ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا!
دعوت الی اللہ اور اظہار دین الحقِّ علی الدِّین کُلِّہ
کے لیے ایک نئی اسلامی جماعت
تنظیم اسلامیکے تاسیسی اجلاس منعقدہ 27‘28 مارچ1975ء کی روداد
ماہنامہ میثاق، نومبر2023ء کے شمارے میں شائع ایک مضمون سے لیے گئے اقتباسات
٭ جس دعوتِ اسلامی اور جہاد ِفی سبیل اللہ کا علم سید احمد شہید بریلویؒ اور شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ نے انیسویں صدی کے وسط میںبلند کیا تھا اور جس کی خاطر شہیدین نے بالاکوٹ کے ویرانے کو اپنے اور اپنے رفقائے قدسی کے مقدّس خون سے لالہ زارکیا تھا‘
٭ جس اعلائے کلمۃ اللہ کی دعوت پر مجتمع ہونے کی پکار 1912ء میں ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کے ذریعہ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے بلند کی تھی‘
٭ جس دعوت کی صدا ایک ربع صدی سے بھی زیادہ عرصہ تک ڈاکٹر علامہ محمد اقبال مرحوم نے اپنی اسلامی شاعری کے ذریعہ اُمّت ِ مرحومہ کو سنائی تھی اور اُمتِمسلمِ خوابیدہ کو غفلت سے بیدار کرنے کے لیے حُدی خوانی کی تھی اور بانگ درا دی تھی۔
٭ جس شہادتِ حق علی الناس اور اقامت ِدین کی دعوت پر صاحب ِ’’ترجمان القرآن‘‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے1941ء میں اللہ کے چند مخلص بندوں پر مشتمل ایک قافلہ ترتیب دیا تھا جس نے راہِ حق میں عزیمت کے ساتھ پیش قدمی بھی شروع کی تھی اور جس نے تمام وقتی و ہنگامی اور قومی و سیاسی مسائل سے صرفِ نظر کر کے وطن پرستی اور قوم پرستی کے پُرفتن دَور میں ٹھیٹھ اسلامی نہج پر دعوت کا آغاز کیا تھا اور جس نے اپنی تاسیس کے ابتدائی آٹھ دس سالوں میں اپنے عمل سے عزیمت و استقامت اور حق واصول پسندی کی درخشاں نظائر قائم کی تھیں لیکن جو خود چند مغالطوں اور غلط توقعات سے متاثر ہو کر رفتہ رفتہ اپنے موقف سے منحرف ہوتے ہوئے ایک اصولی و انقلابی جماعت کے مقام سے ہٹ کر ایک سیاسی و قومی پارٹی کے مقام تک پہنچ گئی تھی‘ جس پر فروری1957ء کے ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں ارکانِ جماعت کی عظیم ترین اکثریت نے مہر توثیق ثبت کر دی تھی‘ اسی دعوتِ اسلامی‘ دعوت شہادت علی الناس‘ دعوت جہاد فی سبیل اللہ اور دعوتِ اظہارِ دین حق کی تجدید کے لیے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بحمداللہ ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام سے ایک اُصولی و انقلابی اسلامی جماعت کی13‘ 14 ربیع الاوّل1395ھ بمطابق27‘28 مارچ1975ء کو لاہور میں تاسیس و تشکیل ہو گئی۔
بِسْمِ اللہِ مَجْرٖىہَا وَمُرْسٰہَاط اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
1968ء کے اوائل میںاللہ کے ایک بندئہ عاجز ڈاکٹر اسرار احمد نے حلقۂ مطالعہ قرآن اور ایک منتخب قرآنی نصاب کے ذریعے‘ جس کی بنیاد سورۃ العصر ہے‘ دعوت رجوع الی القرآن شروع کی تھی۔ اس دعوت کا ماحصل یہ ہے کہ ہر فردِ بشر کی اُخروی نجات و کامرانی اور دُنیوی فوزوفلاح کا دار و مدار ازروئے قرآن حکیم چار ناگزیر شرائط کو پورا کرنے پر ہے:
