(زمانہ گواہ ہے) مخلوط نظام تعلیم کے معاشرت پر اثرات - محمد رفیق چودھری

9 /

یہ مائنڈ سیٹ اصل میں ہمارے معاشرے کے اخلاقی بانجھ پن

کوواضح کرتاہے کہ ہم بغیر تحقیق کیے کوئی بھی خبر پھیلا

دیتے ہیں ، حکومت سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے

چین کی طرح اپنی Appsتیار کرے :آصف حمید

’’ کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس کا نظامِ تعلیم تباہ کردو ‘‘

ہم اسی عالمی سازش کا شکار بنے ہوئے ہیں :عبدالوارث

بحیثیت مجموعی ہم دیکھیں تو پاکستان کا تعلیمی نظام

مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے:ڈاکٹر محمد عارف صدیقی

مخلوط نظام تعلیم کے معاشرت پر اثرات کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: پنجاب کالج کا اصل واقعہ کیا ہے اورطلبہ و طالبات جو احتجاج اور مظاہرے کر رہے ہیں اس کے اصل محرکات کیا ہیں؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:اس واقعہ میں  مدعی چست اور گواہ سست والا معاملہ ہے۔ جن لوگوں پر الزام لگایا گیا اُنہوں نے بھی اسے مسترد کردیا اور جو الزام لگانے والے تھے وہ بھی یہ کہہ کر پیچھے ہٹ  گئےکہ ہم نے تو کسی سے سنا تھا۔ اس کے بعد پتہ چلا کہ پہلے پہل جتنی بھی خبریں اس حوالے سے سامنے آئیں وہ ایک خاص جماعت کے اکاؤنٹ سے نکلی تھیں۔ پھر اس کی ٹائمنگ بھی دیکھیں ، ایک طرف شنگھائی کانفرنس چل رہی ہے ، اہم ممالک کے صدوراور کئی وفود آئے ہوئے ہیں اور دوسری طرف ملک کو بدنام کرنے کا یہ سارا سلسلہ چل رہا ہے ۔ میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ ہم دجل کے دور میں زندہ ہیں ۔ ہر طرف ڈس انفارمیشن کی اتنی دھند چھائی ہوئی ہےکہ صحیح سمت یا حقیقت نظر ہی نہیں آرہی ۔ اصل معاملہ کیا ہے ہمیں کچھ پتہ نہیں، مگربعد کے تاثرات سے ایسا محسوس ہوتا ہےکہ جیسے یہ کوئی ففتھ جنریشن وار فیئر کا معاملہ تھا اور اس واقعہ کی آڑ میں پورے ملک کو مفلوج کرنا مقصود تھا ۔ پھر اس کالج کی برانچز کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتاہے۔ غالباً منڈی بہاؤالدین کی برانچ میں کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا اور کچھ ایسی خبریںبھی آئیں کہ کوئی گارڈ شدید زخمی ہوا یا مارا گیا ، کئی طلبہ زخمی ہوئے اور کئی کو گرفتار کیا گیا ۔ اس کے بارے میں بھی دو رائے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ احتجاج کر رہے تھے تو پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا۔دوسرا یہ کہ لڑکے گرلز کیمپس میں داخل ہوگئے تھے اس لیے ان پر لاٹھی چارج کیا گیا۔ وہی بات کہ ہم دجل کے دور میں زندہ ہیں ، سمجھ میں نہیں آتاہم کس کی بات مانیں اور کس کی نہ مانیں۔ بہرحال بحیثیت مجموعی ہم دیکھیں تو پاکستان کا تعلیمی نظام مکمل طور پر مفلوج ہو گیا ہے۔ تعلیمی اداروں پر ، ان کے ڈائریکٹرز ، ٹیچرز ، پروفیسرز پر سوال کھڑا ہوگیا ہے۔ کسی زمانے میں شاگرد اُساتذہ کی جوتیاں سیدھی کیاکرتے تھے ، اتنا ادب تھا لیکن اب کیا صورتحال ہے ؟ طلبہ جن اساتذہ اور پروفیسرز کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں ، ان کو گالیاں دے رہے ہیں وہ کس منہ سے طلبہ کے سامنے جائیں گے ۔ 
سوال: دین اسلام ہمیں کسی بھی خبر کی تصدیق کے حوالے سے کیا رہنمائی دیتا ہے؟
