(قابلِ غور) سالانہ اجتماع کے مقاصد - ڈاکٹر اسرار احمد

11 /

سالانہ اجتماع کے مقاصداور اُن کے حصول کا طریقہ کار

بانی ٔ تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کے ایک فکر انگیز خطاب سے ماخوذ

تنظیم اسلامی کے نویں سالانہ اجتماع منعقدہ 25 تا29 مئی 1984ء کے موقع پر بانی ٔ تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹراسرار احمد ؒ نے اپنے افتتاحی خطاب میں جہاں دیگر اہم امور پر اظہار خیال فرمایا‘وہاں اجتماع کے مقاصد پر بھی وضاحت سے روشنی ڈالی۔ ذیل میںہم اُن کی گفتگو کے اس حصے کو معمولی سے حک و اضافے کے ساتھ پیش کر رہے ہیں‘اس لیے کہ اجتماع کے جو مقاصد اُس وقت تھے وہی آج بھی ہیں۔ (ادارہ)

 

سالانہ اجتماع کے چار اہم مقاصد ہیں‘ جو ہم میں سے ہر شخص کے سامنے شعوری طور پر رہنے چاہئیں۔
جذبۂ تازہ کا حصول
اس اجتماع کا پہلا مقصد یہ ہے کہ جب ہم یہاں سے جائیں تو جذبۂ تازہ لے کر جائیں۔ ہمارے اندر ایک نئی لگن پیدا ہو جائے۔ جذبے کا تمام تر دارومدار ایمان پر ہے۔ یقین جتنا گہرا ہوگا‘ اللہ کے ہاں محاسبہ کا خوف جتنا زیادہ دامن گیر ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں جس قدر بڑھتی جائے گی‘ اس کی خوشنودی کے لیے تن من دھن لگانے کا جذبہ بھی اُسی قدر بڑھتا چلا جائے گا۔ دل میں ایمانِ حقیقی جاگزیں ہو چکا ہو تو انسان بڑی سے بڑی قربانی کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔ یہ بات آپ کو معلوم ہوگی کہ دلوں پر بھی زنگ آجایا کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں ایمانی کیفیات دھندلانے لگتی ہیں۔ چنانچہ نبی اکرمﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
’’(بنی آدم کے) قلوب بھی اسی طرح زنگ آلود ہو جاتے ہیں جیسے لوہا پانی پڑنے سے۔ دریافت کیا گیا‘ یا رسول اللہﷺ اس زنگ کا علاج کیا ہے؟ فرمایا موت کی بکثرت یاد اور قرآن مجید کی تلاوت‘‘۔(بیہقی)
صحابہ کرام ث نے بہت ہی عملی سوال کیا۔ ان حضرات کا بالعموم انداز ہی یہ ہوتا تھا کہ وہ زیادہ علمی نوعیت کے مسئلوں میں نہیں پڑا کرتے تھے۔ان کا یہ تجربہ تھا کہ تلواروں پر زنگ آجائے تو صیقل کر لیا جاتا ہے۔ دل کے زنگ کو کس چیز سے دور کیا جائے؟ دلوں کی ویران دنیا پھر سے کیسے آباد ہو جائے کہ جذبۂ ایمانی جھلملا اٹھے۔ آپؐ نے جواباً دو چیزوں کا ذکر فرمایا۔ ایک موت کی بکثرت یاد‘ تاکہ یہ احساس رہے کہ یہاں رہنا نہیں ہے‘ بلکہ ایک دن یہاں سے جانا ہے۔ گویایہ دنیا ہماری منزل نہیں ہے بلکہ راہ گزر ہے۔ اس ضمن میں حضورﷺ کے یہ الفاظ بھی نہایت جامع ہیں : (( کُنْ فِی الدُّنْیا کَاَنَّکَ غریبٌ اَو عابرُ سَبیلٍ)) یعنی ’’دنیا میں ایسے رہو جیسے اجنبی یا راہ چلتا مسافر‘‘۔ دوسری چیز جس کا آپ ؐنے باہتمام ذکر فرمایا‘ وہ ہے تلاوتِ قرآن۔ گویا اس زنگ کو اتارنے کے لیے یہ دو بہت ہی مؤثر ذریعے ہیں۔
