(دعوت غوروفکر) مولانا محمد یوسف بنوری ؒ کی وارثین انبیاء کو نصیحتیں - ڈاکٹر ضمیر اختر خان

10 /

مولانا محمد یوسف بنوری ؒ کی وارثین انبیاء کو نصیحتیں

ڈاکٹر ضمیر اختر خان

 
مولانا موصوف کی یہ تحریر ماہنامہ ’بینات‘ کراچی کی مارچ 1967ء کی اشاعت سے ماخوذ ہے۔ اُس وقت بڑے بڑے علمائے کرام بقید حیات  تھے،اس لیے مولانا نے بڑے ادب و احترام کے ساتھ ان کی خدمت میں’’نوارا تلخ تر می زن …‘‘ کے عنوان سے گزارشات  پیش کی تھیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بیشتر علمائے کرام مولانا کے شاگردوں اور برخورداروں میں سے ہیں ،اس لیے ہم نے عنوان بدل کر آج کے علمائے کرام کی خدمت میں حضرت کی نصیحتیں پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ مقصد تو وارثین انبیاءfکو اُن کے اصل کام کی طرف توجہ دلانا ہے۔ ہماری رائے میں اگر ساٹھ کی دہائی میں علمائے کرام حضرت بنوری کی گزارشات پر توجہ فرماتے تو آج پاکستان میں اسلامی نظام کی برکات وبہاروں سے ہم سب مستفیض ہو رہے ہوتے۔ ہماری درخواست ہے کہ آج کے علمائے کرام چاہے وہ مساجد ومدارس سے وابستہ ہیں یا اصلاحی و دعوتی وتبلیغی کام سے منسلک ہیں یا پھر سیاسی میدان میں برسرپیکار ہیں ، وہ حضرت کی اُس وقت کی ’’گزارشات ‘‘پر جنہیں ہم نے آج ’’نصیحتوں‘‘ سے تعبیر کیا ہے، ٹھنڈے دل سے غور کریں اور ان کی روشنی میں اپنے موجودہ طرزِ فکر و عمل پر نظر ثانی فرمائیں --- لہٰذا ہم اس تحریر کو ادارہ ’بینات‘ کے شکریے کے ساتھ قارئین ’’ندائے خلافت‘‘ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ 

 

 الف: انگریز کے دورِ حکومت میں ہمارے اکابر نے جو شاندار دینی و ملی کارنامے انجام دیے، ان کا خلاصہ نکالیے تو انہیں بڑے بڑے شعبوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔   اول: ہر قسم کے جدید و قدیم فتنہ کا استیصال بذریعہ تقریر و تحریر، وعظ و تبلیغ، درس و خطابت اور ارشاد و تلقین :  دوم : اُمت مسلمہ کے لیے روحانی غذا مہیا کرنا، بذریعہ  قیامِ مدارس و معاہد، دارالافتاء و دار العلوم، مساجد و خانقاہ، تصنیف و تالیف اور جلسہ و کانفرنس۔ آج کل کی اصطلاح میں قسم اول کو’’منفی‘‘ اور قسم ثانی کو’’مثبت‘‘ کہا جاتا ہے،  کوئی شک نہیں کہ دین کی پاسبانی کے لیے علمائے اُمت نے ان دونوں میدانوں میں بیش قیمت قربانیاں دیں   اور اپنے خونِ جگر سے ’’گلشن ِدین خداوندی‘‘ کو سیراب کیا۔ الحمد للہ کہ آج تک اپنی بساط کے موافق یہ سلسلہ جاری ہے، خدمت دین کی ان ہی مثبت و منفی تاروں کے ذریعہ جب تک اُمت ِمسلمہ کا رابطہ (کنکشن) ذاتِ نبوی (بآبائنا ھو وامھاتنا، صلی اللّٰہ علیہ وسلم) سے قائم رہے گا، اُمت انوارِ نبوت سے مستفید ہوتی رہے گی اور اس سلسلہ میں سعی کرنے والے حضرات اپنی اپنی محنت اور قربانی کے بقدراجر عظیم کے مستحق ہوں گے۔
 ب : انگریز کے رخصت ہو جانے اور اسلامی نظریہ ٔ حیات کی بنیاد پر مملکت خداداد پاکستان کے وجود میں آ جانے کے بعد علمائے اُمت پر مذکورہ بالا دوگونہ ذمہ داریوں کے ساتھ ایک تیسری ذمہ داری بھی عائد ہو گئی، یعنی حکومت ِپاکستان کے سامنے نہایت پیار و محبت،انتہائی ہمدردی اور خلوص اور بے حد حکمت و فراست کے ساتھ اسلامی اور دینی نقوشِ حیات پیش کرنا، جن پر ایک اسلامی ریاست کی بنیادیں اُٹھائی جائیں ،نیز دورِ حاضر کی تمام مشکلات کا حکیمانہ جائزہ لے کر اسلامی قانون کی تدوین ، جسے عدلیہ میں نافذ کیا جائے، یہ علمائے اُمت کا اپنا منصبی فریضہ تھا ، خواہ حکومت ان سے مطالبہ کرتی یا نہ کرتی، انہیں صحیح اور واقعی مقام دیتی یا نہ دیتی،ان کی گرانقدر خدمات کا اعتراف کسی حلقہ کی جانب سے کیا جاتا یا نہ کیاجاتا، دنیا کے ہر اجر ومُزد، منصب و وجاہت اور مال و جاہ کی منفعت سے بالاتررہ کر صرف رضائے الٰہی ،ادائے حق ِرسالت، نصح اسلام اور فلاحِ آخرت کی خاطر انہیں یہ کام کرنا چاہیے تھا، جانشین نبوت کی حیثیت سے ان کا مشن وہی ہونا چاہیے تھا جو تمام انبیاء ؑ کا رہا یعنی :
{وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍج  اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(180)}(الشعراء) ’’میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں چاہتا،میرا اجر و ثواب تو بس رب العالمین نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔‘‘
لیکن ہمیں اپنی اس ’کمی‘ کا اعتراف کرنا چاہیے کہ جہاں ہم دین کی اور بیش بہاخدمتوں کی بنا پر رحمت خداوندی سے اجر وثواب کے متمنی ہیں وہاں اس عظیم الشان فریضہ سے صرفِ نظر کرنے کی وجہ سے معرضِ مسئولیت میں آجانے کا شدید اندیشہ بھی لاحق ہے، اگر میدانِ قیامت میں یہ مناقشہ فرمالیا گیا کہ تم نے اس نازک مرحلہ میں اپنی اجتماعی قوتوں کو کیوں نہ کھپایا؟ اس زبردست خلاء کو پُر کر کے اُمت کی قیادت کیوں نہ کی؟ وقت کے ایک عظیم دینی فریضہ سے کیوں بے اعتنائی برتی؟ تمہارے ذاتی مشاغل، نجی مقاصداور گروہی فوائد اس کے درمیان کیوں حائل رہے؟ اور اسلامی حکومت کے سامنے ایک صحیح ’’مجموعہ ٔقوانین اسلام‘‘ (یاد رہے کہ پس منظر میں علمائے کرام کی وہ تنقید ہے جو انہوں نے ڈاکٹر تنزیل الرحمن صاحب کی تالیف ’’مجموعہ قوانین اسلام‘‘ پر کی تھی جو ادارہ تحقیقات اسلامی نے شائع کی تھی اوراس پر ’’بینات‘‘ کے متوازن تبصرے کو بھی ہدف تنقید بنایا تھا) پیش کر کے تم نے اتمامِ حجت کیوں نہ کیا؟ تو غالب گمان یہ ہے کہ جہاں ارکانِ مملکت، اربابِ سیاست اور ادارہ تحقیقات اسلامی کے لوگوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوگا، وہاں علمائے اُمت بھی اس کی مسئولیت سے بری نہ ہو سکیں گے ۔  اِلَّا مَنْ رَّحِمَ اللّٰہُ !
  ج: ایک جمہوری ملک میں تہذیب و متانت اور خیر خواہی و دل سوزی کے ساتھ حکومت کو نیک مشورہ دینا کوئی شجرہ ممنوعہ نہیں،بلکہ ایک اچھی روایت ہے اور علمائے امت پر تو ایک شرعی فریضہ کی حیثیت سے یہ لازم ہے کہ وہ اصلاحی مشورے دیں، لیکن علمائے اُمت کی ذمہ داری مجرد اس بات پر ختم نہیں ہو جاتی کہ وہ حکومت پر تنقید کر لیا کریں اور ’’یہ نہ کرو، وہ نہ کرو!‘‘ کا صرف وعظ کہہ لیا کریں، بلکہ انہیں آگے بڑھ کر حکومت کو یہ بھی بتلانا ہو گا کہ ’’یہ کرو!‘‘ --- ان کے پاس ایسا مرتب شدہ مجموعۂ قوانین ہوجسے دفعات کی شکل میں جدید طرز کی قانونی زبان میں مدوّن کیا گیا ہو اور شرعی حدود کے تقاضوں کی رعایت پوری طرح اس میں ملحوظ رکھی گئی ہو، نئے دور کی مشکلات کاشرعی حل پیش کیا گیا ہو،قرآن و حدیث ،  اجماعِ اُمت اور اصولِ اجتہاد کی ٹھیک ٹھیک پابندی رکھتے ہوئے … اُمت کے لیے ممکن حد تک آسانی کی گنجائش باقی رکھی گئی ہو، پھر اس ’’مجموعہ قوانین اسلام‘‘ کو پوری بصیرت سے انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے سامنے پیش کرتے ہوئے وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گےکہ’’اسے اسلامی ریاست میں نافذ کرو! ‘‘ اور اس وقت اربابِ اختیار بالفرض اسے نافذ نہ بھی کریں تو کم از کم علمائے اُمت عند اللہ اُخروی مسئولیت سے تو بری ٔالذمہ ہو ہی جائیں گے اور داورِ محشر کی عدالت میں اوّلین و آخرین کے سامنے وہ اتنا تو کہہ سکیں گے کہ :’’یااللہ! اپنی فہم و بصیرت کی ممکنہ حد تک تیرے پاکیزہ قانون کو ہم نے آسان سے آسان تر صورت میں قوم کے سامنے پیش کر دیا تھا۔ اے اللہ! ہم اپنے ضعف اور اپنی ناداری کے باعث بس اتنا کام ہی کر سکتے تھے، لیکن قوت کے ساتھ اسے نافذ کرانا ہمارے بس سے باہر تھا۔
{اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّـہُمْ عِبَادُکَ ج وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (118)} (المائدۃ) ’’اب آپ انہیں عذاب دینا چاہیں تو یہ تیرے بندے ہیں ،اور اگر آپ ان کی بخشش فرما دیں تو بلاشبہ آپ زبردست ہیں حکمت والے ہیں۔‘‘ اور کیا بعید ہے کہ حق تعالیٰ کسی وقت اربابِ اختیار کو اس کے نافذ کرنے کی توفیق دے ہی دیں۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے حکومت میں اب بھی اللہ کے ایسے مخلص بندے موجود ہیں،جو دل و جان سے اس بات کے متمنی ہیں کہ انگریزی قانون (جو جزوی ترمیمات کے ساتھ ہمارے یہاں رائج ہے) کی جگہ اسلامی قانون نافذ کیا جائے، چنانچہ صدرِ مملکت(فیلڈمارشل محمد ایوب خان) نے ادارۂ تحقیقات اسلامی اسی نیک مقصد کے لیے قائم کیا تھا کہ تدریجاً مروّجہ قانون کی دفعات کو اسلامی قانون میں ڈھال دیا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ادارہ کے بعض ارکان کی الٹی ذہنیت نے اس کے مقاصد ہی کو الٹ کر رکھ دیا ہے اور صرف ’’مغربیت پر اسلام کی چھاپ‘‘ لگا دینے کے لیے ہی تمام الحادی اسلحہ استعمال کیا جانے لگا۔
