حقوق اللہ اور حقوق العباد
(سورۃ النساء کی آیت 36 کی روشنی میں )
مسجد جامع القرآن، قرآن اکیڈمی لاہور میںامیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخs کےیکم نومبر 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
آج ہم ان شاء اللہ سورۃ النساء کی آیت 36 کا مطالعہ کریں گے ۔اس آیت میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کا تذکرہ بہت جامع انداز میں آیا ہے۔ موجودہ دور میں بہت سے فتنے سر اُٹھا رہے ہیں ۔ جیسا کہ کبھی جذباتی طور پر بلیک میل کر کے اللہ تعالیٰ کے حق کو پامال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس سال ہم قربانی نہیں کریں گے بلکہ اپنے گھر کے باہر پانی کا ایک کولر لگا دیں گے تاکہ مخلوق خدا کا فائدہ ہو۔ کبھی کہا جاتاہے کہ نماز ہمارا ذاتی معاملہ اور اللہ کا حق ہے ۔ اللہ چاہے تو معاف کرسکتاہے ، اصل معاملہ تو حقوق العباد کا ہے ۔ یعنی یہ کہہ کر بھی اللہ کے حقوق کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ گویا شریعت کی پابندی سے جان چھڑا نے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ پھرایک دوسرا طبقہ ایسا بھی ہے کہ جو صرف نماز ، روزہ، زکوٰۃ ، عمرہ اور حج کو ہی کل اسلام سمجھ بیٹھا ہے اور دین کے دیگر تقاضوںکو فراموش کررہا ہے ۔ یہ دونوں رویے اور انتہائیں غلط ہیں ۔ جبکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہےاور اپنا مکمل نفاذ چاہتاہے جیسا کہ سورۃ البقرہ میں فرمایا :
{یَاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً ۪ } ’’اے ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔ ‘‘
اس لحاظ سے سورۃ النساء کی زیر مطالعہ آیت بہت اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کے حوالے سے ایک پورا پیکج ہمارے سامنے آتا ہے ۔ فرمایا :
{وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا} ’’اور اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو بھی اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائو۔‘‘
یہاں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنا حق بیان کیا ہے اور یہ اللہ کا سب سے بڑا حق ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انسان کا مقصد تخلیق بھی بیان کر دیا ہے :
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (56)} (الذاریات)’’اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اس لیے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘
یہ زندگی بھر کا مطالبہ ہےکہ پوری زندگی اللہ کی بندگی میں گزاری جائے۔ بندگی کے تقاضوں میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی شامل ہے ۔ اخلاقیات اور معاملات میں بھی اللہ کی بندگی ہو ۔ سیاست ، معاشرت اور معیشت میں بھی اللہ کی بندگی ہو ۔ عدالت ، حکومت اور ریاست میں بھی اللہ کی بندگی ہو ۔ اگر اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مقابلے میں ، اللہ کی شریعت کے مقابلے میں کسی اور کا حکم نافذ ہورہا ہے تو پھر یہ اللہ کی بندگی نہیں ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی کتاب حقیقت و اقسام شرک میں تفصیل سے تذکرہ ہے ۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پر فائرنگ کا رُخ دوسروں کی طرف ہوتاہے ۔ یعنی کفر اور شرک کے فتوے ہم دوسروں پر تو لگاتے ہیں مگر اپنے اعمال اور معاملات میں زیادہ غور نہیں کرتے ۔ لیکن ڈاکٹر صاحب ؒ کی یہ کتاب پڑھنے کے بعد ہمیں دوسروں کی نسبت اپنی زیادہ فکر لگ جاتی ہے ۔ یہ کتاب ہر کسی کو پڑھنی چاہیے کیونکہ شرک کا معاملہ بہت ہی حساس ہے۔ مسلم شریف میں حدیث ہے کہ قیامت کے دن بندہ فدیہ دینا چاہے گا تاکہ اس کے بدلے اس کو عذاب سے نجات مل جائے مگر اللہ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں بہت ہلکی بات کا مطالبہ کیا تھا کہ صرف میری عبادت کرنا اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی شرک سے حفاظت فرمائے۔ یہ عقیدے میں بھی آجاتاہے، نیتوں میں بھی آجاتاہے ، اعمال میں بھی آجاتاہے ۔ دکھاوے کی شکل میں بھی آتاہے ۔ آگے فرمایا:
{وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا}(النساء :36) ’’اور والدین کے ساتھ حسن ِسلوک کرو‘‘
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ اپنی جگہ ایک بہت بڑا موضوع ہے ۔ تنظیم اسلامی کے منتخب نصاب میں بھی خصوصی طور پر شامل ہے اور اس حوالے سے سورہ بنی اسرائیل کی آیات 23 تا 25 کامطالعہ بھی کروایا جاتاہے :
’’اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو۔اور ان کے سامنے شفقت سے عاجزی کے ساتھ جھکے رہو اور کہو اے میرے رب جس طرح انہوں نے مجھے بچپن سے پالا ہے، اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما۔جو تمہارے دلوں میں ہے تمہارا رب خوب جانتا ہے، اگر تم نیک ہو گے تو وہ توبہ کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔‘‘
اسلام میں والدین کے حقوق کا یہ تقاضاہے جبکہ بے خدا تہذیب کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ وہاں ماں باپ کو گھروں سے نکال کراولڈ ہاوسز میں سڑنے کے لیے پھینک دیا جاتاہے اور سال میں ایک مرتبہ نمائشی طور پر فادر ڈے اور مدر ڈے منا لیا جاتاہے اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ کرکے والدین کا حق ادا ہو گیا ۔ بدقسمتی سے یہی اثرات آج ہمارے معاشرے میں بھی پھیل رہے ہیں۔ حالانکہ والدین کا حق اتنا بڑ ا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنے حق کے فوراً بعد والدین کا حق بیان فرمایا۔ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے ا س موضوع پر بہت زبردست کتاب لکھی ہے۔ اس میں انہوں نے لکھا کہ اللہ تعالیٰ خالق ہے مگر تخلیق کا ذریعہ ہمارے والدین بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ رازق ہے مگر اس کا ذریعہ ہمارے والدین بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نگہبان ہے مگر بچے کی حفاظت کا ذریعہ والدین بنتے ہیں ۔ ماں کتنا عرصہ بچے کو پیٹ میں اُٹھاتی ہے اور پھر کتنا عرصہ اس کو سنبھالتی اور دودھ پلاتی ہے ۔ والد اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر بغیر کسی صلہ کی امید کے اولاد کو پالتا ہے مگر دجالی تہذیب کے اثرات ہیں کہ آج اولاد والدین کی ناشکری کرتی ہے۔ حالانکہ حدیث میں واضح کر دیا گیا ہے کہ والدین تمہارے لیے جنت کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں اور جہنم کا بھی ۔ اگر تم والدین کی خدمت کروگے ، حسن سلوک سے پیش آؤ گے تو اس کے نتیجے میں جنت ملے گی اور اگر بے ادبی ، نافرمانی اور ناشکری کا رویہ رکھا توا س کا نتیجہ جہنم کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔حدیث میں ہے کہ ماں باپ کو محبت سے دیکھو تو حجِ مقبول کا ثواب ملتا ہے۔ آگے فرمایا :