اس اجتماع کا پہلا مقصد یہ ہوا کہ ان دنوں میں ہم نے اس زنگ کو اتارنا ہے کہ جس کی وجہ سے ہمارا جذبہ سرد پڑ رہا ہے۔ گویا کہ بیٹری کو از سر نو چارج کرنا ہے۔ آپ لوگ اگر پورے صبر اور ہمت کے ساتھ مصیبت کو جھیلتے ہوئے خوش دلی کے ساتھ اجتماع کے پروگراموں میں شریک رہے تو ان شاء اللہ کسی نہ کسی درجے میں یہ مقصد ضرور حاصل ہوگا اور آپ اپنے جذباتِ ایمانی میں حرارت اور تازگی محسوس کریںگے۔ (ان شاء اللہ)
مقصداور طریق کار کا شعور
اس اجتماع کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سامنے اپنے مقصد اور طریق کار کا شعور نکھر کر آئے اور مزید اجاگر ہو! اس لیے کہ جس طرح دلوں پر زنگ آجایا کرتا ہے‘ ایسے ہی ذہن بھی زنگ آلود ہو جایا کرتے ہیں۔ بعض دفعہ انسان محسوس کرتا ہے کہ ذہن پر بھی کچھ غبار سا آگیا ہے‘ جس کے نتیجے میں فکر کے خدوخال دھندلانے لگتے ہیں۔ اس زنگ کو اتارنے کے لیے اپنے مقصد اور طریق کار کا شعور ہونا ضروری ہے۔ انسان سوچتا ہے کہ ہماری اس دنیوی جدوجہد کاہدف کیا ہے؟ ہم کس طرف جارہے ہیں؟ یہ صورت ہر گز نہیں ہونی چاہئے کہ
ع ’’آہ وہ تیر نیم کش‘ جس کا نہ ہو کوئی ہدف۔‘‘
اگر کیفیت یہ ہو تو گویا بہت ہی مایوس کن علامت ہے۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ کچھ لوگ کام تو کر رہے ہیں‘ لیکن انہیں یہ شعور نہیں کہ ہمارا ہدف کیا ہے۔ اور وہ یہ نہیں جانتے کہ ہمارے اس سفر کی منزل کون سی ہے۔ اس مقصد کے شعور کے علاوہ اس مقصد اور منزل تک پہنچنے کا راستہ کون سا ہے‘ اس کا شعور بھی ذہنوں کے اندر برقرار رہنا چاہئے۔ لیکن انسان اس دنیا میں رہتے ہوئے بھانت بھانت کی بولیاں سنتا ہے‘ طرح طرح کے فلسفوں سے اس کو سابقہ پیش آتا ہے‘ مختلف نوعیت کی دعوتیں مختلف جوانب سے اس کے کانوں تک پہنچتی ہیں‘ لہٰذا کچھ شکوک و شبہات کاپیدا ہو جانا فطری ہے۔ ہمیں اس اجتماع کے موقع پر اپنے مقاصد کے شعور کے ساتھ ساتھ طریق کار کو پورے مراحل و مدارج کے ساتھ از سرِ نو اجاگر کرنا ہے۔
رفقاء کا باہمی تعارف
اس اجتماع کا تیسرا مقصد اس قافلے کے ساتھ چلنے والے ساتھیوں کا باہمی ربط و ضبط بڑھانا اور محبت قلبی میں اضافہ کرنا ہے۔ کسی بھی اجتماعیت میں رفقاء کا باہمی تعارف بہت ہی اہم ہوتا ہے۔اس اجتماع کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کا ایک موقع فراہم کر دیا ہے۔اس وقت ملک کے کونے کونے سے رفقاء تشریف لائے ہوئے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی سنہری موقع ہے کہ ہم اپنے ساتھیوں سے زیادہ سے زیادہ ربط و ضبط بڑھائیں‘ اور ایک دوسرے کا تعارف حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس دور میں دینی اخوت کو نبھانے کے لیے وقت نکالنا بہت ہی مشکل ہے۔ بقول شاعر ؎
بھلا گردشِ فلک کی چین دیتی ہے کسے انشاء
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