آصف حمید: قرآن مجید کی ایک آیت کا حصہ ہے :
{وَ الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ج} (البقرہ:191) ’’اورفتنہ قتل سے زیادہ (سنگین برائی )ہے۔‘‘
 سوشل میڈیا کے اس دور میں یہ آیت بڑی مبرہن ہو کر سامنے آرہی ہے ۔ پنجاب کالج کا واقعہ جب میں نے سنا تو پہلا سوال ذہن میں یہ آیا کہ جس پر بھی الزام ہے اس کو پکڑ کر کالج کی انتظامیہ سامنے کیوں نہیں لاتی کہ یہ بندہ ہے، ہم نے اس کو سزا دی ہے اور آئندہ کے لیے یہ قواعد و ضوابط بنا دئیے ہیں ۔ جان چھوٹ جاتی اور معاملہ ختم ہو جاتا، کالج یا حکومت کو اس کا دفاع کرنے کی کیا ضرورت ہے جس کی وجہ سے سارا فساد پھیل رہا ہے ، کروڑوں کا نقصان ہورہا ہے اور بدنامی الگ سے ہورہی ہے ۔ پھر بات یہ سامنے آئی کہ اصل میں معاملہ کچھ اور ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس واقعہ کی آڑ میں بنگلہ دیش جیسے حالات پیدا کیے جائیں۔اصل میں غور طلب بات یہ ہے کہ اس طرح کا کوئی بھی واقعہ ہوتاہے ، کسی پر کوئی الزام لگتا ہے جیسے توہین مذہب کا الزام ہو تو لوگ آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ ، بندے کو پکڑ کر مار دیتے ہیں ۔ یہ مائنڈ سیٹ اصل میں ہمارے معاشرے کے اخلاقی بانجھ پن کوواضح کرتاہے کہ ہم اخلاقی طور پر کس حد تک گر چکے ہیں۔ حالانکہ ہمارا دین کہتا ہے کہ جب بھی تمہارے پاس کوئی خبر آئے تو پہلے اس کی تحقیق کرلیا کرو ۔ اس تحقیق کے پہلو کو سوشل میڈیا کی یلغار نے گویا مفلوج کردیا ہے ۔ دکھ ہوتاہے کہ کس قسم کے سکینڈل تھوپے جاتے ہیں ، ہر طرف ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالا جارہا ہے ، گندی سے گندی بات بھی ہوتو رائی کا پہاڑ بناکر کھڑا کیا جاتاہے اور سیاسی پارٹیاں اس مکروہ کھیل میں سب سے آگے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل برطانیہ میں فسادات ہوئے اور بعد میںپتا چلا کہ کوئی پاکستانی تھا جس نے جھوٹی خبر پھیلائی تھی ۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ سوشل میڈیا جیسے بے قابو ٹول پر ہم جوکچھ کررہے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس سے واضح طور پر منع کیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی واضح احادیث ہیں کہ جھوٹ نہ بولو ، غیبت نہ کرو ، تہمت نہ لگاؤ ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ)) (رواہ المسلم)’’کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو آگے بیان کردے۔ ‘‘ 
       آج ہم نہیں دیکھتے کہ خبر سچی ہے یا جھوٹی ہے ، اپنے کسی مخالف فرقے ، گروہ یا پارٹی کے خلاف ہو تو فوراً آگے شیئر کردیتے ہیں بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی کردیتے ہیں ، یہ ساری وہ چیزیں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجرات میں منع کیا ہے مگریہاں ان احکامات کو پامال کیا جارہا ہے ۔ اسی معاشرے میں اس قدر گناہ کے کام ہورہے ہیں ،   ناچ گانے کی محفلیں ہورہی ہیں، بے حیائی کا طوفان سڑکوں پر نظر آرہا ہے ، کسی بھی پارک میں چلے جائیں تو لگتا ہی نہیں کہ یہ مسلم معاشرہ ہے ، کالجز اور یونیورسٹیز میں  مخلوط ڈانس پارٹیز ہورہی ہیں، وہاں ہمیں اسلام کیوں یاد نہیں آتا ؟ ہمارے جذبات کہاں چلے جاتے ہیں ؟  