٭ قرآن ہمارے لیے تین ماؤں کا ماڈل پیش کرتا ہے۔
٭ اماں ہاجرہ کا کردار ہر آزمائش میں ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
٭ مائیں، اپنے خاندان میں کم از کم ایک فرد کو دین کے لیے ضرور تیار کریں۔
٭ شادی سےپہلے بچیؤں کو ماؤں کے کردار پر کورسز کروائے جائیں۔
٭ ایک ماں کی غلطی سے پوری نسل خراب ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی اہلیہ کا قرآن آڈیٹوریم لاہور میں خواتین کے اجتماع سےخصوصی خطاب
17 اکتوبر 2024ء بمطابق جمعرات 13 ربیع الثانی 1446ہجری کادن تنظیم اسلامی شعبہ خواتین کے لیے انتہائی مسرت اور اعزاز کا باعث بنا کیونکہ اس دن عزت مآب محترمہ فرحت ذاکر نائیک صاحبہ نے قرآن آڈیٹوریم میں قدم رنجہ فرمایا۔
حقیقت یہ ہے کہ علماءکرام اور طالب علم کے تین ہی بنیادی کام ہیں۔
1- دنیا کی زینت ہونا اور اسے علم سےمزین کرنا۔
2- زمینی شیاطین (اہل ِباطل) کو رجم کرنا ، ان کا قلع قمع کرنا
3-سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرنا۔
جو علماء کو چھوڑے گا وہ گمراہ ہو جائے گا۔
(حوالہ جات: تفسیر طبری، امام ابو مسلم الخولانی ، تفسیریحییٰ بن سلام ، مفتاح دار السوادۃ حافظ ابن قیمؒ)
اہلیہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحبہ عالمی مبلغ ڈاکٹرذاکر نائیک کی دین کی اشاعت و ترویج میںاور علم و دینداری میں ممد و معاون ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کے متعلق ان کےخاوند خود فرماتے ہیں اگر وہ آڈیو/ ویڈیو کے ذریعے تبلیغ دین کریں تو شاید ان سے بڑھ کر وہ مقبول ہوںگی۔
ڈاکٹرصاحبہ کی قرآن آڈیٹوریم آنے کی خبر سنتے ہی دین سے محبت اور علم کی متلاشی خواتین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ جگہ کی کمی کے باعث اس آمد کی بڑے پیمانےپرتشہیر نہیں کی گئی۔ اس کے باوجود قرآن آڈیٹوریم کے دونوں ہال، باہر کےبرآمدے، سیڑھیاں خواتین سے کھچاکھچ بھرے ہوئےتھے۔کم وبیش ایک ہزار خواتین نے شرکت کی۔
اس بابرکت محفل میں سٹیج سیکریٹری کے فرائض محترمہ اہلیہ محمود عالم میاں سر انجام دے رہی تھیں اور ماحول کو اپنی دلسوز نصیحتوں اور پرتاثیر لہجہ سےنورانی بنارہی تھیں۔ مجلس کے آداب فرشتوں کی سکینت اور نزول کے بارے میں آپ خواتین کو منظم رہنےاور اذکار کی تلقین کرتی رہیں۔ اللہ ان کی عمر میںبرکت اور صحت میں عافیت عطا کرے۔ (آمین)
پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ سورۃ فتح کے دوسرے رکوع کے الفاظ نے ماحول میں نور کا سماں باندھ دیا۔
نعت رسول ﷺمقبول رجوع الی القرآن کی ایک طالبہ نے پیش کی۔؎
کسی غم گسار کی محنتوں کا یہ خو ب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گُھلاگیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا
جو جمالِ رُوئے حیات تھا، جو دلیل راہ نجات تھا
اسی رہبر کے نقوش پا کو مسافروں نے مٹا دیا
سٹیج سےاعلان کیا گیاکہ کوئی بھی آڈیو اورویڈیو ریکارڈنگ نہ کرے اور SOPs کا خیال رکھا جائے ۔ تنظیم اسلامی کی انتظامیہ اہلیہ رضاء الحق صاحبہ کی قیادت میں پوری طرح چاک و چوبند اور مستعد تھی اور اپنی ذمہ داریاں نباہ رہی تھی ۔
سٹیج سیکرٹری کی دعوت پراہلیہ فیروز کلیم صاحبہ نے فتنوں کے دور میں اور خواتین کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔ان کا کہنا تھا کہ زندگی بامقصد ہونی چاہیے۔ وقت اور صحت کی قدر کریں۔ آج کے دور کا سب سے بڑا فتنہ سوشل میڈیاہے۔ جو دجال کا سب سے بڑا ہتھیار ہوگا۔ لوگوں کو نفسانفسی ،خود غرضی اور تنہائی کی دلدل میںدھکیلا جارہا ہے۔’’ ھل من مزید ‘‘کی پکار ہر طرف لگی ہے اور عصرِ حاضر کے فتنوںسے نکلنے کا راستہ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺسے جڑ نے میں ہے۔
اس کے بعداہلیہ اعجاز لطیف صاحبہ نے 1972 ء میں انجمن خدام القرآن کے قیام او راسباب پر روشنی ڈالی۔ تنظیم اسلامی شعبہ خواتین کی فکر کو بیان کیا۔انجمن خدام القرآن کا مقصد لوگوں کو عربی زبان کی تعلیم اور ترویج دینا ہے اور ایسے لوگوں کو تیار کرناہے جو قرآن کی دعوت دیں۔ایک سالہ کورس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ پڑھے لکھے افراد میں قرآن گہرا تعلق پیدا ہو۔دین اور دینی فرائض کے جامع تصور سمجھ کر اپنی زندگیوں کو اسوۂ رسول ﷺ کے مطابق بہتر کرنے کی تحریک پیدا ہو۔خود اپنے آپ اور بیوی بچوں کو دین کا عملی نمونہ بنانے کی کوشش کریں۔ دین کے پیغام کو دوسروں تک پہنچائیں اور اقامت دین کی جدوجہد کو فرض گردانتے ہوئے کسی بھی اجتماعیت کا حصہ بنیں اوراس کام میں اپنا تن من دھن لگا دیں۔ مضان کا دورہ ترجمہ قرآن بھی اسی انجمن خدام القرآن کے تحت ہوتا ہے جو لوگوں خصوصاً نوجوان طبقے میں بہت بڑی تبدیلی لے کر آتاہے۔
تنظیم کا مقصد دین کو غالب کرنا اور انجمن کا مقصد لوگوں کو دین سیکھنے کے لیے تیار کرنا ہے۔اس کےبعداہلیہ اسعد مختار صاحبہ نےاہلیہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحبہ کو خطاب کی دعوت دی اوران کو سپاس نامہ پیش کیا۔ اس میں انہوں نے ملائشیا میںڈاکٹرصاحبہ سے ملاقات کو بھی یاد کیا۔ بڑی محبت سے ایک حدیث قدسی کے الفاظ ان کی خدمت میں دہرائے۔