نظم کی اہمیت کا ادراک
ہمارے اس اجتماع کا چوتھا مقصدیہ ہے کہ ہمیں نظم و ضبط کی اہمیت کا ادراک ہو۔ چونکہ ہم ایک منظم جماعت کے تحت انقلابی جدوجہد کر رہے ہیں ‘ لہٰذا اس کام میں نظم کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ نظم کی اہمیت کے ضمن میں جو آیات و احادیث بیان ہوتی ہیں‘ وہ ہمارے ہر رفیق کے سامنے آئینے کی طرح ہونی چاہئیں۔ نظم و ضبط یا ڈسپلن کی اہمیت کے ادراک کا ایک علمی پہلو ہے‘ اس کی بھی اپنی جگہ بہت زیادہ اہمیت ہے‘ لیکن اس علمی سطح پر ادراک کے ساتھ ساتھ ہمیں نظم و ضبط کوعمل (Practice) میں بھی لانا چاہئے۔ اور وہ عملی پہلو یہ ہے کہ ہم نظم کے خوگر بن جائیں۔ ہمارا نظم مثالی ہونا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ دیکھنے والے یہ محسوس کریں کہ یہ کوئی منظم جماعت نہیں‘ ہجوم ہے۔ بقول علامہ اقبال ؎
عیدِ آزاداں شکوہِ ملک و دیںعیدِ محکوماں ہجومِ مومنیںاس اجتماع کے موقع پر بھی نظم و ضبط کا بھرپور مظاہرہ ہونا چاہئے۔ اجتماع کے منتظمین سے اگر کوئی کوتاہی ہو جائے تو ان پر نکیر کرنے کے بجائے خیرخواہی کے جذبے کے ساتھ ان کی توجہ اس جانب مبذول کرانی چاہیے۔ ہمیں اپنے رفقاء کے بارے میں کسی بھی درجے میں سوء ظن میں مبتلا نہیںہونا چاہیے۔ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ انہوں نے جان بوجھ کر آپ کے لیے کوئی تکلیف دہ صورت حال پیدا کر دی ہے۔ اس طرح کے کسی خیال کو ذہن میں نہ آنے دیجئے۔ خود آپ لوگوں کی طرف سے کوئی بدنظمی صادر نہ ہو۔ یہ بھی آپ کی تربیت کا ایک اہم حصہ ہے۔
حصول مقاصد کا ذریعہ
پہلے دو مقاصد کے لیے ہمارا Source قرآن ہے‘ جو ہمارا ہادی ہی نہیں بلکہ سرچشمۂ ایمان بھی ہے۔ قرآن ہی ہمیں ان مقاصد کا شعور عطا کرنے والا ہے۔ یہی ہے جو ہمیںان مقاصد کے حصول کا طریق کار بتانے والا ہے۔ نظمِ جماعت کس طور کاہو‘ اس کی طرف ہماری رہنمائی کرنے والا بھی یہی قرآن ہے۔ آپ لوگوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ جب میں لفظ قرآن کہتا ہوں تو اس وقت میرے ذہن میں قرآنِ متلو کے ساتھ‘ جس کی ہم تلاوت کرتے ہیں اور جو مصحف کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے‘ قرآنِ مجسم حضرت محمدﷺ بھی ہوتے ہیں۔اس لیے کہ قرآن اور ذاتِ رسولؐ بریکٹ ہیں۔ میرے نزدیک یہ دونوں ایک دوسرے سے جد انہیں ہیں۔ اس قرآن کی توضیح و تشریح آپﷺ نے اپنے قول سے بھی کی ہے اور اس کے دیئے ہوئے مقاصد کے حصول کے لیے ایک عملی جدوجہد بھی بالفعل کر کے دکھائی ہے۔ اس عملی جدوجہد کے تمام مراحل و مدارج سیرتِ مطہرہ میں ہمیں ملتے ہیں۔ گویا یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیںکیا جا سکتا۔ اس حوالے سے آپ کی توجہ سورۃ البینہ کی ابتدائی آیات کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ فرمایا:
’’جو لوگ کافر ہیں (یعنی) اہل کتاب اور مشرک وہ (کفر سے) باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ اُن کے پاس کھلی دلیل (نہ) آتی۔ (یعنی) اللہ کے پیغمبر جو پاک اَوْراق پڑھتے ہیں۔ جن میں مستحکم (آیتیں) لکھی ہوئی ہیں۔‘‘
یعنی وہ بینہ اللہ کی جانب سے ایک رسول ہیں‘ جو ان پاکیزہ صحیفوں کی تلاوت کرتے ہیں۔ گویا یہ رسول اور کتاب مل کر ایک بینہ یعنی ایسی روشن دلیل جو حجت ِ قاطع بن جائے‘ کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک تو مقصد کے شعور اور ایمان کی جلا کا واحد ذریعہ یہی ہے۔ ہمیں طریق کار اور اس کے مراحل کا شعور بھی وہیں سے حاصل کرنا ہے۔
اس اجتماع کا جو تیسرا مقصد ہے‘ اس کے حصول کے لیے آپ کو خصوصی طور پر وقت نکالناہوگا۔ اپنے نفس کے ناگزیر حقوق کی ادائیگی یعنی کھانے ‘ پینے اور بقدر ضرورت سونے کے بعد جو وقت بھی فارغ ملے اور ان بھاری بھر کم پروگراموں سے جو وقت بچ جائے اسے غنیمت سمجھتے ہوئے اس مقصد کے حصول کے لیے صرف کریں۔ یہ اس وقت کابہترین مصرف ہوگا۔ ایک مختصر سا تعارف تو آپ کو رفقاء کے سینوں پر آویزاں بیجوں سے حاصل ہو جائے گا لیکن اس کے علاوہ اپنے رفقاء کے حالات معلوم کرنا اور ان سے ذاتی تعلق بڑھانا بھی ضروری ہے۔ گویا فارغ اوقات میں آپ اپنے ہم مقصد ساتھیوں کا تفصیلی تعارف حاصل کریں تا کہ باہم محبت میں اضافہ ہو۔
اللہ کی خاطرباہم محبت رکھنے والوں کے لیے بشارتیں
کسی بھی اجتماعیت کے لیے آپس کا میل جول اور باہمی محبت بہت ہی ضروری ہوتی ہے۔ ہماری اس چھوٹی سی اجتماعیت میں اخوتِ باہمی کی فضا پیدا ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے ان احادیث مبارکہ کو ذہن میں رکھیئے کہ جن میں آپؐ نے ان مومنین کے لیے جو دین کی خاطر ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہوں‘ بشارتیں سنائی ہیں۔ چنانچہ حضرت معاذ بن جبل h سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں:
((فانی سمعت رسول اللہﷺ یقول‘ قال اللہ تبارک و تعالی ‘ وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ، وَالْمُتَجَالِسِیْنَ فِیَّ، وَالْمُتَزَاوِرِیْنَ فِیَّ وَالْمُتَبَاذِلِیْنَ فِیَّ)(موطا)
’’میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میری محبت ان لوگوں کے حق میںواجب ہو گئی جو صرف میرے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور جو میری خاطر مل جل کر بیٹھتے ہیں اور جو میرے لیے ایک دوسرے کو ملنے آتے ہیں اور جو میری محبت میں ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں‘‘۔
