(نقطۂ نظر) کیا خوب ’’ندامت‘‘ کا ہے گویا کوئی دن اور - ایوب بیگ مرزا

9 /

کیا خوب ’’ندامت‘‘ کا ہے گویا کوئی دن اور

ایوب بیگ مرزا

ندائے خلافت کی اشاعت نمبر 36 میں راقم کی ایک تحریر شائع ہوئی تھی جس میں راقم نے چچا غالب سے زیادتی کرتے ہوئے اُن کے ایک مصرعہ کو یوں بگاڑا تھا ’’جاتے ہوئے کہتے ہو لندن میں ملیں گے‘‘ جس’’معزز‘‘ ہستی کے حوالے سے یہ تحریر لکھی تھی، آج 25 اکتوبر بروز جمعۃ المبارک یہ صاحب اپنے منصب کی معیاد پوری کرکے ریٹائرڈ ہو رہے ہیں تو راقم بھی اسد اللہ غالب کے ساتھ مزید زیادتی کرتے ہوئے اُن کے اِس شعر کے دوسرے مصرعہ کو پھر بگاڑنے کے جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے عنوان یوں باندھا ہے کیا خوب ’’ندامت‘‘ کا ہے گویا کوئی دن اور۔ اِسے عیب جوئی کہہ لیجئے یا کچھ کہیں لیں راقم سمجھتا ہے کہ ریاستِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز لوگوں کا خود اپنے منصب سے انصاف نہ کرنا ایک ایسا نا پسندیدہ فعل ہے جو صحیح طور پر عوام کے سامنے آنا چاہیے تاکہ مستقبل میں عوام دھوکہ نہ کھائیں۔
قاضی فائز عیسیٰ نے 17 ستمبر 2023ء میں چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھایا اور پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ کسی چیف جسٹس نے حلف لیتے ہوئے اپنی زوجہ محترمہ کو اپنے ساتھ کھڑا کیا۔ ظاہری طور پر اِس پر اعتراض تو نہیں بنتا لیکن یہ عدلیہ میں پہلی بار ہوا۔ موصوف نے ایک خاص پس منظر میں یہ ریت ڈالی۔ درحقیقت سابقہ ریفرنس کے الزامات کا رخ محترمہ کی طرف تھا تو گویا یہ جوابی کارروائی تھی۔ عاقل را اشارہ بس است۔ ریفرنس کی بات سامنے آئی ہے تو پہلے اِسی کا ذکر کر لیں راقم کی رائے میں اِس حوالے سے عمران خان کا بحیثیت وزیراعظم طرز عمل بھی کس طرح درست نہیں تھا اُس کا وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہو کر یہ کہنا کہ یہ ریفرنس ریٹائرڈ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے قائم کیا تھا میرا تو اِس میں کوئی دخل نہیں تھا مجھے تو قاضی فائز عیسیٰ سے کوئی شکایت نہیں تھی تو گویا آپ ایک بے خبر اور بے بس وزیراعظم تھے۔ ملک کے وزیراعظم کی بے خبری اُس کی نااہلی اور نالائقی شمار ہوگی گویا آپ کان کے اتنے کچے تھے کہ ایک شخص کی بات کی آپ نے تصدیق کیے بغیر آپ نے اتنا بڑا قدم اٹھا لیا۔ پھر اِسے عدالت میں صحیح طور پر لڑا بھی نہ گیا اور سچ جھوٹ ثابت ہوگیا۔
راقم کی ہمیشہ سے رائے ہے کہ کسی کے بھی عہد میں کوئی اچھا یا بُرا کام ہو وقت کے حکمران کو اُس کی ذمہ داری لینی ہوگی۔ عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہو کر یہ بیان شاید اِس توقع پر دیاتھا کہ قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس کی حیثیت سے اُن پر ہاتھ ہولا رکھیں گے لیکن یہ اُن کی غلط فہمی تھی۔ اُن کے اور اُن کی جماعت تحریک انصاف کے ساتھ ایسی ایسی زیادتی اور انتقامی کارروائیاں ہوئیں لیکن موصوف چیف جسٹس نے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا بلکہ یہ بھی کہا جائے تو مبالغہ نہیںہوگا کہ اِس حوالے سے خود اُن سے جو ہو سکا اُنہوں نے کیا۔ قاضی صاحب نے پچاس سالہ پرانے کیس لگائے اور اپنی طرف سے زیادتی کی تلافی کی۔ مثلاً: بھٹو کا کیس جسے عرفِ عام میں جوڈیشل مرڈر کہا جاتا ہے دوبارہ لگا کر انصاف خوب تقسیم کیا لیکن اُن کی آنکھوں کے سامنے جو مظالم ہو رہے تھے جس طرح سیاسی مخالفین کے گھر، کاروبار اور فیکٹریاں برباد کی جا رہی تھیں۔ بیمار بچوں کو بستروں سے گھسیٹ کر زمین پر پٹخا جا رہا تھا۔ چادر اور چار دیواری کی بے حرمتی ہو رہی تھی نوجوان خواتین کی درجن بار ضمانتیں ہوتی تھی اور پولیس جیل کے باہر نیا کیس گھَڑ کر دوبارہ گرفتاری ڈال لیتی تھی اور یہ معاملہ خالصتاً قاضی صاحب کے دائرہ اختیار میں تھا، لیکن اُنہوں نے اِس ظلم و ستم سے منہ پھیر رکھا تھا بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اُن کے کئی فیصلوں سے اِس ظلم و ستم کی پشت پناہی ہوئی۔
موصوف نے فیض آباد کیس میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف فیصلہ دینے پر بڑی نیک نامی کمائی۔ راقم آج بھی اُن کے اِس فیصلے کو سراہتا ہے، لیکن موصوف جب چیف جسٹس بنے تو اُن کا سوفٹ ویئر update ہوگیا۔ وہ سابقہ ججوں کو یہ طعنہ دیتے ہیں کہ اُنہوں نے مارشل لاء پر مہر تصدیق ثبت کی۔ بات بالکل درست ہے لیکن وہ تو کئی کئی سال بعد نظریہ ٔضرورت کے تحت یہ ناپسندیدہ کام کرتے تھے۔ آپ اپنے گزشتہ تیرہ (13) ماہ میں کیے گئے فیصلوں کا جائزہ لیں اکثر پر خاکی مہر ثبت ہوتی واضح نظر آئے گی۔ اور تو اور آپ نے اپنے ہی ادارے یعنی عدلیہ پر حکومتی اور خاکی شکنجہ کَس دینے پر نہ صرف خاموشی اختیار کی ہے بلکہ ’’اُن‘‘ کی بھرپور مدد کی، آپ نے محض ذاتی مفاد میں اپنے گھر پر غیروں کے قبضے کا راستہ ہموار کیا۔ فیض آباد کیس کا فیصلہ دے کر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کے دعوےدار جب چیف جسٹس بنتے ہیں تو فوجی عدالتوں کے کیس میں ایک بنچ بناتے ہیں جس کا فیصلہ اُن کے سرپرستوں کو پسند نہیں آتا تو غیر روایتی طور پر دوبارہ ایک اور بینچ بنا دیتے ہیں اور فیصلہ reverse کر دیا جاتا ہے۔
63A بعض لوگوں کے نزدیک ایک متنازعہ شِق تھی لیکن آپ نے پورا ایک سال اُس کا ذکر ہی نہیں کیا لیکن جب اسٹیبلشمنٹ کو اُسے ختم کرنے کی ضرورت پڑی تاکہ گھوڑوں کی خرید و فروخت آسان ہو سکے تو آپ نے فوراً آگے بڑھ کر اصطبل کا دروازہ کھول دیا بلکہ توڑ ہی دیا۔ ایک سال تک آپ کو اِس نیک کام کا خیال ہی نہ آیا۔
آئینی ترمیم جسے مولانا فضل الرحمٰن نے ووٹ بھی دیا ہے اور کالا ناگ بھی کہا ہے۔ آپ کے عہد کے آخری ہفتہ میں جس طرح اختر مینگل کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینیٹر قاسم رونجو کو ڈائلیسز کراتے ہوئے اٹھایا گیا اور بیٹے کو بھی resist کرنے پر اٹھا لیا گیا۔ سینیٹر نسیمہ احسان نے رو رو کر بتایا کہ پہلے اُن کے بیٹے کو اٹھایا گیا پھر اُن کے شوہر کو اٹھا لیا گیا خاتون سینیٹر نے صاف صاف کہا کہ اُنہیں بچانے کے لیے میرے پاس اِس وقت اور کوئی آپشن نہیں کہ میں ترمیم کے حق میں ووٹ دوں۔ شاہ محمود قریشی کی بہو کو اٹھا لیا گیا اور نہ جانے کیا سلوک کیا کہ اُن کے بیٹے زین قریشی کے بارے میں یہ خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ وہ منحرف ہو رہے ہیں۔ بہرحال ظلم و ستم کا اندھیر قاضی صاحب کے سامنے مچا رہا مگر مجال ہے جو قاضی صاحب کی قاضیت ٹس سے مس ہوئی ہو۔ وہ صرف اُن کیسوں کی صدا لگاتے رہے جن کے بارے میں اُن کی رائے تھی کہ اِن کا فیصلہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے دشمن کے خلاف جا سکتا ہے لہٰذا خصوصی نشستوں کے آٹھ ججوں کے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے قاضی صاحب ایک ہفتہ میں ہی اصرار کرنے لگے لیکن منصفی کا اندازہ کریں 8فروری کے الیکشن کے خلاف پٹیشن کب کی پڑی ہے۔ قاضی صاحب اُس فائل سے گرد جھاڑنے کو تیار ہی نہیں۔ اِس صورتِ حال کو راولپنڈی کے کمشنر بیچارے لیاقت علی چٹھہ کے اقبالی بیان کی روشنی میں دیکھیں۔ چٹھہ صاف انکشاف کرتے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گٹھ جوڑ کر کے الیکشن کے نتائج پلٹ دیئے تھے۔اور اس ساری بدیانتی کے وہ عینی شاہد ہیں کمشنر صاحب اُس دن سے غائب ہیں۔ لہٰذا اُس پٹیشن کے نتیجہ میں قاضی صاحب کس کے خلاف اقدام کریں گے؟