{وَّبِذِی الْقُرْبٰی}’’اور قرابت داروں(کے ساتھ)‘‘ ۔
والدین کے بعد قرابت داروں کا حق ہے ۔ ایک حدیث میں ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک بستی والوں کو خوب نوازتا ہے ، انہیں مال ، اولاد ، دولت ، زراعت ، مویشی عطاکرتاہے حالانکہ اس بستی والوں کے اعمال نافرمانی اور سرکشی پر مبنی ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود اگر اللہ کی رحمت نہ ہوتی تو ان کو یہ سب کچھ کیوں ملتا ۔ یعنی اللہ بھی بندوں سے رحمت کا سلوک کرتاہے ۔ اسی طرح انسان کو بھی چاہیے کہ وہ قرابت داروں اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا سلوک کرے۔ حدیث میں ذکر ہے کہ صلہ رحمی کا صلہ دنیا میں بھی ملتاہے اور جن گناہوں کی سزا اللہ تعالیٰ جلد دیتاہےان میں سے ایک گناہ قطع رحمی بھی ہے ۔رحم کا لفظ رحمٰن سے آیا ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جو میرے بندوں کو جوڑے گا میں بھی اسے جوڑ وں گا اور جو میرے بندوں کو توڑے گا تو میں بھی اس کو توڑ کر رکھ دوں گا ۔ اسی طرح قرابت داروں اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن ِسلوک یہ بھی ہے کہ تنگی تکلیف میں ان کی مدد کی جائے۔ ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے ۔ والدین ، اولاد ، بیوی کی کفالت تو انسان کے ذمہ ہے لیکن ان سے ہٹ کر جو قریبی رشتہ دار ہیں ان کو انسان اپنے مال میں سے زکوٰۃ اور خیرات کی صورت میں دے سکتاہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اپنے رشتہ داروں کی مدد کرنے کا دہرا اجر اللہ تعالیٰ عطافرماتاہے: ایک دینے کا اجراور ایک صلہ رحمی کا اجر ۔ جس طرح حدیث میں یہ ذکر ہے کہ جو تین بیٹیوں کی کفالت کرے گا ، اللہ تعالیٰ اسے جنت عطافرمائے گا ۔اسی طرح ایک حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ اگر کسی کی کفالت میں خالہ ، پھوپھی، بھتیجی ، بھانجی جیسے تین رشتہ دار ہوں اور وہ ان کی کفالت کی ذمہ داری پوری کرے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی جنت عطا فرمائے گا ۔
آج دجالی تہذیب ان سنہری اقدار و روایات کو برباد کرنے پر تُلی ہوئی ہے ۔ 8 مارچ (خواتین مارچ) والے نکاح کا انکار کرتے ہیں ، سیکولرزاور لبرلز فیملی سسٹم کا انکار کرتے ہیں ۔ آج صلہ رحمی اور حسن سلوک کا تصور ہی ناپید ہورہا ہے ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد کا آپس میں وہ سلوک اور رویہ نہیں ہے جس کا دین تقاضا کرتاہے ۔ والدین کے پاس اولاد کو دینے کے لیے وقت نہیں ہے ، شوہر کے پاس بیوی کے لیے وقت نہیں ہے ۔ اولاد کو موبائل سے فرصت نہیں ۔ کہاں یہ کہ اللہ تعالیٰ قرابت دار رشتہ داروں سے بھی حسن سلوک کا حکم دیتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حالات پر رحم فرمائے ۔ آگے فرمایا :
{وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ}(النساء :36)’’اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ‘‘
نبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی کے لیے نمونہ بنایا ہے ۔ انہوں نے یتیمی کے حالات بھی دیکھے اور آپ ﷺ سے بڑھ کر کون جانتا تھا کہ یتیم بچے کی کیفیت کیا ہوتی ہے ۔ جس کے سر پر کوئی دست شفقت رکھنے والا نہ ہو، کوئی اس کو سرد اور گرم حالات سے بچانے والا نہ ہو تو کیا کیفیات ہوتی ہیں ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں کو جوڑ کر دکھاتے ہوئے فرمایا : ’’میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ایک ساتھ ہوں گے ۔ ‘‘