شادی بیاہ کے مواقع پر جو بے حیائی ہوتی ہے اور اس کو پھر سوشل میڈیا پر بھی ڈالا جاتاہے تو اس وقت ہماری غیرت کہاں چلی جاتی ہے ۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کو پاؤں تلے روندا جارہا ہے اس پر ہمارا ایمان کیوں نہیں جاگتا ؟ لیکن سوشل میڈیا پر کوئی بھی فساد پھیل جائے تو ہم بغیر تحقیق کے اس فساد میں شریک ہو جاتے ہیں ۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا کو قابو میںکرنے کے لیے کچھ پابندیاں بھی لگائے اور اپنی Apps  بنائے۔ جیسے چین میں یوٹیوب ، فیس بک ، WhatsAppنہیں ہے ، اس کے متبادل انہوںنے اپنے ایپس بنائے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں امن ہے اور چین ترقی بھی کر رہا ہے جبکہ یہاں آئے دن کوئی نہ کوئی فساد پھوٹتا ہےا ور ترقی کا سفر روک دیتاہے ۔ 
سوال:  ہمارے تعلیمی اداروں میں میوزکل کنسرٹس ہورہے ہیں ، سپورٹس گالا اور بون فائرہورہے ہیں ۔اس کے خلاف طلبہ احتجاج کیوں نہیں کرتے ؟ کیا والدین کی ذمہ داری نہیںہے کہ وہ ان غیر اخلاقی سرگرمیوں  کے خلاف آواز اُٹھائیں کہ ہم بچوں کو تعلیم کے لیے بھیجتے ہیں اور آپ انہیں کیا سکھا رہے ہیں ؟کیا یہ والدین کی کوتاہی ہے یا کوئی عالمی ایجنڈا ہے جس کو پورا کیا جارہا ہے ؟
عبدالوارث: آج ہمارے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی جو حالت زار ہے شاید اسی حوالے سے اقبال نے کہا تھا کہ؎
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ
شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
    آج ہم جس ذلت اور رسوائی کانشان بنے ہوئے ہیں اس کا بنیادی سبب ہمارے تعلیمی ادارے ہیں ۔ آج والدین کو یہ تو پتا ہےکہ دنیا کی چند سالہ زندگی کے لیے کون کون سے علوم حاصل کرنے ہیں ، اس کے لیے وہ کروڑوں روپے بھی خرچ کررہے ہیں ، قیمتی وقت بھی صرف کر رہے ہیں لیکن جو ہمیشہ ہمیش کی زندگی ہےاس کے حوالے سے والدین کو کوئی فکر ہی نہیں ہے ۔ یہ اس وقت کا ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے ۔ اب کچھ لوگوں کو احساس ہو گیا ہے کہ ہم طلبہ اور طالبات کے لیے علیحدہ علیحدہ تعلیمی نظام کی بات کرتے ہیںتو اُس کی کس قدر اہمیت ہے ۔مخلوط نظام تعلیم کی وجہ سے ہی توایسے واقعات ہوتے ہیں جن میں  بچیاں جنسی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں۔اسی وجہ سے اب اس کو ایجوکیشن نہیں بلکہ ایجوکیشن ٹریپ کہا جاتاہے ۔ کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس کا نظام تعلیم تباہ کردو ۔ہم اسی عالمی سازش کا شکار بنے ہوئے ہیں ۔ اس جال سے نکلنے کے لیے ہمیں دوبارہ اپنی فطرت کی طرف لوٹنا پڑے گا ۔ طلبہ اور طالبات کےلیے علیحدہ علیحد ہ تعلیمی ادارے بنانے ہوں گے۔جہاں طالبات کے لیے ٹیچرز اور پروفیسرز بھی خواتین ہوںاور گارڈز بھی خواتین ہوں ۔ والدین کو ایسے واقعات سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے اور انہیں آج ہی فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ ایسے اداروں میں اپنے بچوں کو نہیں بھیجیں گے جہاں مخلوط ماحول ہوگا اور دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا بھی انتظام کرنا ہوگا۔ اگر ہمیں تباہی سے بچنا ہے تو یہ لازماً کرنا ہے ۔ 
