توحید ِعملی و نظری(قرآن و حدیث کی روشنی میں)
مسجد جامع القرآن، قرآن اکیڈمی ڈیفنس ،کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے25اکتوبر 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
آج ان شاء اللہ ہم سورہ بنی اسرائیل کی آخری آیت کا مطالعہ کریں گے اور اس کی روشنی میں کچھ اہم تقاضوں کی یاددہانی مقصود ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں ایک بہت اہم ایشو 26ویںآئینی ترمیم کے حوالے سے زیر بحث ہے اس پر بھی کلام ہوگا ۔ خاص طور پر اس میںجو ایک اسلامی ٹچ دے کر قوم کو فریب دینے کی کوشش کی گئی ہے اس پر بات ہوگی۔ اسی طرح حماس کی طرف سے پوری دنیا کو اپیل کی گئی کہ 25 اکتوبر کو یوم مزاحمت کے طور پر منایا جائے ، اس حوالے سے بھی کلام ہوگا ۔ ان شاء اللہ
سب سے پہلے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 111 کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا بہت ہی جامع انداز میں بیان ہے جس میں توحید کا نظری اور فکری پہلو بھی ہے ، توحید کے عملی تقاضے اورشرک کی نفی کے پہلو بھی ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ فرمایا :
{وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ} (بنی اسرائیل:111)’’اور کہہ دیجیے کہ کل حمد اور کل شکر اللہ ہی کے لیے ہے‘‘۔
یہاں اگر چہ مخاطبت اللہ کے رسول ﷺسے ہے مگر تعلیم اُمت کے لیے ہے کہ ہم اللہ کی حمد بیان کریں ، شکر بجا لائیں ۔ یہ توحید کا فکری اور نظری پہلو بھی ہے کہ اللہ کو ایک مانا جائے ، خالق اور مالک مانا جائے ، اللہ کی نعمتوں کا اعتراف کیا جائے ، اس کے احسانات پر شکر بجا لایا جائے۔ اللہ کی حمد بیان کرنا خود قرآن ہمیں سکھاتا ہے ۔ سورۃ الفاتحہ کی تلاوت ہر نماز کی ہر رکعت میں ہم کرتے ہیں جس کا آغاز ہی حمد سے ہوتاہے :
{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ}’’کل شکر اور کل ثنا اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار اور مالک ہے۔‘‘
حمد کے حوالے سے ایک حدیث میں بیان ہے:
((التسبیح نصف المیزان والحمدللہ تملئہ)) ’’تسبیح کہنا میزان کو آدھا بھر دیتا ہے اور الحمدللہ کہنا میزان کو پورا بھر دیتاہے ۔‘‘ مفسرین نے ایک مُراد یہ لی ہے کہ سبحان اللہ کہنے سے اللہ کی معرفت کا آدھا میزان بھر جاتاہے اور الحمد للہ کہنے سے یہ میزان پورا بھر جاتاہے ۔ سبحان اللہ کہنا بھی ایک حمد ہے ۔ یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر عیب، ہر ضرورت ، ہر حاجت ، ہر زوال سے پاک ہے ۔ ہم محتاج ہیں کیونکہ ہمیں کھانے پینے کی ضرورت ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے ، ہمیں نیند کی حاجت ہے مگر اللہ تعالیٰ نہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ آتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں ہمیں عطا کی ہیں ان پر اُس کا شکر ادا کرنا بھی اللہ کی تعریف میں شامل ہے ۔ ایک بہت بڑی غلطی ہم یہ کرتے ہیں کہ اکثر و بیشتر ناشکری کرجاتے ہیں کہ میرے پاس فلاں نہیں ہے ، فلاں چیز کی کمی ہے ، موٹر سائیکل ہے گاڑی نہیں ہے ۔ گاڑی چھوٹی ہے بڑی نہیںہے ، فلیٹ ہے بنگلہ نہیں ہے ،بنگلہ ہے فارم ہاؤس نہیںہے ۔