(1) اللہ پر‘ رسالت پر‘ یومِ آخرت پر اور ان ایمانیاتِ ثلاثہ کے تمام مقتضیات و متضمنات پر ایمان لائے‘ جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے۔
(2) اس ایمان کے تقاضوں کے مطابق انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام اعمال اور معاملات کی اصلاح کرے‘ تاآنکہ زندگی کا ہر شعبہ نبی اکرمﷺ کی لائی ہوئی ہدایت و شریعت کے تابع ہو جائے۔
(3) دعوتِ حق کا جھنڈا اٹھا کر اظہار و اقامت ِدین اور شہادت علی الناس‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا اجتماعی طورپر فرض انجام دینے کی خود بھی ہر امکانی سعی کرے اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید اور وصیت کرے۔
(4) راہِ حق میں پیش آنے والے مصائب و شدائد اور ابتلاء و آزمائش کو صبر و ثبات اور استقامت و مصابرت سے خود بھی برداشت کرے اور اپنے دینی و اسلامی اخوان کو بھی اسی کی تاکید اور وصیت کرے۔
یہ دعوت رجوع الی القرآن تطہیر افکار و اذہان اور تعمیر سیرت و کردار کا کام انجام دیتے ہوئے تقریباً ساڑھے چار سال کے بعد1972ء کے وسط میں انفرادی سعی و کوشش کے دائرہ سے نکل کر ایک اجتماعی ادارہ ’’مرکزی انجمن خدام القرآن‘‘ کے تحت منظم ہوئی اور اس کی تاسیس و تشکیل عمل میں آئی۔ انجمن کی تشکیل و تاسیس کی قرارداد میں بھی اس نظریہ کو یوں ملحوظ رکھا گیا ہے:
’’اسلام کی نشا ٔۃِثانیہ اور غلبہ ٔدین ِحق کے دَور ثانی کا خواب اُمّت ِ مسلمہ میں تجدید ایمان کی عمومی تحریک کے بغیر شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا اور اس کے لیے لازم ہے کہ اوّلاً منبع ایمان و یقین یعنی قرآن حکیم کے علم وحکمت کی وسیع پیمانے پر نشرواشاعت کی جائے۔‘‘
گویا انجمن کی تشکیل سمع و طاعت کے ٹھیٹھ اسلامی اصول پر مبنی ایک اسلامی جماعت کے قیام کی تمہید تھی۔ ہر کام کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک خاص وقت معیّن ہوتا ہے‘ کُلُّ امر مرھون باوقاتھا۔ چنانچہ قضائے الٰہی سے وہ مرحلہ بھی آ پہنچا جس میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے دعوت الی اللہ اور دعوتِ اظہارو اقامت ِدین حق کے لیے اسلامی اُصولوں پر ایک جماعت کی تشکیل کے لیے 21جولائی1974ء کی شام کو اکیس روزہ قرآنی تربیت گاہ کے اختتامی اجلاس میں بایں الفاظ اپنے عزم کا اعلان کردیا:
’’اب بہت غوروفکر اور سوچ بچار کے بعد محض اللہ تعالیٰ کی تائید و توقیق پر توکّل اور بھروسے پر میں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ آئندہ میری زندگی میں یہ کام صرف درس و تدریس تک محدود نہیں رہے گا‘ بلکہ ان شاء اللہ العزیز احیائے اسلام اور غلبہ ٔدین حق ہی عملاً میری زندگی کا اصل مقصود ہوں گے۔ میری بہتر اور بیشتر مساعی بالفعل دعوتِ دین اور خلق خدا پر دین ِحق کی جانب سے اِتمامِ حجّت میں صرف ہوں گی۔ گویا ’’ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ0 ‘‘ اور اسی کی دعوت میں اپنے تمام عزیزوں‘ دوستوں اور جاننے والوں حتیٰ کہ بزرگوں تک کو دوں گا۔ پھر جو لوگ اس راستے پر ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو جائیں‘ انہیں ایک نظم میں منسلک کر کے ایک ہیئت ِاجتماعیہ تشکیل دوں گا جو اِن مقاصد ِ عالیہ کے لیے منظم جدّوجُہد کر سکے۔وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ۔