جہاں تک اُس آئینی ترمیم کا تعلق ہے جسے مولانا فضل الرحمٰن سیاہ ناگ قرار دیتے ہیں۔ اور فرماتے ہیں کہ ہم نے اِس ناگ کے زہریلے دانت توڑ دیئے ہیں یہ مولانا کا فیصلہ ہے۔ راقم کی رائے میں زہریلے دانت صحیح طور پر نہیں ٹوٹے۔ ابھی اِس ترمیم میں کافی زہر باقی ہے اور پھر یہ کالے ناگ کے ٹوٹے ہوئے زہریلے دانت دوبارہ بھی اُگ آتے ہیں۔ اِس حوالے سے بھی ریٹائرڈ ہونے والے چیف جسٹس کا بڑا اہم رول ہے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں اُس پر کام تو کئی ماہ سے جاری تھا۔ موصوف چیف جسٹس بھی اُس کو ذہن میں رکھے ہوئے تھے۔ مبارک ثانی کیس کے حوالے سے موصوف کچھ ماہ پہلے اُس قادیانی کے حق میں دو ٹوک فیصلہ دے چکے تھے جس پر عوامی سطح پر عمومی اور مذہبی حلقوں کی طرف سے خصوصی اور بھرپور ردِعمل سامنے آیا۔ جب موصوف کے سامنے اِس کیس پر نظر ثانی کا معاملہ آیا تو اب آئینی ترمیم پر بھی اندر ہی اندر کام کافی تیز ہو چکا تھا۔ یہ بات ظاہر ہو چکی تھی کہ JUI(F) کی رضا مندی کے بغیر آئین میں ترمیم نہیں ہو سکے گی لہٰذا چیف جسٹس (ر) کا رویہ بھی بدل چکا تھا۔ مبارک ثانی کیس کا review موصوف نے لگا لیا اور علماء کرام کو بھی بلا لیا۔ شنید یہ ہے کہ موصوف نے مولانا فضل الرحمٰن کو خصوصی دعوت دی کہ وہ مقررہ تاریخ پر سپریم کورٹ تشریف لائیں اور یہ خبر تو اخباروں میں آ چکی ہے کہ موصوف کے سیکرٹری نے عدالت سے باہر نکل کر مولانا کا استقبال کیا اور اُنہیں بڑا پروٹوکول دیا گیا۔
اُس وقت ترمیم کچھ یوں سامنے آ رہی تھی کہ ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر تین سال بڑھا دی جائے گی اور ایک آئینی عدالت قائم کی جائے گی جس کے موصوف سربراہ ہوں گے۔ لیکن بعد میں ترمیم مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے سیاست دانوں کے مشورہ سے بات یہاں تک پہنچی کہ ریٹائرمنٹ کی عمر نہیں بڑھائے جائے گی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ مولانا ہی نے عمر بڑھانے اور موصوف کو آئینی سربراہ بنانے کی مخالفت کی اگرچہ حالات و واقعات سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ موصوف ترمیم پیش ہونے کے آخری مراحل تک یہ کوشش کرتے رہے کہ عمر بڑھا دی جائے تاکہ اُن کو ایکسٹینشن مل جائے۔ البتہ زبان سے اِس بات سے انکاری تھے۔ سیاست دانوں نے اپنا مفاد دیکھنا تھا کہ کس طرح عدلیہ پر حکومت کا شکنجہ کَسا جا سکتا ہے جب اُن کا یہ مسئلہ حل ہوگیا تو وہ قاضی کو بھول گئے اور قاضی صاحب کا معاملہ خسر الدنیا و الآخرۃ کا ہوگیا۔ بہرحال سیاہ ناگ کے کچھ زہریلے دانت توڑ کر ترمیم کر لی گئی۔ قاضی صاحب نے جس ادارے میں ساری زندگی گزاری اُسی کی جڑیں کھودنے میں کلیدی رول ادا کیا۔ قاضی صاحب کے بارے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اُنہوں نے جسٹس منیر پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ اب نظریہ ضرورت کی ایجاد اور عدلیہ کی بربادی پر کوئی اُن کا نام نہیں لے گا۔ قاضی صاحب نے جاتے جاتے اپنے انتہائی متنازعہ فیصلہ کی نظر ثانی اپیل بھی مستردکردی جو انہوں نے تحریک انصاف کا نشان بَّلا چھینے کا لیا تھاجسے پاکستان کا شاہد ہی کوئی قانون دان یا ماہرِآئین درست قرار دے سکتا ہے گویا قاضی صاحب کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہورہا۔ راقم دعا گو ہے کہ اللہ خود میرے اور قاضی صاحب کے بھی گناہ معاف فرمائے، ہاں البتہ اُن لوگوں کا روزِ قیامت استغاثے کا حق قائم رہے گا جن کا مستقبل اور زندگیاں قاضی صاحب کے فیصلوں کی وجہ سے برباد ہوگئیں۔
راقم کی رائے میں ایک جج کو صحیح معنوں میں جج ہونا چاہیے وہ عدل کو بنیاد بنا کر ہر چیز کو جج کرے۔ ایک زمانہ تھا ٹیلی ویژن تو موجود نہیں تھا لیکن اچھے جج نہ اخبار پڑھتے تھے نہ ریڈیو سنتے تھے تاکہ اُن کا ذہن فیصلہ کرتے وقت کسی خبر سے متاثر نہ ہو جائے۔کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں چیف جسٹس میاں عبدالرشید جیسا جج جو وزیراعظم کی چائے کی دعوت ٹھکرا دیتا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کیس کی سماعت کر رہے تھے، ریٹائرمنٹ والے دن اپنے پین کی سیاہی واپس دوات میں انڈیل گئے کہ یہ حکومت کی امانت ہے۔ اُن کے بعد بھی بعض بڑے اچھے اچھے جج آئے سب کے نام نہیں لکھے جا سکتے۔ جسٹس تنزیل الرحمان بھی فرشتہ سیرت جج تھے جنہوں نے سود کے خلاف ایسا فیصلہ لکھا کہ دنیا جہاں کے سیکولر قانونی ماہرین اپنے ہاتھوں پر دانت کاٹتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عدل کا سب سے بڑا اور حقیقی علمبردار اسلام ہے۔ راقم کئی مرتبہ یہ عرض کر چکا ہے کہ اسلام میں سے عدل نکال دیں تو کچھ نہیں بچتا۔ عدل قوموں کی بقا کا ضامن ہوتا ہے۔ عدل و قسط وہ شاہراہ ہے جو اِس پر قائم رہا جنت اُس کی منزل ہے اور جو اِس سے بھٹک گیا جہنم اُس کا مقدر ہے۔ یاد رکھیے! عدل کا قیام صرف جج کا اختیار نہیں وقت کے حکمرانوں کو وہ ماحول دینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ عدل قائم کر سکیں اگرچہ چہ نسبت خاک را با عالم پاک والی بات ہے۔ حضرت عمرؓ خلیفہ وقت ہیں کسی مقدمہ میں قاضی کے سامنے پیش ہوتے ہیں مدعی بھی حاضر ہوتا ہے۔ قاضی خلیفہ وقت کو نشست پیش کر دیتا ہے۔ حضرت عمرh فرماتے ہیں پہلی ناانصافی قاضی تم نے کر دی صرف مجھے نشست پیش کر دی ہے۔گویا قاضی کو عدل کرنے کے لیے ماحول فراہم کررہے ہیں۔ حضرت علیhبھی قاضی کے سامنے پیش ہوتے ہیں قاضی اُن کے خلاف فیصلہ دیتا ہے لیکن آپ چوں چرا نہیں کرتے لیکن مدعی جانتا تھا کہ حضرت علیؓ سچے ہیں لہٰذا وہ قائل ہی نہیں گھائل بھی ہوگیا۔ لہٰذا حکمرانوں کو بھی عدالتوں کو عدل کرنے کا ماحول دینا ہوگا نہ کہ اُن پر شکنجہ کسنے کے لیے ملکی قوانین میں ترامیم کرنا ہوں گی۔اس پس منظر میں یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ ونسٹن چرچل نے کیوں کہا تھا کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف دے رہی ہیں تو ہمیں شکست نہیں ہو سکتی۔ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کہ عدل کے معمار محسنِ انسانیت رحمت العالمین حضورﷺ نے کیوں فرمایا تھا کہ فاطمہ بنت محمدﷺ بھی خدانخواستہ چوری کرے گی تو اُس کے ہاتھ بھی کاٹنے کا حکم دوں گا۔درحقیقت اسلام اور عدل کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یاد رکھیے! جو معاشرہ عدل سے محروم ہو وہ بالآخر انتشار اور فساد کا شکار ہو جاتا ہے۔