تنظیم اسلامی کا سالانہ اجتماع 2024ء
سال 2024 ءکا سالا نہ اجتماع انتہائی گھمبیر حالات میں منعقد ہو رہا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے۔ بیالیس ہزار سے زیادہ لوگ شہید ہو چکے ہیں، ایک لاکھ سے زائد زخمی ہیں۔ ان حالات میں مسلمان بطور امت کسی بھی کردار کو ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ دنیا میں عالمی غلبہ کے لیے لڑائیاں( روس، یوکرائن، اور غزہ) اور تنازعات( شمالی کوریا و تائیوان) وغیرہ جاری ہیں۔ غزہ میں حماس کے مجاہدین نے عظمت کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ مٹھی بھر جانبازوں نے بالکل نہتے اور بے سر و سامان ہونے کے باوجود نصرت خداوندی کے بل بوتے پر دجّالی قوتوں کو ہزیمت سے دو چار کر رکھا ہے۔ فلسطین کے مرد ،عورتیں اور بچے انتہائی صبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور انہوں نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ایک طرف یہ حال ہے تو دوسری طرف پوری نام نہاد امت مسلمہ’’ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کا شکار نظر آرہی ہے۔ نام نہاد امت مسلمہ ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمان تو بہت دور کی بات ہے، عرب تک متحد نظر نہیں آرہے۔ وہ بھی قومیتوں میں بٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یو اے ای کی ایک خاتون وزیر نے کھلم کھلا حماس پر تنقید کی ہے۔ OIC کا حال یہ ہے کہ وہ واقعی(Oh I See) بنی ہوئی ہے۔
نبی اکرمﷺ نے تو مسلمانوں کو ایک لڑی میں پروکر جسدِ واحد قرار دیا تھا کہ جیسے جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح اس امت کے مسلمانوں کا تو یہ حال ہونا چاہیے تھا کہ غزہ کے مسلمانوں کی تکلیف کو پوری دنیا کے مسلمان محسوس کرتے، اپنا آرام اوراپنی آسائش تج دیتے۔ کم از کم اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا ہی ببانگ دُہل اعلان کر دیتے مگر جب مسلمانوں نے جہاد سے منہ موڑ لیا، نبی اکرم ﷺ سے اپنا تعلق کمزور کر لیا، اپنے آرام ،اپنی آسائش کی فکر میں پڑ گئے تو ذاتی مفادات اور اقتدار کی ہوس نے مسلمانوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔اُمتِ مسلمہ کی اصطلاح صرف تقریروں اور تحریر کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی اور عملاً اس کا وجود ختم ہو گیا۔ یہی وجہ کہ یہود، جنہیں قرآن مجید ’’مغضوب علیہم‘‘ قرار دیتا ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا بدترین دشمن قرار دیتا ہے، آج چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو پرزے پرزے کر کے ہوا میں اچھال رہا ہے۔
مسلمان حکمرانوں کو اپنا اقتدار اور جان و دولت زیادہ عزیز ہے۔ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا چاہتے کہ جس کی وجہ سے امریکہ اور یورپ میں اُن کے کاروبار یاامریکی بینکوں میں رکھی ہوئی اُن کی دولت پر کوئی آنچ آئے۔ جب کہ اسرائیل کا حال یہ ہے وہ جلد از جلد مسجد اقصٰی کو شہید کر کےاپنا تھرڈ ٹیمپل تعمیر کرنے کے لیے بے چین ہے۔ وہ علی الاعلان نیل سے فرات تک گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل عربوں کو صلح وصفائی اور امن و امان کا چکمہ دے کر عربوں کی سرزمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ادھر عرب حکمرانوں کو اقتدار اور دولت کے نشے نےاندھا کر دیا ہے۔ وہ اسی غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اگر وہ اچھے بچے بن کر رہیں گے تو ان کا اقتدار بھی قائم رہے گا اور وہ امن وامان میں بھی رہیں گے ۔