سوال: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مخلوط نظام تعلیم    اللہ تعالیٰ کے احکامات کے سراسر خلاف ہے اور اس کے خلاف جدوجہد کرنا ہم سب کا دینی فریضہ ہے۔ کیا اب وقت نہیں آگیا کہ حکومت دستوری اور قانونی سطح پر اس حوالے سے کوئی قدم اُٹھائے اور اس معاملے کو لے کر آگے بڑھے؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:ایک آئیڈیلزم کی دنیا ہے کہ ایسا ہونا چاہیے ، اس طرح ہونا چاہیے لیکن ایک حقیقت کی دنیا ہے جس میں ہم سب لوگ بین الاقوامی دھاگوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے اپنے تمام تر جائز اور ناجائز مطالبات مالی امداد کی آڑ میں ہم سے منواتے ہیں ۔ نام مالی امداد ہوتا ہے لیکن اس میں وہ سودی قرض ہی ہوتا ہے جو ہم نے سود کے ساتھ چکانا ہوتا ہے ۔ جب تک آپ آزاد نہیں ہوتے ، آپ آزادانہ فیصلے نہیں کرسکتے ۔لہٰذا سرکاری سطح پر آپ ایسی کسی بھی قانون سازی کو فی الحال بھول جائیے ۔ جو ہورہا ہے وہ یہ ہے کہ سرکاری سطح پر صوفی کونسل کا انعقاد ہوتاہے اور اس میں بھی مخلوط ماحول ہوتاہے۔ آپ سیکولرز کو تو چھوڑئیے ، دین کے علمبردارکیا کر رہے ہیں ، ان کا حال دیکھئے ! غامدی صاحب نے جو خانقاہ بنائی ہے اس میں بھی مخلوط ماحول ہے۔ ان کے ایک خاص پیروکار ہیں وہ بھی یہی کچھ کر رہے ہیں ۔ ایسے لوگ خود کو مجدد بھی کہہ رہے ہیں تو آپ دیکھ لیں کہ معاملات کس طرف جارہے ہیں ۔ ان حالات میں جو ہم کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم اپنے گھر کے اندر شریعت کا نفاذ کریں اور دین کے مطابق اپنے بچوں اور بچیوں کی تربیت کریں ۔ 
سوال: اس دور میں اگر کوئی مسلمان چاہتا ہے کہ اس کے بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت اسلام کے مطابق ہو اور وہ بڑے ہوکر اسلام کے پیرو کار بنیں تو ہمارے سامنے کون کون سے متبادل ہیں ؟ کن اداروں میں تعلیم دلوائی جائے ؟
آصف حمید:والدین یہ تو سوچتے ہیں کہ ہمارے بعد ہماری اولاد کا کیا ہوگا لیکن یہ نہیں سوچتے کہ مرنے کے بعد ہمار اکیا ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں حکم دیتا ہے :
{یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا} (التحریم :6)’’اے اہل ایمان! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے‘‘
یہ اتنی بڑی وارننگ ہے کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں اور جہنم کی آگ سے بچنا ہماری ترجیح اول بن جائے۔ گھر میں اگر گلاس ٹوٹ جائے تو ہمیں غصہ آتاہے ، لیکن اللہ کے احکامات گھر میں ٹوٹ رہے ہوں تو ہمیں غصہ نہیں آتا ۔ سکول بھیجنے کے لیے ہم بچوں کو صبح چھ بجے اُٹھا دیتے ہیںلیکن نماز کے لیے اُٹھانا ضروری نہیں سمجھتے ۔ گویا اللہ کا دین ہماری ترجیح ہی نہیں ۔ معاذ اللہ۔  حضورﷺ نے فرمایا:((بدأ الإسلام غريباً وسيعود غريباً كما بدأ فطوبیٰ للغرباء))’’اسلام اپنے آغاز میں اجنبی تھا اور عنقریب پھر اسی طرح اجنبی ہو جائے گا جیسے شروع ہوا تھا، خوش بختی ہے اجنبیوں کے لیے۔‘‘ یعنی وہ لوگ جو اس دور میں اسلام پر کاربند ہوں گے انہیں معاشرہ اپنے سے الگ کر دے گا۔ آج ہمارے معاشرے میں بالکل ایسا ہی ہورہا ہے ۔ ان حالات میں ہمارے پاس آپشنز کیا ہیں ؟سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جہاں تک ہمارا اختیار ہے وہاںہم مکلف بھی ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا :((كُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ))’’تم سب نگہبان ہو اور تم سب سےتمہاری رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘
 اگرجہنم کی آگ سے خود بچنا اور اپنی فیملی کو بھی بچانا میری ترجیح میں ہوگا تو میں سوچوں گا کہ اپنے بچوں اور بچیوں کو کون سے تعلیمی ادارے میں داخل کروں ؟ ہراسمنٹ یا جنسی زیادتی کے معاملات وہاں ہوتے ہیں جہاں مخلوط ماحول ہوتاہے۔ چاہے تعلیمی ادارے ہوں یا کاروباری ادارے ہوں ۔ والدین کو پہلی چیز یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو ایسے اداروں میں نہ بھیجیں ۔ مغرب تو یہ چاہتا ہےکہ ہم فرائیڈ کے نظریے پر چل کر جانوروں سے بھی بدتر ہوجائیں ، یعنی شرم و حیا ، حلال اور حرام کی تمیز اُٹھ جائے ، محرم اور غیر محرم کا فرق بھی مٹ جائے۔اسی لیے ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں اور سوچیں کہ وہ ان کے لیے کیا چھوڑکر جارہے ہیں اور میرے مرنے کے بعد وہ میرے لیے صدقہ جاریہ بنیں گے یا میرے لیے باعث عذاب بنیں گے۔ معاشرہ توانہیں وہ ساری چیزیں  مہیا کر رہا ہے جس سے ان کی آخرت تباہ ہو جائے مگر والدین کا کام ہے کہ وہ اپنی اور ان کی آخرت کی فکر کریں  کیونکہ وہاں ہر ایک چیز کا حساب دینا ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا تھا :’’اے فاطمہ بنت محمد! اپنی جان کو جہنم کی آگ سے بچا لے، کیونکہ میں تجھے کوئی نقصان یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا۔‘‘ ہمارے ہاں ایک تصور بن گیا ہے کہ زندگی میں جو کچھ مرضی ہے کرو مرنے کے بعد دیگ پکا کر بانٹ دی تو بس بخشے جاؤ گے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایجنڈا باہر سے آتاہے مگر ایجنڈے کو نافذ کرنے والے میر جعفر اور میرصادق ہمارے اندر موجود ہیں ۔ 
سوال: ہمارے معاشرے اور تعلیمی اداروں میں  لادینیت اور الحاد بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ اگر اس طوفان کے آگے بند نہ باندھا گیا تو ہماری نسلوں کا رشتہ دین سے کٹ جائے گا ۔ اس حوالے سے آپ کیاتجاویز دیں گے کہ جن پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی نوجوان نسل کو دین کی طرف موڑ سکیں؟
عبدالوارث:اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے :
’’اے اہل ایمان! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے‘‘(التحریم :6) 
والدین کا کام صرف یہ نہیںہے کہ بچہ پیدا کرکے اس کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کو پورا کردیں بلکہ اس کی اخلاقی اور دینی تربیت ، آخرت کے حوالے سے فکر دلانے کی ہر ممکن کوشش کرنا بھی والدین کا فرض ہے ۔ ہم نے سارا انحصار تعلیمی اداروں پر کرلیا ، حالانکہ تعلیمی اداروں  میں کبھی بھی وہ تربیت میسر نہیں آسکتی جو گھر میں دی جاسکتی ہے ۔ والدین ان کی تربیت کے مکلف ہیں ، ان سے کل پوچھا جائے گااور مرنے کے بعد وہی اولاد ان کو جہنم میں لے جانے کا باعث بھی بن سکتی ہے ۔ بیرونی ایجنڈے تو ہیں لیکن کیا ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں ؟ اقبال نے کہا تھا ؎
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقّی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
