الہدیٰ
اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال اللہ کی خوشنودی کے لیے خرچ کریں
آیت 77{وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰىکَ اللہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ} ’’اور جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے اس سے دارِ آخرت حاصل کرنے کی کوشش کرو‘‘
یہ دولت اللہ ہی کی دی ہوئی ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ اس کے راستے میں خرچ کر کے اپنے لیے توشۂ آخرت جمع کرنے کی کوشش کرو۔
{وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا} ’’اور مت بھولو تم دنیا سے اپنا حصّہ‘‘
کسی دولت مند شخص کے لیے یہ تیسری نصیحت ہے کہ جو دولت اللہ نے تمہیں دے رکھی ہے، اس میں سے اپنی ذات پر بھی خرچ کرو۔ اس سے یوں لگتا ہے کہ جیسے قارون بہت کنجوس تھا۔ اسے بس دولت جمع کرنے ہی کی فکر تھی‘ دولت کو خرچ کرنے سے وہ گھبراتا تھا۔ آیت زیر مطالعہ میں اس حکم کے ذریعے اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑے بغیر اپنے وسائل میں سے اپنی اور اپنے متعلقین کی جائز ضروریات پر خرچ کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں چوتھی نصیحت یہ دی گئی ہے :
{وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللہُ اِلَیْکَ} ’’اور لوگوں کے ساتھ احسان کرو ‘جیسے اللہ نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے‘‘
اللہ نے تمہیں دولت دی ہے تو یہ اللہ کا تم پر بہت بڑا احسان ہے۔ لہٰذا تمہیں چاہیے کہ تم بھی لوگوں پر احسان کرو اور اپنے بیگانے کی تفریق و تخصیص کیے بغیر غریبوں‘مسکینوںاور محتاجوں کی مدد کو اپنا شعار بنائو۔
اوراب پانچویں نصیحت:
{وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ ط اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ(77)} ’’اور زمین میں فساد مت مچائو‘یقیناً اللہ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
اپنے سیاق و سباق کے حوالے سے یہ بہت اہم ہدایت ہے۔ وہ کون سا فساد تھا جس میں قارون ملوث تھا؟ یہ سمجھنے کے لیے مصر کے اس ماحول کا تصوّر کریں جہاں حضرت موسیٰ ؑ دن رات ہمہ تن کارِ نبوت اور فرائضِ رسالت کی ادائیگی میں لگے ہوئے تھے ۔اُس معاشرے کے کچھ لوگ تو آپ ؑ کا ساتھ دے رہے تھے اور اس کام میں آپ ؑ کا ہاتھ بٹانے کی کوشش میں تھے‘ جبکہ کچھ دوسرے لوگ آپ ؑ کی راہ میں روڑے اٹکانے اور آپd کے مشن کو ناکام بنانے کے لیے سازشوں میں مصروف تھے۔ گویا اللہ تعالیٰ اس معاشرے کے لیے حضرت موسیٰ ؑ کے ذریعے سے جو خیر پیدا کرنا چاہتا تھا‘قارون اور اس کے گروہ کے لوگ مختلف حربوں سے اس خیر کا راستہ روکنے کی کوشش میں مصروف تھے ‘اور یہی وہ ’’فساد فی الارض ‘‘ہے جس کا یہاں ذکر ہوا ہے۔
اس حوالے سے اگر ہم رسول اللہﷺ کے مدنی دور کا جائزہ لیں تو مدینہ کے منافقین بھی آپﷺ ْکے مشن کے خلاف اسی طرح کی منفی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل تھے۔
درس حدیث
آپس میں بھائی بھائی بن جائو!
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؓ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺقَالَ:(( إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا))(رواہ مسلم)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بدگمانی سے بچتے رہو، بدگمانی اکثر تحقیق کے بعد جھوٹی بات ثابت ہوتی ہے اور کسی کے عیوب ڈھونڈنے کے پیچھے نہ پڑو، کسی کا عیب خواہ مخواہ مت ٹٹولو اور کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ اور حسد نہ کرو، بغض نہ رکھو، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔‘‘