حالانکہ جس کے پاس مکان ہے وہ کرائے دار کو دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرے ، جس کے پاس گاڑی ہے وہ موٹر سائیکل والے کو دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرے اور جس کے پاس موٹر سائیکل ہے وہ پیدل چلنے والے کو دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرے ۔ کیمبرج سسٹم کے ایک کالج میں میرا خطاب تھا ۔ ایک طالب علم نے سوال پوچھا کہ آج کل طلبہ بہت ذہنی دباؤ اور ٹینشن کا شکار ہیں ، کیا کریں ؟ میں نے طلبہ سے کہا : غزہ کے بچوں کی مشکلات اور مصائب ذہن میں لائیے اور پھر سوچئے کہ کیاہماری کوئی ٹینشن ٹینشن ہے ۔پاکستان میں 5 فیصد ایسے لوگ ہیں جن کو دنیا کی ہر نعمت میسر ہے وہ ان 70 فیصد لوگوں کا طرز زندگی دیکھیں جن کا دو وقت کے کھانے کا مسئلہ حل نہیں ہورہا ہے اور پھر بتائیں کہ ان کے مقابلے میں انہیں کوئی پریشانی ہے ؟ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم (دنیوی مال و متاع کے لحاظ سے) اس شخص کی طرف دیکھو جو تم سے کم حیثیت ہے اور اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو تم سے برتر ہے۔ بلاشبہ یہ زیادہ مناسب ہے کہ اس سے تم اپنے اوپر الله تعالیٰ کے انعامات کی ناقدری نہیں کرو گے۔‘‘
جب بندہ نعمتوں میں اپنے سے کمتر لوگوں کو اور نیکیوں میں اپنے سے بالاتر لوگوں کو دیکھے گا تو پہلی نظر سے اللہ کی نعمتوں پر شکر کرے گا اور دوسری نظر سے اسے اپنی کوتاہیوں کا احساس ہو گا، پروردگار کے سامنے حیا کی وجہ سے انتہائی عجز اختیار کرے گا اور ندامت کے احساس سے گناہوں سے تائب ہو کر نیکیوں کے لحاظ سے اپنے سے بالاتر لوگوں کی صف میں شامل ہونے کی کو شش کرے گا۔ اللہ کے رسول ﷺنے مختلف مواقع پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیےدعائیں بھی سکھائی ہیں ۔ صحابہ کرام ؇ ان دعاؤں کا ہمیشہ اہتمام کرتے تھے ۔ یہ دعائیں آج ہمیں اپنے بچوں کو بھی سکھانی چاہئیں اور ان کو اپنا معمول بھی بنانا چاہیے ۔ ان میں اللہ تعالیٰ کی حمد بھی ہے ، ثنا بھی ہے ، تعظیم اور تکبیر بھی ہے اور شکر گزاری کا پہلو بھی ہے۔آگے فرمایا :
{الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا} ‘جس نے نہیں بنائی کوئی اولاد‘‘۔
وہ اللہ کہ جس نے کسی کو اولاد کے طور پر اختیار نہیں کیا۔ یہی بات سورۃ الاخلاص میں ہم پڑھتے ہیں کہ نہ اس کاکوئی بیٹا ہے نہ اس کا کوئی باپ ہے،وہ واحد اور اکیلا رب العالمین ہے ، اس کا کوئی ہمسر اور شریک نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے بے نیاز ہے ۔اس آیت میں مشرکین مکہ کی بھی نفی ہے جنہوں نے معاذ اللہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیا، نصاریٰ کی بھی نفی ہے جنہوں نے معاذ اللہ حضرت عیسیٰd کو اللہ کا بیٹا قرار دیا، یہود کی بھی نفی جنہوں نے معاذ اللہ حضرت عزیرd کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا ۔ اللہ کی اولاد قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بیوی بھی تجویز کی جائے معاذ اللہ۔یہ بہت بھونڈا عقیدہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر مشرکین پر غضب کا اظہار فرمایا ہے اور سختی سے اس کی نفی بھی کی ہے ۔ آگے فرمایا :
{وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ}(بنی اسرائیل:111) ’’اور نہیں ہے اس کا کوئی شریک بادشاہی میں‘‘
سب سے بڑا شرک یہ ہے کہ اللہ کے اختیارات ، اتھارٹی میں کسی کو شریک کر دیا جائے ، جو خدائی اختیارات ہیں وہ مخلوق کے لیے معین کر دیئے جائیں۔ یہاں واضح طور پر اللہ تعالیٰ اعلان فرما رہا ہے کہ اس کے اختیارات میں ، اس کی بادشاہت میں کوئی شریک نہیںہے ۔ وہ اکیلا ہی اس کائنات کاخالق اور مالک ہے۔ وہی رب ہے ، وہی رزاق ہے اوروہی حاکم ہے ۔باطل نظام کی پیروی کرنے والے اس بات کو قبول نہیں کرتے اور بدقسمتی سے آج اُمت بھی اس بات کو بھول چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی حقیقی حاکم ہے۔ اس کادیا ہوا ایک قانون اور نظام ہے جسے قائم اور نافذ کرنا اس اُمت کی ذمہ داری ہے ۔بجائے اس کے باطل کی پیروی میں جمہوریت اور مادر پدر آزادی ہے جس میں اللہ کے احکامات کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں ۔ مادر پدر آزادی کا مطلب ہے جو دل چاہے وہ کرو ۔ جبکہ جب اللہ کو حاکم مانیں گے تو اس کے عملی تقاضے پورے کرنے پڑیں گے۔ قرآن میں تین مرتبہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا :
{ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط} (یوسف :40)’’اختیارِ مطلق تو صرف اللہ ہی کاہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی توحید کا ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کا حکم نافذ کیا جائے ۔ اللہ کو خالق تو مشرکین بھی مانتے تھے ۔ مشرکین بھی اللہ پر ایمان کا دعویٰ رکھتے تھے ۔ آج اُمت کے ذہنوں سے بھی یہ بات نکل چکی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے صرف کلمہ اور نماز کا ہی حکم نہیں دیا تھا بلکہ دین کو قائم کرنے کا بھی حکم دیاتھا ۔ فرمایا : {اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ}(الشوریٰ:13) ’’کہ قائم کرو دین کو۔‘‘
زمین اللہ کی ہے اس پر حکم بھی اللہ کا چلنا چاہیے۔ اللہ نے بندوں کو خلافت دے کر بھیجا ہے، خدائی کے دعوے کرنے کے لیے نہیں بھیجا ہےکہ جو چاہے قانون بنا لے، جیسا چاہیں نظام قائم کرلیں ۔ ابو جہل کا بھی یہی مسئلہ تھا ، وہ سمجھتا تھا کہ اگر محمد ﷺ پر ایمان لے آؤں تو میری سرداری اور میرا اختیار ختم ہو جائے گا ۔وہ جاہل نہیں تھا بلکہ قریش کی پارلیمنٹ کا سربراہ تھا لیکن اللہ کے نظام کے مقابلے میں جب کھڑا ہوا تو ابو جہل قرار پایا ۔ اسی طرح آج بڑی بڑی ڈگریوں والے اللہ کے دین کے مقابلے میں قوانین بناتے ہیں تو وہ بھی جاہل ہیں ۔ اللہ فرماتا ہے:
{اَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ ط} (المائدہ:50)
’’ تو کیا یہ جاہلیت کے فیصلے چاہتے ہیں؟‘‘
اللہ کا قانون چھوڑ کر اگر انسانوں کا بنایا ہوا قانون کسی معاشرے پر نافذ ہے تو وہ جہالت ہے ۔ کوئی قوم اپنی پارلیمنٹ کو اللہ کے قانون کے تحت نہیں لاتی تو وہ جاہل ہے ۔ آج ہارورڈ اور آکسفورڈ سے پڑھے ہوئے دنیا کے بیشتر حکمرانوں کا چہرہ غزہ کے آئینہ میں دکھائی دے رہا ہے کہ وہ جاہل ہیں ۔ معصوم بچوں کو سنائپر نشانے لگا لگا کر شہید کر رہے ہیں ، ڈاکٹرز کو بھی شہید کر رہے ہیں ، ہسپتالوں پر بمباری ہورہی ہے اور دنیا بھر کے حکمران اس ظلم کے پیچھے ہیں ۔ یہ آج کے ابو جہل ہیں ۔ آگے فرمایا :
{ وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ}(بنی اسرائیل:111) ’’اور نہ ہی اس کا کوئی دوست ہے کمزوری کی وجہ سے‘‘
لوگ دوست اس لیے بناتے ہیں کہ مشکل وقت میں کام آئے گا ، اس لیےچارو ناچارکبھی اپنے دوستوں کی غلط باتیں بھی مان لینا پڑتی ہیںکہ کل ضرورت پڑے گی تو کام آجائے گا ۔ یہ کمزور ی اور مجبوری اللہ تعالیٰ کے ہاں نہیں ہے ۔قرآن میں فرمایا:
{ لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط} (الشوریٰ:49) ’’آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے۔‘‘
سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ محتاجوں کو اولاد کی بھی ضرورت ہوتی ہے ، دوستوں ، رشتہ داروں کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کو کسی دوست یا مدد گار کی ضرور نہیںہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی دوستی اس کے پاک اور پرہیز گار بندوں کے ساتھ ہے مگر وہ کسی کمزوری کی وجہ سے نہیں ہے۔ آخری بات یہ بیان ہوئی :
{ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا(111)}(بنی اسرائیل) ’’اُس کی تکبیر کرو جیسا کہ تکبیر کرنے کا حق ہے۔‘‘
یہاں محض زبان سے اللہ اکبر کہنے کا تقاضا نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ عظیم ہے ۔ اگر ہم اللہ کی بڑائی نہ بھی بیان کریں تو اس کی بڑائی میں کوئی فرق نہیں آئے گا ۔ مگر یہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کی بڑائی بیان بھی کریں اور اللہ کی بڑائی مان کر اس کے احکام پر عمل پیرا بھی ہوں ۔ اللہ کے احکامات کے نفاذ کے لیے جدوجہد بھی کریں ۔ ہماری ذاتی زندگی میں، اجتماعی زندگی میں ، گھر میں ، خاندان میں ، معاشرے میں ،ریاست میں ، حکومت ، سیاست ، معاشرت ، معیشت ، عدالت ، پارلیمنٹ سمیت ہر ادارے اور ہر شعبہ زندگی میں اللہ کے احکام نافذ ہوں ۔
شادی بیاہ کا موقع ہوتا ہے تو نفس کے تقاضے ، برادری اور خاندان کے تقاضے، زمانے کا چلن اور ہندوانہ رسومات غالب آجاتی ہیں ۔ اللہ بڑا ہے یا ہندوانہ رسومات اور زمانے کا چلن بڑا ہے ؟غم کا موقع ہوتو بدعات پر مشتمل رسوم غالب آجاتی ہیں کہ جی برادری ناراض ہو جائے گی ۔ اللہ بڑا ہے یا برادری بڑی ہے ؟سودی معیشت کو اللہ تعالیٰ نے اپنےاور اپنے رسول ﷺکے خلاف جنگ قرار دیا مگر ہمارے معیشت دان کہتے ہیں کہ سود کے بغیر گزارا نہیں ہے ، عالمی نظام ہے ، آئی ایم ایف کی پالیسی ہے ۔ اللہ بڑا ہے یا IMFبڑا ہے ؟اللہ تعالیٰ نے بندوں کو پیدا کیا اپنی بندگی کے لیے ، آج نعرے لگتے ہیں :میرا جسم میری مرضی۔ اللہ بڑا ہے یا بندہ بڑا ہے ؟ شیطان کا بھی تو یہی مسئلہ تھا ۔ اللہ کا حکم نہیں مانا ، اپنی من مانی کی ۔
اللہ کی بڑائی کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے احکامات پر انفرادی اور اجتماعی زندگی میں عمل درآمد ہو ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کے اس حوالے سے تین فتاویٰ موجود ہیں :
{وَمَنْ لَّــمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ(44)}(المائدۃ) ’’اور جو اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں۔‘‘
{وَمَنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ (45)}(المائدۃ)’’ اور جو فیصلے نہیں کرتے اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق وہی تو ظالم ہیں۔‘‘
{وَمَنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ(46)}(المائدۃ)’’اور جو لوگ فیصلے نہیں کرتے اللہ کے اُتارے ہوئے احکامات و قوانین کے مطابق‘ وہی تو فاسق ہیں۔‘‘
قرآن صرف ثواب کی کتا ب نہیں ہے بلکہ یہ اپنا نفاذ چاہتی ہے ۔ یہ تقاضا آج ہم بھولے ہوئے ہیں ۔ بقول حالی؎
اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہےآج مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ تکبیر ہوئی ،نماز پڑھی اور گھر چلے گئے ۔تسبیح تو تمام مخلوقات بھی کر رہی ہیں ۔ شجر و حجر بھی کررہے ہیں ۔ اشرف المخلوقات سے تقاضے کچھ بڑھ کر ہیں ۔ امتی کے تقاضے تو اس سے بھی بڑھ کر ہیں ۔ رسول اللہ ﷺنے صرف نماز میں تکبیر نہیں کہی ، اللہ کی تکبیر کے لیے اللہ کا نظام قائم کر کے بھی دکھایا ہے ۔ اس کے لیے دعوت بھی دی ہے ، ہجرت بھی کی ہے ، تلوار بھی اُٹھائی ہے ، اپنا خون بھی بہایا ہے ، اپنے پیاروں کی جانوں کی قربانیاں بھی پیش کی ہیں ۔ تب قرآن کہتا ہے:
{وَقُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ ط}(بنی اسرائیل:81) ’’اور آپؐ کہہ دیجیے کہ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا۔‘‘
صحابہ کرامؓ نے اس مشن کے لیے اپنے گھر بار اور زندگیاں وقف کردیں ۔ مگر آج ہمارا حال کیا ہے :
یا وُسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل
یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات
وہ مذہبِ مردانِ خود آگاہ و خدا مست
یہ مذہبِ مُلّا و جمادات و نباتاتآج لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا ۔ تکبیر ہوگئی ، اذان ہو گئی ، نماز پڑھ لی ، بس تقاضے پورے ہوگئے ۔ حالانکہ اسلام اپنا مکمل نفاذ چاہتا ہے ۔
26ویں آئینی ترمیم
سننے میں آیا ہے کہ 26ویںآئینی ترمیم میں کوئی بہت بڑے بلنڈرز ہوگئے ہیں جن کودرست کرنے کے لیے 27 ویں ترمیم لانی پڑے گی ۔ اس کا مطلب ہےکہ سب کچھ اتنا جلد بازی میں کیا گیا ہے کہ بہت سی خامیاں رہ گئی ہیں۔ آئینی طریقہ کار کے مطابق ، ترمیم کے تقاضوں کو پوراکرتے ہوئے اگر یہ ترمیم کی گئی ہوتی تو ایسا کبھی نہ ہوتا مگر مفادات اس قدر الجھ گئے ہیںکہ ممبران اسمبلی کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بچوں کو اٹھایاگیا ، خواتین کو اُٹھالیا گیا ۔ اس میں اصل قصور بھی سیاستدانوں کا ہے ۔ سیاسی مخالفت میں اندھے ہو کر جب اسٹیبلشمنٹ کا کندھا استعمال کیا جائے گا تو کل وہی کندھا تمہارے خلاف بھی استعمال ہوگا اور سیاست میں مداخلت کے دروازے تو خوب کھلیں گے ۔ آج ہماری عدلیہ بھی دنیا میں رینکنگ میں سب سے آخری نمبر وں میں ہے۔ جب ادارے بھی آئینی حدود کو پار کرتے ہوئے اختیارات سے تجاوز کریں گے تو ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آئے گی ۔
یہ مملکت ِخداداد پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آئی تھی اور اس کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ۔ اس کو باقاعدہ اسلامی ملک بنانے کے لیے بھی تو جدوجہد ہونی چاہیے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے لیے ہماری سیاسی جماعتوں نے طویل بھاگ دوڑ کی اور جو کچھ جتن کیے وہ تماشا ساری قوم نے دیکھا ۔ راتوں کو وفد جاتے ہوئے میڈیا نے دکھائے ، ملاقاتیں ہورہی ہیں ،اتنی محنت ہورہی ہے مگر اللہ کی بڑائی کے نفاذ کے لیے، اللہ کی شریعت کی بالادستی کے لیے کتنی محنتیں ہیں ؟ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے وہاں جید علماء نے ماضی میںمحنت کی اور آئین کی اسلامائزیشن کے لیےاپنا کام مکمل کیا مگر اس کے بعد آج تک اس آئینی ادارے کی سفارشات کو پارلیمنٹ میں زیر بحث کیوں نہیں لایا گیا؟ یہ ہے اللہ کی بڑائی کے نفاذ کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور حکمرانوں کا طرزعمل جس کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے ۔ کیا اللہ کا دین ہی اتنا لاوارث ہے ؟آج اللہ کے دین کے نفاذکے لیے مظاہرے ، احتجاج ، دھرنے کیوں نہیں ہو رہے ؟پارلیمنٹ میں دنیا جہاں کے مسائل زیر بحث آتے ہیں اسلامی نظام کے نفاذ پر کیوں بات نہیں ہوتی ؟
26ویں آئینی ترمیم میں عوام کو مطئمن کرنے کے لیے تھوڑا سلامی ٹچ بھی دیا گیا ہے ۔ پرنسپلز آف پالیسی میں لکھ دیا کہ 2028ء تک سود کا نظام ختم ہو جانا چاہیے ۔ اب پرنسپلز آف پالیسی کوئی باقاعدہ قانون نہیں ہوتا کہ جس پر عمل نہ کرنے پر کسی کو سز ا ہوگی ۔ یہ صرف پالیسی کے طور پر چند خوش کن باتیں ہوتی ہیں۔ 1973ء کے آئین میں بھی یہ لکھا گیا تھاکہ ریاست جلد از جلد سود کو ختم کرے مگر آج 51 سال گزرنے کے بعد بھی سود کا خاتمہ نہیں ہوا ۔ اسی طرح یہ بات بھی آئی کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف شریعت اپیلٹ بینچ میںاپیل دائر ہے اس کا فیصلہ ایک سال کے اندر آنا چاہیے ورنہ فیصلہ نافذ العمل ہو جائے گا لیکن ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ سپریم کورٹ چاہے تو وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے ۔ یعنی ایک بار پھر سپریم کورٹ کو کھیل کھیلنے کا موقع دے دیا گیا ہے ۔ اسی طرح ایک اسلامی ٹچ یہ بھی سامنے آیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات ایک سال کے اندر اندر پارلیمنٹ میں پیش کی جائیں ۔ یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ ان پر عمل بھی ہوگا ۔ یہ سارا مذاق قوم سے ہورہا ہے ۔ میڈیا پر بھی یہ باتیں آچکی ہیں کہ یہ خواہ مخواہ کا اسلامی ٹچ دیا گیا ہے جس پر عمل نہ کرنے پر کسی پر کوئی قانونی گرفت نہیں ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ اس ملک پر اپنا رحم فرمائے اور اس کے حکمرانوں کو ہدایت عطا فرمائے ۔ ہمارے انہی کرتوتوں کی وجہ سے آج ہم پر عذاب مسلط ہیں ۔
اہل غزہ کے حق میں یوم مزاحمت
حماس کی طرف سے پوری دنیا کو توجہ دلائی گئی 25 اکتوبر کو اہل غزہ کے حق میں یوم مزاحمت کے طور پر منایا جائے ۔ ہم تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام اس سلسلے میں ملک بھر میں مظاہروں کا اہتمام کررہے ہیں۔ فلسطینیوں کے ہاں شہادتیں رُک نہیں رہی ہیں ۔ حماس کی طرف سے بار بار توجہ دلائی جارہی ہے کہ امت مسلمہ اور عالمی فورمز پر مسئلہ کو اُٹھایا جائے ۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کی طرف سے ایک بڑی اچھی تجویزآئی تھی کہ پاکستان کواُمت مسلمہ کی قیادت کا رول اداکرنا چاہیے اور کوشش کرکے اُمت مسلمہ کے سربراہان کا اجلاس بلایا جانا چاہیے تاکہ عملی اقدامات کی کوئی واضح شکل سامنے لانے کی کوشش کی جاسکے ۔ OICکے چارٹر میں لکھا ہے کہ فلسطینیوں کی عسکری مدد کرنا ہر مسلم ملک کی ذمہ داری ہے ۔ یہ امتحان پوری اُمت مسلمہ کے لیے ہے ۔ فلسطینی تو اس امتحان میں کامیاب ہو رہے ہیں ۔ ہم کم ازکم بول تو سکتے ہیں ، آواز تو اُٹھا سکتے ہیں اور جن کے پاس اختیار ہے وہ عملی اقدامات بھی کر سکتے ہیں ۔ ہم ان کے لیے بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کو نرم کرے اور اللہ انہیں توفیق دے کہ مظلوموں کے لیےاب کوئی عملی قدم بھی اُٹھائیں ۔ آمین !
tanzeemdigitallibrary.com © 2024