آج ایک بڑا مسئلہ ہے کہ دل سخت ہوگئے ہیں اس کی کچھ دیگر وجوہات بھی ہیں جیسا کہ ڈپریشن ہے ، انگزائٹی ہے اورسٹریس ہے وغیرہ وغیرہ لیکن اس کی ایک وجہ یتیموں کے سر پر دست شفقت نہ رکھنا بھی ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس ایک شخص نے شکایت کی کہ یارسول ﷺ ! میرا دل بڑا سخت ہوگیا ہے، کیا کروں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جاؤ کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرو، اللہ تمہارے دل کو نرمی عطا کر دے گا۔ ان چیزوں کے بارے میں ہم نہیں سوچتے۔ بڑے بڑے میڈیکل ٹیسٹوں پر لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں لیکن اگر دین کے بتائے ہوئے ان پہلوؤں پر بھی عمل کرلیں تو شاید کئی مسئلے حل ہوجائیں ۔ آج دل ایسے سخت ہو گئے ہیں کہ جائیداد کے لیے والدین کو قتل کر دیتے ہیں ، PUB G گیم کے لیے ماں باپ اور بہنوں بھائیوں کا قتل کیا جارہا ہے ، چند ٹکوں کی خاطر رشتہ داروں کی زندگیاں چھین لیتے ہیں ۔
سورہ توبہ کی آیت نمبر 60 کے مطابق زکوٰۃ کے 8 مصارف ہیں ۔ وہاں فقراء اور مساکین کا ذکر بھی ہے ۔ آج ہمارے ملک کے حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ مزدور ، چھوٹے ملازمین اور عوام کی اکثریت اپنی ضروریات زندگی پوری نہیں کرپارہی ۔ لوگ جمعہ کی نماز کے لیے آتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ ہمارے حقوق کے بارے میں بھی بات کیا کیجئے ۔ اتنی تنخواہ نہیں جتنا بجلی کا بل آتاہے تو بے چارہ غریب کھائے گا کہاں سے ، گھر کا کرایہ کہاں سے ادا کرے گا ، گھروالوں کی ضروریات کیسے پوری کرے گا ۔ فقہ کی رو سے مساکین وہی ہیں جن کو محنت اور مشقت کے باجود اتنا معاوضہ نہیں ملتا کہ وہ ضروریات زندگی پوری کر سکیں ۔ ہمارا دین ایسے لوگوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا تقاضا کرتاہے۔ ایک حدیث میں بڑی پیاری بات آئی ہے :((ھل تنصرون ورترزقون الابضعفاءکم)) ’’تمہیں مدد دی جاتی ہے اور رزق دیا جاتا ہے تمہارے کمزوروں کی وجہ سے۔‘‘
کسی گھر میں کوئی بچہ ہے ، کسی گھر میں کوئی ضعیف ہے ، کسی گھر میںکوئی معذور ہے ۔ عورت خود بھی کمزور ہے اور اس کی کفالت بھی مرد کے ذمہ ہے ۔ان کمزوروں کی کفالت کے لیے بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو رزق دیتاہے ۔یعنی کہ ہمارے رزق ، مال اور پیسے میں کمزوروں کا بھی حق ہے اور اس حق کو ادا کرنا ہم پر لازم ہے ۔ آگے فرمایا
{وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ}(النساء :36) ’’اور قرابت دار ہمسائے اور اجنبی ہمسائے کے ساتھ‘‘
پڑوسیوں کی مختلف اقسام کا تذکرہ احادیث رسول ﷺ میں بھی تفصیل سے بیان ہوا ہے ۔ ایک وہ پڑوسی ہوتے ہیں جو ہمارے رشتہ دار ہوتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو اجنبی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ دونوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دے رہا ہے ۔ اسلامی معاشرے میں ایک وقت وہ بھی تھا جب ایک گھر سے کھانا جاتا تھا اور سات گھروں سے ہوتا ہوا واپس پہلے گھر میں آجاتا تھا ۔ یعنی ہمسائے کے حقوق کا اتنا خیال رکھا جاتا تھا ۔ اہل ایمان کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی اللہ نے بیان فرمائی :
{وَیُـؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَـوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌط}(الحشر:9 )’’اور وہ تو خود پر ترجیح دیتے ہیں دوسروں کو خواہ ان کے اپنے اوپر تنگی ہو۔‘‘
خواہ خود کتنے ہی ضرورت مند کیوں نہ ہوں لیکن اپنے قرابت دار ، ہمسایہ کی ضرورت کا خیال پہلے رکھتے ہیں ۔ خود پر اپنے اہلِ ایمان بھائیوں کو ترجیح دیتے ہیں ۔ مفسرین نے اس کے ذیل میں چند باتیں لکھی ہیں کہ آس پاس کے چالیس گھر پڑوسیوں میں شمار ہوتے ہیں ، ان میںسے وہ حسن سلوک کا اتنا ہی زیادہ مستحق ہےجو جتنا زیادہ قریب ہے۔ دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ آس پاس کے چالیس گھروں کے باہر بھی جہاں تک تم حسنِ سلوک کا مظاہرہ کر سکتے ہو کرو ۔ ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ہمسایہ میں کوئی مسلمان بھی ہو سکتاہے اور کوئی غیر مسلم بھی ہوسکتا ہے۔ ان میں سے مسلمان کا حق زیادہ ہوگا مگر غیر مسلم کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا ہے۔ اسی طرح مسلمان پڑوسیوں میں سے رشتہ دار کا حق زیادہ ہے ۔ آگے فرمایا :
{وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ لا} (النساء :36) ’’اور ہم نشین ساتھی اور مسافر کے ساتھ‘‘
ہم نشین سے مراد وہ شخص ہے جو مسجد میں ، آفس میں ، سفر میں آپ کے پاس بیٹھا ہو ۔ اللہ کا کلام ان کو بھی پڑوسی قراردیتاہے ۔ یہ لوگ بھی ہمارے حسن ِسلوک کے مستحق ہوتے ہیں ۔ اللہ کے دین میں زندگی کے ہر گوشے کے لیے رہنمائی ہے ۔ اربعین نووی کی احادیث میںایک جگہ ذکر ہے کہ جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے اپنے پڑوسی کا اکرام کرے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام اتنی مرتبہ میرے پاس پڑوسی کے حق کے بارے میں وصیت لےکر آئے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ کہیں پڑوسی کو وراثت میں حصہ دار نہ بنادیا جائے ۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ قسم اٹھا کر فرمایاکہ وہ شخص مومن نہیں۔ صحابہ کرام؇ لرز اُٹھے کہ ایسا بدنصیب شخص کون ہوسکتاہے ۔ فرمایا : جس کی ایذا سے اس کا پڑوسی محفوظ نہیں ہے ۔
اگلی بات یہ ہےکہ اپنے حسن ِسلوک کے دائرہ کو بڑھایا جائے ۔ آج تو پوری دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے ۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:((الخلق عیال اللہ)) ’’ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ ‘‘اس لحاظ سے ساری مخلوق ایک پڑوس بن جاتی ہے ۔
اسی طرح حسن ِسلوک کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم علاقائیت اور صوبائیت کے پھیلائے جانے والے زہر کو مزید پھیلانے کا ذریعہ نہ بنیں بلکہ بحیثیت مسلمان ہمارا رویہ اور طرزعمل سب سے حسن سلوک والا ہونا چاہیے ، چاہے کوئی کشمیری ہو ، پنجابی ہو ، بلوچ ہو ، سندھی ہو ، پٹھان ہو۔ ملک کے حالات مزید دگرگوں ہو رہے ہیں ، ہماری فورسز پر حملے ہورہے ہیں جن کی ہم مذمت کرتے ہیں ۔ دوسری طرف ہم نے بھی لوگوں پر ظلم کرکے نفرت کے بیج بوئے ہیں۔ لہٰذا اب بڑے حلقوں سے بات آ رہی ہے کہ ان کو سینے سے لگانے کی ضرورت ہے ۔ وہاں کے لوگوں نے کہا کہ جو مجرم ہے آپ اس کے خلاف قانونی کارروائی کریں ، ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔ گلوبل لیول پر دیکھا جائے تو ہماری ہمدردیاں سب سے زیادہ فلسطین ، کشمیر اور برما کے مسلمانوں کے ساتھ ہونی چاہئیں ۔ اسی طرح پڑوسی ممالک کے ساتھ بھی ہمارا رویہ مثالی ہونا چاہیے ۔ ہمارے حکومتی عہدیدار وں کی طرف سے انڈیا کے ساتھ تو خیر سگالی کے بڑے جذبات کا اظہار ہوتاہے ، کبھی ان کے نمائندے کو کانفرنس میں شرکت کے لیے بلایا جاتاہے ، کبھی وزیراعلیٰ کی طرف سے بیان آتاہے کہ ہم نے انڈیا کے ساتھ تعلقات بڑھانے ہیں۔ کیا افغانستان ہمارا پڑوسی ملک نہیں ہے ؟ کیا وہ ہمارا دشمن ہے ؟ مشرکوں سے تعلقات بڑھانے کے لیے تو ہم تیار ہیں پڑوسی مسلم ملک سے تعلقات بحال کرنے میں ہمیں کیوں مسئلہ ہے؟حالانکہ انہوں نے امارت اسلامیہ افغانستان ہونے کا اعلان کیا ہے اور اپنے تئیں وہ شریعت نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ کسی بھی کافر ملک کے مقابلے میں ان کا حق ہم پر زیادہ ہے کہ ہم ان کے ساتھ حسن ِسلوک کریں ۔
مسلم معاشرے میں مسافر کے بھی حقوق ہوتے ہیں کہ اس کے ساتھ حسن ِسلوک سے پیش آیا جائے ۔ اس کو راستے اور منزل کے حوالے سے رہنمائی دی جائے ، زاد سفر نہ ہو تو مہیا کیاجائے ۔ لٹ گیا ، کوئی حادثہ پیش آ گیا ، کسی مشکل میں پھنس گیا تو اس کی مدد کی جائے۔ اسلامی معاشرے میں مسافروں کو کھانا کھلایا جاتا تھا ، رات کو رہنے کے لیے ان کو جگہ دی جاتی تھی، مساجد میں مسافروںکے لیے انتظام کیا جاتا تھا۔ ریاست مہمان خانوں کا انتظام کرتی تھی ۔ زکوٰۃ کے 8 مصارف میں سے ایک ضرورت مند مسافر کو دینا بھی ہے ۔ آگے فرمایا :
{وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ط}(النساء :36)’’اور وہ لونڈی غلام جو تمہارے ملک ِیمین ہیں (ان کے ساتھ بھی نیک سلوک کرو)۔‘‘
پہلےکنیز اورغلام ہوا کرتے تھے ، آج بہرحال ملازمین ہوتے ہیں ۔فرق یہ ہے کہ غلام 24 گھنٹے کام کرتے تھے لیکن ملازمین آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں اور معاوضہ پاتے ہیں ۔ لیکن بہرحال ان کے ساتھ بھی حسن ِسلوک کا تقاضا ہے ۔ آگے فرمایا :
{اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا(36)} (النساء :36)’’اللہ بالکل پسند نہیں کرتا اُن لوگوں کو جو شیخی خورے اور اکڑنے والے ہوں۔‘‘
تکبر دل میں ہو تو بندہ اللہ کے سامنے جھکتا بھی نہیں اوردوسروں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا ۔ انسان متکبر ہوگا تو ماں باپ کا حق بھی مارے گا ، قرابت داروں ، پڑوسیوں اور غریب مسکین کا حق بھی مارے گا ۔ یہ تکبر تھا جو شیطان کو لے ڈوبا ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا تووہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔حضور ﷺ نے فرمایا : جو سلام میں پہل کرے وہ تکبر سے بچا لیا گیا ۔ اگر بندہ سوچ رہا ہے کہ میں برتر ہوں ، میںسینئر ہوں ، میں فلاں ہوں اور سامنے والا کم تر ہے ، میں باس ہوں یہ نوکر ہے ، میں شوہر ہوں یہ بیوی ہے لہٰذا پہلے وہ سلام کرے میں کیوں کروں ؟ یہ تکبر کی علامت ہے ۔ اس کسوٹی پر ہم سب اپنا اپنا جائزہ لے سکتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تکبر جیسے گناہ سے محفوظ رکھے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین یا رب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024