ہم اس کا خیر مقدم کریں گے ۔ کچھ ممبران اسمبلی کی طرف سے بھی فلسطین کے حق میں بات کی گئی۔ بہرحال یہ کچھ مثبت اشارے بھی ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ کے حکمرانوں نے مایوس کیا ہے اور سخت بے حمیتی کا مظاہرہ کیا ۔ پاکستان ایٹمی صلاحیت کا حامل مسلم ملک ہے۔ تربیت یافتہ فوج ہے ، میزائل ٹیکنالوجی ہے۔ آخر کتنی لاشیں گرنے کا انتظار ہے ؟ کتنے بچوں کی جانیں جانے کا انتظار ہے ؟وہ فلسطینی بچے جو شہید ہو رہے ہیں وہ کہتے ہیں تمہاری شکایت اللہ کے سامنے ہم لگائیں گے۔ ہمارے حکمران کیا جواب دیں گے؟ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو ہم دعا کرسکتے ہیں ، احتجاج کر سکتے اور زیادہ سے زیادہ مصنوعات کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں اور کر بھی رہے ہیں الحمد للہ ۔ تنظیم اسلامی بھی اس سلسلہ میں مہم چلا رہی ہے ۔ 7اکتوبر 2023ءکے بعد سے ہی تنظیم اسلامی نے مہم کا آغاز کردیا تھا۔ اس کے بعد ہم نے مختلف شہروں میں سیمینارز کا انعقاد کیا ، اپنے خطبات جمعہ میں مسئلہ فلسطین مستقل موضوع رہا ۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام مظاہرے بھی ہوئے ہیں ، سوشل میڈیا پر بھی ہم نے مہم چلائی ہے۔ اسی طرح ہم نے حکمرانوں ، سیاستدانوں ، ممبران پارلیمنٹ ، صحافیوں ، علماء اور مذہبی جماعتوں کو خطوط بھی لکھے ہیں ۔ ہمارے رفقائے تنظیم نے اپنے اپنے علاقوں میں گشت کر کے دکانوں پر جا کر لوگوں کو سمجھایا، ڈیپارٹمنٹل سٹورز کے مالکان کو سمجھایا ۔ کئی دکانداروںنے اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات کی سپلائی لینا ترک کردیا اور کئی ڈیپارٹمنٹل سٹورز کے مالکان نے تین دنوں کے اندر ایسی مصنوعات کا سٹاک تلف کر دیا۔ اس کے علاوہ ہم نے اپنے خطبات میں اور مختلف ذرائع سے عوام کو بھی ترغیب دی ہے کہ وہ اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں ۔
سوال:جس طرح امیر سے ملاقات پروگرام میں امیرمحترم لوگوں کے سوالوں کا جواب عمدہ طریقے سے دیتے ہیں اسی طرح اگر پوڈ کاسٹ کے ذریعے امیر محترم اور آصف حمید صاحب حالات حاضرہ کے موضوعات پر گفتگو کریں ، نوجوان طبقے کے مسائل مثلاً معاشی مسائل، دین سے بے زاری ،ملک سے بےزاری ،الحاد اور مادہ پرستی ، ایمان اور جہاد ،فتنوں سے بچاؤ اور فکر آخرت پر بات ہو تو کیا اس سے تنظیم کے کام میں بہتری نہیں آئے گی ؟(نجی اللہ صاحب ، کراچی)
امیر تنظیم اسلامی: ہمارے اس پروگرام میں یقیناً ملک کے سیاسی حالات پر بھی گفتگو ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ معاشرتی اور اخلاقی پہلوؤں پر بھی گفتگو ہوتی ہے۔انفرادی تربیت اور تعلیم کے معاملات پر بھی بات ہوتی ہے ، بھائی نے جن موضوعات کی طرف توجہ دلائی ہے ، ان کے متعلق سوالات لکھ کر بھیج دیا کریں ، ان شاء اللہ ہم اپنی بساط کے مطابق اس کاجواب دینے کی کوشش کریں گے ۔ انہوں نے پوڈکاسٹ کا ذکر کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دعوت کے لیے جدید ذرائع کو بھی استعمال میں لانا چاہیے البتہ اس حوالے سے جائز اور ناجائز کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے ۔ اسلام آنے سے پہلے کفار اور مشرکین کوہ صفا پر کھڑے ہو کر واصباحا کا نعرہ لگاتے تھے لیکن اعلان کرنے والا اپنے کپڑے اُتار دیتا تھا ۔ اللہ کے پیغمبر ﷺ نے اس دور کے اس میڈیا میں سے شر والا پہلو چھوڑ کر باقی اسی کو استعمال کیا اور کوہ صفا پر کھڑے ہوکر قریش کو دعوت دی ۔ اسی طرح غزوۂ خندق کے موقع پر آپ ﷺنے خندق کھودنے کا جدید طریقہ اختیار کیا ۔ تنظیم اسلامی اسی طریقے پر گامزن ہے ۔ شروع میں جب ڈاکٹر اسراراحمدؒ ٹی وی پر آکر خطاب فرمایا کرتے تھے تو باقی دینی جماعتیں اعتراض کرتی تھیں لیکن آج وہی جماعتیں میڈیا کو استعمال کر رہی ہیں۔اس تجویز کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں ۔ تنظیم سے منسلک پلیٹ فارمز میں ایک پوڈ کاسٹ ’’زمانہ گواہ ہے‘‘ کے نام سے ہفتہ وار منعقد کیا جاتاہے جس میں سینئر رفقاءتنظیم کے علاوہ معروف دانشور اور اہل علم بھی شرکت کرتے ہیں۔ مزید بھی اس پر مشاورت ہورہی ہے کہ ہم قرآن اکیڈمیز کی سطح پر معاشرتی اور اخلاقی پہلوؤں پر گفتگو کریں ۔
سوال:میں نے سنا ہے کہ حضرت نوح ؑ کی اہلیہ غیر مسلم تھی جبکہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ پاک مردوں کے لیے پاک عورتیں اور ناپاک مردوں کے لیے ناپاک عورتیں۔ برائے مہربانی وضاحت فرما دیں؟( جامد بشیر صاحب، مقبوضہ کشمیر )
امیر تنظیم اسلامی:قرآن مجید میں حوالے موجود ہیں کہ حضرت نوح ؑ اور حضرت لوط ؑ دونوں کی بیویاں نافرمان تھیں ، انہوں نے اپنی قوم کا ساتھ دیا اور دونوں جہنم کی آگ میں ہوں گی ۔دوسری طرف قرآن میں یہ بیان بھی موجود ہے :{اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ ج وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ ج }(النور:26)
’’ناپاک عورتیں نا پاک مردوں کے لیے ہیں اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لیے ۔اور پاکباز عورتیں پاکباز مردوں کے لیے ہیں اور پاکباز مرد پاکباز عورتوں کے لیے۔‘‘
یہ ایک حساس موضوع ہے جس پر مفسرین نے بھی کلام کیا ہے ۔ بعض کی رائے ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوط ؑ اور نوح ؑ کی بیویوں نے ان کی بات نہیں مانی لیکن وہ کسی بدکاری یا فحش کام میں مبتلا نہیں تھیں ۔ عقیدے اور فکر کے لحاظ سے انہوںنے اپنی قوم کا ساتھ دیا لیکن کردار کے لحاظ سے ان کا دامن پاک تھا۔ ان کے کردار کے خلاف تاریخ میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ لہٰذا چونکہ وہ کفر اور شرک پر قائم رہیں اس لیے قرآن کے مطابق وہ جہنم میں جائیں گی ۔ سورہ نور کی اس آیت کی تفسیر میں بھی مفسرین کرام نے اس پر بحث کی ہے ۔ اس کا مطالعہ بھی کیا جاسکتاہے ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024