دوسری طرف آج ہمارے اپنے ملک کے حالات بھی مخدوش نظر آرہے ہیں۔ بدترین سیاسی عدم استحکام ہے۔ سودی معیشت، بے انتہا کرپشن اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذموم معاہدوں نے ملکی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ مہنگائی اور بےروزگاری اپنے عروج پر ہے۔ حکمران اور مقتدر قوتیں نہ جانے کس کھیل میں مصروف ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ عالمی بساط پر شطرنج کی طرح کھیلی جانے والی چالوں سے بے خبر ہیں۔ معدودے چند پاک نفوس کو چھوڑ کر تمام مسلمانانِ پاکستان حقیقی ایمان کے فقدان کی وجہ سے دنیاوی دولت، اقتدار اور قوت کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ عالمی حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حق و باطل کی کشمکش اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ دجّالی مکروفریب کا چہرہ چاک ہونے جا رہا ہے۔ پورے کرۂ ارضی پر مسلط ابلیسی سیکولر سرمایہ دارانہ جمہوری نظام اپنے منطقی انجام کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے بقول اقبال:
جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا ،وہ عالَمِ پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامِروں نے بنا دیا ہے قمارخانہ
غزہ کے مسلمانوں سے سبق سیکھتے ہوئے ہمِ رفقائے تنظیم کو بھی اپنے ملک میں نفاذِشریعت کی جدوجہد کو تیز تر کرنا ہوگا۔ اپنےایمان ویقین میں اضافہ کی شعوری کوشش کے ساتھ ساتھ رب کی بندگی اور وفاداری کے امتحان میں پورا اترنے کا عزم کرنا ہوگا۔ اپنے نفس اور شیطان کے خلاف جُہد ِمسلسل کے ساتھ ساتھ باطل افکار و نظریات کے خلاف عالمی و فکری جہاد اور باطل قوتوں سے پنجہ آزمائی کے لیے ہمہ وقت آمادہ عمل رہنا ہوگا۔ اس انقلابی جدوجہد کے ناگزیر تقاضے کے طور پر تنظیم کے نظم کے ساتھ سختی سے جڑے رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے پروردگار کے دامن کو مضبوطی سے تھامنا اور تعلق با للہ میں بھی مسلسل اضافہ کرنا ہوگا۔
رفقا ءمحترم! مندرجہ بالا ملکی و عالمی حالات کے پس منظر میں تنظیم اسلامی کے رفقاء کی ذمہ داریوں میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ ہم سب ایک ایسی کشتی کے سوار ہیں جو شدید طوفان کی زد میں گھری ہوئی ہچکولے کھا رہی ہے۔ اس کشتی کے ملّاح طوفان سے بےخبر ہیں جبکہ کشتی کے مسافر سوئے ہوئے ہیں۔ امریکہ ،بھارت اور اسرائیل کا ابلیسی اتحاد اسے غرق کر دینے کے در پےہے۔ وہ مسافر جو جاگ رہے ہیں،اب انہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ سوئے ہوؤں کو جگائیں اور اس کشتی کو حفاظت اور سلامتی کے ساتھ کنار ے پر لگائیں۔
رفقا ء گرامی! پاکستان میں اگر اسلامی نظام قائم ہو جائے تو پاکستان نہ صرف معاشی طور پر خوشحال اور مستحکم ہوگا بلکہ سپر پاور آف دی ورلڈ بن کر بھی ابھرے گا۔ جو لوگ اس اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے جدوجہد کریں گے وہ دنیامیں بھی سرفراز ہوں گے اور جنت بھی ان کی منتظر ہو گی۔ یعنی ’’ہم خرما وہم ثواب‘‘۔
عزیز رفقاء! ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ گریٹر اسرائیل قائم کرنے کے آخری مرحلے کے دوران جب یہود فیصلہ کن جنگ شروع کریں گے تو وہ کسی صورت یہ خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہ ہوں گے کہ کسی بھی اسلامی ملک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں۔ اس طرح پاکستان کو چاہے نہ چاہے جنگ میں حصہ لینا ہی پڑے گا۔ کیونکہ اگر پاکستان مغربی قوتوں کے دباؤ میں آکر اپنے ایٹمی ہتھیار ان کے حوالے کر دے تو بھارت پاکستان پر چڑھائی کرنے میں دیر نہیں لگائے گا۔
لہٰذا پاکستان کو معاشی طور پر خوشحال، امن کا گہوارہ، ناقابل تسخیر اور مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ آخرت میں کامیابی کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ ہم اقامتِ دین کی جدوجہد میں اپنا تن من دھن لگا دیں۔ آئیےہم سب مل کر سالانہ اجتماع میں حاضر ہو کر اپنے دوسرے رفقاء کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ اپنے اس عہد کو تازہ کریں کہ ہمارے پروردگار نے اقامت دین کا جو فر یضہ ہم پر عائد کیا ہے، اسے اپنے تمام دنیاوی امور پر ترجیح دیں گے، حتی الامکان دین کی دعوت ہر خاص و عام تک پہنچائیں گے اور ایک مثالی نظم کا مظاہرہ کریں گے۔
