ٹرمپ، امریکہ کا نیا صدر
ایوب بیگ مرزا
ہم پاکستانیوں کا مزاج بھی خوب ہے اپنی کوئی کَل سیدھی نہیں، دنیا کی فکر پڑی رہتی ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے امریکہ کے صدارتی انتخابات پر سیاسی لفاظی کی گولہ باری ہو رہی تھی۔ ایک طبقہ یہ فرمان جاری کر رہا تھا جونہی ٹرمپ جیتا، حکومت پاکستان کو فون پر عمران خان کی رہائی کے احکامات جاری کرے گا۔ اور تو اور حیرت ہے مشاہد حسین سید جیسے پڑھے لکھے اور عالمی حالات سے باخبر بھی یہ بات کہہ رہے تھے۔ حضرت! دنیا میں ایسا نہیں ہوتا بھائی، ہرگز ایسا نہیں ہوتا کہ پاکستان کی طرح حکومت یا طاقتور طبقات آئین، قانون، ضابطے اور اصولوں کو پاؤں تلے روند کر جو چاہیں کرتے جائیں۔ ٹرمپ صدر بن چکے ہیں۔ نہ کوئی فون آئے گا نہ کوئی فوری طور پر رہا ہوگا۔ یہ بات الگ ہے کہ ٹرمپ صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد جو اپنی خارجہ پالیسی وضع کریں گے، اُس کے منطقی نتیجہ میں عمران خان اور تحریکِ انصاف کو پاکستان میں فائدہ پہنچ جائے۔
راقم کے نزدیک ٹرمپ کی خارجہ پالیسی یا باہر کی دنیا سے تعلق کی پالیسی کو سمجھنے کے لیے پہلے اُن کی حریف یعنی ڈیموکریٹک پارٹی کی پالیسی سمجھنا ہوگی۔ خاص طور پر کلنٹن سے لے کر بائیڈن تک ڈیموکریٹس نے جو پالیسی اختیار کی ہوئی تھی۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی اُن کے بالکل برعکس ہوگی۔ یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ٹرمپ روایتی سیاست دان نہیں ہیں، صرف اسرائیل کو استثنیٰ حاصل ہوگا۔ یعنی اسرائیل سے تعلقات اور اُس کی مدد کے حوالے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا شاید ٹرمپ اپنے پیش رو سے بھی آگے بڑھ کر اسرائیل کی مدد کرے۔ سینئر جارج بش کے دور میں افغانستان میں شکست کے بعد سوویت یونین پاش پاش ہو کر بکھر گیا، تمام ریاستیں الگ ہوگئیں۔ روس اکیلا رہ گیا اور روس کی بھی حالت یہ تھی کہ معاشی حالات بُری طرح لڑکھڑا رہے تھے اور مشرقی یورپ کے ساتھ مل کر اُس نے وارسا پیکٹ کے نام سے جو دفاعی اتحاد بنایا ہوا تھا نہ صرف وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا بلکہ روس سوویت یونین کے دشمن دفاعی اتحاد نیٹو میں شامل ہونے کی خواہش کرتا سنا گیا۔ ایسی صورتِ حال میں سینئر بش نے نیو ورلڈ آرڈر کا نعرہ مارا۔ درحقیقت یہ امریکہ کی عالمگیر حکومت اور مکمل کنٹرول کا نعرہ تھا کہ اب دنیا میں وہ ہوگا جو امریکہ چاہے گا امریکہ کی مرضی کے بغیر دنیا میں کچھ نہیں ہو سکے گا۔ لہٰذا اب جب وہ شہنشاہ عالم ہے تو دنیا کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں مداخلت کرنے کا اُسے حق حاصل ہے۔ دوسرے ممالک کی حکومتیں بنانے اور گرانے کا کام امریکہ پہلے بھی کرتا تھا لیکن عالمی بادشاہت حاصل کرنے کے بعد وہ اپنا مکمل حق سمجھتا تھا کہ وہ طے کرے کہ دنیا کے کس ملک میں کون حکمران بنے اور کس ملک میں کون حکمران نہ بنے۔ بالفاظ دیگر امریکہ کی ساری توجہ دنیا بھر میں اپنے پنجے گاڑھنے پر مرکوز ہوگئی۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس پالیسی کی وجہ سے امریکہ کی دنیا بھر میں ہیبت قائم ہوگئی اور اُس کی قوت سے بڑی بڑی ریاستوں پر لرزا طاری ہو جاتا تھا۔ مغربی یورپ تو پہلے بھی امریکہ کے ساتھ تھا نئی صورتِ حال میں ایک طرف مغربی یورپ کی حکم برداری میں اضافہ ہوا لیکن مشرقی یورپ تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر امریکہ کی گود میں آگرا۔ گویا امریکہ کی فرعونیت کو عروج حاصل ہوگیا۔ لیکن جیسے کہا جاتا ہے کہ جب کسی قوم کا عروج انتہا کو پہنچتا ہے تو وہیں سے زوال کی کرنیں بھی پھوٹنے لگتی ہیں گویا اُس عروج میں زوال بھی پنہاں ہوتا ہے۔ امریکہ کے حکمرانوں کے دماغوں میں جو خناس آیا تو اُس نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ افغانستان جیسے پسماندہ ترین ملک کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے اُس کی دنیوی عظمت اور بڑے پن کو تو زبردست جھٹکا لگا لیکن بیس سال کی انتہائی مہنگی جنگ بھی اُس کی اتنی بڑی اکانومی کو کوئی تباہ کن نقصان نہ پہنچا سکی۔ لیکن بیس سال کی اِس جنگی مصروفیت کا اصل اور حقیقی نقصان جو امریکہ کو ہوا وہ یہ تھا کہ اُس کے دو دشمن موقعہ اور حالات سے فائدہ اٹھا کر توانا ہوگئے ایک روس کو پیوٹن جیسا لیڈر مل گیا تھا جس نے اِس عرصہ میں روس کو پاؤں پر کھڑا کر لیا تھا اور دوسرا چین جو پہلے معاشی لحاظ سے جِن بن گیا اور اب دفاعی اور جنگی لحاظ سے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔
امریکہ نے افغانستان سے فارغ ہو کر سر اٹھایا تو ایک طرف چین ایشیا اور افریقہ میں اقتصادی لحاظ سے فتح پر فتح حاصل کر رہا تھا اور دوسری طرف روس کی عسکری قوت تیزی سے بحال ہو رہی تھی۔ امریکہ نے فوری طور پر ایک quad جیسے اتحاد بنا کر عسکری محاذ پر جوابی حملہ کیا۔ یوکرائن کو جو روس کی بغل میں واقعہ ہے اُسے نیٹو کارکن بنانے کی سازش شروع کر دی تاکہ وقت پڑنے پر یوکرائن کو روس کے خلاف استعمال کیا جائے۔ لیکن روس نے صورتِ حال کو بھانپ کر ایسی نوبت آنے سے پہلے ہی یوکرائن پر حملہ کر دیا۔ اب امریکہ روس کے خلاف یوکرائن کی پشت پناہی میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کر رہا۔ علاوہ ازیں بھارت کو ہلا شیری دے کر چین کے سی پیک اور BRI جیسے منصوبوں پر زور دار انداز سے حملہ آورہے۔ گویا امریکہ افغانستان سے ذلت آمیز شکست کھانے کے باوجود اپنی عالمی بادشاہت قائم رکھنے کے لیے پاگل ہوا جارہا ہے۔
راقم کی رائے میں ٹرمپ کی خارجہ پالیسی موجودہ امریکی حکومت کی پالیسی سے برعکس ہوگی۔ ٹرمپ کا نعرہ ہے ’’امریکہ فرسٹ‘‘۔ راقم ٹرمپ کے رویے اور اُس کی خارجہ پالیسی کو سمجھتے ہوئے اِس نعرے میں تھوڑی سی تبدیلی کرے گا۔وہ یوں ہے ’’امریکہ اور صرف امریکہ، دنیا جائے بھاڑ میں‘‘۔ وہ ایک تاجر ہے اور اُس کی نظر میں امریکہ کو اقتصادی لحاظ سے مضبوط سے مضبوط تر بلکہ مضبوط ترین ہونا ہوگا۔ اُس کی پالیسی یہ ہے کہ دنیا اپنے مسئلے خود حل کرے اور صدر امریکہ امریکی عوام کی ٹیکس آمدن سے امریکہ کو بہتر کرے۔ امریکیوں کے معیارِ زندگی کو بلند ترین سطح پر لے جایا جائے پھر یہ کہ تارکین وطن خاص طور پر ناجائز طور پر امریکہ میں داخل ہونے والوں کو اٹھا کر باہر پھینک دو۔ درآمدات پر ایسی ٹیکس پالیسی اپنائی جائے جس سے امریکہ کی حالت سدھرے، سیاسی یا عسکری بنیاد پر کسی دوسرے ملک کو مالی رعایت نہ دی جائے۔ جنگوں نے امریکہ میں تباہی پھیلائی ہے اور بے روزگاری بڑھی ہے جنگوں کا سلسلہ مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ بائیڈن کی ڈیموکریٹک حکومت نے کتنی محنت اور کتنی بڑی رقم خرچ کرکے روس کو یوکرائن کی جنگ میں پھنسایا تھا۔ ٹرمپ کہتا ہے میں چارج سنبھالنے سے پہلے ہی اِس جنگ کو ختم کر دوں گا۔ اقتصادی برتری کی دوڑ میں چین کو پچھاڑا جائے گا۔ چین سے درآمدات کو کنٹرول کیا جائے گا۔ البتہ اسرائیل کو استثناء حاصل ہوگا۔ وہ اِس لیے بھی کہ اسرائیل کی غنڈہ گردی کو لگام دینا ٹرمپ کے بس کی بات نہیں ہے۔ دِقتِ نظر سے غور فرمائیں تو یہ بھی امریکہ فرسٹ کے نعرے کے مطابق ہے وہ یوں کہ اگر اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو یہ امریکی سلامتی پر بھی سوالیہ نشان لگا دے گا۔ اِس لیے کہ یہودی سرمایہ دار امریکہ سے اپنا سرمایہ نکلوا لے گا اور امریکی میڈیا جس پر یہودیوں نے اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں، وہ امریکہ کا حشر نشر کر دے گا۔ لہٰذا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا سنبھلنا ہی مشکل ہو جائے گا۔ راقم کی رائے میں ٹرمپ کتنا ہی غیر روایتی صدر کیوں نہ ثابت ہو ،اسرائیل کے خلاف کوئی بڑا قدم نہیں اٹھا سکے گا۔ پھر یہ کہ مشرقی وسطیٰ میں اسرائیل کی حیثیت ایسے غنڈے کی ہے جسے امریکی پشت پناہی حاصل ہے۔ اگر اسرائیل کی سلامتی کو نقصان پہنچتا ہے تو اِس خطے میں امریکہ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ کیونکہ مشرقِ وسطیٰ کے مسلم ممالک امریکہ کی ہیبت اور اسرائیل کی غنڈہ گردی سے دبے ہوئے ہیں اور اُس کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ اِس تعلق کی وجہ خوف ہے، کوئی محبت یا فکری ہم آہنگی نہیں ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سابقہ امریکی صدور کی نسبت اسرائیل سے بعض باتیں منوانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ بہرحال اِس حوالے سے فی الحال کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ ایک تو اِس لیے کہ اسرائیل کے منہ کو خون لگ گیا ہے اور دوسرا یہ کہ اگر اسرائیل رک جاتا ہے اور فرض کریں دو ریاستی حل کو ہی تسلیم کر لیتا ہے تو اُس کا گریٹر اسرائیل کے پلان کا کیا بنے گا جو اُس کا اصل اور بنیادی ہدف ہے۔
جہاں تک ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد پاک امریکہ تعلقات کا تعلق ہے، راقم کی رائے میں وہ عمران خان کے لیے کوئی بڑی جَست نہیں لگائے گا، لیکن اُس کی ’’امریکہ اور صرف امریکہ‘‘ والی پالیسی موجودہ حکومت کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوگی۔ اب تک تو بائیڈن حکومت پاکستان کی فارم 47 کی اِس حکومت کے ناز نخرے اٹھا رہی تھی۔ اور اُسے غیر روایتی انداز میں سپورٹ کر رہی تھی۔ اسی زعم میں پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایک محفل میں ایسی گفتگو کی جس سے چین شدید ناراض ہوگیا اور گزشتہ 60، 70 سال میں پہلی مرتبہ پاکستان اور چین کے درمیان سرکاری سطح پر الفاظ کی جنگ ہوئی اور صدر پاکستان کا چین کا دورہ بھی شاید اصلاً اسی وجہ سے منسوخ ہوا۔ واللہ اعلم! قصہ مختصر ٹرمپ پاکستان کی موجودہ حکومت کو کوئی خصوصی رعایت ہرگز نہیں دے گا۔ لہٰذا اِس حکومت کا چلنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہو جائے گا۔ اِس پس منظر میں پاکستان میں کوئی تبدیلی اچنبھے کی بات نہیں ہوگی۔ بہرحال اصل صورتِ حال 2025ء کی پہلی ششمائی میں کچھ واضح ہو سکے گی۔ راقم کی دعا ہے کہ پاکستان میں حکومت کسی کی بھی ہو، اُسے کسی بڑی طاقت کا کسی سطح پر بھی محتاج نہیں ہونا چاہیے بلکہ آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔ تب ہی پاکستان کو دنیا میں عزت اور وقار حاصل ہوگا۔ پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی طرف یہ پہلا قدم ہوگا۔ آج تک بڑی طاقتوں کی ڈکٹیشن لے کر ہی ہم اسلام کے حوالے سے پسپائی اختیار کرتے رہے ہیں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024