جب گھر سے ہم اپنے بچوں کو لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ  کا مطلب اور مفہوم بتا کے بھیجیں گے تو پھر الحاد ان پر اثرانداز نہیں ہوگا ۔ تعلیمی اداروں کا تو دعویٰ ہی نہیں ہے کہ وہ بچوں کو دینی تربیت دیں گے ۔ یہ تو والدین کا کام ہےکہ بچوں کو تربیت دیں کہ جب ان کے پاس کوئی خبر پہنچے تو پہلے تحقیق کر لو ،غیبت مت کرو ، جھوٹ مت بولو ۔ 
آصف حمید:  لادینیت اور الحاد ہمارے ہاںپہلے نہیں تھا ، اسے لایا گیا ہے ۔ اگرچہ ہم میں بدعملی تھی ، رسومات کی پرستش تھی لیکن الحاد نہیں تھا ۔ الحاد کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت لایا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان میں شکوک و شبہات پیدا کیے گئے ۔ اس میں سوشل میڈیا سے لے کر فلم انڈسٹری تک سب نے کردار ادا کیا ۔یہ لوگوں کو اسلام سے دور کرنے کی بہت بڑی سازش تھی ۔ ایجنڈا نافذ کرنے والوں کو معلوم تھا کہ لوگ اسلام پر رہیں گے تو مغربی ایجنڈا یہاں چل نہیں سکے گا ۔ لہٰذا انہیں ایمان اور حیا سے دور کر دو ، بے حیائی اور فحاشی میں اتنا مبتلا کر دو کہ  یہ جانوروں سے بھی بدتر ہو جائیں۔ معاشرے میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز باقی نہ رہے ۔ ان حالات میں جب ہم دعائیں مانگیں گے توکیا ان میں اثر ہوگا ؟پھر ہم باطل کا مقابلہ کیسے کریں گے؟
سوال:اسلامی معاشرت کے نفاذ کے لیے آپ  حکومت پاکستان کو کیا مشورہ دیں گے؟
آصف حمید:  سب سے پہلے تومیں یہ مشورہ دوں گا کہ  بھائی اس حدیث کو پڑھو اور اس پر عمل کرو :
((كُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ))’’تم سب نگہبان ہو اور تم سب سے تمہاری رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘
جب تک ہمارے ارباب اختیار و اقتدار یہ سمجھتے رہیں  گے کہ ہمارا قبلہ واشنگٹن یا ماسکو ہے ، تب تک وہ بیرونی ایجنڈے کو ہی نافذ کرتے رہیں گے ۔ لہٰذا میں سمجھتا   ہوں کہ اگر ان کو اللہ تعالیٰ عقل اور شعور دے اور یہ اسلام کی روح کے مطابق تمام کام کریں تو سارے معاملات ٹھیک ہو سکتے ہیں ۔ خاص طور پر مخلوط تعلیمی نظام کو ختم کیا جائے ، اسی طرح تمام دفاتر میں بھی مخلوط ماحول کو ختم کیا جائے ۔ کیونکہ اس میں نت نئے فتنے جنم لے رہے ہیں ۔ یہ ساری چیزیں وہ نحوست پیدا کر رہی ہیں جن سے ہمارا معاشرہ تباہ ہورہا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جہاں تک کسی کا بس چلتاہے ، اختیار ہے وہاں تک وہ شریعت کے نفاذ کی کوشش کرے ۔ میرا اختیار میری ذات تک ہے ، میرے گھر پر ہے ، دفتر پر ہے ، وہاں تک تو میں شریعت کی پابندی کرواسکتا ہوں اور کروانی چاہیے ۔ جہاں ہمارا اختیار نہیں ہے وہاں ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں انذار، ترغیب و تشویق کا انداز اپنا ئیں ، خبردار کریں ۔ 
بہرحال آخری حل اسلامی نظام ہی ہے ۔ اسلام سزائیں بھی دیتا ہے لیکن اس سے پہلے وہ تمام ذرائع بند کرتا ہے جو اس طرف لے جاتے ہوں ۔ یعنی کہ اسلام صرف سزاؤں کا نام نہیں ہے ،اسلام کہتا ہے کہ نکاح کو آسان کرو ، فحاشی ، عریانی ، بے حیائی ، مخلوط ماحول کو ختم کرو، لہٰذا اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ اسلامی نظام ہی سارے مسائل کا واحد حل ہے اور اس کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ کسی طرح اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ اس ملک کے اندراسلامی نظام نافذ ہو جائے۔