اس حدیث مبارکہ میں جو لفظ ’’فِیَّ‘‘ آیا ہے‘ اس کا کوئی مجرد تصور اپنے ذہن میں رکھیئے۔ یہاں اللہ کے لیے محبت کے کیا معنی ہیں؟ اس کے معنی ہیں اللہ کے دین کے لیے اور اس کے کلمے کی سربلندی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کا جذبہ۔ گویا غلبۂ دین کے لیے جو منظم جدوجہد ہو رہی ہے‘ ایک قافلہ ہے اور اس کے ساتھ کچھ لوگ شریک ہیں۔ اب اس قافلے میں چلنے والے کچھ پرانے ساتھی ہیں اور کچھ نئے بھی ہیں ‘ ان میں سمجھ دار بھی ہیں اور ناسمجھ بھی ہیں۔ اس قافلے کے وہ ہم سفر کہ جو بہت عرصہ پہلے سے شامل ہیں‘ ان پر بہت سے حقائق واضح ہیں جبکہ جو اس قافلے میں نئے ہم سفر ہیں‘ انہیں ابھی بہت سی چیزوں کا شعور نہیں ہے۔ پھر ان میں وہ بھی ہیں کہ جنہیں دوسری تنظیموں اور جماعتوں میں کام کرنے کا کوئی تجربہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ اس قافلے میں شامل افراد کو جوڑنے والی چیزایک مقصد کی لگن اور احساسِ فرض ہے‘ اسی کے تحت یہ قافلہ قدم بقدم آگے بڑھ رہا ہے۔
اِن لوگوں کو پہلے تو محسوس ہوگا کہ جیسے ان پرراستے کے نشانات پوری طرح واضح نہیں تھے‘ تاہم فرض کی ادائیگی کے تحت سفرکاآغاز کریں گے تو جیسے جیسے اس راستے پر آگے بڑھیں گے‘ وہ یہ محسوس کریں گے کہ جیسے کوئی انگلی پکڑکر چلارہا ہے۔ کوئی ہمارے سامنے منزل کو روز بروز اجاگر کرتا چلا جارہا ہے۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث مبارکہ میں بھی جو حضرت ابوہریرہ ص سے روایت ہے‘ اللہ کے لیے باہمی محبت کرنے والوں کوخوشخبری سنائی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ h فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((یَقُوْلُ اللہُ تَعَالٰی یَومَ الْقِیَامَۃِ: اَیْنَ الْمُتحَابُّوْنَ بِجَلَالِیْ؟ اَلْیَوْمَ اُظِلُّہُمْ فِیْ ظِلِّی یَوْمَ لَاِظِلَّ اِلاَّ ظِلَّی))(متفق علیہ)
’’قیامت کے روز اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کہاں ہیں وہ لوگ جو میری جلالت ِ شان کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ آج کے دن میں انہیں اپنے سائے میں پناہ دوں گا۔ آج کے دن میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔‘‘
بعض دوسری روایات میں ’’عرش‘‘ کا لفظ آیاہے کہ میں ان کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ دوں گا۔ لیکن یہاں تو اس درمیانی واسطے کو بھی علیحدہ کر کے’’ ظِلِّی‘‘یعنی اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دوں گا‘ کا اسلوب اختیار کیاگیا ہے۔
احادیث میں وارد شدہ ان بشارتوں کو سامنے رکھ کر اپنے فارغ اوقات کوباہمی تعارف اور میل جول میں صرف کیجئے۔ اور اس کام میں جو وقت بھی صرف ہو اسے نہایت قیمتی سمجھئے کہ یہ ہر گز رائیگاں جانے والا نہیں ہے۔
مجھے قوی امید ہے کہ اگر آپ ان چار مقاصد کو سامنے رکھ کر پوری دلچسپی ‘انہماک اور نظم و ضبط کے ساتھ اجتماع کے پروگراموںمیں شریک ہوں گے تو نہ صرف یہ کہ طریق کار اور منہج عمل کے بارے میں اگر کوئی ابہام آپ اپنے ذہنوں میں لے کر آئے تھے تو وہ از خود رفع ہو جائے گا بلکہ آپ ایک ولولۂ تازہ کے ساتھ اس اجتماع سے رخصت ہوں گے۔
اَللّٰہُمَّ وَفِّقْنَا لِہٰذَا