اس اعلان اور اظہارِ عزم کے بعد ابتدائی چند مہینے زیر تجویز اسلامی جماعت کے خدوخال اور اس کے اصولی نظریات و تصوّرات کی تبیین و تشریح میں صرف ہوئے۔اس دوران لاہور اور کراچی میں قریبی رفقاء سے مجوزہ ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے اساسی دستور اور اس کی ہیئت ترکیبی کے بارے میں تبادلہ خیال اور مشورے بھی ہوتے رہے۔ چنانچہ یہ طے کیا گیا کہ مارچ1975ء کے آخری ہفتہ میں لاہور میں مرکزی انجمن خدّام القرآن کے زیر اہتمام دوسری قرآن کانفرنس کے اختتام سے متصلاً بعد ’’تنظیم اسلامی‘‘ کی تاسیس کے لیے بھی اجتماع منعقد کر لیا جائے گا۔
قرآن کانفرنس کے آخری اجلاس میں ڈاکٹر صاحب نے اعلان کیا کہ نبی اکرم ﷺ کے اُسوئہ حسنہ کی پیروی اور ((فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ)) کے فرمانِ نبویؐ ‘ نیز {کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ}(آلِ عمران:110)کے ارشادِ ربانی کی تعمیل میں خالص اسلامی اُصولوں پر ’’تنظیم اسلامی‘‘ کی تاسیس و تشکیل کے لیےمرکزی انجمن کے دفتر میں27 اور28 مارچ کو اجتماعات منعقد ہوں گے۔ جن لوگوں کے دل میں اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے تعاون اور عمل کا داعیہ پیدا کیا ہو‘ جو ہماری بنیادی تحریروں کا مطالعہ کر چکے ہوں‘ اور اُن سے بڑی حد تک مطمئن و متفق ہوں تو ایسے حضرات کل عصر کی نماز کے فوراً بعد مرکزی انجمن کے دفتر میں تشریف لے آئیں تاکہ دعوت الی اللہ ‘ اعلائے کلمۃ اللہ‘ دعوت جہاد فی سبیل اللہ اور تواصی بالحق و تواصی بالصبر کے دینی فرائض کی انجام دہی کے لیے عزمِ نو کے ساتھ ایک قافلہ ترتیب دے کر راہِ حق میں گامزن ہونے کا فیصلہ ہو سکے۔
28 مارچ1975ء کو پہلے تاسیس اجتماع میں 103 حضرات شریک ہوئے جن میں لاہور‘ کراچی‘ سکھر‘ بہاول پور‘ ساہیوال‘ لائل پور‘ شیخوپورہ‘ گوجرانوالہ‘ واہ کے اصحاب شامل تھے۔
نمازمغرب کے بعد ڈاکٹر صاحب سمیت کل61 حضرات نے تاسیسی اجلاس کی آخری نشست میں شرکت کی۔ ایک صاحب نمازِ مغرب سے قبل عہد رفاقت قبول کر کے سکھر روانگی کے لیے تشریف لے جا چکے تھے۔ گویا ’’تنظیم اسلامی‘‘ کا قافلہ اس موقع پر62 رفقاء کی شمولیت سے ترتیب پایا‘ اَللّٰھُمَّ زِدْ فَزِدْ! تمام شرکاء کے چہروں پر پُروقار سنجیدگی اور عزمِ مصمم کی کیفیت طاری تھی۔ ان میں تاجر بھی تھے‘ ملازمت پیشہ بھی ‘ پروفیسرز بھی ‘ طلبہ بھی‘ ڈاکٹرز بھی‘ انجینئرز بھی اور عام پڑھے لکھے افراد بھی۔ غرضیکہ ہر شعبہ زندگی کے لوگ شامل تھے۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے چہرےپر فرض کی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ متانت اور مسرت کے ملے جلے جذبات ہویدا تھے۔ آواز میں خفیف سا ارتعاش تھا۔ ظاہری کیفیت سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کے دل میں جذبات کا سمندر کروٹیں لے رہا ہے ‘ لیکن ان کے اسلوبِ بیان میں ٹھہرائوتھا ۔ وہ انتہائی دھیمے مگر پُرتاثیر لہجے میں رفقاء سے یوں مخاطب ہوئے:
’’اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ھَدٰنَا لِہٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْلَا اَنْ ھَدٰنَا اللہُ
رفیقو !سارا شکر‘ ساری تعریف‘ سارا سپاس اس اللہ ہی کو سزا وار ہے کہ جس نے راہِ حق کی طرف ہماری راہنمائی فرمائی اور ہم ہرگز راہ یاب نہ ہوتے اگر وہی اپنے کرم سے ہماری دست گیری نہ فرماتا۔ مجھے ہرگز توقع نہ تھی کہ مجھ جیسی شخصیت کی خشک دعوت ‘اور جھڑکنے اور جھٹکنے والے انداز کے باوجود اللہ کے اتنے مخلص بندے ’’تنظیم اسلامی‘‘ کی رفاقت کے لیے جمع ہو جائیں گے۔ اس دعوت اِلی اللہ سے واقف ہونے سے قبل ہم میں سے اکثر کی دوسروں سے شناسائی نہیں تھی۔ ہم ایک دوسرے سے واقف بھی نہیں تھے۔ ہماری دوستیاں اور قرابت داریاں بھی نہیں تھیں۔ ہم جمع ہوئے ہیں تو دعوت الی اللہ پر‘ کوئی دُنیوی غرض ہمارے پیش نظر نہیں۔ کسی قسم کی سیاست بازی ہمیں مطلوب نہیں۔ دینی‘ سیاسی‘ اور سماجی جماعتوں کی طرح ہماری اس تنظیم میں نہ عہدے ہیں نہ ووٹ ہیں۔ نہ مجلسِ شوریٰ کی رکنیت کے مواقع ہیں نہ مجلس انتظامیہ کے۔ نہ شہرت کے حصول کا کوئی موقع ہے نہ وجاہت کا۔ ہم خالصتاً للہ اور فی اللہ جمع ہوئے ہیں۔ اللہ ہی کے لیے ہمارا جڑنا ہے اور جس سے بھی ہم آئندہ جڑیں گے‘ اللہ ہی کے لیے جڑیں گے۔ جس سے ہم اس وقت کٹ رہے ہیں‘ اللہ ہی کے لیے کٹ رہے ہیں اور آئندہ جس سے کٹیں گے‘ اللہ ہی کے لیے کٹیں گے۔ جو کچھ ہم نےتنظیم کو مالی اعانت ادا کرنے کا ارادہ کیا ہے ‘ وہ اللہ کے لیے کیا ہے اور جو کچھ کسی کو دیں گے‘ اللہ ہی کے لیے دیں گے۔ ہمارا مقصد صرف رضائے الٰہی ہے‘ اس کے سوا کچھ نہیں! میں خدا کو حاضر وناظر جان کر اور اُسے گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اس دعوت اور تنظیم قائم کرنے میں فرض کی ادائیگی کی ذمہ داری اور رضائے الٰہی کے حصول کے سوا اور کوئی غرض میرے پیش نظر نہیں ہے۔ چنانچہ پورے احساسِ ذمہ داری اور احساسِ مسئولیت کے ساتھ آپ سب کو گواہ بنا کر سب سے پہلے میں ’’تنظیم اسلامی‘‘کا عہد ِرفاقت اُٹھاتا ہوں۔‘‘
اس وقت پورے اجتماع پر ایک گھمبیر خاموشی طاری تھی۔تمام رفقاء کے چہرے تمتما رہے تھے اور آنکھوں میں آنسو مچل رہے تھے جن کو وہ ضبط کیے بیٹھے رہے۔ تعارف کی تکمیل کے بعد داعی ٔعمومی نے ’’عہد نامہ رفاقت ِتنظیم اسلامی‘‘ کی ایک ایک شق کو پڑھنا شروع کیا اور تمام رفقاء اس کو دہراتے رہے۔ اس موقع پر اکثر رفقاء کی داڑھیاں آنسوئوں سے تر تھیں‘ اکثر کی ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں اور یہ اللہ کے بندے رضائے الٰہی کے لیے دعوتِ تجدید ِایمان‘ توبہ اور تجدید ِعہد کے قافلہ کے رفیق بن رہے تھے۔ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم۔
اس کے بعد نہایت الحاح و زاری اور خشوع و خضوع کےساتھ بارگاہِ ربّ العزت میں اجتماعی دعا کی گئی ۔ عشاء کی نماز باجماعت ادا ہوئی اور اس طرح ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے تاسیسی اجلاس کی کارروائی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اختتام پذیر ہوئی۔
وآخرُ دَعْوانا اَنِ الْحَمدُ لِلّٰہ رَبِّ العَالَـمِین!
(مرتّب:شیخ جمیل الرحمٰن)