جب اللہ عزوجل کسی سے محبت کا ارادہ کرتے ہیں تو جبرائیلؑ سے فرماتے ہیںاے جبرئیل ؑمیںفلاں شخص سے محبت کرتا ہوں اور وہ مقرب فرشتوں میں اعلان کرتے ہیں۔ میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو۔ اب مقرب فرشتے اس کا اعلان عام فرشتوں میں کرتے ہیں اور عام فرشتے اہل زمین کےدلوں میں اس شخص کی محبت ڈالتے ہیں۔ کہ دنیا میں لوگ اس کی عزت، تکریم اور اس سے محبت کرتے ہیں اور اسی طرح اللہ جس شخص کو پسند کرتے ہیں اعیاذ باللہ اس کے لیے اہل زمین بھی بعض و عناد رکھتے ہیں۔ اس لیے دُعا مانگیں۔ اللهم انى اسئلك حبك وحب من يحبك وعمل الذي يبلغنى حبك
اہلیہ محترمہ ذاکر نائیک صاحبہ کا خطاب شروع ہوا۔محترمہ کے بارے میں جو سنا تھا ویسا ہی پایا۔ شخصیت میں وقار، متانت، محبت اور علم و عمل کی چاشنی تھی ۔بات مختصر مگرانتہائی پُرتاثیر کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناکے بعد انہوں نے فرمایا:
قُوْا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا
یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَ
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَ یَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْ
انہوں نے ڈاکٹر اسرار احمدؒ کےساتھ قرآن اکیڈمی سے وابستہ یادوں کا ذکر کیا کہ جب میں نے علم دین سیکھنا شروع کیا تو میرےسسر مجھے تلقین فرماتے کہ ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کو سنا کرو۔ چنانچہ زمانہ طالب علمی سےہی میں ڈاکٹر صاحب کی آڈیو تو جہ سے سنتی اور ان کی زبان سے علامہ اقبال کے اشعار سن کر مجھے بھی علامہ اقبال کی شاعری کا شوق ہوا اور میں آپ کو بھی اسی چیز کی نصیحت کرتی ہوں کہ آپ کے پاس ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی اکیڈمی کی نعمت موجود ہے۔ آپ ان کی فکر سے وابستہ ہوں اپنی روح کو قرآن کی محبت اور شوق سے تر کریں۔
ہم سب مائیں ہیں اورقرآن ہمارے لیے تین ماؤں کا رول ماڈل پیش کرتاہے۔ جو دنیاکی تمام ماؤں کے لیے سبق ہیں۔پہلی ماںام موسیٰ ؑ،دوسری ماں ام عیسیٰ ؑاور تیسری ام اسماعیلؑ۔
اُم موسیٰ ؑ
قرآن بیان کرتا ہے کہ صالحہ ماؤں کے بغیر امت مسلمہ کی صحیح رخ پر تشکیل ناممکن ہے۔مائیں نیک اور صالح ہیں تو امت بھی نیک اور صالح بنے گی۔سورۃ قصص، آیات7تا30۔ اللہ نے ام موسیٰ ؑکے دل کو الہام کے ذریعے مضبوط کیا۔ دیکھیں دنیا میں پاک صاف اور بے لوث رشتہ ماں اور بچے کاہوتا ہے۔ اُم موسیٰ ؑ کا ماں کی حیثیت سے تصور کریں ایک طرف وقت کا قاہر اور جابر بادشاہ کا حکم نامہ ہے کہ لڑکوں کو قتل کر دیا جائے اور دوسری طرف گہرا مہیب سمندرہے۔
اس واقعہ کا ذکر آپ کو بائبل میں بھی مل جائے گا لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے جن الفاظ کا استعمال کیا وہ دیکھیں۔
{وَاَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰی فٰرِغًاط اِنْ کَادَتْ لَتُبْدِیْ بِہٖ لَوْلَآ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰی قَلْبِہَا لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(10)} (القصص)