د : اس سلسلہ میں علمائے اُمت کے سامنے جو مشکلات ہیں اور جن دشوار گزارمراحل سے وہ گزر رہے ہیں،نکتہ چین لوگوں کو ان کا احساس ہویا نہ ہو،ہمیں ان کا پوری طرح احساس ہے، لیکن اس کا کیا کیجیے کہ زمانے کے دینی تقاضے ہماری مشکلات پر نظر رکھنے کے عادی نہیں ہیں، مقتضیاتِ وقت کی عدالت میں ہمارے اس عذر کی کوئی شنوائی نہیں کہ ہمارے پاس نہ تو اس کا م کے لیے باصلاحیت افراد کو فارغ کرنے کی ادنیٰ گنجائش ہے اورنہ ہم اس کے لیے زرِکثیر فراہم کر سکتے ہیں۔ ’’قاضی ٔوقت‘‘ کا فیصلہ یہی ہے کہ تمہار ے پاس فرصت ہو یا نہ ہو، قوت ہو یا نہ ہو، سرمایہ ہو یا نہ ہو، بیٹھنے کی جگہ ہو یا نہ ہو، تمہیں یہ کام بہرحال کرنا ہوگا اور بغیر کسی دنیوی منفعت کے کرنا ہو گا، کیونکہ کرنے کا کام صرف گفت و شنید سے نہیں ہوتا، وہ تو بہرصورت کرنے ہی سے ہوتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے ہندوستانی علماء نے ایک ’’ادارۂ تحقیقاتِ شرعیہ‘‘ قائم کر لیا ہے جس سے قارئین ’بینات‘ متعارف ہیں۔ لیکن بڑی ندامت کی بات ہے کہ پاکستانی علماء اب تک اپنا ’’ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی‘‘ قائم نہیں کر سکے جو ہر قسم کی سیاست بازی سے الگ رہ کر پوری ملت کی اس عظیم خدمت کو بجالاتا۔{ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّــآ اِلَـیْہِ رٰجِعُوْنَ}  یہ جو کچھ عرض کیا گیا ہے اِس پر پوری سنجیدگی سے غور وفکر کرنا چاہیے، نری جذباتیت  سے مسائل حل نہیں ہو تے۔‘‘
متذکرہ بالا نصیحتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم آج   کے علمائے کرام کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں:
1۔ حضرت بنوری ؒ کی نصیحتوں پر سنجیدگی سے  غور وخوض فرما کر عند اللہ مسئولیت سے بچنے کی کوشش فرمائیں۔
2۔ اپنے کام کو دینی مدارس و مساجد ومکاتب تک محدود رکھنے کی بجائے ملک میں نفاذِ دین اور قوانین ِاسلام  کے اجرا کے لیے بھر پور جدوجہد کریں۔
3۔ جو علماء مغربی جمہوری سیاست کے ذریعے ملک میں نفاذ اسلام کے خواہاں ہیں وہ اپنے اس لائحہ عمل کو تبدیل کریں کیونکہ 77 سال بیت گئے ، اس طریقے سے نفاذ اسلام کی طرف خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی اور بقول مفتی نظام الدین شامزئی شہید’’علماء نے 48 سال انتخابی سیاست میں ضائع کر دئیے ہیں۔ میں دعوے سے کہتاہوں کہ 48 ہزارسال  میں بھی  اس طرح اسلام نہیں آسکتا۔‘‘(خطبات شامزئی صفحہ 213)۔
4۔ حکمران طبقے کے سامنے واشگاف انداز میں واضح کریں کہ جب تک وہ احکام دین کی تنفیذ کی طرف پیش قدمی نہیں کرتے، وہ عوام الناس (رعایا) سے اطاعت کی توقع نہ رکھیں۔
5۔ حال ہی میں بعض علماء کی طرف سے حکمرانوں  کی غیر مشروط اطاعت کا تقاضا کیا گیا ہے جو انتہائی    غیر مناسب ہے ۔ہمارے موجودہ حکمران لادینی افکار (Secularism)  کے حامل ہیں ۔ وہ سیاست و اجتماعی معاملات میں دین اسلام کی عملداری کے مخالف ہیں بلکہ اِن میں بعض ایسے بھی ہیں جو دین اسلام کو دنیوی ترقی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ وما علینا الا البلاغ المبین
   اللہ ہم سب مسلمانوں کو مملکت ِ پاکستان میں دین ِ اسلام کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے علماء کو بھی اپنےذمہ کا کام انتہائی خلوص اور دیانت داری سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!