اداریہ
خورشید انجم
یومِ اقبال !
یوم اقبال گزشتہ کم از کم تین دہائیوں سے جس طرح سے منایا جارہا ہے اُسے دیکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ اب یہ محض ایک رسم ہی رہ گئی ہے اور اس کا علامہ اقبال کے نظریات، افکار اور وجود کو چیر دینے والی نگاہِ تیز سے دور دور تک کا بھی کوئی تعلق نہیں توہر گز غلط نہ ہوگا۔کیا یہ کسی المیہ سے کم ہے کہ آج کی نوجوان نسل کو علامہ اقبال کے حوالے سے اِس بات سے زیادہ علم ہی نہیں دیا گیا کہ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔یہ خواب یا خیال اُنہیں کیوں آیا یا کن حالات میں آیا،اِن سوالات کے جواب جاننا اِس نسل کے لیے غیر ضروری قرار پا چکا ہے کیونکہ مطالعہ پاکستان کی تعلیم ایک حد تک اب متروک ہو چکی ہے جو اِس سے قبل کسی درجہ میں طلبہ میں پاکستان اور نظریۂ پاکستان کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ تھی۔آج کل کئی فورمز پر یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ ہم جس پاکستان میں رہ رہے ہیںاِس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا ہی نہیں تھا۔تاریخ گواہ ہے کہ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے مسلمانانِ برصغیر پاک وہند کےلیے صرف الگ وطن کا تصور پیش نہیں کیا بلکہ اس عظیم قائد کی بھی نشاندہی کردی جو اس مقصد کے حصول کےلیے جملہ صلاحیتوں اور خوبیوں سے مالا مال تھا۔آج کی نئی نسل کو یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا ہم پر احسان صرف پاکستان کا تصور وخیال پیش کرنا ہی نہیں تھابلکہ اُن کی علمی قابلیت اور اُمت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے ان کی دروںبینی دنیا بھر میں مسلمہ تھی۔ اسی وجہ سے اُنہیں آل انڈیا مسلم لیگ کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔اُس وقت برصغیر میں مہاسبھائی ذہنیت کے سبب مسلمانوں کی ترقی کا کوئی راستہ موجود نہ تھااور وہ بےچارگی ومجبوری کے عالم میں ہندوؤں اور انگریزوں کی کاسہ لیسی پر مجبور تھے ۔ انگریزوں کے تصورِ جمہوریت کے تحت ہندو اکثریت کی موجودگی میں مسلمان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محکوم و مقہور بننے پر مجبور تھے۔ بقول اقبال اِس تصورِ حکومت میںع ’’ بندوں کوگنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘۔ یہ تصور اُس خطہ میں تو کسی درجہ میں مفید ثابت ہوسکتا ہے جہاں ایک ہی عقیدہ وقوم اور ثقافت کے لوگ آباد ہوں مگرایساخطہ جہاں مختلف اقوام آباد ہوں، یہ تصوراکثریت کو اقلیت پر حکمرانی کا کھلا موقع دیتا ہے۔مسلمان قوم ایک طرف فرنگی حکمرانوں کی کھلی دشمن تھی کہ انہوں نے ان سے اقتدار چھینا تھا، دوسری طرف ہندو اکثریت سے خوفزدہ بھی تھی۔ مسلمان چونکہ فرنگی حکمرانوں کو نکالنا چاہتے تھے اس لیے ہندو اکثریتی قوم سے مل کر جدوجہد کے خواہاں تھے۔ اِن حالات میں علامہ اقبال نے بیداریٔ ملت کا کام شروع کیا۔ بے شک اقبال بھی ان اکابرین میں سے تھے جوپہلے متحدہ جدوجہد کے قائل تھے اور ان کا یہ ترانہ زبان زدِوخاص وعام تھا ع’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘۔ پھرحالات وواقعات نے جلد ہی اُن پر ہندوذہنیت واضح کردی او روہ ہندو مسلم اتحاد کوناممکن قراردینے لگے۔ کانگریس کے متحدہ قومیت کے مقابل مسلم قومیت کا تصور پیش کرکے ایک الگ مملکت کے داعی بن گئے۔
علامہ اقبال نے مسلمانوں کے جداگانہ قوم ہونے کا تصور عام کیا اورکہا ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ؐ ‘‘۔ علامہ کا کہنا تھا کہ ہم محض مذہب کی بنیاد پر الگ قوم ہونے کا دعوی نہیں کرتے بلکہ ہمارا موقف ہے کہ اسلام ایک جاندار اور آفاقی دین ہے اور دنیا بھر کے مسلمان ایک ملت اور اسلام پر یقین نہ رکھنے والوں سے الگ قوم ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کے ہاں جو چیز حلال خوراک ہے، وہ ہندوؤں کے ہاں مقدس اور ناقابل تقسیم گاؤماتا ہے۔ دونوں اقوام کے تہذیب وتمدن الگ الگ ہیں۔ اس پیغام کو عام کرنے کےلیے انہوں نے صرف شاعری کا سہارا ہی نہیں لیا بلکہ ہندوستان کے طول وعرض میں گئے اور خطبات دئیے۔ خط لکھے اورمسلم لیگ کی تنظیمِ نو میں بھرپور کردار ادا کیا۔ دسمبر1930ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ کا تاریخی سالانہ اجلاس الٰہ آباد میں ہوا جس میں خطبۂ صدارت دیتے ہوئے علامہ اقبال نے فرمایا: ’’برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمانوں کےلیے ایک الگ مملکت قائم کردی جائے کیونکہ دونوں اقوام کا یک جا رہنا ناممکن ہے اور نہ ہی یک جا ہوکر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ الٰہ آباد میں گنگاوجمنا کا پانی جس طرح الگ الگ نظر آتا ہے، اس طرح یہ دونوں اقوام اکٹھی رہنے کے باوجود الگ الگ ہیں۔ ہندوستان کے مسئلے کا حل علیحدہ قومیت کے وجود میں ناگزیر ہے۔ ہندوستانی معاشرہ کی اکائیاں یورپی ممالک کی طرح علاقائی نہیں۔ یہ خطہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی مختلف نسلوں پر مشتمل انسانی گروہوں کا ہے۔ الگ الگ قومیتی گروہوں کو تسلیم کئے بغیر پورے جمہوری اصول کا اطلاق ہندوستان پر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے مسلمانوں کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ ہندوستان کے اندر مسلم انڈیا کا قیام عمل میں لایا جائے‘‘۔ مزید فرمایا: ’’میں پنجاب، سرحدی صوبہ، سندھ، بلوچستان کوضم کرکے ایک الگ مملکت کی صورت دیکھنا چاہتاہوں۔ مذکورہ ریاست مسلمانوں کی آخری منزل ہے‘‘۔اسے تقدیرِ مبرم قرار دیتے ہوئےگویا اُنہوں نے بڑی وضاحت سے ہندوستان کے حالات، مسلمانوں کی مشکلات اور ان کے مستقبل کے تناظر میں مسلمانانِ ہند کی نشانِ منزل کا تعین کرتے ہوئےمسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کاتصور پیش کیا۔ ملت نے علامہ اقبال کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر قائداعظم کی قیادت میں اس تصور کو عملی جامہ پہنایا اور اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی مملکتِ اسلامی پاکستان قائم ہوئی۔علامہ اقبال نے چونکہ ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال کے دور میں آنکھ کھولی، مسلم امہ کی پستی کو دیکھا مگر مایوس کن حالات کے باوجود ’’اپنی کشت ویراں سے‘‘ مایوس نہیں ہوئے۔ اُن کی جاگتی آنکھیں اُمت کی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھتی تھیں۔ علامہ اقبال نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا درحقیقت وہ جدید دور کی ایک اسلامی ریاست تھی جس کے لیے رول ماڈل مدینہ کی اسلامی ریاست قرار پائی۔ وہ چاہتے تھے کہ اِس ریاست میں شریعتِ اسلامی کی بالادستی قائم ہو جائے۔
پاکستان کے قیام کے بعد بہت سی پارٹیوں نے اپنے منشور کی پہلی شقوں میں اسلامی شریعت و قانون کی بالادستی کوشامل کر دیا مگر بعد میں وہ اپنے منشور سے پِھر گئے اور شریعت کے نفاذ کے لیے پیش رفت پسِ پشت چلی گئی۔ اسلامی قانون کے نفاذ کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل بھی قائم کی گئی جس نے سفارشات تومرتب کیں لیکن اسمبلی کے سردخانوں کی نظر ہوگئیں۔آج ہر پاکستانی شاید اس بات پر تو نازاں ہے کہ پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور قائد اعظم نے اس کی تعبیر کی مگر وہ اِس بات پر پریشان بھی ہے کہ یہ وہ پاکستان تو نہیں ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔ پھر یہ کہ ملک کا سیکولر و لبرل طبقہ تو آج نظر آنے والی خرابیوں کی ذمہ داری اقبال اور قائدپر ہی ڈال دیتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ بحیثیتِ قوم ہم علامہ اقبال کے نظریات کو پس پشت ڈال کر ایک ایسی ڈگرپر گامزن ہوگئے ہیں کہ جوہر آنے والے دن ہمیں منزل سے دور لے جارہی ہے ۔اقبال نے تو کہا تھا ’’جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘، لیکن ہم نے دین اور سیاست کو جدا جدا کر کے مغرب کی منشاء کے عین مطابق مذہب اورسیاست کو ایک دوسرے کے لیے حرام قرار دےدیا۔ اقبال نے تو کہا تھا ع ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘‘،مگر چند ایک کو چھوڑ کردنیا بھر کے مسلمان حکمران اِس وقت حرم کے سوا ہر چیز کی ہی پاسبانی کے لیے ایک پیج پر نظر آتے ہیں۔
قبلۂ اوّل آج یہودیوں کے قبضہ میں جا چکا ہے، مسجد اقصیٰ کوگرانے کے لیے اُس کے نیچے سرنگیں تو کئی سال پہلے ہی کھودی جا چکی تھیں۔مکاراور درندہ صفت صہیونی غزہ پر مسلسل ظلم ڈھا رہے ہیں۔نیتن یاہو اقوامِ متحدہ میں کھڑا ہو کر تجارتی گزرگاہ کے نام پرگریٹر اسرائیل کا نقشہ پیش کرتا ہے جس میں خاکم بدہن سرزمین عرب کے دل کو بھی شامل کیا ہوا ہے ۔مملکتِ خداداد پاکستان کے حکمرانوں کی تو اس بات کی فکر ہی جان نہیں چھوڑ رہی کہ بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے عوام پر نئے ٹیکس کس طرح سے لگائےجائیں اور آئی ایم ایف سے نئے سودی قرضے کیسے حاصل کئے جائیں۔ اقبال نے تو کہا تھا کہ اسلام، ریاست اور فرد دونوں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے تواجتماعی مسائل پر بات کرنے یا سوچنے کی عوامی صلاحیت ہی سلب کر لی ہے۔ جیسے ہی اسلامی ریاست کے قیام یا اقامتِ دین کی بات کی جاتی ہے، ریاست کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور تمام تر مشینری اُس کے خلاف استعمال ہونے کے لیے اکٹھی ہو جاتی ہے۔
یورپ میں مذہب ایک فرد کا ذاتی معاملہ رہ گیا ہے۔ وہاں فرد روح اور مادہ میں تقسیم ہے، ریاست اور کلیسا الگ ہیں، خدا اور کائنات میں کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اسلام ایک وحدت ہے جس میں ایسی کوئی تفریق نہیں ہے۔ اسلام چند عقائد، عبادات اور رسومات کا ہی مجموعہ نہیں بلکہ مکمل ضابطۂ حیات ہے۔اقبال نے تو اپنے خطبۂ الہ آباد میں کہا تھا کہ مسلمان ایک قوم ہیں۔ہندوستان کے مسلمان اپنے تہذیب و تمدن، ثقافت اور دین کی وجہ سے یہاں کی دوسری قوموں سے مختلف ہیں۔ ان کی تعداد براعظم میں سات کروڑ ہے اور ہندوستان کے دوسرے باشندوں کی نسبت ان میں زیادہ ہم آہنگی اور یکسانیت پائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہی جدیدترین معنی میں قوم کہا جا سکتا ہے۔جبکہ آج ہم سندھی، پنجابی،پشتون،بلوچ، سرائیکی، ہزارہ اور مہاجر بن کر رہ گئے ہیں۔تحریکِ پاکستان کے دوران تو متحدہ ہند میں انگریز اورہندو کے مقابلے میں صرف مسلمان قوم تھی ۔ جب کہ مسلمان قوم توآج ہمیں ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہی ، البتہ قومیتیں بے شمار ہیں۔ کیا اُس متحد مسلمان قوم کو اقبال نے مٹایا ہے یا کسی اور نے؟اقبال نے تو ہندوستان ہی نہیں دنیا بھر میںمتحدہ قومیت کی تردیدکی تھی مگر آج مسلم حکمران مسجد،مندر اور گرجا کو ایک ہی جگہ متحد کرنے کی فکر کررہے ہیں اور ساتھ ساتھ قرآن، تورات اور انجیل کو ایک جلد میں شائع کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کر رہے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون!
قصہ کوتاہ 9 نومبر کو ’یومِ اقبال‘ تو منایا جائے گا لیکن اقبال کا اصل پیغام ہنوزشرمندۂ تعبیر ہے۔ان حالات میں کہ دشمن سر پر آن پہنچا ہے، ضروری ہے کہ ملتِ اسلامیہ پاکستان کا ہر فرد اپنی اصل ذمہ داریوں کو محسوس کر کے ان کو ادا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو جائے۔یہ اب ناگزیر ہو چکا ہےکہ پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی ایٹمی پاکستان کے سانچے میں ڈھالیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سیکولرازم اور لبرل ازم کے دھوکے سے باہر نکلیں اور اپنی ماضی کی کمزوریوں، کمیوں اور کوتاہیوں کی تلافی کرتے ہوئے پاکستان کو صحیح معنوں میں فکرِ اقبال کے مطابق ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے تن من دھن لگا دیں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024