فواد عربی زبان میں قلب کو کہتے ہیں اور فارغا کے معنی ہیں خالی ہوجانا ،ان کا دل کسی چیز سے خالی ہوگیا؟
بہت ساری تمنائیں اور خواہشات جو ایک ماں اپنے بچے کے لیے دل میں رکھتی ہے۔ ان سب سے ان کا دل خالی ہوگیا اُس تکلیف کو محسوس کریں کہ اس وقت ام موسیٰ ؑکس قدر تکلیف اور کشمکش میں تھیں اس اذیت میں اگر وہ چلاتیں، آہ وبکا کرتیں تو فرعون کے اہلکاروں کو اس کا علم ہو جاتا اور بچے کو مارڈالتے۔ اس حال میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےا ن کے دل کو مضبوط نہ کیا ہوتا تو سارا راز فاش ہو جاتا۔اس آیت میں الفاظ ہیں’’رَّبَطْنَا عَلٰى قَلْبِهَا‘‘ ربط کے معنی ہیں جوڑ دینا، باندھ دینا، جمے رہنا یعنی ان کے دل کو مضبوط کردیا کہ اس آزمائش و مصیبت میں نہ گھبرائےجس طرح کوئی چیز پھٹ رہی ہو، ٹکڑے ٹکڑے ہو رہی ہو اس کو اللہ نے ٹوٹنے سے بکھرنے سے بچا لیا۔
ہماری زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ایسی آزمائش اللہ کسی کو نہ دے لیکن بسااوقات حالات ایسے ہوتے ہیں کہ دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہوتا ہے لیکن اللہ کی رضا اور توکل ہمیں مضبوط کردیتاہے۔
اس طرح اللہ نے اُم موسیٰ ؑکے دل کو اپنی محبت سے باندھ دیا اور اللہ کی تدبیر کیسی نرالی تھی کہ دشمن کے گھر میں ماں کےہاتھوں میں پرورش کا انتظام کرا دیا۔ ام موسیٰ ؑ اپنے امتحان میں کامیاب ہوئیں۔ جو آزمائش میں ڈالا جاتا ہے اللہ اس کی جدو جہد، کوشش اور توکل علی اللہ دیکھتے ہیں تو پھر کامیابی دیتے ہیں۔اس سارےامتحان کا منشاء ہمارے ایمان کو پختگی دینا ہے۔ اللہ مجھے اور آپ کو آزمائے گا، پھر ہماری جدوجہد دیکھے گا، اللہ سے دعا ہے کہ آزمائشوں میں ہمارے قلب کی بھی اس طرح حفاظت کرے جس طرح اُم موسیٰ ؑکے قلب کو مضبوط کیا۔۔سوچیں!بدر کا میدان ہے اور توکل علی اللہ کا امتحان ، اصحاب محمدﷺ نے فضائے بدر بنائی تو فرشتےآسمان سے اتارے گئے۔سبحان اللہ!
اُم عیسیٰ ؑ
دوسری ماں ہے اُم عیسیٰ ؑیعنی حضرت مریم ؑ قرآن میں پوری سورت ان کی شان میں اتاری گئی اور کسی نبی کو ان کی ماں کے نام سے نہیں پکارا بجز عیسیٰ ؑکے ۔ قرآن میں ان کی شان رفعت و عظمت کو اس طرح بیان کیا گیا۔
{اِنَّ اللہَ اصْطَفٰىکِ وَطَہَّرَکِ وَاصْطَفٰىکِ عَلٰی نِسَآئِ الْعٰلَمِیْنَ(42)} (آل عمران)