رفقاء گرامی!تنظیم اسلامی کو قائم ہوئے اب 50 سال ہونے کو ہیں، گویا اب اس کی عمر نصف صدی کے قریب ہے۔ الحمدللہ اس عرصے میں ہماری پیش رفت مسلسل اور مستقل جاری ہے۔ ہمیں اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے چونکہ یہ صرف اللہ کے فضل کی بدولت ممکن ہوا ہے اور آئندہ بھی اسی کی توفیق پر منحصر ہے۔
اس موقع پر ہم میں سے ہر رفیق کو خود اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی قوت و توانائی، صلاحیت، مہارت،اوقات و وسائل کا کتنا حصہ اقامتِ دین کی جدوجہد میں صرف کر رہا ہے اور اگر کچھ کمی محسوس ہو تو پھر شعوری طور پر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اس میں حتی الامکان اضافہ کرے گا ۔
اس موقع پر ہمارے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی انقلابی فکر اور تنظیمی و تحریکی منہج کے اساسی مسلّمات کا سبق دوبارہ تازہ کر لیں اور اس ضمن میں کسی نسیان کو راہ نہ پانے دیں۔
یہ مسلمات مختصراً درج ذیل ہیں:
1۔ ہمارا نصب العین صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی فلاح کا حصول ہے۔
2۔ ہمارا اجتماعی جدوجہد کا ہدف اور مقصود اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے دین کو بہ تمام و کمال ایک مکمل نظام ِاجتماعی کی شکل میں نافذ کرنا ہے اور یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک انقلابی ہدف ہے۔
3۔ ہماری دعوت کا مرکز و محور قران مجید ہے۔
4۔ ہمارا طریقِ تربیت و تذکرہ بھی’’ خانقاہی‘‘ نہیں بلکہ انقلابی یعنی نبوی طریقِ تزکیہ پر مبنی ہے۔
5۔ ہماری تنظیم کی اساس’’ بیعت سمع و طاعت فی المعروف‘‘ پر قائم ہے۔
6۔ ہمارا منہج ِانقلاب سیرت نبویﷺ سے ماخوذہے۔
اپنے اسی سبق کو دہرانے کے لیے ،بھولے ہوئے سبق کو تازہ کرنے کے لیے، اپنے ہم مقصد رفقاء سے ملاقات کے لیے، ایک نئے عزم اور حوصلے کو بلند کرنے کے لیے یہ اجتماع منعقد کیا جا رہا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں اس اجتماع سے ہمیں کیا کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
سب سے پہلے تو ہماری فکرکی آبیاری ہوتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی توفیق و تائید سے جذبہ جہاد ہمارے اندر بیدار ہوتا ہے۔ پھر اس امت کے کندھوں پر شہادت علی الناس کی جو عظیم ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور جس کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہم آج ذلیل و رسوا ہیں، اس ذمہ داری کو ادا کرنے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اپنے اوقات اور اموال لگانے کی قربانی کا جذبہ حاصل ہوتا ہے۔ منہج انقلاب نبوی کی مناسبت سےجان کھپانے کا موقع بھی میسر آتا ہے۔ ہمیں اپنے اکابرین سے استفادہ کا موقع میسر آتا ہے۔ تنظیم کے اعتبار سے جو کام ہو رہا ہے اور جو پیش رفت ہو رہی ہے، اس کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ہمارے دینی علم میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔
دور دراز سے آئے ہوئے ہم سفر ساتھیوں کےجوش اور ولولے کو دیکھ کر ہمارا بھی جوشِ جہاد ولولہ انگیز ہوتا ہے۔ ان سے ملاقات باہم حوصلہ افزائی کا موجب ہوتی ہے اور اس سے’’ رحماء بینہم‘‘ کی مطلوبہ فضا جنم لیتی ہے جو کہ رب کی رضا کے حصول کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔
رفقاء کرام!ان عالمی گھمبیر حالات میں ضروری ہے کہ ہم اپنی کوششوں کو مزید تیز کریں۔ اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر عفو و عافیت اور ملک و قوم کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگیں۔ قوم کو جگانے کی خاطر دعوت کے عمل کو بھرپور طریقے سے آگے بڑھائیں اور اس سالانہ اجتماع میں ’’اُٹھ کہ خورشید کا سامان ِسفر تازہ کریں‘‘ کے جذبے کے ساتھ دین کی شہادت و اقامت کے اس مبارک کام کو تیز تر کرنے کے لیے شرکت کریں۔ اللہم وفقنا لہذا
یقیناً اقامت دین کی جدوجہد میں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھانے والے لوگ ہی دنیا کے خوش قسمت ترین لوگ ہیں۔ اے اللہ رب العزت ! ہم سب کو اپنا عہد نبھانے کی توفیق عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین!