الہدیٰ
اللہ تعالیٰ اِترانے والوں کو پسند نہیں کرتا
آیت 76{اِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰی فَبَغٰی عَلَیْہِمْ ص} ’’یقیناً قارون موسیٰ ؑ کی قوم ہی سے تھا۔ لیکن اُس نے ان کے خلاف سر کشی کی‘‘
یہاں قارون نامی شخص کے حوالے سے جس کردار اور رویّےکا ذکر کیا گیاہے وہ محض ایک فرد کا نام نہیں بلکہ یہ کردار ایک پورے طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایک ایسا طبقہ جو کسی محکوم قوم کے اندر حکمرانوں کے ہاتھوں جنم لیتا ہے اور ان کے سائے میں نشوونما پاتا ہے۔
غاصب حکمران ہمیشہ خوف اور لالچ کے ذریعے عوام کے اندر سے اپنے حمایتی پیدا کرتے ہیں۔ ایسے ماحول میں محکوم قوم کے گھٹیا اور بے غیرت قسم کے لوگ اپنی قوم سے غداری کر کے اپنے آقائوں سے مراعات حاصل کرتے ہیں۔ برصغیر میں انگریزوں نے بھی اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے مقامی لوگوں میں سے ایک ایسا ہی طبقہ پیدا کیا تھا۔ ان لوگوں کو جاگیریں دی گئیں‘بڑے بڑے ٹھیکے الاٹ کیے گئے‘خطابات سے نوازا گیا‘اعلیٰ مناصب پر بٹھایا گیا اور یوں ان کی غیرتوں اور وفاداریوں کو خرید کر ان کو خود ان ہی کی قوم کے خلاف استعمال کیا گیا۔ اسی طرح فرعون کی عملداری میں بنی اسرائیل کے اندر بھی ایک ایسا ضمیر فروش طبقہ پیدا ہوچکا تھا اور قارون اسی طبقے کا ایک ’’معزز فرد‘‘ تھا۔ یہ شخص نہ صرف بنی اسرائیل میں سے تھا بلکہ حضرت موسیٰ ؑ کا حقیقی چچا زاد تھا۔ فرعون کے دربار میں اس کو خاص امتیازی مقام حاصل تھا۔ اپنی اس حیثیت سے فائدہ اٹھا کر اُس نے اس قدر دولت اکٹھی کر رکھی تھی کہ اس اعتبار سے اس کا نام ضرب المثل کا درجہ رکھتا تھا۔
اس نے اپنی قوم سے غداری کی اور فرعون کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی ہی قوم کے خلاف ظلم و زیادتی پر مبنی سرگرمیوں میں مصروف رہا۔
{وَاٰتَیْنٰہُ مِنَ الْکُنُوْزِ مَآ اِنَّ مَفَاتِحَہٗ لَتَنُوْٓ ئُ ا بِالْعُصْبَۃِ اُولِی الْقُوَّۃِ ق} ’’اور اُس کو ہم نے اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی چابیاں ایک طاقتور جماعت مشکل سے اُٹھا سکتی تھی۔‘‘
قارون کے پاس بے انتہا دولت تھی جسے طاقتور مردوں کی ایک جماعت مشکل سے اٹھا سکتی تھی۔
{اِذْ قَالَ لَہٗ قَوْمُہٗ لَا تَفْرَحْ } ’’جب اُس سے کہا اُس کی قوم کے لوگوں نے کہ اِترائو مت‘‘
کچھ بھلے لوگوں نے قارون کو نصیحت کی کہ تم اپنی دولت پر اترایا نہ کرو۔ ان آیات میں دولت مند لوگوں کے لیے پانچ انتہائی مفید نصیحتیں بیان کی گئی ہیں۔ جن لوگوں کے پاس بہت سی دولت جمع ہو گئی ہو انہیں ان نصیحتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ان میں سے پہلی نصیحت تو یہی ہے کہ اپنی دولت پر اترائو نہیں۔
{اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ (76)} ’’یقیناً اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
درس حدیث
دنیا کے لیے علم حاصل کرنے والوں کا انجام
عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ : ((مَنْ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ لَغَیْرِ اللّٰہِ وَاَرَدَابِہٖ غَیْرَ اللّٰہِ فَلْیَتَبَوَّئَ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ))(رواہ الترمذی)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ جس نے علم کو غیر اللہ کے لیے سیکھا یا وہ اس علم کے ذریعے اللہ کی رضا کے بجائے کچھ اور ھاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسا شخص جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنالے۔‘‘
تشریح:اللہ تعالیٰ نے دین کا علم انبیاء ؑ کے ذریعہ اورآخر میں سیدنا حضرت محمد خاتم النبیینﷺ اور اپنی آخری مقدس کتاب قرآن مجید کے ذریعہ اس لیے نازل فرمایا کہ اس کی روشنی اور رہنمائی میں اس کے بندے اللہ کی رضا کے راستہ پر چلتے ہوئے اس کے داررحمت جنت تک پہنچ جائیں… اب جو بدنصیب آدمی اس مقدس علم کو اللہ تعالیٰ کی رضاورحمت کی بجائے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل اور دنیوی دولت کمانے کا وسیلہ بناتا ہے اور اسی کے واسطے اس کی تحصیل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نازل فرمائے ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے اس مقدس علم پر بڑا ظلم کرتا ہے، اور یہ شدید ترین معصیت ہے اور اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے اطلاع دی ہے کہ ُاس کی سزا جنت سے محرومی اور جہنم کا عذاب الیم ہے۔