تمام جہانوں کی عورتوں میں سے مریم علیہ السلام کو چنا گیا پاکیزہ کیا گیا اور بزرگی عطا کی گئی۔مریمgکا تعلق مع اللہ بہت مضبوط تھا۔دعا گو رہتی تھیں۔ اپنےتمام معاملے اپنے رب کے سپردکرتیں ۔ جو دُعا وہ مانگتی رب العزت قبول فرماتے۔ حضرت زکریا ؑ حیران ہوتے یہ بےموسم کے پھل کہاں سے آتے ہیں۔ آپ رب کی شان بیان کرتیں اور کہتیں اللہ کی قدرت کاملہ سے آتے ہیں۔ دُعائیں ہم بھی مانگتے ہیں، مگر دعاؤں میں تعلق باللہ نہیںہوتا۔ تاثیر نہیں ہوتی ،تو کل نہیں ہوتا حالانکہ مومن کاہتھیار تو دعا ہی ہوتاہے۔ جبرئیل کی شکل میں آدمی آیا تو فوراً رب سے شیطان مردود کی پناہ مانگی چاہی۔ عیسیٰ کی والدہ مریم ؑ اپنی دعاؤں، شرم و حیا تعلق مع الله اور تو کل باللہ کی وجہ سے اللہ کی پسندیدہ بندی بنی۔بحیثیت مومنہ ان خصوصیات کو اپنے اندر پیدا کرنا ہمارے لیے ضروری ہے۔
ام اسماعیل ؑ
تیسری ماں ہے اُم اسماعیلؑ یعنی حضرت حاجرہؑ جب حضرت ابراہیم ؑ اپنی بیوی اور بچے کو صحرا میں چھوڑ کر جا رہے ہیں تو ہاجرہ ؑ وجہ پوچھتی ہیں کوئی جواب نہیں ملتا۔ جب کہتی ہیں اللہ کا حکم ہے۔ تو ابراہیم ؑ ہاں میں جواب دیتے ہیں۔ تو دل مطمئن کرلیتی ہیں۔اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔پانی ختم ہو جاتا ہے بچے کا بلکنا دیکھا نہیں جاتا۔ گھبرا کر پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کے درمیان دوڑتی ہیں۔ دورنزدیک کہیں پانی کے آثار نہیں۔ پانی نظر نہیں آتا، ایک دفعہ دوڑنے سے یا دو دفعہ دوڑنے سےہی اندازہ ہو گیا تھا کہ کہیں پانی نہیں پھر بھی ہمت نہیں ہاری ۔ ماں جو ہے اسی طرح چکر لگاتی ہیں۔ سوچئے یہ کوشش ہمت تو کل علی اللہ وہ کیوں کر رہی ہیں؟پتہ ہے کہ اللہ آزما رہا ہے۔ اس لیے وہ اپنی جدوجہد ترک نہیں کرتیں ۔یہ جملہ کہنا کہ I am Helpless ہمیں زیب نہیں دیتا۔ اماں ہاجرہg کا کردار ہمارے لیے ہر آزمائش میں مشعلِ راہ ہے۔
قرآنی واقعات میں ہمارے لیے سبق ہے۔ معجزے انبیا کو دکھائے جاتے ہیں یہ قرآنی واقعات ہم پڑھتے ہیں۔مگر قرآن کی آیات فقط پڑھنے کے لیے نہیں ہیں۔ یقیناًپڑھنے سے تلاوت کا اجر ملے گا، لیکن جب تک اہم انہیںسیکھیں گے نہیں اوراُن پر عمل نہیں کریںگے تب تک قرآن ہمارے حلق سے نیچے نہیںاترے گا۔ اس لیے اس پر تفکر و تدبر کریں۔ اماں ہاجرہ ؑ ہم عورتوں کے لیے رول ماڈل ہیں ان کی کوشش ، قربانیاں،ہمت بھری داستان، نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کے لیےقیامت تک ارکان حج و عمرہ میں شامل کر دی گئی۔ کسی مسلمان کا حج و عمرہ ان کی سنت کے بغیر نا مکمل ہوتا ہے۔
کونسا ازم ہے، کونسی تہذیب ہے، جس میں عورت کو اتنا مقام عطا کیا گیا ہے۔ ان واقعات کو سمجھیں، اپنے آپ کو ان کی جگہ رکھ کر سوچیں۔ اماں حاجرہ ؑ کا دل تقویٰ، صبراور ایمان سے لبریز تھا۔ یہی ایمان اور تقویٰ اپنے بچے کی تربیت میں بھی ڈال دیا۔ جب ابراہیم ؑ نے بیٹے سے اپنے خواب کا ذکر کیا تو بیٹے نے فوراً کہا:
{سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(102)} (الصٰفٰت)
یہ ایک فقرہ نہیں ایک آیت نہیں بلکہ پوری تربیت کی کہانی ہے ۔ اس کاجواب یہ بتاتا ہے کہ تربیت کرنے والی ماں کے لیے کامیابی ہے۔بہنو! آپ عہد کریں کہ آپ اپنے فیملی کا کم از کم ایک فرد دین کے لیے تیار کریں۔ اسے داعی الی اللہ بنائیں۔ جب ہم اپنے خاندان کو دیکھتے ہیں تو سو چئے کہ ہم کیسا ورثہ legacy تیار کر رہے ہیں ۔ ہربہن بیٹی دین کے لیے سوچے۔ آج جب ماحول میں ہر طرف گلوبل گندگی ہے۔ ہم جنسیت پرستی، بے حیائی عروج پر ہے۔ آپ کی تربیت میںآپ کی اولاد کی جھلک ہوتی ہے۔ فیس بک پر آپ چھوٹی بچی جس کے 30 ملین فالورز ہیں جو میک آپ آرٹسٹ ہے اور Vlogs بناتی ہے اور اگر یہی بچی جس کی تربیت و کردار سازی دینی اعتبار سے ہو تو وہ اپنی ذہانت اور وقت کے بہترین استعمال سے دین کی داعیہ بن سکتی ہے۔؎
بھری ہے راہ میری عزم شوق کی
جہاںہیں، عائشہؓ و فاطمہؓ کے قدم
بہنو،قرآن سے محبت کریں ۔دل اس سے جوڑیں۔ دلوں میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت بسائیں ۔دلوں کو اس سے آراستہ کریں۔ یہ کیسے ممکن ہو گا؟جب ہماری دینی ماؤں کی تربیت ہو گی۔
ایک اچھا دینی ٹیچر بننے کے لیے کم از کم ایک سالہ کورس کراتے ہیں تو دوسری طرف ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر 4 سال میں اپنی ڈگری مکمل کرتا ہے۔ پھر ہاؤس جابز، پھر سپیشلائزیشن تو کم از کم اس کے 7 سال میں پڑھائی مکمل ہوتی ہے۔لیکن ماں کے پروفیشن میں کیا؟ صرف نکاح اور پھراس بچی کو ماں کےرول کے لیے push upکر دیا جاتا ہے۔اس لیے بہت ضروری ہے۔ ماں بچی کی تربیت کرے۔ ایسی ماں جو خود شعور نہیں رکھتی وہ اپنی اگلی نسل کو کیا سکھائے گی؟ شادی سے پہلے ماؤں کے کردار پر شارٹ کورسز کروائیںجائیں۔اگر ایک ڈاکٹر غلطی کرتا ہے تو مریض کی موت واقع ہو گی اور دوسری طرف ایک ماں غلط رول ادا کرے گی تو پوری نسل خراب ہوگی۔
آپ سوچئے کہ آج کی ماں جب بچے کو دودھ پلا رہی ہے تو ساتھ اس کے ہاتھ میں موبائل پر گانے اور میوزک چلتا ہے۔ پھر یہی بچہ جب 3، 4 سال کاہوتا ہے تو اسی میوزک پر خود ناچنا سیکھ جاتا ہے ۔ اگر ماں کی تربیت میں صبر و شکر ، تقویٰ اور ایمان ہے تو بچہ تربیت پا کر کل کوامام ابو حنیفہؒ، امام شافعی ؒ اورصلاح الدین ایوبی ؒ بنے گا اور اچھے اخلاق ِنبویﷺ سے مزین ہوگا۔
اچھی ماں بننے کے لیے قرآن سے جڑنا ہو گا۔ تربیت کرنی ہوگی اور پھرنکاح کےمرحلے میں جانا ہوگا۔ میرے خیال میں اس کے لیےیہ Formula اپنا نا چاہیے ۔ یعنی
1- تعلق باللہ کو مضبوط کرنا،2-توکل،3-تہجد اور4-تہذیب
تعلق باللہ + تہجد+توکل علی اللہ+تہذیب= تربیت
اللہ تعالیٰ سے بات کرنا ،مشورہ کرنا ،اس کی رضا مندی لینا اور زندگی کا مقصددین کی سرفرازی کو بنانا۔
اگر آپ کو یہ پتہ چلا کہ رات کے پونے 4 بجے دروازے پر کوئی دس ملین ڈالرز گفٹ دینے آئے گا تو آپ خوشی اور انتظار میں ساری رات جاگتے رہیں گے۔تو اس کے مقابلے میں اللہ کی رحمت کی کوئی قیمت نہیں۔ وہ توہر روز آسمان دنیا پر آکر آپ کے لیے اپنے خزانوں کو کھولتا ہے۔ مانگیں جو آپ ما نگ سکتے ہیں ۔عافیت مانگیں، رحمت مانگیں۔ اپنے رب کے حضور روئیں۔اسے مسئلے بتائیں۔ دُعائیں کریں۔ اور توکل علی اللہ رکھ کر اٹھیں کہ میرے سب کام،میری درخواستیں ایک سپریم اتھارٹی کے پاس پہنچ چکی ہیں۔
دیکھئے زندگی کو دو نظریوں سے دیکھا جاتا، مثبت اور منفی۔ اگر آپ مثبت سوچ رکھیں گی تو اپنے وقت کا استعمال مثبت کریں گی اور اپنا قیمتی وقت اپنی نسل کو سنوارنے میں لگاسکیں گی اور منفی ذہن اور سوچ کے ساتھ نہ صرف اپنے آپ کو برباد کرے گی بلکہ اپنی نسل کو بھی برباد کر یں گی۔
تہذیب سے کیا مراد ہے؟ :آج کی مسلم عورت دوسری تہذیوں سےبری طرح متاثر ہو چکی ہے۔پیرس سے فیشن کی ہوا چلتی ہے تو بمبئی تک اور کراچی تک یکساں پہنچ جاتی ہے ۔ ہماری تہذیب تو مکمل نیست و نابود ہو چکی ہے۔ لیکن ہمیں اپنی تہذیب کی طرف لازماً جاناہوگا ۔ اسلام جیسی پاکیزہ سلامتی والی تہذیب دنیا میں کسی اور مذہب کے پاس نہیں کہ جس میں اولاد کو یہاں تک سکھایا جاتا ہے کہ والدین کے سونے کے اوقات میںان کے کمروں میںبلا اجازت نہ جایا جائے۔؎
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
تمہاری تہذیب خود اپنے خنجر سے خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پر آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہووہ اب زرِکم عیار ہوگا
اللہ تعالیٰ کے ہاں کامیاب وہ ہوگا جو قلب سلیم لے کر آئے گا ۔ اس دن یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَ کا معاملہ ہوگا ۔اس دن نہ مال وزر کام آئے گا، نہ کوئی اور مادی چیز جس کے حصول کے لیے دن رات بھاگ دوڑ کررہے ہیں فقط خالص قلب سلیم!!!
اس لیے ضروری ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے اس کے رسولﷺ اور اس کی کتاب سے ہمارا تعلق مضبوط ہو اور ہمارے Role Model صحابہ کرام ؓ اور صحابیات ؓ او رسلف صالحینؒ ہو۔وما علينا الا البلاغ
اس بابرکت پروگرام کا اختتام ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی اہلیہ ناظمہ علیا کی دعا سے ہوا۔اللہ تعالیٰ ان کی عمر اور صحت میںبرکت عطا فرمائے اور ان کا سایہ تا دیر ہمارے سروں پرقائم رکھے۔
اس طرح کی محافل ایمان کی تازگی اور سلامتی کا باعث بنتی ہیں ۔تنظیم اسلامی شعبہ خواتین کے اساتذہ اور ناظمات و رفیقات سب کے تعاون سے ہی اس بابرکت اور روح پرور محفل کا انعقاد ممکن ہوا۔ اللہ ہر ایک کو دین اور دنیا کی بہترین بھلائیاں اور آسانیاں عطا فرماتے۔
(مرتبہ:اہلیہ ریاض گورایا صاحبہ،رفیقہ تنظیم)